تبلیغی جماعت کا خاموش انقلاب

 مولانا محمد الیاس گھمن
 مرکزی ناظم اعلیٰ: اتحاد اہل السنت والجماعت
ہر مسلمان کی ایک فکر ہونی چاہیے کہ لوگ جہنم کے عذاب سے بچ کر جنت میں جانے والے بن جائیں اس کےلیے ایک ہی راستہ ہے جسے ”سنت “ کہتے ہیں۔ محبت واطاعت رسول کی بدولت توحید ملتی بھی ہے ، قائم بھی رہتی ہے اور کار آمد توحید بھی صرف یہی کہلاتی ہے ۔

اسلام کے ابدی قوانین کے نزول کے بعد اس کو تاقیامت باقی رکھنے کےلیے ”شعبہ تبلیغ“ کو وجود عمل میں لایا گیا ۔ادوار کے گزرنے کے ساتھ ساتھ متقضائے احوال کے مطابق کے اس کی مختلف صورتیں سامنے آتی رہیں۔ تذکیر وموعظت پندو نصائح، درس وتدریس، تعلیم وتعلم………… درسگاہ ، خانقاہ، مدارس ومساجد وغیرہ میں یہ عمل تسلسل سے چلتا رہا ہے۔

خیرالقرون گزرا ، صحابہ و تابعین جیسی شخصیات دنیا سے روپوش ہوتی چلی گئیں، فقہاء،علماء،محدثین،مفسرین،اولیاءاورنیک لوگ بھی دھیرے دھیرے جانے لگے ۔ اہل اسلام پر جان لیوا مصائب، آزمائش اور امتحانات شکلیں بدل بدل کر آنے لگے ۔ تاریخ کےورق گردانی کرنے سے حاصل مطالعہ یہ ملتا ہے کہ غیر مسلم اقوام پہلےخونِ مسلم کی پیاسی تھی،اہل ایمان کو تہہ تیغ کر کے اپنی ”فتح“ کے جھنڈے گاڑ دیتی تھی۔ لیکن پھر پانسا پلٹا …………خونِ مسلم کے ساتھ ساتھ ان کے ایمان واسلام کو بھی ختم کرنے کے درپے ہوگئیں۔ سب سے زیادہ عیسائیت نے اہل اسلام کو اپنے دین سے برگشتہ خاطر کرنے کےلیے حربے استعمال کیے،اپنے نظریات اور مذہب کوعام کرنےکی خاطر زر، زن اور زمین کے دلربا جھانسوں کے ساتھ ساتھ اپنے افکار کی اشاعت میں سرگرم عمل نظر آئے۔ ان کی طویل محنت کے نتیجے میں اہل اسلام کے قلوب سے محبت رسول کا نبیادی نقطہ مٹ کر کفر کا دھبہ لگنا شروع ہو گیا ، دنیا کی محبت اور لالچ نے اہل اسلام کو نام نہاد مسلمان بنا دیا تھا۔

یہ درست ہے کہ ابھی تک در سگاہ میں دینی احکامات کے سبق پڑھائے جا رہے تھے ۔ خانقاہ میں تزکیہ نفوس کی محنت ماند نہیں پڑی تھی لیکن زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں ان کی جمعیت میں کمی نظر آرہی تھی۔
اس وقت اہل اللہ کی نظرفراست اور بصیرت قلبی اس خدشے کو محسوس کر رہی تھی کہ اگر معاملہ یونہی رہا تو مذہب اسلام چند دنوں کا مہمان بن جائے گا۔ انفرادی طور پر اس بارے میں پُرخلوص محنتیں بھی کی گئیں لیکن جو فوائداجتماعیت سے حاصل ہوتے ، ظاہر ہے وہ نہیں مل سکتے تھے۔ انفرادی کوشش کا جذبہ اٹھتا پھر حالات کے ستم اسے ٹھنڈا کر دیتے ۔

کہتے ہیں بعض ا نسانوں سے اللہ تاریخی اور عالمی کام لیتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تکمیلِ دین کا، صحابہ و اہل بیت سے تنفیذِ دین کا ، فقہاء بالخصوص امام اعظم سے ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ سے تدوینِ دین اور اس پچھلی صدی میں اللہ کریم نے علماء دیوبند سے تطہیرِ دین کا خوب خوب کام لیا ۔
انہی میں سے ایک شخص جس کی زبان میں فصاحت و بلاغت کی قوت بھی نہ تھی ، جس کی گفتگو میں الفاظ سحر انگیزی، جوشِ خطابت بھی نہ تھا ، معقولی اور فلسفیانہ ذہن بھی نہ رکھتا تھا،حالات کے مارےلوگوں کو لڑنے مارنے کے گُر بھی نہیں سکھلا سکتاتھا لیکن اس کے سینے میں ایسا دل تھا جو ان باتوں پرکڑھتا تھا، وہ لوگوں کی بے راہ روی پر خون کے آنسو روتا تھا ۔ اس کےاسی قلبی اضطراب میں رحمتِ حق جلوہ گر ہوئی، اس کے دل پر القاء ہو ا، امت مرحومہ کے ایمان وعمل کو بچانے کےلیے ایک اس طرز کی جماعت تشکیل دو جن کی نیتیں حبِ جاہ اور خواہشات نفسانی سے پاک ہوں گویا خانقاہی ماحول کا لب لباب ان میں ہو۔ دین کو اپنی اور سارے عالم کی ضرورت سمجھ کر سیکھیں اورسکھائیں گویا درسگاہ کا ماحول بھی ان کو میسر ہو ۔ ایک دوسرے کے ایمان وعمل کی تجدید کرتے رہیں ۔

جو خدا ” کو“ نہیں مانتا اس تک ربِ واحد کی واحدانیت پہنچائیں،جو خدا” کی“ نہیں مانتا اس بھولے ہوئےشخص کو عہد الست یاد کرائیں ۔ جو رسول اللہ ” کو“ نہیں مانتا اس کو ختم نبوت ورسالت کا عقیدہ دیں اور جو رسول اللہ” کی“ نہیں مانتا اسے ”طرزِ زندگی محمد رسول اللہ “ سے روشناس کرائیں۔
گلی گلی ، بام بام ؛ دین کو عام کریں، عبادات،معاملات،معاشرت، رہن سہن، اخلاقیات یوں کہیے کہ کامیاب زندگی گزارنے کا لائحہ عمل پوری انسانیت تک پہنچائیں پھراس راستے میں آزمائش ، تکالیف، مصائب وآلام، منفی پروپیگنڈے ، دل برداشتہ رویّے آئیں تو ان پر جذباتی پن کا مظاہرہ کرنے کی بجائے”توا صوا بالصبر“ کی عملی تصویر بن جائیں۔

الحمد للہ! وہی کچھ ہوا جو خدا کے اس ولی کے دل پر القاء ہوا تھا ۔ شروع میں چند غریب، آزاد منش، مسکین طبعیت لوگ اٹھے ان کے اخلاص کی برکت سے اللہ نے سارے عالم کو اسلام کے وجود سے روشناس کرایا۔ لوگ کفر، ارتداد کو چھوڑ کر اسلام کے جھنڈے تلے جمع ہونا شروع ہوئے ۔ الحاد ،زندقہ بدعات ورسومات کو چھوڑ کر ”سنت رسول“سے اپنی کامیابیاں حاصل کرنے لگے۔ گویا اس جماعت کا یہ خاموش انقلاب تھا کہ انسانیت کفر سے پلٹ کراسلام لے آئی، اہل اسلام نے نام نہاد مسلمان سے سچے اور سُچے مسلمان کاروپ دھار لیا ۔

اس محنت کے ثمرات جب ظاہر ہونا شروع ہوئے تو بعض اہل اللہ کی زبان پر کلمہ تشکر کے ساتھ بے ساختہ یہ بھی نکلا :”الیاس نے یاس کو آس سے بدل دیا ۔“ یہ وہی مولانا محمد الیاس دہلوی رحمہ اللہ ہیں جن کے قلب اطہر پر اس کام کا القاء ہوا تھا۔

بنیادی بات یہ ہوتی ہے کہ لوگ کسی چیز کو اپنی ضرورت سمجھیں ۔ پھر اس کے بعد اس کے حصول کا طریقہ سمجھیں اور جب خود سمجھیں تو اب دوسروں کو بھی سکھلائیں ۔ تبلیغی جماعت کی پہلی کوشش دین کی محبت پیدا کرنا ہے اس کے بعد ان کو اس پر چلنے کا طریقہ بتانا ہے اور پھر لوگوں کو اس پر چلنے کی فکر بھی دینی ہے ۔

31 اکتوبر 2013ء کورائے ونڈ،پاکستان میں اسی عزم کی تجدید کی جارہی ہے لاکھوں مسلمان آسائشوں کو خیر باد کہہ کر ایک فکر ، ایک درد……امت مسلمہ کا درد …… لینے کے لیےبیٹھے ہیں ۔ اے اللہ! ان کی فکر ، ہمدردی، اخلاص اور محنت کو دیکھ کر ساری دنیا کے انسانوں کے ہدایت کے فیصلے فرما دے ۔ایں دعا از من وجملہ جہاں آمین باد!
 
muhammad kaleem ullah
About the Author: muhammad kaleem ullah Read More Articles by muhammad kaleem ullah: 107 Articles with 120857 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.