یہ کتنی زیادتی والی بات
ہے ۔ کہ جو دشمن کے آنکھوں کا تارا ۔اس کے لیے واہ واہ اور جو دشمن کی
نظرمیں دہشت گرد اس کے بارے میں خاموشی کیا ہم مسلمان منافق نہیں ہیں ۔
ملالہ نے کونسی ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی ہویٔ تھی ۔کہ وہ بین الا قوامی لیڈر بن
گیٔ ہے ۔ اور اس کے لیے مغر ب کے پجاری لکھاری ،سیاست دان صحافی اور دوسرے
خوشامدیوں کے منہ کھل گیے ہیں ۔ کیا عافیہ صدیقی کے لیے بھی ان خوشامدیوں
نے اتنا لکھا تھا ۔ جتنامغر ب کی بیٹی کے لیے لکھتا جارہا ہے ۔ جو ملالہ
اور اس کے عزایٔم کےخلاف لکھتا یا بولتاہے ۔ اس کو تنگ نظر اور علم وفراست
سے عاری کہاجاتا ہے ۔ اور جو اس کے حق میں لکھتا ہے اس کو محب وطن اور علم
دوست کہاجاتا ہے ۔ میں بطور مسلمان ملالہ پر نہ توفخر کر سکتا ہوں ۔
اور نہ اس کے اس مشن جس کے لیے وہ برطانیہ امریکہ یا دوسرے ممالک کے گود
میں بیٹھ کراس پاکستان دشمن مشن کا ساتھ دے رہی ہے ۔ حق میں ہو سکتا ہوں
میں بطور ایک پاکستانی ملالہ اور اس کے کردار سے نفرت کرتاہوں ۔ اور ان
لکھاریوں جس کو اس بات کا صحیح طریقے سے علم نہیں اپیل کرتا ہوں ۔ کہ خدا
کے واسطے لا علمی اور بے خبری سے آپ ملالہ کو جو داد دے رہے ہو۔ اس کے بارے
میں پہلے صحیح طریقے سے تحقیقات کر کے لکھا کریں ۔ ملالہ اور اس کے والد
ضیاء الدین ایڈوکیٹ کے کرداربی بی سی کے ایک انگریز صحافی کے مرہون منت ہے
۔ جس پر ضیاء الدین ایڈوکیٹ نے اپنے علاقے میں اپنے گھر میں رہنے اور اپنے
علاقے میں طالبان کی سرگرمیوں اور حضرت محمد ﷺ کی زندگی پر فلم بنانے کے
لیے مسلمانوں کی عملی زندگی کی رپورٹنگ کی تھی ۔
اور اگر یہ بات کویٔ جھوٹ ثابت کرے ۔ یا ضیاء الدین ایڈوکیٹ اﷲ کو حاضر
وناظرجان کر اس کی تردید کرے تو جو سزا جھوٹ کا وہ میرا ۔جو لوگ ملالہ کو
بدنام زمانہ نوبل انعام ملنے کے لیے دعایٔیں مانگ رہے تھے ۔ تو وہ عقل کے
پیادے اس بارے میں سوچیں کہ مغرب یہ نوبل انعام کن افراد کو دیتا ہے ۔اور
اگر سمجھ نہ آیے ۔ تو پرسوں کے جنگ اخبار میں برادرم بلال غوری کے کالم کا
مطا لعہ کریں ۔ اس کو سب حقیقت معلوم ہو جایٔے گا ملالہ کے ہاتھ ابھی
مسلمانوں کے خون سے رنگے نہیں ہیں ۔ اور اس لیے تو شام کے صدر بشار الاسد
بھی شکوہ کر رہے ہیں ۔ کہ جو قتل عام میں نے کیا ہے اس کے صلے میں یہ انعام
مجھے ملنا چاہیے تھا ۔ |