ہمارا کل اور آج

پاکستانی زندگی کی ہر سطح پر پھیلی ہوئی کرپشن کا جب حال سامنے آتا ہے تو سادہ دل پاکستانی سخت پریشان اور پشیمان ہو جاتے ہیں۔ یہ سب بے قصور ہیں، ہمارے حکمرانوں کی کرپشن کے قصے آپ نے بہت سنے ہیں کیونکہ یہ اب عالمی شہرت رکھتے ہیں اور ان کی کہانیاں دنیا بھر میں مزے لے لے کر بیان کی جاتی ہیں۔ زیادہ وقت نہیں ہوا کہ امداد دینے والے ملکوں کے ایک اجلاس میں کئی ملکوں کے نمایندوں نے پاکستان نمایندوں کے منہ پر کہا کہ انھیں کچھ نہ دو یہ سب خود کھا جائیں گے۔ ادھر کچھ عرصے سے ہمارے اخبار نے روزانہ بجلی اور گیس کی چوری کی وارداتیں بیان کرنی شروع کی ہیں اور صاف لگتا ہے کہ اس ملک کے چھوٹے بڑے کارخانے چوری پر چلتے ہیں اور یہ سلسلہ دور دور تک پھیلا ہوا ہے۔
فیکٹری والوں کی دیدہ دلیری حیران کن ہے، وہ تھوک میں پکڑے جا رہے ہیں، جرمانوں کی سزائیں پا رہے ہیں، اخبار میں نام چھپ رہے ہیں لیکن یہ سلسلہ جاری ہے۔ ان کی دیدہ دلیری پر تعجب ہوتا ہے اور جس وسیع پیمانے پر یہ سلسلہ چل رہا ہے ظاہر ہے کہ بجلی اور گیس کے متعلقہ سرکاری ادارے بھی اس چوری میں شامل ہیں ورنہ اتنے بڑے پیمانے پر یہ چوری کیسے ہو سکتی ہے اور پھر کیسے مسلسل جاری رہ سکتی ہے۔ کچھ عرصہ سے حکومت کی طرف سے بجلی اور گیس کی چوری کے خلاف مہم جاری ہے اور یہ پکڑ دھکڑ اسی مہم کی وجہ سے ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ ملک چوروں اچکوں کے لیے بنایا گیا تھا یا پھر چور اچکے اس پر قابض ہو گئے۔ میری معلومات کے مطابق شروع میں یہ ملک شریفوں کا ملک تھا یہاں دیانت و امانت اور خوش انتظامی رائج تھی لیکن پھر کیا ہوا کہ نیکی شکست کھا گئی اور بدی غالب آ گئی۔

میں جب یہ آج کا غیر اسلامی اور غیر پاکستانی ماحول اور عمومی قومی رویہ دیکھتا ہوں تو مجھے بے ساختہ وہ وقت یاد آتا ہے جب گائوں کی مسجد میں قیام پاکستان کی اطلاع ملی اور دیہاتیوں میں اس پر گفتگو شروع ہوئی، رمضان المبارک کی اس ستائیسویں تاریخ کی برکات قوم کے قول اور فعل پر چھائی ہوئی تھیں۔ مسلمانوں نے کہا کہ ہم تاریخ میں ایک بار پھر وہ زمانہ زندہ کریں گے، اس کی شان واپس لائیں گے جب اسلام کو دنیا بھر میں پھیلا دیا گیا تھا اور دنیا کی یہ سپر پاور پھیلتی چلی جا رہی تھی اور یہ سب ملک گیری نہیں تھی بلکہ تاریخ کی شہادت ہے کہ یہ انسانی فلاح کی ایک تحریک تھی جس کی اولین قیادت باکمال اور بے پناہ دیانت والے لوگوں کے پاس تھی۔ ہمارے ان حکمرانوں کے زندگی کے بارے میں عام رویے ملاحظہ کیجیے۔

یہ صرف ایک سرسری سی بات ہے۔ پہلے خلیفہ اور حکمران وفات پانے والے تھے اور یہ رسول پاک صل اللہ علیہ و سلم کے بعد دوسرے بڑے شخص تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق نے جب دیکھا کہ ان کا آخری وقت آ گیا ہے تو انھوں نے اپنی مالیاتی ذمے داریوں کی ادائیگی کے احکامات دیے کہ میری جائیداد بیچ کر قرض ادا کر دینا اور بیٹی سے کہا کہ مجھے اپنے انھی کپڑوں میں دفنا دینا کیونکہ نئے کپڑے زندہ لوگوں کے لیے ہوتے ہیں، مردوں کے لیے نہیں۔ ایسی بے مثال بات کسی حقیقی مسلمان حکمران کو ہی سوجھ سکتی ہے جس کی زندگی عوامی خدمت میں گزر گئی۔ اگر میرے اختیار میں ہو تو میں ایک خصوصی عدالت اس مقصد کے لیے قائم کروں جو ہمارے آج کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں کی زندگیوں کو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے معیار پر دیکھیں اور سزا اور جزا کے فیصلے دیں۔ ہمارے بانی مسلمان حکمرانوں کی زندگیاں کوئی غیر معمولی اور عام انسانی طاقت سے باہر نہیں تھیں، وہ عام انسان تھے صرف ان کا دل اور دماغ مسلمان تھا۔ ہمارے آج کے مسلمان حکمران جس طرح ڈٹ کر خلاف اسلام زندگی بسر کر رہے ہیں اور اسلامی روایات کے برعکس حکمرانی کر رہے ہیں، یہ صرف تحریک پاکستان کو ہی سامنے رکھیں تو یہ سب قابل تعزیر ہیں۔ ایک جرم ہے اور بجلی اور گیس چوری کی طرح ایسی حکمرانی کی سزا بھی لازم ہے۔

عام سی چھوٹی باتیں چھوڑیں۔ ہماری نصف سے زیادہ قومی زندگی مارشل لاء یعنی غیر جمہوری حکومتوں میں گزر گئی اور ہمارے اکثر بڑوں نے جس والہانہ انداز میں فوجی حکمرانوں کا ساتھ دیا، وہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ میں یہاں آج ہماری اسلامی تاریخ کے پہلے متوقع مارشل لاء کی بات کرتا ہوں۔ حضرت عمرنے خالد بن ولید جیسے جرنیل کو معزول کر دیا۔ یہ طویل قصہ ہے مگر آج یہ بات سوچی بھی نہیں جا سکتی۔ تفصیل میں جائے بغیر عرض ہے کہ جب معزول سپہ سالار اللہ کی تلوار کے نبوی لقب سے آراستہ حضرت خالد واپس مدینہ آ رہے تھے تو راستے میں ایک جگہ رات کے وقت باتیں کرتے ہوئے انھوں نے اپنی معزولی کی تلخی کا ذکر کیا۔ انھیں اس کا بڑا دکھ تھا، یہ قدرتی بات تھی اسی محفل میں ایک سپاہی بھی موجود تھا جو حالت سفر میں تھا، اس نے کہا سردار آپ کی باتوں سے بغاوت یعنی آج کی زبان میں مارشل لاء کی بو آتی ہے۔ یہ سن کر خالد نے فوراً جواب دیا کہ ’جب تک عمر زندہ ہے بغاوت نہیں ہو سکتی‘۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ خلیفۃ المسلمین عمرکی مقبولیت اتنی زیادہ اور اتنی مستحکم ہے کہ ان کے خلاف کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ انسانی تاریخ میں حضرت عمر کی حکومت ایک عدیم النظیر اور مثالی حکومت تھی۔

آج کے یورپ میں بھی بعض ملکوں میں عمر کے نام پر فلاحی پروگرام جاری ہے۔ جب سول حکمران اتنے مقبول ہوں، اتنے خادم خلق ہوں، اتنے نیک اور پارسا ہوں اور خدا کی زمین پر عدل و انصاف کی مثالیں قائم کرتے ہوں تو ان کے مقابلے میں کسی فوجی ملازم کی کیا جرات ہو سکتی ہے کہ وہ حکمرانی کے خواب دیکھے، ہیلی کاپٹروں کے ذریعہ عوام کے مسائل کا فضائی جائزہ لینے والے قومی مجرم ہیں کہ خلق خدا پانی میں غرق ہو رہی ہے نہ کچھ کھانے کو ہے نہ پینے کو اور ان کی ہمدردی میں ہمارے جیسے صحافیوں کو عوام کی ہمدردی کے بیانات دیے جا رہے ہیں۔ قحط پڑ گیا۔ بادشاہ عمر بھی عوام کی طرح قحط زدہ ہو گئے ،گورا رنگ زرد پڑ گیا اور قدرے نقاہت بھی ظاہر ہونے لگی۔

سب نے کہا کہ آپ پر حکمرانی کا بڑا بوجھ ہے، آپ کچھ کھا پی لیا کریں ورنہ یہ کام اور کون کرے گا۔ جواب میں کہا، مسلمان بھوکے مر رہے ہوں اور میں کھاتا پیتا رہوں یہ نا ممکن ہے۔ یہی وجہ تھی کہ مارشل لاء بھی نا ممکن تھا خواہ اس کو لگانے والا ایک افسانوی جرنیل خالد ہی کیوں نہ ہو۔ میں بدقسمت ایسے لاتعداد لیڈروں کو جانتا ہوں جو کسی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے قرب کے لیے کیا کچھ کر گزرتے تھے۔ آج کوئی جنرل یحییٰ خان کے زمانے کے ملاقاتی ریکارڈ والے رجسٹر دیکھے تو پتہ چلے کہ کون لیڈر رات کتنے بجے بیگم صاحبہ کے ہمراہ ملاقات کے لیے آیا اور کب پو پھٹتے واپس گیا۔ جی ہاں یہ ریکارڈ موجود ہے اور ہمیشہ موجود ہوتا ہے۔ افسوس کہ ہم نہ اسلامی ہیں نہ جمہوریہ ہیں اور نہ پورا پاکستان ہیں صرف کاغذوں میں اسلامی جمہوریہ پاکستان ہیں، سب کچھ ہیں۔( انا للہ وانا الیہ راجعون)
 

Abdul Rehman
About the Author: Abdul Rehman Read More Articles by Abdul Rehman: 216 Articles with 258838 views I like to focus my energy on collecting experiences as opposed to 'things

The friend in my adversity I shall always cherish most. I can better trus
.. View More