پاکستان میں عید کے روز بھی
خودکش حملے نہ رکے۔عید کے روز خودکش حملہ ہوا جس میں خیبر پی کے کے وزیر
قانون اسرار اللہ گنڈا پور سمیت دس افراد جاںبحق اور بیس سے زائد زخمی ہو
ئے۔ خودکش حملہ آوردو محافظوں کو مار کر ان کے حجرے میں داخل ہوا اور مغرب
سے تھوڑی دیر پہلے خودکش بمبار نے خود کو اس وقت اڑایا جب وہ سردار اسرار
اللہ خان سے بغل گیر ہونے کے لیے آگے بڑھا۔ دھماکہ سے حجرے میں کھڑی گاڑیوں
اور عمارت کے شیشے ٹوٹ گئے جس کے بعد گنڈاپور کاٹیج میں کہرام مچ گیا اور
ہر طرف زخمیوں کی چیخ و پکار سنائی دینے لگی جبکہ صوبائی وزیر قانون موقع
پر ہی جاںبحق ہو گئے۔ ان کے بڑے بھائی چیف آف گنڈاپور سردار اکرام اللہ خان
گنڈاپور جو کہ موقع پر موجود تھے محفوظ رہے۔ عینی شاہدین کے مطابق خودکش
حملہ آور کی عمر 18 سال سے 20 سال تھی۔ بم ڈسپوزل سکواڈ کے مطابق دھماکے
میں 8 کلو وزنی بارود استعمال کیا گیا۔ اطلاعات ہیں کہ صوبائی وزیر قانون
سردار اسرار اللہ خان گنڈا پور کی رہائش گاہ پر ہونے والے خودکش حملے کی
ذمہ داری انصار المجاہدین ابو بصیر گروپ نامی تنظیم نے قبول کرتے ہوئے موقف
اختیار کیا ہے کہ انہوںنے ڈی آئی خان جیل میں اپنے بعض ساتھیوں کی ہلاکت کا
بدلہ لیا ہے۔خودکش دھماکہ میں جاںبحق ہونے والے اسرار اللہ گنڈاپور نے آزاد
امیدوار کی حیثیت سے جیت کر تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی۔ صوبائی
وزیر کی ہلاکت پر وزیراعظم نوازشریف، سید منور حسن، الطاف حسین سمیت سیاسی
و مذہبی قائدین نے گہرے دکھ کا اظہار کیا۔سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل
الرحمن صوبائی وزیر قانون مرحوم اسرار اللہ گنڈا پور کے گھر گئے اور اہل
خانہ سے اظہار تعزیت کیا۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ میں ایک اچھے دوست
اور ساتھی کی رفاقت سے محروم ہوگیا ہوں۔ تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے
اس واقعہ میں مرنے والوں کو شہید قرار دیا اور وفاقی حکومت پر زور دیا وہ
کل جماعتی کانفرنس میں ہونے والے فیصلے پر عملدرآمد کرے۔کیونکہ خیبر پی کے
صوبے کے لوگ اور حکومت دہشت گردی کا نشانہ ہیں۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ وہ اب بھی طالبان سے مذاکرات
کے حامی ہیں، لہٰذا فوری مذاکرات شروع ہونے چاہیے۔ مذاکرات کے بغیر امن کا
قیام ممکن نہیں ہے۔تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان نے کہا ہے کہ امن کے
لیے مذاکرات ہی سب سے بہترین حل ہے۔ ہمیں بزدلی کا طعنہ دینے والے چاہتے
ہیں کہ طالبان سے ہمیشہ جنگ ہوتی رہے۔ خودکش حملے میں جاں بحق صوبائی وزیر
قانون اسرار اللہ گنڈا پور کے لواحقین سے اظہار تعزیت کے موقع پرعمران خان
نے کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت کو شدید ترین دہشت گردی کا سامنا ہے، دوسروں
کی جنگ میں شامل ہونے کا نقصان ہمیں برداشت کرنا پڑرہا ہے، وفاقی حکومت امن
و امان کے قیام میں مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہے، جس کی وجہ سے خیبر
پختونخوا میں صوبائی حکومت کو اپنے طور پر حفاظتی انتظامات کرنے پڑ رہے
ہیں۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے طالبان سے مذاکرات کا مینڈیٹ وفاق کو
دیا تھا لیکن افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ حکومتی اے پی سی کے مقاصد پورے
نہیں ہوئے کیونکہ حکومت تاحال مذاکرات شروع نہیں کر سکی۔ وہ نوازشریف سے
کہتے ہیں کہ آگے آئیں اور مذاکرات کے راستے کو اختیار کریں اور اگر طالبان
کا دفتر قائم ہوجائے تو مذاکرات آسان ہوجائیں گے۔عمران خان کا کہنا تھا
خیبر پختونخوا اور فاٹا میں گزشتہ کئی برسوں سے آپریشن ہورہا ہے لیکن اس سے
مسئلہ حل نہیں ہوا جس کی وجہ سے اب مذاکرات سے حل نکالا جارہا ہے کیونکہ
امن کے لیے مذاکرات ہی سب سے بہترین حل ہے۔ امن پسندی کی خواہش کے باعث
ہمیں بزدلی کا طعنہ دیا جارہا ہے ، ہمیں بزدل کہنے والے چاہتے ہیں کہ علاقے
میں دوبارہ جنگ ہو۔ انہوں نے کہا کہ پشاور میں ایک ہفتے کے دوران تین
دھماکے ہوئے لیکن طالبان نے تردید کردی، یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ اگرطالبان
نے حملہ نہیں کیا تو کس نے کیا۔خودکش حملے سے اگلے روز بھی خیبر پی کے
کابینہ نے اپنے ہنگامی اجلاس میں طالبان سے مذاکراتی عمل سست روی کا شکار
ہونے پر شدید تحفظات کا اظہار کیاتھا اور بیرونی ایماءپر صوبہ میں دہشت
گردی کرنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کیا تھا۔ خیبر پی
کے کابینہ نے وفاق سے ڈرون حملے بند کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے
وفاقی حکومت طالبان سے باقاعدہ مذاکرات کا آغاز کرے، طالبان سے مذاکراتی
عمل پر ہمیں اعتماد میں لے اور مذاکراتی عمل سے لمحہ بہ لمحہ باخبر رکھا
جائے۔ مذاکراتی عمل تیز کیا جائے تاہم مذاکراتی عمل سبوثاڑ کرنے والوں سے
نمٹنے ۔ عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماﺅں نے بھی عید کے روز ہونے والے
خودکش حملے کے بعد اپنے ایک بیان میں کہا، لگتا نہیں کہ طالبان سے مذاکرات
ہورہے ہیں۔ ایسا ہوتا تو دھماکے نہ ہوتے اور جنگ بندی ہوچکی ہوتی۔کوئی
مذاکرات ہو بھی رہے ہیں تووہ ذمہ دار لوگوں سے نہیں ہو رہے۔ فوری طالبان سے
مذاکرات ہونے چاہیے۔کئی اور بھی سیاسی رہنماﺅں نے طالبان سے فوری مذاکرات
شروع کرنے پر زور دیا ہے۔دوسری جانب تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان
شاہد اللہ شاہد نے کہا ہے کہ پچھلے نو سال سے آپریشن جاری ہے اس لیے ہم ان
دھمکیوں سے نہیں ڈرتے کیونکہ اب طالبان کے تمام گروپ پہلے سے زیادہ مضبوط
اور منظم ہیں۔ طالبان حکومت کے ساتھ مذکرات کے لیے تیار ہیں لیکن حکومت کو
سیز فائر میں پہل کرنی ہوگی۔ حکومت مذاکرت کے لیے ہرگز سنجیدہ نہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں عمران خان کی جماعت
تحریک انصاف کی حکومت کوبنے ہوئے صرف چند ماہ ہوئے ہیں لیکن اس عرصے میں ان
کے تین منتخب نمائندے ا ±س جنگ کی نذرہو چکے ہیں۔تحریک انصاف کے متعدد
رہنمااس بات پر برہم ہیں کہ آخر وفاقی حکومت کل جماعتی کانفرنس میں ملک کی
سیاسی جماعتوں اورعسکری قیادت سے پورا اختیارلینے کے بعد بھی مذاکرات کے
عمل کوتیز کیوں نہیں کرتی؟۔ان میں سے بعض اس مخمصے کا شکار ہونے کے علاوہ
پریشان بھی ہیں کہ انہیں کون نشانہ بنا رہا ہے اور کیوں نشانہ بنا رہا ہے۔
انتخابات سے کچھ عرصہ قبل جن لوگوں نے دہشت گردی کے حملوں سے جان بچانے کی
خاطر اے این پی اور پیپلزپارٹی کو چھوڑا تھا اور کچھ مذہبی جماعتوں
اورتحریکِ انصاف میں شمولیت اختیارکی تھی، انھیں بھی سمجھ آ چکی ہے کہ
معاملہ اتنا آسان بھی نہیں جتنا انہوں نے سمجھ رکھا تھا۔ وہ کچھ سماجی
فلاحی پروگراموں کے ذریعے تعلیم اورصحت جیسے اداروں میں لوگوں کوریلیف دے
کرثابت کرنا چاہتی تھی کہ وہ تبدیلی لاچکی ہے۔ تحریک انصاف کا خیال تھا کہ
وہ صرف ڈرون حملوں اور نیٹو سپلائی کی مخالفت کرکے اپنی جان بچالیں گے۔اور
انہوں نے قوم سے یہ وعدے کیے تھے کہ وہ حکومت سنبھال کر ڈرون حملے رکوا دیں
گے اور نیٹو سپلائی کو بھی روک دیں گے۔ یہ وعدے ابھی تک وفا نہیں ہو سکے،
اور یہ سپلائی آج بھی وزیرِ اعلیٰ کے نوشہرہ میں آبائی حلقے اور پشاورسے ہو
کرگزرتی ہے۔تحریک انصاف یقیناً موجودہ صورت حال میں پڑنے والی اس نئی افتاد
کے لیے تیارنہیں تھی۔اس جنگ کی حمایت کرنے کے بعد اے این پی کو اکیلے جس
بری طرح نشانہ بنایا گیا تحریکِ انصاف اس کے انجام سے بھی خائف ہے اور وہ
کھل کر کسی کانام بھی اسی وجہ سے نہیں لے رہی۔اس کی مخالف جماعتوں کی نظر
میںتحریک انصاف تو ان حالات کے لیے تیارہی نہیں تھی اوربہت جلد ہی خود
حکومت چھوڑنے پرمجبورہوجائے گی۔تحریکِ انصاف کوابھی بہت کچھ سیکھنا باقی
ہے۔ وہ نہ ہی تو اب تک دہشت گردی سے نمٹنے کا کوئی بڑا منصوبہ متعارف کرا
سکی ہے اور نہ ہی یہ پیغام دے سکی ہے کہ وہ اتنے ماہ گزرنے کے بعد سمجھ
پائی ہے کہ دستیاب وسائل کوٹھیک طرح سے استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ عام
ووٹرکی اس حمایت کو بھی اپنے ان مقاصد کے لیے کام میں لاسکے جواس کے لیے
بڑے بڑے بتوں سے بھڑگئے تھے۔تحریک عجیب انصاف مخمصے کا شکار ہے۔
|