الطاف حسین کا کھلا خط اور کچھ تلخ حقائق

متحدہ قومی موومنٹ کے قائد جناب الطاف حسین صاحب نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار چوہدری کو دوسرا کھلا خط لکھا ہے۔ اس سے پہلے بھی وہ چیف جسٹس کو ایک کھلا خط لکھ چکے ہیں۔ اس دوسرے خط میں انیس سو بیانوے میں شروع کیے گئے آپریشن کے دوران لاپتہ ہونے والے اٹھائیس کارکنوں کے بارے میں تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ لاپتہ افراد کے بارے میں آواز اٹھانی چاہیے چاہے اس کا تعلق کسی بھی تنظیم یا گروہ سے ہو، اس کے ورثاء کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کس حال میں ہے اور کہاں ہے کیوں کے اگر کوئی فرد انتقال کرجاتا ہے تو اس کو رو دھو کر انسان چپ ہوجاتا ہے، لیکن گمشدہ افراد کے اہل خانہ ایک مستقل اذیت کا شکار ہوتے ہیں بالخصوص ان کی مائیں کسی بھی حالت میں سکون نہیں پاتی ہیں۔ اور ان کے دل میں اپنے بچوں کے لیے مسلسل ٹیسیں اٹھتی رہتی ہیں۔ اس لیے ہم بھی اس بات کے پر زور حامی ہیں کہ کسی بھی فرد کے بارے میں معلوم ہونا چاہے کہ وہ کہاں ہے اگر گرفتار ہے تو اس کی گرفتاری کو ظاہر کیا جانا چاہیے اور اگر خوانخواستہ وہ فوت ہوگئے ہیں تو کم از کم اہل خانہ کو ان کی آخری آرام گام کے بارے میں بتا دینا چاہے تاکہ ورثاء کو مستقل اذیت سے نجات مل سکے۔

اس وقت ہمارا موضوع ہے کہ اس کھلے خط اور اس میں کیے گئے مطالبہ میں کئی باتیں توجہ طلب ہیں ہم اسی پر بات کریں گے۔ محترم الطاف حسین صاحب نے موجودہ چیف جسٹس سے لاپتہ ہونے والے افراد کی گمشدگی کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے جو کہ بڑا ہی معنیٰ خیز مطالبہ ہے کیوں کہ یہ بات سب کے سامنے ہے کہ متحدہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے خلاف تھی اور اسی لیے بارہ مئی کا سانحہ ہوا اور اس کے بعد نو اپریل کا سانحہ ہوا جس میں وکلاء کو ان کے چیمبر میں بند کر کے زندہ جلادیا گیا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ پندرہ سال تک متحدہ نے کسی چیف جسٹس کو کوئی کھلا خط نہیں لکھا اور نہ ہی اس طرح مطالبہ کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ اس سے پہلے خود متحدہ کو بھی عدلیہ پر اعتماد نہیں تھا لیکن اپنے وقتی اقتدار اور پرویز مشرف کی حکومت میں مراعات حاصل کرنے کی خاطر اس نے عدلیہ بحالی تحریک کی مخالفت کی۔ یہ چیز متحدہ قومی موومنٹ کی دہری سیاست کا پردہ چاک کرتی ہے۔

دوسری بات جو اس خط میں محسوس ہوئی ہے کہ اس میں بتایا گیا ہے کہ مارچ انیس سو اٹھانوے کو اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری شجاعت حسین نے سینیٹ میں اجلاس میں بیان دیا کہ ایم کیو ایم کے لاپتہ کارکنان کو قتل کرکے اسلام آباد میں مارگلہ کی پہاڑیوں میں دفن کیا گیا۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے یہ کارکنان بیانوے میں نواز شریف کی حکومت میں لاپتہ ہوئے اور اس کے بعد ستانوے سے لیکر انیس سو نناوے تک ایم کیو ایم نواز شریف کے ساتھ شریک اقتدار میں رہی لیکن اس نے لاپتہ کارکنوں کی بازیابی کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ ستم تو یہ ہے کہ اس وقت کی نواز شریف حکومت کے وزیر داخلہ چوہدری شجاعت جنہوں نے سینیٹ میں لاپتہ کارکنوں کی ہلاکت کا اعتراف کیا، مشرف دور میں متحدہ انہی شجاعت حسین اور لوٹا لیگ یعنی ق لیگ کے ساتھ شریک اقتدار رہی اور اس وقت بھی کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا۔ اگر متحدہ کارکنان کے بارے میں سنجدہ ہوتی تو اس وقت یہ مطالبہ کرتی اور شجاعت حسین کے بیان کی بنیاد پر خود شجاعت حسین کے خلاف کاروائی کرتی لیکن ایک بار پھر متحدہ نے وقتی اقتدار کی خاطر ایسا نہیں کیا بلکہ کارکنوں کے قاتلوں سے اتحاد کیا۔

آخری بات جو سب سے زیادہ محسوس کی گئی اس وقت بھی متحدہ یہ مطالبہ کسی سیاسی چال کے طور پر کررہی ہے اور وہ کارکنوں کو انصاف دلانے کے لیے اس وقت بھی سنجیدہ نہیں ہے کیوں کہ نواز شریف دور کے آپریشن کو تو نمایاں کیا گیا لیکن بے نظیر کے دور میں جس میں خود ایم کیو ایم کے بقول ان کے ڈھائی ہزار کارکنوں کو بے دردی سے مارا گیا ہے۔ اس کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ اس وقت متحدہ کی قیادت میں یہ بیان دیا کرتی تھی کہ ہم ان لوگوں پر جنگی جرائم میں مقدمہ چلائیں گے، لیکن انیس سو چھیانوے کے آواخر میں پی پی پی کی گورنمنٹ ختم ہونے کے بارہ سال بعد تک ایسا کوئی کام نہیں کیا گیا، نہ اس دور کے کسی ایس ایچ او کو گرفتار کیا گیا، نہ ہی نصیر اللہ بابر جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ “ بوچر آف کراچی“اکہتر کا بھگوڑا کراچی فتح کرنے دوڑا اور نصیر اللہ بابر کو ایم کیو ایم کے قائدین نے جنرل ڈائر اور مسولینی کا جانشین کہا، اگر متحدہ اپنے کارکنان کے بارے میں سنجیدہ ہوتی تو بارہ سال میں اس طرف کوئی پیشرفت کی جاتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔اس وقت بھی چیف جسٹس سے جو مطالبہ کیا جارہا ہے وہ نواز شریف کے دور میں لاپتہ ہونے والے اٹھائیس کارکنان کی معاملہ کی تحقیقات کا کیا جارہا ہے لیکن متحدہ کے اپنی زبان سے کہے گئے ڈھائی ہزار افراد کے قتل کے بارے میں خاموش ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے ؟؟؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ اس وقت پی پی پی کی حکومت ہے اور متحدہ اس کی اتحادی ہے۔ اگر متحدہ کے قائد پی پی پی کے خلاف کوئی بات کریں گے تو لازمی بات ہے کہ اقتدار کی قربانی دینی پڑے گی جس کے لیے متحدہ کے قائد اور لیڈران تیار نہیں ہیں لیکن ہماری یہ بات لکھ کر رکھ لیں کہ اگر کل کو پی پی پی اپوزیشن میں ہوگی تو متحدہ اس وقت اپنے مطالبات پیش کرے گی۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1521458 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More