طالبان کا معاملہ کوئی نیا نہیں۔پاکستان کا بچہ بچہ ہی ا
س معاملے سے آگاہ نہیں تو کم از کم اسکے نام سے کافی واقف ہوگا۔اس معاملے
پر کافی لکھا بھی جا چکا ہے اور ضرورت سے ذیادہ بحث بھی اس پر ہو چکی
ہے۔پاکستان میں رہنے والے ہر طبقہ فکر نے اپنے خیالات کا اظہار اس موضوع پر
کم از کم ایک بار ضرور کیا ہے ۔کئی باتیں اس انداز میں کی جاتی ہیں جو عام
عوام کے فہم سے باہر ہیں۔کیا ان کو جان بوجھ کر عوام سے دور رکھنا مقصود ہے
یا کوئی اور وجہ اس پر تبصرہ ضروری نہیں ۔اب اس معاملے میں ایک پیش رفت کی
نوید حکومت کی طرف سے سنائی جا رہی ہے۔اس میں کتنی حقیقت ہے اور دوسری طرف
اس کو کتنا سنجیدہ لیا جا رہا ہے۔اس پر کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔بظاہر
طالبان اس پر رضامند ہوتے نظر نہیں آرہے۔پاکستان حکومت کی مجبوری ہے کہ اس
کو طالبان امریکہ اور بھارت کو ملا کر پڑھنا پڑتا ہے۔مگر در حقیقت حکومتی
ایوانوں میں بھی یکسوئی کی امید بے کار ہے۔عسکری قیادت اور حکومت کے روئے
رواں کیا ایک بات پر متفق ہوں گے؟ ابھی یہ بھی ایک سوال ہے۔طالبان کا تذکرہ
خارجہ پالیسی کے بغیر ادھورا ہے ۔عام عوام کے نزدیک پاکستان کی خارجہ
پالیسی ناقص ہے۔اب عوام کی سوچ یا خارجہ پالیسی دونوں میں سے ایک تو ناقص
ہے ہی۔اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ جنگ پاکستان میں بھارتی خواہشات
جو کہ امریکی لبادے میں نظر آئی اس کے بعد ہی شروع ہوئی۔یہ جنگ ہماری بقاء
کی جنگ بن جائے گی اس بات کا اس وقت عوام تو عوام حکمرانوں کے وہم و گمان
میں بھی نہ تھا۔ہاں مگر اس ڈرامے کے ہدایتکار اور اس کے پروڈیوسر اس بات سے
واقف نہ ہوں اس بات کی کوئی دلیل نہیں دی جا سکتی۔ہماری آنکھوں پر چند
ڈالروں کی پٹی باند کر ہمیں روشن حکمرانی کے خواب دکھا کر اس کا آغاز کیا
گیا تھا۔عام عقل یہی سوچ رہی ہے کہ ملک کے اندر ہی دو یا تین محاذ کھول کر
ہم نے اپنی عسکری صلاحتیوں کو نہ صرف کمزور کر دیا بلکہ عسکری اداروں اور
سادہ لوح عوام میں ایک فاصلہ پیدا کر دیا گیا۔جس کے سنگین نتائج برآمد ہو
سکتے ہیں۔ملک کے کئی حصوں سے بغاوت کی بو جنم لینے لگی۔اس ملک میں اس جنگ
سے معاشی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کو تب مد نظر نہ رکھا گیا تھا۔اب اس
جنگ میں پاکستان کے 50ہزار لوگ لقمہ اجل بن گئے۔لیکن اہم بات یہ ہے کہ موت
کا یہ طوفان عام عوام تک محدود نہ رہ سکا۔پاک فوج کی دو بریگیڈ کے برابر
نفری کو بھی اس طوفان کی لپیٹ میں آناپڑا۔جبکہ زخمی اور معذور ہونے والوں
کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ایک سپاہی سے لیکر تھری سٹا ر جنرل تک اس لہر کا
شکار ہوئے۔فوج کا کتنا بجٹ اس کی وجہ سے ضائع ہوا اس کی تفصیل تاحال کوئی
مصدقہ رپورٹ نہ کر پائی۔مگر پورے ملک میں اس جنگ نے ایک 100بلین سے زیادہ
کی رقم خرچ کی جا چکی ہے۔سبز باغ بھیک کی شکل میں دکھائے گئے تھے۔جنہوں نے
نہ صرف ہمارے خسارے کو پورا کرنا تھا ساتھ ہی صاحب اقتدار لوگوں کی جیبوں
کو گرمانے کے بعد اس ملک کے فلاح پر خرچ ہونے کی بھی بات کی گئی تھی۔مگر
نتیجہ افسوس کن تھا۔کیونکہ اس کا محض 14%ہی اس ملک کو مل سکا۔باقی ماندہ
رقم ظاہر ہے عوام کے ٹیکس کے پیسوں ،اور مہنگائی کی شرح میں اضافہ سے پوری
کی جا رہی ہے۔مگر اس کا تخمینہ اتنا نہ لگایا جا سکا کہ اس سے کام چل
سکے۔جس وجہ سے عوام کی ناقابل قبول شرائط جو کہ آئی ایم ایف نے دی عوامی
حکومت نے مان کر کام چلا لیا۔اور چلا رہی ہے۔فوج کو ملک کے اندر دو محاذ
کھول کر دے دیے اور باہر بھارت کی جارحیت کا شرمندہ نظروں سے سامنے کرنے
لگے۔خود امریکہ اس بات کا اعتراف کر چکا ہے کہ تین ٹریلین ڈالر کی رقم خرچ
کر لیلنے کے بعد جب کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق 2لاکھ 50ہزار افراد
براہراست قتل ہو گئے۔آخر ایک بڑی سوُپر پاور کو مذاکرات کا خیال آگیا۔ان کے
دیکھا دیکھی اب پاکستان میں بھی اسی طریقے پر سوچنے کی باتیں سرگرم ہیں۔کئی
لوگوں کے اب اس پر اعتراضات بھی ہیں۔فوج یا عوام کا وہ حصہ جس نے اپنے
پیاروں کو اس میں کھو دیا۔یا وہ لوگ جن کو معذوری کا سامنا کرنا پڑا۔وہ لوگ
جن کے گھر تباہ ہوگئے۔اس ملک کے وہ لوگ جن کو اس ملک کے محافظوں کی موجودگی
میں غیر ملکی مارتے رہے۔وہ لوگ جن کو اس جنگ میں ان کی مرضی کے منافی ڈال
کر آج اس حالت تک لایا گیا۔کیا آج مذاکرات سے قبل ان سے اجازت لی گئی؟کیا
اس باپ سے پوچھا گیا کہ وہ کیا چاہتا تھا جس جا جوان بیٹا اس دہشت گردی کی
سولی چڑھ گیا؟کیا اس بہن سے پوچھا گیا جس کا بھائی بغیر کسی جرم کے کاٹ دیا
گیا؟کیا اس ماں سے پوچھا گیا جس نے بچے کو سکول بھیجا وہاں سے اس کی مسخ
شدہ میت آئی؟نہیں ۔نہ ہی ان لوگوں سے پوچھا جائے گا۔نہ ہی اس ملک میں ان
لوگوں کی کوئی اہمیت ہے۔نہ ہی اس ملک میں ان لوگوں کی کوئی آواز ہے۔ان کی
رائے کی اہمیت ہے جو امداد کی شکل میں خون کی قیمت لیکر کھاتے رہے۔ان لوگوں
کی اہمیت ہے جو اس ڈرامے کی بنیاد پر محض تماشہ کر کے سیاست کرتے رہے۔ان
لوگوں کی رائے کی اہمیت ہے جو اس سب کی حمایت کر کے کٹ پتلی حکومت چلاتے
رہے۔جو کام آج کیا جا رہاہے۔اس کی ضرورت بہت پہلے تھی مگر ایسا کرنے سے نہ
امداد ملتی نہ کچھ لوگوں کو اقتدار۔اب بھی امریکہ کی پالیسی چلے گی۔خود
مختاری کی بات کرنے والے جھوٹ بول رہے ہیں۔دھوکہ دے رہے ہیں۔ان کی یہ باتیں
فضول ہیں۔وہ بھکاری ہیں۔بھکاری کبھی داتا سے بغاوت کر سکا ہے نہ ہی کرے
گا۔دعا یہ ہے کہ الﷲ ان کو اتنی اخلاقی جرئا ت دے کہ وہ مان سکیں وہ جھوٹے
ہیں وہ فریبی ہیں اور وہ اس ملک کے لوگوں کے سوداگر ہیں۔انہوں نے لوگوں کا
خون بیچا ہے ۔یہ دھرتی ماں ہے۔وہ ماں کو بیچ چکے ہیں۔کاش ہم ہی اس بات کو
سمجھ پاتے ۔مگر افسوس اس تحریر کو لکھنے کے بعد میں اور پڑھنے کے بعد
قارئین پھر کسی سیاسی جلسے میں اندھا دھند نعرے ماریں گے۔سب بھول جائیں گے
اور سب ایسا ہی چلے گا۔اقبال نے سہی کہا تھا
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیاں آپ اپنی حالت کے بدلنے کا |