مگرعوام کے لئے توبس آمریت ہی..؟
بے شک میرے اِس مُلک میں جہاں میں اور آپ اپنی سانسیں گِن گِن کرلے رہے ہیں
آج یہاںقدم قدم پر مسائل کے انبارلگے ہوئے ہیں اور آج جہاں انتہائی کسمپرسی
کے عالم میں زندگیاں گزارنے والے مجبوروبیکس عوام کے منہ پر مکھیاں آتی
جاتی ہیں، اور ایسے میں عوام لاچارگی کی علامت بنے پڑے ہیںجب عوا م کے ایسے
بُرے حالات میںجمہوریت بھی عوام کودرپیش مسائل حل کرنے سے قطعاََ قاصررہے
اور یہ بھی عوام کو کسی معاملے میں ریلیف مہیاکرکے اِنہیں سُکھ اور چین نہ
دے سکے توپھر ایسی جمہوریت کا عوام کو کیا فائدہ ہے ..؟جو اِن کے لئے تو جی
کا جنجال بنی رہے اور حکمرانو اور سیاستدانوں کے لئے بھلی بن کراِنہیں ہی
سارے فائدے پہنچاتی رہے تو پھر عوام کا ایسی جمہوریت کوچاٹنے اور
سرپربیٹھانے کا کچھ فائدہ نہیں ہے، موجودہ حالات میں عوام کو فوراََ سے بیش
تراِس کے خاتمے کے لئے کوششیں شروع کردینی چاہئے اور اُس قوت کے لئے راہ
ہموارکردینی چاہئے جو جمہوریت کی آڑمیں اپنے ذاتی اور سیاسی فائدے اُٹھانے
والے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو نکیل دینے کے لئے ہمارے یہاں آتی رہی ہے،
اور اِس کے آتے ہی جلیبی کی طرح ٹیڑھے سیاستدان ایسے سیدھے ہوتے رہے ہیںکہ
جیسے یہ کبھی ٹیڑھے ہوئے ہی نہ تھے۔جبکہ آج ایک مرتبہ پھرہمارے حکمرانو اور
سیاستدانوں نے عوامی مفادات کوپسِ پست ڈال دیاہے اورجمہوریت کو تحفظ فراہم
کرنے کے لئے اپنی کمرکس لی ہے اورجمہوریت کی بقاءوسا لمیت کے خاطر اُس حدتک
جانے سے بھی دریغ نہ کرنے کی ڈھان لی ہے،جہاں پہنچ کر اِن کی سیاست ہی
دگرگوں کیوں نہ ہوجائے مگراِنہیں تو ہرحال میں جمہوریت کی دیوی کو تحفظ
فراہم کرناہے بس....۔پچھلے دِنوںامریکی صدربارک اوباما سے ملاقات کے لئے
امریکا روانگی سے قبل ایک گفتگو کے دوران وزیراعظم میاں محمدنوازشریف نے
ایک بارپھر یہ کہاہے کہ پاکستان کی اصل طاقت جمہوریت ہے،اِس موقع پر مجھے
ایسالگاکہ جیسے کہ وزیراعظم نوازشریف یہ کہنا چاہ رہے ہوں کہ آج جوجمہوریت
اِن کے ہاتھ لگی ہے اِسے حاصل کرنے کے لئے اِن کی جماعت پاکستان مسلم لیگ
(ن) سمیت مُلک کی تمام سیاسی جماعتو ں نے بے شمارقربانیاں دی ہیں جس کے بعد
جمہوریت کا یہ ننھاساپوداسرزمینِ پاکستان پر پھوٹاہے،تواَب اِس کی آبیاری
اور نشونماکرنابھی سب جماعتوں کا اپنااپنااولین فریضہ ہے۔ایک طرف حکمران
اور سیاستدان جمہوریت کی دیوی کے پوجاپاٹ میں لگے ہیں تو دوسری طرف یہی ایک
دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں بھی ایک دوسرے سے پیچھے نہیں ہیں ،گویا کہ یہ
جمہوریت کی اُوٹ میں ہی اپناسیاسی قد بھی اُونچاکرنے میں مگن ہیں تو وہیں
اِن سب کی یہ کوشش بھی ہے کہ جس طرح ہوسکے قوم کو کسی نہ کسی مسئلے میں
اُلجھائے رکھومگرجمہوریت کو کوئی ٹھیس نہ پہنچنے دو..آج اگر عوام کی حالتِ
زار کا جائزہ لیاجائے تو معلوم یہ ہو گاکہ گزشتہ اور موجودہ جمہوری اداوار
میں سِول حکمرانوں نے عوام کا اتنابُرابحال کردیاہے کہ آج اِن کی برداشت کی
ہمت بھی دم توڑچکی ہے یعنی یہ کہ آج عوام ذہنی و جسمانی طور پر مفلوج
ہوکررہ گئے ہیں ، اِن کی سوچنے سمجھنے اور اپنا اچھابُراپرکھنے کی بھی
صلاحیتیں ختم ہوکررہ گئیں ہیں۔
مگرآج اِس کے باوجود بھی ہمارے حکمران جمہوریت کے اتنے دلدادہ ہیں کہ اِن
کی توجہ عوام کے مسائل سے ہٹ کر صرف اور صرف جمہوریت کو مُلک میں مضبوط
ومستحکم کرنے کے لئے مرکوز ہے،جبکہ ہوناتو یہ چاہئے کہ ہمارے حکمران اور
سیاستدان مُلک میں جمہوریت کی مورتی کے مندرقائم کرنے کے ساتھ ساتھ مہنگائی
وبھوک وافلاس کے ہاتھوں پریشان حال عوام کے مسائل کے حل کی جانب بھی بڑھ
چڑہ کر اپناکرداراداکریں تاکہ عوام تک جمہوریت کے ثمرات ٹھیک طرح پہنچے اور
عوام یہ تسلیم کرنے لگیں کے جمہوریت آمریت سے بھلی ہے،مگر آج موجودہ حالات
سے دوچار عوام یہ تصورکرتے ہیں کہ جمہوریت توحکمرانوں اور سیاستدانوں کے
لئے امرت دھاراہے مگرجمہوریت تو عوام کے لئے پریشانیاں اور مشکلات پیداکرنے
کا باعث ہے،اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی عوام یہ سمجھتے ہیں ،اِن کے لئے
جمہوریت سے زیادہ آمریت بھلی ہے ، جس میں اِن کی سُنی تو جاتی ہے، جہاں آمر
کے ڈنڈے تلے سیاستدان دبے رہتے ہیںتو وہیں مہنگائی بھی بے لگام ہوکراور سر
اُٹھا کر اِدھر اُدھر آوارہ گردی نہیں کرتی ہے، آٹے ، دال ، چاول، چینی
اورغریبوں کی روزمرہ کی استعمال کی اشیاءکی بوریاں بھی عوام کو آسانی سے
سستے داموں دستیاب ہوتیں ہیں اور اِس طرح اِن کی زندگیاں سکون سے گزرہی
ہوتیں ہیں۔جبکہ اِس کے برعکس گزشتہ اور موجودہ جمہوری ادوارمیں یہ مماثلت
ہے کہ اِس میں عوام کو مہنگائی اور طرح طرح کے بحرانوں میں جکڑدیاگیااور آج
عوام چیخ چیخ کر اِن سے نجات کی اپیلیں اور درخواستیں کرتے نہیں تھک رہے
ہیں مگرجمہوریت کی دیوی کے پوجاری حکمرانوں اور سیاستدانوں کو عوام کی کوئی
فکرنہیں ہے، یہ سب کے سب بس اپنے اُن مشاغل میں مشغول ہیں جن سے عوام کو
ایک پائی کا بھی فائدہ نہیں ہے۔اِن کے نزدیک تو بس ایک یہی بات مقدم اور
اہم ہے کہ جمہوریت کو کوئی نقصان نہ پہنچنے پائے، اور اَب کوئی آمر پھر اِن
کو تنگ وپریشان کرنے کے لئے اِن پر شب خون نہ مارنے پائے،آج بس میرے مُلک
کے حکمران اور سیاستدان اِس ایک ایجنڈے پر ہی متفق دکھائی دیتے ہیں باقی
کسی بھی ایک نقطے پر اِن کا اتفاق نہیں ہے، آج اِن سب کی بس ایک یہی کوشش
ہے کہ پہلے جمہوریت کو بچانے کے لئے باہم متحدو منظم ہوکر آمریت کے راستے
روکے جائیں پھرباقی عوامی اور مُلکی مسائل حل کرنے کی مہلت اور فرصت ملے تو
اِس جانب بھی ذراسی توجہ دے دی جائے ورنہ اِس کی بھی کوئی خاص ضرورت نہیں
ہے، کیوں کہ عوا م اور مُلک کے اتنے مسائل ہیں کہ یہ سب کے سب یکدم سے یا
کسی جادوکی چھری سے فوراََ حل نہیں ہوسکتے ہیں، لہذاعوامی اور مُلکی مسائل
کو ایک طرف رکھ کر صرف جمہوریت کو تحفظ فراہم کیاجائے، کیوں کہ جب مُلک میں
جمہوریت رہے گی تو اِن کی بھی سیاست چمکتی رہے گی اور اِن کی بھی دال دلیہ
چلتی رہے گی اور جب جمہوریت نہیں رہے گی تو پھر اِن کا بھی وجودخطرے سے
دوچاررہے گا، جبکہ عوام کے نزدیک جمہوریت سے اچھی وہ آمریت بھلی ہے جس میں
عوا م کو سستاآٹااور سستی بجلی توملتی ہے۔(ختم شُد) |