برہنہ سر ہے تو عزم بلند پیدا کر

قاسم ایک ٹیکسی ڈرائیور ہے - پاکستانی ہے مگر کافی مدت سے برطانیہ میں آباد ہے . میں دو ہفتے بعد پاکستان سے لوٹا تو میں نے قاسم کوائیرپورٹ سے کال کی . قاسم نے مجھے دس منٹ میں باہر ملنے کا وعدہ کیا . میں بیگم اور بکسوں کے ساتھ لدا ہوا باہر نکلا تو قاسم مسکراتا ہوا میری جانب آیا ، ایک بیگ مجھ سے لیا اور بولا " خیر نال سارا صدر بازار ہی خرید لائے ہو؟" میں نے محسوس کیا کہ قاسم ٹھیک ہی کہہ رہا ہے ہم جب بھی کہیں جاتے ہیں تو یادیں کم اور سامان زیادہ خرید کر لاتے ہیں ، یہ میرا نہیں پوری قوم کا مسئلہ ہے . خیر ہم گاڑی میں بیٹھے اور تھکان سے نڈھال گھر کی جانب چلے .

قاسم نے پوچھا " میاں صاب دے پاکستان د ا کی حال اے ؟" میں نے قاسم سے پوچھا کہ وہ کس میاں صاحب ( صاب ) کی بات کر رہا ہے ؟ قاسم بولا "وہی میاں صاحب جو ابھی ابھی امریکہ کے صدر کو دا ل قیمہ کھانے کی دعوت دے کر آئے ہیں". قاسم بات کرتے ہوۓ کبھی اردو بولتا اور کبھی پنجابی . میں نے سامنے کے شیشے سے دیکھا تو میری بیگم گاڑی میں بیٹھتے ہی سو گئی شائد اسے ہماری باتوں میں کچھ خاص دلچسپی نہیں تھی یا پھر وہ بہت تھک گئی تھی . پاکستان سے واپسی کا سفر ہوتا بھی بڑا تکلیف دہ ہے . اسلام آبادائیرپورٹ پر پاکستان کسٹمز اور نارکوٹکس کے محکمے کے حکام سے سر کھپائی کے بعد انسان اتنا تھک جاتا ہے کہ آگے کے آٹھ گھنٹے اس تکلیف میں گذرتے ہیں جو لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتے . وہ محبت جو بیرون ملک بستے ہوۓ اپنے وطن کے لیے پیدا ہوتی ہے نفرت کے جذبات میں تبدیل ہو چکی ہوتی ہے اور انسان سوچتا ہے کہ اب وہ کبھی بھی واپس پاکستان نہیں جائے گا . مگر پھر وہی جذباتی رشتے ، ماں ، باپ ، وطن کی مٹی اور دوست احباب سب کے سب یاد آتے ہیں اور ہزاروں قسموں کے باوجود پی آئی آئے کے دفتر جانا مجبوری بن جاتی ہے . درحقیقت پاکستان میں اشرافیہ نے ایک ایسا نظام رائج کر دیا ہے کہ عام شخص یا تو تذلیل کے بعد خودکشی کر لیتا ہے یا پھر بندوق اٹھا کر "طالب " بن جاتا ہے . خیر پاکستان میں یہ سب ہوتا ہے اور اب سب کو اس کی عادت ہے . کسٹمز ، نارکوٹکس والے اور پولیس ایک منظم جرائم پیشہ تنظیم کی طرح پاکستان اور پاکستانیوں کا استحصال کرتے ہیں . ان میں اور مجرموں میں فرق یہ ہے کہ مجرم باوردی نہیں اور یہ باوردی ہیں . پاکستان کے وزرا اور خاص کر وزارت داخلہ کا اپنے محکموں پر کنٹرول بس اتنا ہے کہ وہ" سب اچھا ہے "کی رپورٹ پڑھ لیتے ہیں اور پروٹوکول کے مزے لیتے ہیں . پاکستان دنیا کا واحد ملک ہو گا جہاں ائیرپورٹ پر صرف ایک بیگ پر لگے ٹیگ کی جانچ کرنے کے لیے پانچ لوگ پانچ جگہوں پر آپکو روکتے ہیں اور ٹیگ پر لگی مہر چیک کرتے ہیں . اس مہر کا اور اس ٹیگ کا نہ تو داخلی یا خارجی سیکیورٹی سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت مگر چونکہ سیاست دانوں کو اپنے بندے کھپانے ہیں اس لیے اس طرح کے کئی پانچ لوگ ملکر ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں ملکی معیشت کا جنازہ نکال رہے ہیں . یہی حال قومی ائیر لائین کا ہے . قومی ائیر لائن کا زمینی عملہ ضرورت سے زیادہ اور اس قدر آرام طلب ہے کہ انہیں کچھ فکر نہیں کہ مسافر کتنا پریشان ہے اور اسکی سفری مشکلات کیا ہیں .

پولیس والے ہیں تو وہ خود ہی اپنی عدالتیں لگائے بیٹھے ہیں . اگر پاکستان میں کہیں کوئی عزت ہے تو ان فوجی سپاہیوں کی ہے جو زمانہ امن میں بھی وطن کی حفاظت سرحدوں پر اور شہریوں کا تحفظ ناکوں پر کر رہے ہیں . پولیس جہاں کہیں ناکے پر کھڑی ہے سمجھیں وہیں کوئی زیادتی ہونے والی ہے . جرائم کا خاتمہ کرنے والے جرائم پیشہ ہیں . یہ ایک بہت طویل اور ہمیشہ سے جاری وہ اذیت ناک داستان ہے جس کا کوئی حل نہیں . چوہدر ی نثار اور ان سے پہلے عبدل رحمان ملک بس ٹی وی پر خبر دینے آتے ہیں ورنہ ناکوں پر ہونے والے مظالم میں نہ کمی آئی اور نہ آئے گی . جب تک پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں مکمل کلین اپ نہیں ہوتا نہ تو پولیس دہشتگردوں کو پکڑ پائے گی اور نہ ہی ان کے منہ سے رشوت کی رال ٹپکنا بند ہو گی . جس ملک کی پولیس کو اسلحے کا استعمال نہ آتا ہو اور جو صرف سیاستدانوں کی باجگزار ہو ان سے تو وہ چوکیدار ہی اچھے ہیں جو راتوں کو" جاگتے رہو" کی آواز لگا کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں .

قاسم گاڑی چلا رہا تھا اور میں سفر کے آخری مرحلے سے جان چھڑانے اور گھر پہنچنے کی جلدی میں تھا . جیسے ہی گاڑی مین روڈ پر پہنچی سامنے ایک حادثے کی وجہ سے ٹریفک رک گئی . اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا . انتظار کرنا مجبوری بن گئی ، میں نے شیشے سے دیکھا بیگم سو رہی تھی . مجھے بھی نیند آ رہی تھی . قاسم نے مجھے دیکھا تو بات شروع کر دی ، بولا " پاکستان میں کچھ تبدیلی آئی یا کہ سب ویسا ہی ہے ؟ کیا نئی حکومت نے کوئی جادو یا جنتر منتر کیا ہے ، بجلی اور روزگار کے وعدے پورے کیے ؟" میں نے قاسم کو بتایا کہ پاکستان میں ہر چیز اسقدر مہنگی ہے کہ غریب کے لیے جینا مشکل ہوگیا ہے . قاسم نے بڑا طویل جواب دیا وہ بولا "پاکستان میں کچھ نہیں بندلے گا ، بدلے بھی تو کیسے ؟پاکستان عجیب ملک ہے ، اس کے کھیتوں ، کھلیانوں ، صحراؤں ،پہاڑوں اور سمندری ساحل پر جہاں جہاں انسان بستے ہیں کسی نہ کسی صورت وہ اسے نقصان پہنچا رہے ہیں مگر پاکستان ہے کہ ویسے کا ویسا ہی ہے . دنیا کے بلند ترین پہاڑ یہاں ہیں اور دنیا کے سب سے زیادہ کرپٹ اور وطن فروش حکمران بھی یہیں ہیں .

یہاں ایک جوان جب گھر سے نکلتا ہے تو اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ وہ واپس زندہ گھر جائے گا ، یہاں کا میڈیا کرپٹ اور صحافی بکا ہوا ہے ، یہاں پولیس کا نظام کچھ گھرانوں کا چاکر اور مکمل طور پر ناکام ہے ، یہاں نہ تو شرم عام ہے اور نہ ہی حیا کا چلن عام ہے ،یہاں مواصلات کے تمام نظام خسارے میں ہیں . ہر شخص کرپشن سے آگے جانے اور کامیاب ہونے کی کوشش کر رہا ہے . عوام اس قدر جذباتی ہے کہ انہیں جو کوئی جہاں کا راستہ دکھا دے وہ وہیں کی رہ لے لیتے ہیں . ٹی وی پہ بیٹھے مہنگے سوٹوں میں ملبوس غلط اردو بولتے اینکرپرسن خود کو نہ صرف پالیسی میکرز سمجھتے ہیں بلکہ وہ میڈیا کے شہنشاہ بنے بیٹھے ہیں . ان میڈیا کے شیروں نے پچھلے دس پندرہ سالوں میں بے تحاشہ مال کمایا اور اب پولیس کا کام شروع کر دیا ہے . بے لگام اور ان پڑھ لوگ اب ٹی وی شو ہوسٹ ہیں جو پاکستان کے حق میں نہیں بلکہ پاکستان کے خلاف کبھی امن کی آشا کے گیت گاتے ہندوستان کی گود میں جا بیٹھتے ہیں تو کبھی وہ عالمی امدادحاصل کرنے کے لیے پاکستان ، اسلام اور روحانیت کا مذاق اڑانے سے بھی گریز نہیں کرتے . میں نے تو یہاں تک سنا ہے کہ ان میں سے کچھ ایسے صحافی بھی ہیں جو اپنے محسن جاگیر داروں اور سیاستدانوں سے باقائدہ تنخواہ لیتے ہیں اور وقت آنے پہ کسی بھی بڑی ڈیل کا یہ حصہ ہوتے ہیں . آپکو آزاد کشمیر کی تحریک عدم اعتماد کا حال تو معلوم ہوگا ، میں یہاں رہتا ہوں ، ٹیکسی چلاتا ہوں اور روزانہ بیسیوں کشمیری ٹیکسی ڈرائیوروں سے ملتا ہوں . میرپور کا ایک ٹیکسی ڈرائیور جو آزادکشمیر کے وزیر اعظم کی برادری کا ہے نے مجھے بتایا ہے کہ چوہدری صاحب نے دو صحافیوں کو میاں نواز شریف کے دفتر تک ایک پیغام پہنچانے کے لیے کروڑوں روپے کی بخشیش دی اور اچھی خاصی تحریک رک گئی کیونکہ پی ایم ایل این ( آزاد کشمیر ) نے اسلام آباد سے آنے والے احکامات کے بعد اس تحریک میں حصہ لینے سے انکار کر دیا . اس سب کے باوجود کہ پاکستان دشمن طاقتیں مکمل طور پر پاکستان کے تمام محکموں میں سرایت کر چکی ہیں پاکستان قائم ہے .کوئی کراچی کی صورت حال پر پریشان ہے تو کسی کو خیبر پختونخواہ میں ہونے والے ڈرون حملوں اور دھماکوں کی تشویش ہے ، کوئی پنجاب میں پیش آنے والے حادثات پر کان پکڑتا ہے تو کسی کو بلوچستان کے بگڑتے حالات سونے نہیں دیتے . چاروں صوبوں اور وفاق میں حالات ایسے ہیں کہ بس اللہ ہی مالک ہے.دشت گردی نے پاکستان کو دہشت زدہ کر دیا ہے . یہ وہ سب عوامل ہیں جن پر ہر رو ز بات ہوتی ہے اور اخبارات کے پیٹ بھرے جاتے ہیں ، ٹاک شوز ہوتے ہیں ، ضمیمے چھپتے ہیں اور فضول بحث ہوتی ہے . سب ان مسائل کا رونا روتے ہیں مگر حل کوئی نہیں بتاتا ".

یہ ٹیکسی ڈرائیور قاسم کا تجزیہ تھا ، ایک ایسا شخص جو پاکستان سے دور ہے اور پاکستان کے مسائل سے اس قدر واقف ہے کہ اسے وہاں کی تبدیلیوں اور مشکلات کا غم ایسے ہی ہے جیسے ایک پاکستانی کو ہونا چاہیے . قاسم کا تجزیہ ٹھیک ہے ، قاسم کے الفاظ میں سختی ضرور تھی مگر باتیں سب سچ تھیں .

میں نے قاسم سے پوچھا کہ وہ مجھے حل بتائے . قاسم نے کہا " خیر نال حل تے سارے جاندے نے ، ڈردے نے ، روٹیاں جے لگیاں ہونیاں نے ( خیر سے حل سب جانتے ہیں ، ڈرتے ہیں ، روٹیاں جو لگی ہوئی ہیں ). میں نے قاسم سے کہا کہ میرے جیسے کم علم آدمی کے لیے ہی اس کا حل بتا دے . قاسم بولا " سب سے پہلے شیر پاؤ اور عبدل رحمان ملک کو گرفتار کیا جائے اور پاکستان کے شناختی کارڈ افغانوں کو بیچنے کا مقدمہ چلایا جائے ، پھر پاکستان سے تمام افغانوں کو ہاتھ جوڑ کر جلال آباد اور قندھار کی سرحدوں تک چھوڑا جائے اور گزارش کی جائے کہ اپنے ملک جاؤ تم نے ہمارا بہت بیڑہ غرق کر لیا ہے " میں نے پوچھا " کیا اس سے پاکستان کی افغان پالیسی پر اثر نہیں پڑے گا اور شیر پاؤ صاحب اور ملک صاحب کا کیا قصور ہے ؟" قاسم بولا " لگتا ہے آپ بہت ہی کم علم ہیں . شیر پاؤ اور ملک نے جو تباہی کی ہے اس کا اثر سارا پاکستان برداشت کر رہا ہے ، لاکھوں کی تعداد میں افغان پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ لیے پاکستان میں گھوم رہے ہیں ، پاکستان ان کے لیے دبئی ہے . یہاں جرم کرتے ہیں اور کابل چلے جاتے ہیں . جہاد افغانستان میں ضیاء صاحب نے جو احسان ان پر کیا اس کا بدلہ یہ ایسے دے رہے ہیں کہ انہوں کے پاکستان کو اپنی بلیک مارکیٹ بنا لیا ہے . کھاتے پیتے پاکستان کا ہیں کام انڈیا کے لیے کرتے ہیں اور جب باہر دنیا میں جاتے ہیں تو پاکستان کو گالیاں دیتے ہیں . کچھ عرصہ پہلے افغان فوج کے سربراہ نے پاکستان کو بی بی سی پر ایک دہشت گرد ملک قرار دینے کی مانگ کی ."

قاسم بہت جذباتی تھا ، اس نے بات جاری رکھی ، بولا " پاکستان میں کوئی ایسی جگہہ نہیں جہاں افغان نہ ہوں ، کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی پاکستانی اسی آزادی سے کابل میں گھومے ، پھرے اور موج مستی کرے ؟ آپ کی عمر تھوڑی ہے ، ذرا تاریخ اٹھا کر دیکھیں ، آج اگر پاکستان کا کوئی شہری کابل میں کسی جرم میں پکڑا جائے تو اسے الٹا لٹکایا جائے گا اس کی کھال ایسے کھینچی جائے گی جیسے ماضی میں دشمنوں کی کھینچی جاتی تھی ".

قاسم نے ایک اخباری خبر کا حوالہ دیتے ہوۓ بتایا کہ اس وقت بھی افغانستان میں ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی قیدی ہیں جنہیں وہاں کے سردار کبھی امریکہ کو بیچتے ہیں اور کبھی انڈیا کو . ایک پاکستانی کو افغانستان کا تین مہینے کا ویزہ ملتا ہے مگر پاکستان چونکہ مال مفت دل بے رحم کی مثل ہے اسی لیے سبزی منڈیوں سے تجارت کے مراکز تک ہمارے ان مہمانوں کا قبضہ ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں . نہ کوئی ورک پرمٹ اور نہ ہی کوئی ویزہ . اب ان میں سے کون کون پاکستانی وزیروں اور اشرافیہ پر پیسہ لگاتا ہے سوچنے کی بات ہے ".

میں قاسم کے نقطۂ نظر سے متاثر تو تھا مگر مجھے حیرانگی اس بات پر تھی کہ قاسم جیسے شخص کو اللہ پاک نے ٹیکسی چلانے کو دے دی اور رحمان ملک اور اب چوہدری نثار کو وزارت داخلہ . کاش قاسم جیسی سوچ والے پاکستانی وزیر بھی ہوتے .

قاسم کا غصہ سمجھ میں آتا ہے . آج برطانیہ میں ایک سخت امیگریشن پالیسی کا نفاذ ہے اور یورپ سے جو کوئی بھی برطانیہ آتا ہے اسے ان قوانین کا احترام کرنا ہوتا ہے ورنہ اسے نکال دیا جاتا ہے . مگرپاکستان میں عام مزدوری سے تجارت تک ہر جانب افغان دوست نظر آتے ہیں . کاش پاکستان میں بھی کنٹرولڈ امیگریشن پالیسی ہوتی . وسائل زیادہ ہوتے اور مسائل کم . خیر قاسم کے شکوے سنتے سنتے ہم گھر آ گئے اور میں نے ٹیکسی سے سامان نکالا ، قاسم کو پیسے دیے اور گھر میں داخل ہوا . ساری رات مجھے قاسم کی باتیں تنگ کرتی رہیں . صبح میں نے سامان کھولا تو میرے بیگ میں " کلیات اقبال " کا نسخہ پڑا تھا جو میں نے فیصل مسجد کی بک شاپ سے خرید ا تھا . میں نے اسے کھولا تومیری پہلی نظر بال جبریل پر پڑی ، حضرت علامہ اقبال نے سالوں پہلے کہا تھا
رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک
ترا سفینہ کہ ہے بحربے کراں کے لیے
نشان راہ دکھاتے تھے جوستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مرد راہ داں کے لیے
نگاہ بلند ، سخن دلنواز ، جاں پر سوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے

مگر افسوس قائد کے بعد پاکستان کو کوئی میر کارواں نہیں مل پایا . جو امیر ملے انھیں آج قاسم جیسے درد دل رکھنے والے پاکستانی اچھے الفاظ سے یاد نہیں کرتے . اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ میری یہ سطور پاکستان کے وزرا یا حکومتی مشنری تک پہنچ پائیں کیونکہ ان میں سے کوئی بھی اخبار نہیں پڑھتا ہو گا مگر پھر بھی اگر کوئی ٹی وی اینکر کہ جسکی رسائی ایوان اقتدار تک ہے ، حضرت اقبال کے یہ الفاظ میاں نواز شریف تک پہنچا دیں تو یہ ایک بہت بڑی قومی خدمت ہو گی .
حدیث دل کسی در ویش بے کلیم سے پوچھ
خدا کرے تجھے تیرےمقام سے آگاہ
برہنہ سر ہے تو عزم بلند پیدا کر
یہاں فقط سر شاہیں کے واسطے ہے کلاہ

----------------------------- ختم شد -------------------------------

Anwaar Raja
About the Author: Anwaar Raja Read More Articles by Anwaar Raja: 71 Articles with 76357 views Anwaar Ayub Raja is a professional Broadcaster, voice over artist and linguist for Urdu and Mirpuri languages. Soon after graduating from University o.. View More