نوازشریف دورہ امریکا سے پرامید نہیں ہیں

 میاں محمد نوازشریف وزیر اعظم بننے کے بعد پہلی بار امریکا کے چار روزہ دورے پر گئے ہیں۔جہاں بدھ کے روز اوباما کے ساتھ ملاقات کریں گے۔میاں صاحب نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اوباما کے سامنے ڈرون حملوں کو روکنے کے حوالے سے کھل کر بات کریں گے، اوباما کے سامنے یہ واضح کریں گا کہ ڈرون حملے پاکستان کی سالمیت کے خلاف ہیں۔ لیکن نیویارک ٹائمز نے وزیراعظم نواز شریف کے دورہ امریکا پر ایک آرٹیکل میں لکھا ہے کہ دورہ امریکا پر نوازشریف کو کوئی بڑی توقعات نہیں ہیں۔ ملاقات کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کا نیا دور شروع ہونے والا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان مسائل بہت گہرے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان ایک اہم مسئلہ ڈرون کا ہے۔ پاکستان چاہے گا کہ ڈرون حملے روک دیے جائیں مگر اس کی توقع نہیں کیونکہ پاکستان میں بنیادی ڈھانچہ وہی ہے، صرف شخصیات تبدیل ہوئی ہیں۔ ماضی میں یہ مذاکرات کبھی کامیاب نہیں ہوئے، اس لیے اس دفعہ بھی امید نہیں رکھنی چاہیے۔میاں نوازشریف کے دورہ پر بھی امریکا کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ امریکا کے تعلقات اچھے ہونے چاہیے لیکن ضروری نہیں کہ ڈرون حملوں کے بارے میں بھی بات ہو۔

امریکا پاکستان میں ہونے والے ڈرون حملے روکنا نہیں چاہتا۔اس لیے اس نے اپنی ایجنسیوں کو پاکستان میں ڈرون حملے کرنے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔واشگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق امریکا کے دو خفیہ ادارے نیشنل سیکورٹی ایجنسی (NSA) اور سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (CIA) گہرے تعاون کے ساتھ ڈرون حملوں کو ترتیب دیتی ہیں۔ ان حملوں کے لیے یہ ادارے الیکٹرانک آلات کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ بسا اوقات مشتبہ افراد کو ٹارگٹ کرنے کے لیے انتہائی حساس الیکٹرانک آلات کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ اسی نیٹ ورک کے ذریعے قبائلی علاقوں میں روپوش اور سرگرم عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کا سراغ ان کے موبائل ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو سے لگایا جاتا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق نیشنل سیکورٹی ایجنسی کے سائبر جاسوسی کے شعبے نے القاعدہ کے ایک سینیئر رہنما حسان غول کو کامیابی سے ڈھونڈ کر سو فیصد درست معلومات سی آئی اے کو فراہم کی تھیں۔ انہی شواہد کی بنیاد پر سی آئی نے اے نے ایک ڈرون حملے میں یمنی نژاد حسان غول کو پاکستانی قبائلی علاقے میں اکتوبر 2012 کو مار دیا تھا۔ واشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ اس کے پاس ٹارگٹ کر کے مارے جانے والے کئی اور افراد کی تفصیلات بھی موجود ہیں۔ یہ تفصیلات خفیہ اداروں کے افسران کی درخواست پر روک لی گئی ہیں۔ نیشنل سیکورٹی ایجنسی کی ترجمان وانی وینس نے سنوڈین کی حالیہ دستاویزات کو مسترد کرنے کے بجائے ایک بیان میں کہا ہے کہ این ایس اے ان مشتبہ شدت پسندوں کی جاسوسی کرتی ہے جو امریکا کے لیے خطرہ ہیں۔ ہماری توجہ درست عالمی انٹیلی جنس اہداف اور ان کی تیاری پر مرکوز ہے، جو دہشت گردوں، انسانی اسمگلنگ اور منشیات کے اسمگلروں سے متعلق ہیں۔ ہماری سرگرمیاں امریکی رہنماﺅں کی ضروریات اور عسکریت پسندوں سے عوام کے تحفظ کے سلسلے میں عالمی انٹیلی جنس اہداف اور بڑی تباہی والے ہتھیاروں کے خلاف ہیں۔ امریکی ڈرون حملے صدر بارک اوباما کی القاعدہ کے خلاف بنیادی حکمتِ عملی ہیں جس کو سی آئی اے کے سپرد کیا گیا ہے۔ لیکن واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ نیشنل سیکورٹی ایجنسی نے سی آئی اے کو منتازع ڈرون کارروائیوں میں انٹیلی جنس معلومات فراہم کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ نیشنل سیکورٹی ایجنسی نے مشتبہ شدت پسندوں کی جاسوسی کے وسائل پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے ایک خفیہ یونٹ بھی قائم کیا جو انسدادِ دہشت گردی کا ایک جانبدار سیل گناجاتا ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ایک امریکی اخبار میں شائع ہونے والی اِس رپورٹ کو نیشنل سیکورٹی ایجنسی کے سابق ملازم اور کئی اہم راز افشا کرنے والے ایڈورڈ سنوڈن کی فراہم کردہ دستاویزات سے تیار کیا گیا ہے۔اور ایڈورڈ سنوڈین جاسوسی کے الزام میں امریکا کو مطلوب ہیں، لیکن انہوں نے روس میں پناہ حاصل کی ہوئی ہے۔
دوسری جانب امریکی تجزیہ کار کوین ہارٹ نے ڈرون حملوں کو امریکی جارحیت قراردیتے ہوئے کہاہے کہ امریکا کئی برسوں سے دہشتگردی کے خلاف جنگ اور القاعدہ سے نمٹنے کے نام پر ڈرون حملوں میں بےگناہ افراد کو قتل کررہا ہے۔ ایرانی ٹی وی کو انٹرویو میں کوین ہارٹ نے کہاکہ دنیا کے مختلف علاقوں میں امریکا کے ڈرون حملے امریکی جارحیت کی واضح علامت ہیں۔ امریکا دہشتگردوں کے تعاقب کے نام پر بے گناہ افراد کا قتل عام کرتا ہے۔ اگر یہی عمل امریکا میں دہرایا جائے تو امریکا کا کیا ردعمل ہوگا؟۔ کوین ہارٹ نے کہاکہ ڈرون حملوں کے سدباب کا بہترین راستہ یہی ہے کہ ان حملوں کے خلاف بھرپور احتجاج کیا جائے اور عالمی سطح پر امریکی پالیسیوں کی مذمت کی جائے۔جبکہجمعہ کے روزاقوام متحدہ نے ایک بار پھر امریکا کو خبردار کیا ہے کہ ڈرون حملے عالمی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں جبکہ یہ حملے دیگر ممالک کو ڈرون طیاروں کے حصول کی جانب راغب کر رہے ہیں۔ یو این کے ماورائے عدالت قتل یا سزائے موت کے خصوصی نمائندے کرسٹوف پاٹنز نے سلامتی کونسل میں پیش کی گئی رپورٹ میں کہا ہے ڈرون حملوں کا استعمال کرنے والے ممالک ان کی شفافیت اور طریقہ کار کی وضاحت کریں۔ ڈرون حملے عالمی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔

پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی خصوصی کمیٹی میں ڈرون حملوں کے مسئلہ کو ایک بار پھر پوری قوت سے اٹھاتے ہوئے کہا ہے ڈرون حملے پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کے لیے خطرہ اور دہشت گردی میں اضافہ کا باعث ہیں، اقوام متحدہ پاکستان پر ہونے والے غیر قانونی ڈرون حملوں کا نوٹس لے اور ان کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات اٹھائے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے خصوصی نمائندے ضمیر اکرم نے خصوصی کمیٹی کو بتایا جنگی زون سے باہر کسی بھی ملک کے خلاف ڈرون حملوں کا استعمال بین الاقوامی قانون کے منافی ہے۔ ڈرون حملے پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری کے لیے چیلنج ہےں اور ان میں خواتین اور بچوں سمیت بے گناہ افراد کے جاں بحق ہونے کی وجہ سے دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے۔جس کے بعد اقوام متحدہ کے ایک خصوصی نمائندے نے امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان سمیت دیگر ممالک میں ڈرون حملوں کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والے عام شہریوں کے اعداد و شمار کو منظر عام پر لائے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے بین ایمرسن کے بقول پاکستانی حکام نے تصدیق کی ہے کہ قبائلی علاقوں میں سال 2004 سے ہونے والے 330 ڈرون حملوں میں 2200 افراد جاں بحق اور 600 شدید زخمی ہوئے جبکہ جاں بحق ہونے والوں میں 400 عام شہری شامل ہیں۔ انسداد دہشت گردی اور انسانی حقوق کے لیے اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندے بین ایمرسن کی اقوامِ متحدہ کے لیے ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کی مزید تفصیلات کے مطابق اس تحقیقاتی رپورٹ میں جائزہ لیا گیا کہ کہیں ڈرون حملوں میں عام شہریوں کی اموات غیرمتناسب تو نہیں اور کس حد تک قانونی ہیں۔ اقوام متحدہ نے پاکستان اور دیگر ملکوں میں ڈرون حملوں کے نتیجے میں عام شہریوں کی ہلاکت اور ٹارگٹ کلنگ پر تحقیقات جنوری سے شروع کی تھیں۔ اس تحقیق کے دوران بین ایمرسن نے ڈرون حملوں کے لیے ذمہ دار امریکی افسروں سمیت ان ملکوں کے اہلکاروں سے بھی بات چیت کی ہے جن کی سرزمین پر امریکا ڈرون طیاروں کے ذریعے لوگوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے لیے اپنی رپورٹ کی تیاری کے دوران بین ایمرسن نے ابتدائی معلومات جاری کی ہیں جن کے مطابق امریکی ڈرون طیارے، کم سے کم ساڑھے چار سو شہریوں کی اموات کا سبب بنے البتہ ان کا کہنا ہے اس سلسلے میں مزید کام کی ضرورت ہے۔ بین ایمرسن کا کہنا ہے پاکستانی حکام نے انہیں بتایا امریکی جاسوس طیاروں کے حملوں میں کم سے کم چار سو شہری مارے گئے۔ بین ایمرسن کے بقول ان کی تفتیش میں سب سے بڑی رکاوٹ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی رازداری ہے جس کے نتیجے میں ڈرون حملوں کے نقصانات کا شفاف تخمینہ لگانا مشکل ہے۔ پاکستان اور یمن میں ہونے والے ڈرون حملوں کی نگرانی سی آئی اے کرتی ہے۔ بین ایمرسن کے خیال میں ان ڈرون حملوں سے ہونے والے جانی نقصان کے اعداد و شمار کو منظر ِعام پر لانے سے امریکی سلامتی کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ امریکا، اسرائیل اور برطانیہ سمیت ڈرون طیارے استعمال کرنے والے تمام ممالک سے مطالبہ کیا وہ عام شہریوں کے جانی نقصان کی معلومات دینا اور اس کی قانونی وضاحت کرنا اپنا فرض سمجھیں۔ اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندے نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں اعتراف کیا ہے ڈرون طیارے انتہائی محتاط حکمت عملی کے تحت استعمال کیے جائیں تو دوسری ہر قسم کی فوجی کارروائی کی نسبت ڈرون حملے کم جانی نقصان کرتے ہیں۔ بین ایمرسن کے بقول اس سلسلے میں حملہ کرنے والے اور جہاں حملہ ہو رہا ہو دونوں ملکوں کے درمیان معاہدہ ہونا ضروری ہے۔ پاکستان کا سرکاری مو ¿قف رہا ہے کہ امریکا کے ڈرون حملے ملکی سالمیت اور خودمختاری کی خلاف ورزی ہیں۔ پاکستان متعدد بار اعلیٰ سطح پر قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں پر احتجاج کر چکا ہے اور ان حملوں کے خلاف دائیں بازو کی اور مذہبی جماعتیں احتجاجی مظاہرے کر چکی ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف نے گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اپنے خطاب میں ڈرون حملوں کو تمام عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے امریکا سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ یہ حملے بند کریں تاکہ مزید شہریوں کی ہلاکت نہ ہو۔میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ ڈرون حملے سود مند سے نقصان دہ ہیں کیونکہ ان حملوں میں شہریوں کی ہلاکت بھی ہوتی ہے۔

اے این این کے مطابق انسانی حقوق اور انسداد دہشت گردی کے بارے میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے بین ایمرسن نے ڈرون حملوں میں ہلاکتوں سے متعلق عبوری رپورٹ تیار کی جسے 25 اکتوبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بحث کے لیے پیش کیا جائے گا۔ بین ایمرسن نے کہا ہے کہ ڈرون حملے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کیے گئے۔ دشوار گزار علاقے ہونے کی وجہ سے ہلاکتوں کی اصل تعداد سامنے نہیں آئی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکی ڈرون حملوں میں کم از کم 450 شہری مار ے گئے اور یہ اعداد و شمار امریکا کی جانب سے شہریوں کی ہلاکتوں کے اعتراف سے کئی گنا زیادہ ہیں۔دوسری جانب برطانوی جریدے ”اکانومسٹ“ نے دعویٰ کیا ہے حکومت پاکستان نے سی آئی اے کے پروگرام کو اپنی خفیہ آشیرباد دے رکھی ہے۔ جریدے کی رپورٹ کے مطابق قومی سروں میں پاکستانیوں کی اکثریت افغان سرحد کے قریب قبائلی پٹی میں مشتبہ عسکریت پسندوں کے خلاف سی آئی اے کے ڈرون حملوں کی مخالفت میں نظر آتے ہیں اور زیادہ تر پاکستانی ڈرون حملوں کو امریکی تکبر سمجھتے ہیں۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 703024 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.