وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف نے چودہ سال بعد جب وائٹ
ہاؤس میں قدم رنجہ فرمایا تو ان کا یہ دورہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر
میں موضوع بحث بن گیا اور میڈیا میں بھی اس دورہ کے ریڈ کارپٹ استقبال سے
لے کر ایک جیسے سوٹوں تک کوخوب اہمیت دی گئی اس ساری exersizeکی ایک بڑی
وجہ حال ہی میں پاکستان اور طالبان کے مابین مزاکرات کی خبریں ،پاکستان کے
خراب معاشی حالات اور ماضی قریب میں پاکستان اور امریکہ کے مابین پیدا ہونے
والاتلخ ماحول تھا ۔یہ دورہ جہاں پاکستان اور امریکہ کے مابین مستقبل کے
تعلقات کی نشاندہی کرنے جارہا تھا وہیں یہ نوازشریف کی صلاحیتوں کا بھی
امتحان تھا جو اپنے دورہ سے قبل یہ اعلان کرتے نظر آئے کہ وہ امریکہ سے ایڈ
نہیں ٹریڈ کی بات کریں گے اس کے علاوہ انہوں نے مسئلہ کشمیرکو اٹھانے اور
ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی کوششوں کی بھی نوید سنائی قوم نے اس دورہ سے اس
لئے بھی بہت سی توقعات وابستہ کررکھی تھیں کہ اس نے میاں صاحب کی پارٹی کو
پیپلز پارٹی کی امریکہ نوازیت کے مقابلے میں مینیڈیٹ دیاتھا اس لئے قوم سوچ
رہی تھی کہ میاں صاحب پی پی کے مقابلے میں ملک کی باوقار طریقے سے نمائندگی
کریں گے لیکن افسوس ایسا کچھ بھی نہ ہوسکا جس کا مختصر سا جائزہ ہم یہاں آپ
کے سامنے پیش کرتے ہیں۔اس دورہ کی سب سے اہم چیز اگر ڈرون حملوں پر
پاکستانی موقف کو تسلیم کروانا ہونی چاہئے تھی تو غلط نہ ہوگا کیوں کہ
گزشتہ ماہ منعقد ہونیوالی اے پی سی میں تمام پارٹیوں نے طالبان سے مزاکرات
کا فیصلہ کیا تھا جس کو طالبان نے بھی سراہا اور کہا کہ وہ پاکستان سے
مزاکرات کیلئے تیار ہیں لیکن اس کیلئے ڈرون حملوں کی بندش ضروری ہے جس کو
درست بھی کہا جاسکتا ہے جس کی دووجوہات ہیں پہلی یہ کہ ماضی میں بھی
پاکستان اور طالبان کے مابین مزاکرات کے کئی دور منعقد ہوئے لیکن عین ایسے
وقت پر جب دونوں فریق کسی معاہدے پر متفق ہونے جارہے تھے امریکی ڈرون حملے
نے سب کچھ ختم کردیا بلکہ اس کے بعد طالبان کے حملوں میں بھی اضافہ ہوگیا
اور دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ڈرون حملے عالمی قوانین کی بھی کھلی خلاف ورزی
ہیں جس کا اظہار ہیومن رائٹس واچ اور ایمنٹسی انٹرنیشنل نے بھی حال ہی میں
اپنی مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا ہے بلکہ ایمنٹسی انٹرنیشنل کے قریب تو
امریکی ڈرون حملے غیرقانونی ہونے کیساتھ ساتھ جنگی جرائم کے زمرے میں بھی
آتے ہیں ایسے میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پاکستان اس معاملہ کو عالمی
عدالت تک لے جاتا اور عالمی برادی کے سامنے اپنے موقف کو بھرپور طریقے سے
پیش کرتے ہوئے فوراََ ان حملوں کی بندش اور مرنے والوں کیلئے بھاری ہرجانے
کا مطالبہ کرتا لیکن موجودہ حالات میں یہ سب تو دور کی بات اگر میاں صاحب
امریکہ کو ڈرونز سے کسی طریقے باز رہنے پوقائل ہی کرلیتے تو یہ بھی ان کی
بڑی کامیابی ہوتی لیکن اخباری اطلاعات یہ ہیں کہ امریکہ نے ڈرون حملے مکمل
طور پر بند کرنے سے صاف انکار کردیا ہے اگرچہ سرتاج عزیز کی جانب سے دسمبر
سے یہ حملے کم ہونے اورطالبان سے مزاکرات کے دوران ڈرون اٹیک نہ ہونے کی
خبریں بھی گرش میں ہیں جن پر صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ
ع خوشی سے مرنہ جاتے اگر اعتبارہوتا
دوسرا اہم نکتہ جس پر اگر پیشرفت ہوجاتی تو اس کو بھی ایک بڑی کامیابی
سمجھا جاتا وہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے امریکہ کے ذریعے بھارت پر دباؤ
ہوسکتا تھا لیکن ایسا تو کیا ہوتا الٹا امریکہ نے بھارتی لب و لہجے میں بات
کرتے ہوئے جماعت الدعوۃ پر پابندی کا مطالبہ کردیامزیدبرآں جب ڈاکٹر عافیہ
کا تذکرہ آیا تو اس نے اس موضوع پرتو بات بھی کرنے سے انکارکردیا البتہ
اپنی اصلیت دکھاتے ہوئے غدارِ پاکستان شکیل آفریدی کی رہائی کا مطالبہ اس
نے ضرورکیا۔
وزیراعظم صاحب ایڈ نہیں ٹریڈ کا نعرہ بھی لے کر امریکہ پہنچے لیکن وطن
واپسی پر ان کے دامن میں ٹریڈ کے وعدے اور ان کے کشکول میں ایڈ کے چندسکوں
کے سوا کچھ نہیں تھا ۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ امریکہ اگر پاکستان کے
ساتھ نیک نیتی سے تجارتی حجم بڑھالے اور اس کو بھارت کے مقابلے میں نصف
یعنی 26ارب ڈالر تک ہی لے جائے تو اس سے پاکستان کو ہونیوالی بچت کے مقابلے
میں امریکی امداد ''مونگ پھلی''کی حیثیت بھی نہ رہے گی۔لیکن صاف ظاہر ہے کہ
امریکہ ہمیں ایک خودکفیل اور خودمختار ملک کے طور پر دیکھنے کی بجائے
چندامدادی ٹکڑوں پر پلنے والے کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے لیکن دوسری جانب
ہمارا بھی یہ عالم ہے کہ ہم جو دوسرے کئی ممالک سے تجارت بڑھا کر خود کو
ترقی یافتہ ممالک میں شامل کروا سکتے ہیں خود بھی امداد کے چسکے سے باہر
نہیں نکلنا چاہتے''چھٹتی نہیں ہے کافر منہ سے ہے لگی ہوئی''
ہمارے مخالفین ہم پر ہنستے ہیں کہ ہم تو بہت کم قیمت پر اپنی خدمات پیش
کردیتے ہیں جس کی ایک مثال یہ ہے کہ دہشتگردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ میں
ہمارا نقصان توسوارب ڈالرسے بھی زیادہ ہے جبکہ ہم اس کے مقابلے میں
colletion sport fundکے نام پر اب تک ملنے والے محض 20ارب ڈالرپر ہی بغلیں
بجا رہے ہیں۔ قصہ مختصریہ کہ میاں نوازشریف کے اس دورہ کو مجموعی طور پر
ناکام ہی کہا جاسکتا ہے کیوں وہ ایک ایسے وقت میں امریکہ سے اپنا کوئی
مطالبہ منوانے میں کامیاب نہ ہوسکے جب کہ امریکہ کو 2014ء میں افغانستان سے
نکلنے کیلئے پاکستان کی اشد ضرورت ہے اور ایسے میں پاکستان امریکہ سے
بیشمار فوائد حاصل کرسکتا تھا لیکن ہم تو اپنے جائز مطالبات بھی منوانے میں
ناکام رہے ۔ |