مسلمانوں کا محرم

نئےاسلامی سال کی ابتدا ہورہی ہے ہرمسلمان دعاگوہے کہ اللہ کرے یہ بخیروخوبی اور امن وامان کے ساتھ گزرجائے!اقوامِ عالَم کا شروع سے دستور چلا آ رہا ہے کہ وہ اپنی تاریخ کو محفوظ کرتے ہیں اور اپنے ماہ وسال کو کسی شخصیت سے وابستہ کرتے ہیں۔ مثلاً یہودیت کو دیکھ لیجئے وہ اپنے سن کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے فلسطین پر تخت نشین آراء ہونے کے واقعے سے منسوب کرتے ہیں۔ عیسائیت، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے یوم ولادت پر اپنے سن کو موسوم کرتے ہیں۔ بِکرمی سن؛ بِکرماجیت کی پیدائش اور رومی سن؛ سکندر اعظم کے یوم ولادت سے منسوب ہیں ۔

جبکہ اسلامی سن کسی شخصیت سے منسوب ہونے کے بجائے ایسے حالات سے متعلق ہے جس میں چاروں اطراف سے گھِرجانے، مصائب وآلام کے شکنجے میں کَسے جانے، اپنے قریبی رشتہ داروں کے ہاتھوں قتل کے منصوبے اور حق کی نِدا ء کو دبانے کے لئے باطل کی سازشوں کے جال بچھے ہوں تو اعلائے کلمۃ اللہ کے فریضے کو ببانگ دہل اداکرکے”ہجرت“ کے حکمِ ربی پر لبیک کہہ دیاجائےاور ہجرت بھی ایسی جو اپنے اندر عالم بے بسی میں ثابت قدمی، صبرواستقامت کاراز چھپائے ہوئے ہے، اس سے اسلامی سن کا آغاز کیا جائے یعنی سن ہجری۔

17ہجری میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ جوکہ یمن کے گورنر تھے انہوں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی اس طرف توجہ مبذول کرائی کہ آپ کےجوسرکاری خطوط اور گرامی نامے ہماری طرف آتے ہیں ان پر تاریخ درج نہیں ہوتی مناسب ہوگااگر تاریخ کے اندراج کا اہتمام بھی کرلیا جائے۔ چنانچہ صحابہ کرام کے باہمی مشورے سے یہ طے پایا کہ اسلامی سن کا آغاز واقعہ ہجرت کو بنایا جائے۔
(تاریخ دمشق لابن عساکر ج 1 ص 44)

خلیفۃ المسلمین، مرادِنبوت، امیرالمومنین خلیفہ راشد خلیفہ دوم حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا یوم شہادت یکم محرم الحرام ہے، آپ کی اسلام اور اہل اسلام کےلیے دی گئی قربانیوں کو کبھی بھلایا نہیں جاسکتا، آپ کے عادلانہ دور خلافت میں انصاف، عدل کے ایسے شفاف چشمے پھوٹے جس سے ہر شخص فیض یاب ہوا اسلام کا حلقہ وسیع ترہوا، ریاستوں کی ریاستیں دین محمدی کے زیرنگیں آئیں ، امت مسلمہ پر آپ کے عظیم احسانات ہیں جنہیں فراموش کرنا سراسر ناانصافی اور محسنِ امت کی ناقدری ہوگی۔ ریڈیو، ٹی وی، اخبارات کے دہرے معیار پر شکوہ تو اپنی جگہ! نام ونہاد عشاقِ اھل بیت بھی ان کا تذکرہ جس بھونڈے انداز میں کرتے ہیں ان کو نقل کرنے سے قلم کانپ جاتی ہے۔

خیر!محرم کی فضیلت شروع سے مسلّم چلی آرہی ہے۔ اس میں بڑے بڑے تاریخی وقعات رونما ہوئے ، حقیقت میں یہ عبادت کا مہینہ ہے لیکن جس طرح بعض دیگر عبادت کے ایام اور راتوں میں شیطان نے خدائے لم یزل سے دور رکھنے کے لیے حربے استعمال کیے ہیں۔ مثلاً شب براءت میں آتش بازی وغیرہ اسی طرح اس مبارک اور محترم مہینے میں بھی شیطانی محنت غیرذمہ دار واعظین کی گرمئی وعظ کی صورت میں نظرآتی ہے۔ افسوس صد افسوس کہ شہادت نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاف حقیقت میں جب تک من گھڑت واقعات کی ملاوٹ ، تصرفاتی تخیلات کے محلول بلکہ جھوٹ اورافتراء کی آمیزش اور دجل وفریب کو نہ گھسیڑاجائے اس وقت تک عوام سے داد تحسین کی ہوس پوری نہیں ہوپاتی۔

تاریخ انسانی کا مطالعہ بتلاتا ہے کہ ہر دور میں مومنین پر مظالم کے ایسے پہاڑ توڑے گئے ہیں جن سے کتب تاریخ کا کوئی ورق خالی نظر نہیں آتا،جبروجور اور ظلم وتشدد کی داستان الم میں اتنے نام آتے ہیں جن کو شمار نہیں کیا جاسکتا۔ شہادتوں کی طویل فہرست میں سرِفہرست وہ بھی ہیں جنہیں نبوت کی زبان سے سیدالشہداء کا لقب ملا، وہ بھی ہیں جن کی مقتل گاہ مصلیٰ پیغمبربنی، وہ بھی ہیں جنہیں تاریخ مظلوم مدینہ کے تذکرے سے زندہ رکھتی ہے، آخر وہ بھی تو شہداء تھے جن کو بدر، احد،خندق و تبوک کے میدانوں میں کافروں نے خون میں تڑپا دیا۔چودہ سو برس سے خون مسلم کی ندی مسلسل بہہ رہی ہے جس میں اسلام کی نِیا برابر تیرتی چلی آرہی ہے ۔ مسند الہند شاہ ولی اللہ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
یا معاشر بنی اٰدم اتخذتم رسوماً فاسدۃً تغیر الدین اجتمعتم یوم عاشورآء فی الأباطیل فقوم اتخذہ ماتماً أما تعلمون أن الأیام أیام اللہ والحوادث من مشیئۃ اللہ وإن کان حسین رضی اللہ عنہ قتل فی ھٰذا الیوم فأی یوم لم یمت فیہ محبوب من المحبوبین ؟۔۔ اتخذتم الماتم عیداً کأن إکثار الطعام واجبٌ علیکم وضیعتم الصلوٰۃ۔
)التفہیمات الالٰہیۃ؛تفہیم:288/69 (
اے لوگو! تم نے اسلام کو بدل ڈالنے والی بہت سی رسمیں بنا رکھی ہیں تم دسویں محرم کو باطل قسم کے اجتماعات منعقد کرتےہو، کئی لوگوں نے اس دن کو ماتم کا دن بنالیا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت سے حوادثات اور سانحات رونما ہوتے ہی رہتے ہیں۔ اگرنواسہ رسول حضرت حسین رضی اللہ عنہ اس دن شہید کر دیے گئے تو بتاؤ وہ کون سا دن ہے کہ جس میں کوئی نہ کوئی اللہ کا نیک بندہ فوت نہیں ہوا ؟ …… تم نے ماتم کو عید کے تہوار کی طرح بنا لیا، گویا اس دن زیادہ کھانا پینا فرض ہے اور نمازوں کا تمہیں کوئی خیا ل نہیں ان کو تم نے ضائع کردیا۔

اگر مصائب وشدائد کے تذکرے، نوحے، اور ماتم وگریہ شروع کردیاجائے تواس مختصر زندگی میں ہمیں ایک لمحہ کے لیے بھی خدا کی عبادت کی توفیق نہ ہو۔ اس لیے اسلام کا واضح حکم ”صبر“ کاہے۔ رب ذوالجلال نے اپنی معیت کو”صبر“سے مشروط کردیا ہے، نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ”صبر“ پر مبنی ہیں، اھل بیتِ کرام کی بھی زندگی ”صبر“ کا بہترین نمونہ ہے۔ شہدائے کربلا جرأت و دلیری، ہمت وعزیمت سے زندگی گزارکر،جابرِ وقت سے نبرد آزما ہوکر صبرو استقلال کے خوگر تو بنے، جھوٹ موٹ (تقیہ) کی دبیز چادر کو تارتار کرکے ہمیں یہ سبق دے گئے کہ”اگر حق وباطل کے معرکہ میں مسلمان کو اعلائے کلمۃ اللہ کا فریضہ ظلم وجبر کی نوک پر چڑھ کر ادا کرنا پڑے تو ضرورادا کرے ۔“

کربلا کے تپتے صحراؤں سے آج تلک عزیمت ودلیری، شجاعت وجوانمردی کا نغمہ گونج رہاہے۔ کاش اس طرف بھی کان دھرے جائیں!
جفا کی نوک سے گردن وفا شعاروں کی
کٹی ہے بر سر میداں مگر جھکی تو نہیں

میڈیا کے اس دور میں جہاں ہرچیز کی عکس بندی کی جارہی ہے وہیں پر انبیاء علیہم السلام، صحابہ کرام اھل بیت نبی اور عترۃرسول کے کارناموں کو بھی فلمایا جا رہا ہے۔ ہرمسلمان ایسی نازیبا اور بری حرکات کی مذمت کرتاہے۔ بالخصوص ان ایام میں اھل بیت کرام کی جو فلمیں ریلیز کی جارہی ہیں ان کی روک تھام بہت ضروری ہے۔ چودہویں صدی کے بدقماشوں کو اھل بیت کے مقدس روپ دیے جا رہے ہیں۔ ہم اس پرسراپا احتجاج ہیں اور حکومت ِ وقت سے التماس کرتے ہیں کہ ایسے عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لاکر عبرت ناک سزادی جائے تاکہ ملک کا امن بھی باقی رہے اور استحکام بھی بحال رہے۔
 

muhammad kaleem ullah
About the Author: muhammad kaleem ullah Read More Articles by muhammad kaleem ullah: 107 Articles with 120806 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.