پہلی اینٹ کون رکھے گا۔۔۔؟

دنیا کے قریباً ہر ملک میں یوم آزادی کے موقعہ پر پبلک ریلیف دینے بارے اہم فیصلے کر کے اپنی عوام کو اعتماد میں لیا جاتا ہے۔عوام کو یہ احساس بھی دیا جاتا ہے کہ ان کی حکومت حقیقی عوامی ہے۔یہ تو دنیا کی روایت ہے مگر ہمارے وطن عزیز کا دستور ہی نرالا ہے۔جیسی عوام اور ویسے حکمران ہمارے مقدر کے نقیب ہیں۔ادھر آزادکشمیر کی حکومت نے چھیاسٹھ ویں یوم تاسیس کے موقعہ پر یک لخت آٹا کے نرخوں میں ۱۵۰ روپے فی من اضافہ کر کے عوام کو خوراک کے بنیادی حق سے محروم کرنے کا ظالمانہ فیصلہ صادر فرمایا۔بتایا جاتا ہے کہ محکمہ خوراک کے اعلیٰ حکام نے از خود آٹا کے نر خوں کی سمری تیار کر کے حکومت سے منظوری لیکر عوام کو ان کے یوم تاسیس پر ہدیہ عقیدت پیش کیا۔انتہائی شرمناک ،افسوسناک اور کربناک خبر یہ ہے کہ آٹا کے نرخوں میں اضافے سے کئی روز قبل سرکاری ڈپووں کو زبانی حکمنامہ کے تحت پابند کیا گیا تھا کہ وہ یوم تاسیس تک آٹا کی تقسیم روک دیں تاکہ نرخ بڑھنے کا فائدہ ہر سطح پر عوام کی کھال اتار کر حاصل کیا جا سکے۔سب سے حیران کن اور دل شکنی کا امر یہ ہے کہ اس عوام دشمن فیصلے پر کسی با ضمیر حکومتی و اپوزیشن ممبرنے آواز نہیں اٹھائی۔ذرائع سے علم ہوا ہے کہ حکومت آزادکشمیر پاکستان کے ادارے پاسکو سے ہر سال قریباً چار لاکھ ٹن گندم خرید کر آزادکشمیر میں قائم فلور ملز کو پسائی کے لئے فراہم کر کے سرکاری ڈپوز تک ترسیل کرتی ہے۔ حکومت آزادکشمیر عوام کو سستے نرخوں پر آٹا فراہم کرنے کے لئے قریباً چار ارب روپے سبسٹڈی بھی دیتی ہے۔مگر اس سارے عمل میں جو چالاکی ، دس نمبری،ہیرا پھیری کا انکشاف ہوا کہ عوام کو سرکاری ڈپوز سے صرف بیس فی صد آٹا ارزاں نرخوں پر مہیا کیا جاتا ہے جبکہ اسی فی صد آٹا القائم اور لشکری نامی جعلی تھیلوں میں پیک کر کے مارکیٹ کئے جاتے ہیں ۔اس طرح اسی فی صد گھپلا بڑی دیدہ دلیری سے سر عام نہ جانے کب سے جاری ہے اور اتنے بڑے سیکینڈل کو جس خوبصورتی سے با پردہ رکھا گیا ہے یقینی طور پر اس میں ایک دو شخصیات نہیں بلکہ مافیا کا بڑا گروپ ملوث ہے جو قانونی و سیاسی چھتری کا سایہ دار بھی نظر آتا ہے۔ایک اور تماشہ یہ ہے کہ اربوں روپے کی سبسٹڈی کے باوجود حکومت آزادکشمیر پاسکو کے آٹھ ارب روپے کی مقروض بھی ہے بلکہ نادہندہ ہونیکے قریب ہے۔سچی بات تو یہ ہے کہ خوراک کے نام پر مذکورہ سیکنڈل میں ملوث افراد اس قدر مضبوط ہیں کہ انہیں جوں تک نہیں رینگے گی۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے قومی اداروں میں خائن ،بد دیانت،حرام خور ،کام چور،رشوت خور،بھتہ دار اورداؤ گیر ،حکمرانوں کی آنکھوں کے تارے کون لوگ ہیں۔۔؟؟اس کا احاطہ کرنا ضروری ہے۔کیا اس بے قاعدگی،عرصہ دارز سے جاری لوٹ مار کا کوئی حساب لینے والا پیدا ہوگا۔مشکل ہے کیونکہ جہاں آوے کا آوہ ہی بگڑا تگڑا ہو وہاں کوئی پوچھنے کی جسارت نہیں کرتا۔یہ سب نعرہ بازیاں ،مکربازیاں اور شعبدہ بازیاں کسی نہ کسی سہارے عوام کو لائن میں نہیں لگنے دیں گیئں۔سچ تو یہ ہے کہ
فقط باتیں اندھیروں کی محض قصے اجالوں کے
چراغ آرزو لیکر نہ تم نکلے ،نہ ہم نکلے

آزاد خطے میں سیاست اور سیاستدانوں کی کمی نہیں بلکہ عوام اس میں خود کفیل ہے۔بڑے صدمے کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ہم درد اور نقاب پوش عوام دوست بھی جب اقتدار کے ایوانوں میں جلوہ آفروز ہو تے ہیں تو انہیں اپنے وعدوں کا بھی پاس نہیں رہتا۔وزارتوں اور منصبوں کے لئے جتن مارے جاتے ہیں ۔عوام کو کیا خبر کہ ان سے برادری ،جماعتی اور جہاں پیسہ چلے وہ حربہ بھی استعمال کرکے کس کس طرح اسمبلی تک پہنچ پاتے ہیں مگر لوٹ مار سے با خبر ہونے کے باوجود کیسے معصوم بنے ہوئے ہیں۔ان سے اتنا ہی کافی ہے ۔۔۔۔!!!
تیرا لہجہ جو اتنا میٹھا ہے
ہم تیری نیتوں سے ڈرتے ہیں

یہ شکوہ شکایت عوام کرنے کی سکت تو نہیں رکھتے کیونکہ انہیں بولنے کے قابل کہاں چھوڑا ہے۔ہاں البتہ عرض حال ہے کہ اس بڑپے سیکنڈل پر ہمارے حکمران اور اپوزیشن ممبران کسی مصلحت پر خاموش سہی،اگر عدلیہ اس پر سو موٹو لیکر عوام کے حال پہ رحم کھائے تو بڑا احسان ہوگا۔ہمارے وطن عزیز کو شیر مادر سمجھنے ،عوام کو ریوڑ کہنے،قانون کو اپنی باندی قرار دینے والوں کو حقیقی ا ور کڑے احتساب سے گذارنے کا وقت آ چکا ہے۔بے بس ،بے کس اور بے زبان عوام کب تک ان درندوں سے لہو لہان ہوتے رہئیں گے۔عوام دوست ہونے کے دعویٰ داروں کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ وہ کس طرح عوام کے منہ سے نوالہ چھیننے والوں کی گرفت کرتے ہیں۔یہ لوٹ مار مافیا صرف آزادکشمیر کی حد تک نہیں بلکہ پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے ،کہیں اوگرا کی شکل میں ،کہیں نیپرا کے روپ میں اور کہیں دہشتگروں کی منہوس صورت میں عوام کا جینا حرام کئے ہوئے ہے۔جس کے لئے قومی سطح پر جہاد فرض ہو چکا ہے۔ان کے خلاف جو پہلی اینٹ رکھے گا وہی سرخرو ہو گا۔

Bashir Ahmed Mir
About the Author: Bashir Ahmed Mir Read More Articles by Bashir Ahmed Mir: 32 Articles with 23518 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.