بنیادی طور پر ملائم سنگھ کی
شبیہ ایک سیکولر لیڈر کی رہی ہے ،گذشتہ اسمبلی انتخابات میں ان کی پارٹی کو
جو زبردست کامیابی ملی ، اس میں بھی ان کے سیکولر نعرے کی بڑی اہمیت تھی ،
مگر ان کی پارٹی نے برسراقتدار ہونے کے بعد جو کردار ادا کیا ہے ، اس سے ان
کی سیکولر شبیہ بری طرح متاثر ہوئی اور ایسا احساس ہونے لگا کہ کہیں نہ
کہیں ملائم بھی فرقہ پرست عناصر کو شہہ دینے میں پیش پیش رہتے ہیں ، نظم
ونسق کی بدحالی نے سماجو ادی پارٹی کو ایک کمزور اور تساہل پسند بلکہ غیر
مناسب حکومت قراردے دیا ہے ۔
اگر فرقہ وارانہ فسادات کا جائزہ لیں تو یوپی میں تقریباً گذشتہ دوبرسوں
میں تقریباً30فسادات ہوئے ہیں ،مگر ہندوستان ٹائمس کی ایک رپورٹ کے مطابق
2013کے پہلے9ماہ میں بڑے چھوٹے 93 فسادات اور کشیدگی کے واقعات رونما ہوئے
،جن میں 108لوگوں کی ہلاکت ہوئی ، 46 تومظفر نگر فساد میں ہی لقمہ اجل بنے
اور0 5ہزار بے گھر ہوئے ، پورے ملک میں مجموعی طور پر ان 9ماہ میں
480فسادات ہوئے ، مہلوکین کی تعدا د794 ہے جب کہ زخمیوں کی تعداد 1699ہے۔
یوپی میں بڑھتے فرقہ وارانہ فسادات پرقابونہ پاکر دیگر پارٹیوں کے درمیان
جوتیوں میں دال بانٹنا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے ، مگر ہر فساد کے بعد
ریاستی حکومت فی الفور یہ بیان دیتی ہے کہ بی جے پی اور سنگھ پریوار ذہنیت
کے افراد نے یہ کروایا ہے ، یہ بات تسلیم صد فیصد تسلیم کہ سنگھی ذہنیت کے
افراد یہ دنگے کرواتے ہیں ، مگر سوال یہ ہوتا ہے کہ آخر ریاست میں نظم ونسق
کس قدر ابتر ہے کہ فرقہ پرست عناصر جب چاہتے ہیں اپنے منصوبہ کو عملی جامہ
پہنادیتے ہیں ۔
سماجوا دی پارٹی کی فرقہ وارانہ ذہنیت راجا بھیا کی معطلی اور اس کی واپسی
میں بھی نظر آتی ہے ، ڈی ایس پی ضیا ء الحق قتل معاملے میں مسلمانوں کو خوش
کرنے کی خاطر سماجو ادی نے 4مارچ کوراجا بھیا کو معطل کردیا، مگر مکمل طور
کلین چٹ ملنے سے پہلے دوبارہ ان کو کابینہ میں شامل کرلیا گیا ، جو کہ
مسلمانوں کے زخموں پر نمک پا شی کے برابر ہے ،قانونی لحاظ سے بھی راجا بھیا
کی واپسی کوحق بہ جانب نہیں قراردیا جاسکتا ہے ، گرچہ سی بی آئی نے ا نہیں
تفتیش میں بری قراردیا ، مگر مقتول ڈی ایس پی کی اہلیہ پروین آزاد کی جانب
سے سی بی آئی عدالت میں ایک عرض داشت داخل ہے ، اس عرضی پر کلین چٹ ملنے سے
پہلے اس کی واپسی غلط ہے ، ایسے میں ظاہر ہے کہ اکھلیش حکومت نے آئندہ
پارلیمانی انتخابات کے مدنظر راجا بھیا کو اپنی کابینہ میں شامل کیا ہے ،
انہیں کابینہ میں شامل کرکے حکومت نے یہ ثابت کردیا کہ سماجوادی پارٹی کو
صرف ووٹوں سے مطلب ہے ، انصاف سے نہیں ، اگر انصاف پسندی ان کا مقصد ہوتا
تو مکمل طورپرکلن چٹ ملنے سے پہلے راجا بھیا کی شمولیت نہیں ہوتی ،
سماجوادی پارٹی نے گر چہ ٹھا کر ووٹوں کو یکجا کرنے کے لئے راجا بھیا کو
واپس بلالیا ہے ، مگر سماجوادی کو یاد رکھنا چاہئے کہ انصاف پسند ووٹر س
آئندہ لوک سبھا انتخابات میں ان کی اس حکمت عملی کو مسترد کردیں گے ، سب سے
زیادہ افسوس تو اپنے رہبران ملت کے بیان پر ہوتا کہ وہ راجا بھیا کی واپسی
کو سماجوادی پارٹی کا مستحسن قدم قراردے رہے ہیں ، انگلیوں پر گنے جانے
والے مسلمانوں کے لیڈر میں مولانا ارشد مدنی کا جو مقام ہے ، وہ کسی سے
پوشیدہ نہیں ، مگرجانے کیوں وہ بھی راجا بھیا کی واپسی کے بعد ریاستی حکومت
کی تعریف میں جٹ گئے ۔
آج مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے سماجوادی پارٹی کو پہلے یہ یاد
رکھنا چاہے کہ مسلمان بھی ہندوستان کے باشندے ہیں ، اس کے بعد یہ بھی لحاظ
کرنا چاہئے کہ مسلمانوں کی زبردست حمایت کے بعد ہی انہیں اقتدار نصیب ہوا ،
مگر اب کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے ، مسلمانوں کے
عقیدے سے جڑے مسائل کو اچھال کر مسلمانوں کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے ، راجا
بھیا کی واپسی کے بعد اجودھیا میں رام مندر کی تعمیر سے متعلق حکام کو جو
مکتوب ارسال کیا گیا ، وہ کیا مسلمانوں کی دلآزاری نہیں ہے ؟ کیا یہ
سماجوادی پارٹی کی فرقہ وارانہ ذہنیت کو اجاگر نہیں کرتا ہے ؟حقیقت یہ ہے
کہ سومناتھ مندر کی طر ز پراجودھیا میں مندر کی تعمیر کے تعلق سے یو پی
حکوت کے خط سے جو انکشاف ہوا ہے ، اس میں بھی فرقہ وارانہ ذہنیت پوشیدہ نظر
آرہی ہے ، یو پی حکومت نے مکتوب میں ٹائپنگ کی غلطی کا معاملہ سامنے لاکر
صفائی پیش کر دی ، مگر حقیقت یہ ہے کہ منصوبہ بند طریقہ سے مندر کی تعمیر
پر میٹنگ ہونے والی تھی ،سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ محکمہ داخلہ کا چارج خود
وزیر اعلی کے پاس ہے تو کیسے ان کی شمولیت کے بغیر ایسا خط تیار ہوسکتا ہے
، پھر افسرا ن کو بھی ارسال کردیا گیا ، درگا شکتی معاملہ میں جس طرح
ریاستی حکومت نے اپنا کردار ادا کیا بالکل اسی طرح محکمہ داخلہ سکریٹری
سرویش اور چندر اور سیکشن افسرپریم کمار پانڈے کی معطلی محض دکھاوا ہے ۔گذشتہ
دیگر واقعات کے مدنظر ایسا لگتا ہے کہ فرقہ پرست ذہنیت والے افسران کو فوراً
معطل کرکے ملائم مسلمانوں کو خوش کر دیتے ہیں، پھر چکمہ دے کر انہیں بحال
کرلیتے ہیں ، جیسا کہ ڈی ایس پی ضیاء الحق کے معاملہ میں راجا بھیا کے ساتھ
ہوااور درگا شکتی ناگپا ل معاملے میں بھی ۔ حالیہ دنوں ہوئے مظفر نگر فرقہ
وارانہ فسادات کے تعلق سے اترپردیش حکومت نے جو رپورٹ پیش کی ، اس میں
سماجوادی پارٹی کی فرقہ وارانہ ذہنیت واضح طو ر پر سامنے آگئی ، کیوں کہ اس
حکومت نے رپورٹ میں فساد مثاثرین کو ہندومسلم خانوں میں تقسیم کردیا ہے ،
اس رپورٹ میں مضحکہ خیز طور پرسماجوادی پارٹی نے تباہ کن حالات کی رپورٹ
میں مذہبی تقسیم کرکے یہ ثابت کردیا کہ یہ پارٹی سیکولر نہیں ،بلکہ فرقہ
پرست ہے ، اس رپورٹ میں تقسیم کرکے سماجوادی پارٹی نے خود اپنی شبہہ مسخ
کرلی ۔ سپریم کورٹ کو سونپی گئی رپورٹ کے مطابق 27اگست سے 16دسمبر تک مظفر
نگر فسادات میں 16غیر مسلم اور 46مسلم مارے گئے،1068لوگوں کے خلاف 128مقدما
ت رد ج کئے گئے ہیں ، جس میں سے 615غیر مسلم اور 261مسلم ہیں ،اولا ً ہندو
مسلمانوں کی تفریق ہی غلط ہے ، دوم دیگر رپورٹس اورمشاہدین کے مطابق ایسا
نہیں لگتا ہے کہ ان اعداد وشمار میں کوئی سچائی ہو ، حقیقت یہ ہے کہ
لاتعداد مسلمانو ں کو ہلاک کردیا گیا ، حکومت اپنی ناکامی چھپانے کے لئے کم
تعداد میں ہلاکت دکھا رہی ہے ، آزادی کے بعد سے کسی بھی ضلع میں اتنی
بھیانک تباہی نہیں ہوئی جتنی کہ موجودہ مظفر نگر فسادات میں ہوئی ، اس کے
باوجود بھی حکومت فساد مثاترین کی بھلائی کے کاموں کے علاوہ ہندو مسلم کی
تقسیم کرکے ان کے زخموں کو کرید کر نمک چھڑک رہی ہے ،سوال یہ ہوتا ہے کہ
اتنی تباہی کے بعد ریاستی حکومت نے امن کی بحالی کے لئے کیاکچھ کیا ہے ،
اگر حکومت نظم ونسق کو بحال کرتی تو ایسی خطرناک صورتحال یو پی کی نہیں
ہوتی ۔
مسلمانوں کے ساتھ سماجوادی پارٹی کی یہ وعدہ خلافی ہی کیا کم ہے کہ انتخابی
منشور میں کئے وعدوں کو عملی جامہ نہیں پہنا یا گیاہے ،ایس پی نے مسلمانوں
کے تعلق سے دو انتہائی اہم وعدے کئے تھے ، 18فیصد ریزرویشن اور بے قصور
مسلم نوجوانوں کی رہائی ،ریزرویشن کے تعلق سے توکوئی پیش رفت نہیں ہوئی ،
البتہ رہائی کے معاملہ میں ریاستی حکومت نے قدم ضرور اٹھا یا تھا ، مگر وہ
بھی ناقص ہے ، رہائی کے تعلق سے عدالت میں حکومت نے جو عرضی داخل کی تھی،
اسے عدالت نے یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ مرکزی حکومت سے ریاستی حکومت کو
رابطہ کرناچاہئے ، اس معاملہ پر دوسوال ہوتے ہیں، ایک یہ کہ جب ریاستی
حکومت کو یہ قانون پتہ نہیں تھا کہ رہائی کے معاملے میں مرکزی حکومت سے بھی
رابطہ ضروری ہے تو کیسے سماجوادی پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں یہ وعدہ
کردیا ،اگر حکومت کو معلوم ہونے باوجود بھی ایسا وعدہ کیاگیاتو یہ سراسر
مسلمانوں کے ساتھ کھلواڑ ہے ۔
ان تمام حالیہ واقعات کے بعد ایسا نہیں لگتا ہے کہ ملائم سنگھ یادو اور ان
کی پارٹی خود اپنی سیکولر شبیہ مسخ کرنے لگی ہے ، فرقہ واریت کو ہوادینے
لگی ہے ، کوئی بعید نہیں کہ سماجوادی پارٹی کی مسخ ہوتی شبیہ سے عام
انتخابات میں اسے نقصان اٹھانا پڑے ، سماجوادی پارٹی کی مسخ ہوتی شبیہ سے
ہندوستان کا سیاسی منظرنامہ بھی بدلتا جارہاہے ۔ |