داعی اسلام حضرت مولانا محمد کلیم صدیقی مدظلہ، پھلت
قرآن حکیم نے بڑے دو ٹوک انداز میں انسان کی رہنمائی کی ہے: ترجمہ” آسمانوں
میں ہے تمہارا رزق اور تم سے اس کا وعدہ ہے یعنی تم تک ہمارے وعدے اور مقدر
کا رزق پہنچانا ہمارے ذمہ ہے اور یہ ہمارے لیے کوئی مشکل یا اچنبھے کی بات
نہیں
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو معلوم ہوا کہ ان کے پڑوس میں جو جوان رہتا ہے اس
کے گھر میں فاقے ہورہے ہیں، حضرت علی کرم اللہ وجہہ بہت پریشان ہوئے گھر
میں ان کے بھی کب فراوانی تھی، مال غنیمت میں ملی ایک زرہ گھر سے اٹھائی کہ
بازار میں اس کو فروخت کریں گے اور اپنے پڑوسی کی مدد کریں گے راستہ میں
نماز کا وقت ہوگیا، زرہ مسجد کے باہر رکھی اور مسجد میں باجماعت نماز ادا
کی، نماز پڑھ کر آئے تو مسجد کے باہر وہ زرہ موجود نہیں تھی، بہت دل شکستہ
ہوئے کہ آج بھی پڑوس کے گھر میں فاقہ رہے گا مگر اس کے علاوہ گھر میں کوئی
اور ایسی چیز نہیں تھی کہ اس کے ذریعہ پڑوسی کی مدد کی جاسکتی، ایک رات اسی
فکر میں گزری۔
اگلے روز صبح کو گھر سے نکلے کہ کسی سے قرض لے کر ہی پڑوسی کیلئے کچھ نظم
کریں، ایک صحابی کو دیکھا کہ وہ ان کی زرہ لے کر جارہے ہیں، زرہ پر خاص قسم
کا نشان دیکھ کر پہچان لیا، ہماری طرح کا مسلمان ہوتا تو شور مچا کر چور
چور کہہ کر فوراً ذلیل کردیتا مگر وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ تھے جنہوں نے
اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی سنا تھا کہ سود کے ستر درجے
ہیں اور ادنیٰ درجہ کے سود کا گناہ اپنی ماں سے زنا کرنے کے برابر ہے اور
بدترین سود مسلمان کی آبرو ریزی کرنا ہے۔ اس لیے ضبط کیا، پہلے سلام کیا،
پھر احترام سے پوچھا کہ بھائی یہ زرہ آپ نے کہاں سے خریدی؟ انہوں نے بتایا
کہ یہ میں نے ایسے ایسے حلیہ کے ایک نوجوان سے کل شام خریدی ہے۔ حضرت علی
رضی اللہ عنہ نے سنا تو غم سے زمین پر بیٹھ گئے اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔
ان صحابی رضی اللہ عنہ نے معلوم کیا۔ اے علی رضی اللہ عنہ میں نے زرہ خریدی
ہے اس میں رونے کی کیا بات ہے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اپنے
بھائی کی ناسمجھی پر رو رہا ہوں یہ زرہ میں نے گھر سے نکالی تھی کہ اس کو
فروخت کرکے اس کے پیسے اسی نوجوان کو دوں گا جس نے چوری کرکے اسے بیچ لیا
اور اس نے حلال کو چھوڑ کر حرام قبول کرلیا۔
انسان کو مقدر سے زیادہ اور وقت سے پہلے نہیں ملتا، انسان کو اس کا اختیار
ہی نہیں کہ اپنے رزق کو کم یا زیادہ کرلے، اس لیے کہ ماں کے پیٹ میں اس کا
رزق، اس کی عمر اور موت کا بہانہ جان ڈالنے سے پہلے لکھ دیا جاتا ہے۔ انسان
کو صرف اتنا اختیار ہے کہ اس کو حلال کرلے یا حرام کرلے، کم زیادہ کرنے کا
اختیار نہیں۔
قرآن حکیم نے بڑے دو ٹوک انداز میں انسان کی رہنمائی کی ہے: ترجمہ” آسمانوں
میں ہے تمہارا رزق اور تم سے اس کا وعدہ ہے یعنی تم تک ہمارے وعدے اور مقدر
کا رزق پہنچانا ہمارے ذمہ ہے اور یہ ہمارے لیے کوئی مشکل یا اچنبھے کی بات
نہیں بلکہ آسمان و زمین کے پالن ہار اور پرورش کرنے والے کی قسم ہمارے لیے
یہ رزق کا مقدر کے مطابق آسمانوں سے اتارنا ایسا آسان اور سادہ بات ہے جیسی
روزمرہ کی تمام زندگی میں اپنی آنکھوں دیکھی باتوں کو تم تذکرہ کرتے ہو۔،،
مطلب یہ ہے کہ تمام دسترس سے باہر آسمانوں میں تمہارے مقدر کا رزق ہے اور
اتارنے والے ہم ہیں، جتنا ہم دیں گے اتنا ملے گا، پس تمہیں اس کی ذمہ داری
دی گئی ہے کہ اس کو حلال کرو، تمہارے کسب اور روزگار کی کوشش کی حیثیت یہ
ہے کہ اللہ کے یہاں سے رزق بٹ رہا ہے تم اپنا برتن سامنے کرو، اگر گندہ
برتن میں رزق لوگے تو گندہ ملے گا اور پاک صاف برتن میں لوگے تو پاک صاف
ملے گا یعنی حلال طریقہ اختیار کروگے تو پاک اور حلال وطیب رزق پائو گے
ورنہ گندا اور حرام اپنی غلط کوششوں، بے ایمانیوں اور دھوکے بازیوں سے اپنے
مقدر کا رزق ہرگز زیادہ نہیں کرسکتے اور رزق شریعت کی اصطلاح میں پیدائش سے
لے کر موت تک کام آنے والی ہر چیز کو کہتے ہیں، انسان زندگی بھر کتنی دوا
کھائے گا؟ کتنی ہوا کھائے گا؟کتنی دولت کا مالک ہوگا؟ کتنا کپڑا پہنے گا؟
کتنا پائی پیے گا؟ سب کچھ مقدر میں لکھا ہوا ہے اور اس تقدیر میں لکھے کے
مطابق آسمان سے رزق اترتا ہے مگر افسوس ہے کہ ہم مسلمان تقدیر پر ایمان کے
دعوے کے باوجود حلال وحرام کی فکر کے بجائے زیادہ کی فکر کرتے ہیں۔ حضرت
علی کرم اللہ وجہہ کی اس شکایت اور قرآن کریم کی اس آیت پر اگر انسان غور
کرلے تو روزگار کے سلسلے کی ساری بے اعتدالیوں سے انسان محفوظ ہوجائے۔
بشکریہ عبقری میگزین |