سوات کی گُل پوش وادیوں ، چشموں اور جھرنوں کے درمیاں ایک
بُلبُل کی اپنے گُل کے لیے پُکار سنائی دی جو پربتوں کی ساری شہزادیوں کو
چونکا گئی ۔یہ ’’گُل مکئی‘‘ تھی جسے’’ علم ‘‘ نامی گُل سے والہانہ عشق تھا
۔گُل مکئی کے اِِس پیار کی مہکار نے سوات کی جنت نظیر وادیوں کے حسن کو چار
چاند لگا دیئے اور ہر نوخیز کلی یہ پکار اُٹھی ’’میں گُل مکئی ہوں ، میں
گُل مکئی ہوں‘‘۔گُل مکئی کی ڈائری کے اوراق نے وقت کی طنابیں کھینچ دیں اور
اسپِ تازی عَلمِ عِلم لہراتا بگٹ ہواؤں کے دوش پہ سوار ہو گیا ۔اِس گُل
مکئی کے قلمی نام سے لکھنے والی نوخیز کلی کا تعارف اُس کے باپ ضیاء الدین
یوسف زئی نے ’’ملالہ‘‘ کے نام سے کروایا اور جب طالبان نامی قابلِ نفرت
وحشی درندے اُس پر حملہ آور ہوئے تو وادیٔ سوات ہی نہیں پاکستان کی ہر بچی
پکار اُٹھی ’’میں ملالہ ہوں ، میں ملالہ ہوں‘‘۔طالبان سے نفرت اور ملالہ سے
محبت کا یہ عالم تھا کہ اُس وقت اگر کسی لکھاری نے ملالہ کے خلاف لکھا یا
کسی عالمِ دیں نے کچھ کہنا چاہا تو سبھی اُس کی مخالفت پر اُتر آئے ۔الیکٹرانک
میڈیا پر ملالہ کو بھرپور کوریج دی گئی اور ہر چینل ایک ایک لمحے کی خبر
عوام تک پہنچاتا رہا ۔پرنٹ میڈیا پر بھی یہی عالم تھا اور شاید ہی کسی اور
سانحے پر اتنے کالم لکھے گئے ہوں جتنے ملالہ پر قاتلانہ حملے کے خلاف لکھے
گئے ۔ہر شخص طالبان کے خلاف اپنی بھرپور نفرت کا درانہ اظہار کر رہا تھا
اور یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ کوئی ملالہ کے خلاف بات کرے اور بچ کر نکل جائے
۔ اتنے شدید عوامی ردِ عمل کی طالبان کو ہر گز توقع نہیں تھی اِس لیے وہ
حیران و پریشان تھے کہ اُن سے یہ احمقانہ حرکت کیسے سرزد ہو گئی ۔ لیکن جب
سے ملالہ یوسف زئی کی کتاب’’میں ملالہ ہوں‘‘ منظرِ عام پر آئی توہر
پاکستانی بچّی ایک دفعہ پھر پکار اُٹھی ’’میں ملالہ نہیں ، ہر گز نہیں‘‘
اور ہر با غیرت باپ یہی کہتا نظر آیا کہ ’’ موت قبول ہے لیکن ضیاء الدین
یوسف زئی بننا قبول نہیں ، ہرگز نہیں‘‘۔
جب بھولی صورت والی ملالہ پر وحشی طالبان نے قاتلانہ حملہ کیا تو اُس وقت
میں نے اُس کی صحت یابی کے لیے ڈھیروں ڈھیر دعائیں مانگیں، اُس کی حالت سے
آگہی کے لیے پہروں نیوز چینلز سے جُڑی رہی ۔ ایک ماں ہونے کے ناطے میں چشمِ
تصور سے ملالہ کی ماں کی بے کسی اور بے بسی کے نقشے کھینچتی اوراُس کَرب کے
تخمینے لگاتی رہی جس سے ملالہ کی ماں گزر رہی تھی۔شاید وہ میری زندگی کا
پہلا دن تھا جسے میں نے بنا کچھ کھائے پیئے گزار دیا۔میرے میاں نے میرے اِس
زبردستی کے ’’روزے‘‘ پر مجھے سمجھانا چاہا لیکن میں تلخ ہوتی چلی گئی ،حتیٰ
کہ میں نے اُنہیں طالبان کا ساتھی تک کہہ دیا جس کا مجھے زندگی بھر افسوس
رہے گا ۔برمنگھم کے ہسپتال میں ملالہ کی مکمل صحت یابی تک میں اسی کی خبروں
کے گرد گھومتی رہی ۔ملالہ کی صحت یابی کے بعدجب اہلِ یورپ نے اُس پر
ایوارڈز اور نوازشات کی بارش کر دی تو میں چونک اُٹھی۔ربّ ِ کریم نے کتابِ
مبین میں پوری قطیعت سے یہ فیصلہ صادر فرما دیا ہے کہ یہودی اور نصرانی
مسلمانوں کے کبھی دوست نہیں ہو سکتے اِس لیے میں حیران تھی کہ پاکستان کی
ایک مسلمان لڑکی پر اتنی نوازشات کیوں؟۔ایک طرف توسکول کے 80 معصوم بچوں کو
ڈرون کی غذا بنا دیا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف سوات کے ایک سکول کی پندرہ
سالہ بچی کو آسمان کی رفعتوں تک پہنچا نا سمجھ سے بالا تر تھا۔ ملالہ کو
ملنے والے ایوارڈز کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا اور شاید ہی کوئی ایسا
ایوارڈ بچا ہو جو ملالہ کا نصیبہ نہ ٹھہرا ہو ۔اُسے امن کے عالمی نوبل
ایوارڈ کے اُمیدواروں کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا اور جب یہ انعام کسی
اور کی جھولی میں جا گرا تو لکھنے والوں نے یہاں تک لکھ دیا کہ ملالہ کا قد
اِس ایوارڈ سے بھی اونچا ہے ۔انتہائی محترم جناب حامد میر نے تو عالمِ غیض
میں یہاں تک کہہ دیا کہ ’’اب شایدملالہ کے مخالفین کے سینوں میں ٹھنڈ پڑ
گئی ہو گی‘‘۔میں نے یہ سوچ کر اپنے آپ کو مطمعن کرنے کی کوشش کی کہ چونکہ
اہلِ یورپ و امریکہ طالبان کے شدید مخالف ہیں اِس لیے ملالہ پر نوازشات کی
بارش ہو رہی ہے ۔
پھر خبر آئی کہ ملالہ کی خود نوشت ’’آئی ایم ملالہ‘‘ عنقریب منظرِ عام پر آ
رہی ہے ۔میرا خیال تھا کہ سچّے اور سُچے جذبوں میں گُندھی ملالہ کی تحریر
ٹھَک سے دل میں اُتر جائے گی اور اِس معصومانہ تحریر کی بدولت نسلِ نَو کے
اندر انگڑائیاں لیتا خونِ گرم ’’علمی انقلاب‘‘ کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔ جس
میں یقیناََ نصرت و تائیدِ ربی بھی شامل ہو گی کیونکہ ربّ ِکردگار اپنے
عالم بندوں سے ہی پیار کرتا ہے اور اُس کا تو اپنے محبوب ترین نبی ﷺ کے لیے
بھی اوّلین پیغام یہ تھا کہ ’’پڑھ اپنے ربّ کے نام سے جس نے تمہیں تخلیق
کیا ‘‘۔اور یہ بھی اُسی کا فرمان ہے کہ ربّ کو جاننے والے اُس کے عالم بندے
ہیں ۔علم کی فضیلت کو میرے آقاﷺ نے یوں بیان فرمایا ہے کہ ’’ایک عالم ایک
ہزار عابدوں سے وقیع ہے ‘‘۔ لیکن جب میں نے ’’آئی ایم ملالہ‘‘ جستہ جستہ
پڑھی تو میری ملالہ کے ساتھ ہمدردی کراہت میں بدل گئی ۔کچھ لوگ یہ کہتے ہیں
کہ ملالہ کی معصومیت کو اُس کے باپ ضیاء الدین یوسف زئی اور برطانوی صحافی
کرسٹینا لیمب نے مل کر کَیش کروایااور’’آئی ایم ملالہ‘‘ ضیاء الدین یوسف
زئی اورکرسٹینالیمب کی مشترکہ کاوش ہے کیونکہ اِس کتاب میں جو تاریخی حوالے
دیئے گئے ہیں اور جس طرح تحریر پر مضبوط گرفت نظرآتی ہے وہ ایک منجھے ہوئے
لکھاری کا کارنامہ ہی ہو سکتا ہے ایک پندرہ سالہ بچی کی کاوش نہیں۔میں
سمجھتی ہوں کہ جس نے بھی یہ کتاب لکھی ، اُس نے اپنے خبثِ باطن کے ذریعے بہ
اندازِ حکیمانہ اسلام اور پاکستان کو بدنام کرنے کی بھرپورسعی کی ہے۔مجھے
تجزیہ نگاروں کے تجزیوں سے اِس حد تک تو مکمل اتفاق ہے کہ یہ کتاب ملالہ کی
بجائے کرسٹینا لیمب نے لکھی اور ضیاء الدین یوسف زئی نے مواد فراہم کیا
کیونکہ ایک پروفیسر ہونے کے ناطے میں پندرہ سولہ سالہ لڑکیوں کی ذہنی
استعداد سے بخوبی آگاہ ہوں اور وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ ایسی پختہ تحریر
اِس عمر کی لڑکیوں کے بَس کا روگ نہیں۔البتہ ملالہ کو معصوم کہنے والوں سے
مجھے بھرپوراختلاف ہے ۔وہ اتنی بھولی اور معصوم ہر گز نہیں جتنی نظر آتی ہے
۔ویسے بھی پندرہ ، سولہ سال کی لڑکی کو بچی ہر گز نہیں کہا جا سکتا اور اُس
وقت تو وہ ہر گز بچی نہیں رہتی جب ضیاء الدین یوسف زئی جیسا شاطر سائے کی
طرح اُس کے ساتھ جُڑا ہو ۔
ملالہ نے پاکستان ، افواجِ پاکستان اور علماء کے خلاف جی بھر کے اپنے دل کی
بھڑاس نکالی ۔وہ اپنی کتاب میں ایک طرف توآمر مشرف کی تعریف و توصیف کرتی
ہے جبکہ دوسری طرف آئی۔ایس۔آئی اور فوج کو طالبان کا ساتھی اور ہمدرد ظاہر
کرتی ہے ۔پاکستانی علماء کے بارے میں اُس کا اندازِ تحریر انتہائی تحقیر
آمیز ہے ۔قوم شاید اُسے اِس کوتاہی پر معاف کر دیتی( جس میں، مَیں تو
بہرحال شامل نہیں)لیکن اُس نے توگستاخِ رسولﷺ ملعون سلمان رُشدی کو بھی اِس
قسم کی’’ خبیثانہ آزادیٔ رائے‘‘ کا اختیار دے دیا جس پر عالمِ اسلام کے ہر
مسلمان کا تڑپ اُٹھنا ہی عین اسلام ہے۔ملعون رشدی نے ’’Satanic Verses‘‘
لکھ کر پورے عالمِ اسلام کے جذبات پر کاری ضرب لگائی جس پرپورے عالمِ اسلام
میں شدید احتجاج ہوا اوربہت سے اعتدال پسند مغربی مصنفین نے بھی بھرپور
مذمت کرتے ہوئے اِس کتاب کو گھٹیا درجے کی کاوش قرار دیا ۔دنیا جانتی ہے کہ
ہم سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں لیکن کسی گستاخ ِ رسولﷺکے حق میں لکھا گیا
ایک لفظ بھی ہماری غیرتِ ایمانی پر تازیانہ ہے۔ لیکن ملالہ کی نزدیک ملّا
اور اُن کے حواری سلمان رشدی جیسوں کی آزادیٔ اظہارکا حق چھین رہے ہیں
۔شاید وہ گُم کردہ راہ لڑکی اور اُس کا ایمان فروش باپ نہیں جانتے کہ یہ
معاملہ ہمارے عقیدے اور ایمان کا ہے اور ہم اپنے آقا و مولاﷺ کی حُرمت و
ناموس کی خاطر اپنی جان تک کو بھی نثار کر دینا عین عبادت سمجھتے ہیں ۔ضیاء
الدین یوسف زئی نے تو اپنی بیٹی کو یورپ اور امریکہ میں قابلِ قبول بنانے
کے لیے یہ گھٹیا ہتھکنڈا استعمال کیا لیکن ہمارا جذبۂ ایمانی کسی گستاخ یا
اُس کے حواری کو کسی بھی قسم کی زباں درازی کی ہر گز اجازت نہیں دیتا
۔ملالہ کہتی ہے کہ پہلے وہ ڈاکٹر بننا چاہتی تھی لیکن اب اُس کی نظریں
پاکستان کی وزارتِ عظمیٰ پر ہیں لیکن ہم کہتے ہیں کہ ’’آئی ایم ملالہ‘‘
جیسی گھٹیا کتاب لکھنے کے بعد اُس نے پاکستان واپسی کے سارے راستے مسدود کر
دیئے ہیں ۔بلّی اگر چھیچھڑوں کے خواب دیکھتی ہے تو یہ اُس کا حق ہے ۔ویسے
بھی خواب دیکھنے میں ہرج ہی کیا ہے ۔ |