نام نہاد خدائی فوجداروں - اسلام کے ٹھیکیداروں کے نام

آج ملک کے منتخب صدر مملکت اور دوسری بڑی جماعت یعنی ن لیگ کے قائد نواز شریف کے درمیان ایک اور ملاقات ہوئی جس میں دونوں نے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اندرونی دہشت گردی قرار دیا۔ چلیں جی اب دیکھتے ہیں کہ اس اندرونی دہشت گردی کے پیچھے جو دہشت گرد جو اپنے تئیں نام نہاد شریعت نافذ چلے تھے اور اپنے آپ کو خدائی فوجدار اور اسلام کے ٹھیکیدار سمجھتے تھے پتہ نہیں کہاں اور کس غار میں چھپے بیٹھے ہیں۔

مگر انکے حواری اور انکو پناہ دینے والے تو سب کے سامنے ہیں مگر کیا کریں جی ان کے ہاتھ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایسے ملے ہوئے ہیں کہ ان کا کوئی کیا کر سکتا ہے چاہے تو غریبوں کے بچے جہاد کے نام پر مروا دیں یا لاکھوں لوگوں کے اپنے ہی ملک میں ہجرت پر مجبور کیے جانے پر بھی الزام پانے کے بجائے ہمارے ناراض لوگ یا بچے قرار پائیں۔

کچھ باتیں اپنے پیارے سلیم اللہ شیخ صاحب کے کالم کے تبصرے کے طور پر پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔

سلیم بھائی میں نے کوشش کی کہ تبصرے کو تبصرے کے مقام پر لکھوں مگر کیا کریں ہماری ویب ڈاٹ کوم میں تبصرے کے مقام میں جگہ کی قلت کے سبب کالم کی شکل میں تحریر کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہوں۔

بھیا آپ نے پہلے ہی ایسی پیشن گوئیاں کردیں ہیں کہ جن کے بعد طنز و تنقید کے نشتر چلانے کی کوشش تو نہیں کرتے مگر سلیم بھائی حقوق نسواں کے نعرے لگانے والوں سے اگر آپ کا اشارہ عوام کی چار بڑی سیاسی جماعتوں میں سے ایک یعنی متحدہ قومی موومنٹ کی طرف ہے تو یہ ناچیز اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ اگر بقول شخصے شہر قائدین میں اگر مرغی انڈہ نہیں دے رہی تو کیا کراچی کی واحد اور اصل سیاسی جماعت (عوامی نمائندگی کی بنیاد پر کہنے کی جسارت کی ہے اگر آپ کو بری لگی ہو تو بھائی معافی چاہتا ہوں) ایم کیو ایم کی وجہ سے نہیں دے رہی۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم سے آپ کو کوئی ذاتی پریشانی یا ضد اور چڑ ہے جس کی وجہ سے آپ کو بھی ایم کیو ایم فوبیا ہو گیا ہے۔

ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی یقیناً مسئلے مسائل اور امن و امان کے سنگین مسائل مانتے ہیں ہونگے مگر آپ کا ایک بڑا پرانا دعویٰ مجھے یاد آتا اور حیران کرتا ہے کہ آپ نے لکھا تھا کہ آپ نیوٹرل ہو کر اور غیر جانبدار ہو کر لکھتے ہیں مگر معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ آپ کی تواتر سے تقاریر یا کالم کراچی کی عوام دوست اور حق پرست قیادت کی مخالفت میں ہوتے ہیں جس کا یہ ناچیز کبھی اپنے طور پر جواب دے دیتا ہوں مگر کیا ہر بات کا جواب میرے زمے ہے

امت اخبار زیادہ پڑھنے سے یہی کچھ ہوتا ہے کہ کبھی عراق کے مسئلے مسائل نظر آتے ہیں اور کبھی کسی اور جگہ کی سچی جھوٹی کہانیاں لے آتے ہیں۔ اپنی ناک کے نیچے اس ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس میں خاموش رہنا ہمارا قومی شعار بنتا جا رہا ہے۔ اگر کسی عورت کو کوڑے مارنے پر کوئی آواز بلند کرتا ہے تو اس کو دوسری باتوں پر آواز بلند نا کرنے کے سبب حقوق نسواں کے چیمپئین بننے کے طعنے دیے جاتے ہیں۔

خود اسلام کے نام پر ملک کے عوام کو سالہا سال سے بے وقوف بنانے والے اسلام کے نام ٹھیکیداروں کو مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ اس ملک میں اور باہر ہو رہا ہے وہ نظر نہیں آتا۔ چین میں مسلمانوں کو جو گولیاں ماری جارہی ہیں اس میں ٹھیکیدار اسلام خاموش ہیں۔ کشمیر کے نام پر اپنے اور اپنے بچوں کے لیے بنگلہ٬ کوٹھیاں٬ گاڑیاں اور جائدادیں بنانے والے آج تک کشمیر کے نام پر ملنے والے چندے سے پل رہے ہیں اور جو غریبوں کے بچوں کو شوق جہاد دے کر بھیجا اور اپنے بچے سینت سینت کر رکھے ان کا حساب تو اللہ ہی لے گا ہماری آپ کی کیا مجال کے حساب لے یا دے سکیں۔

کتنے ہی غریب بچے جہاد کے نام پر لڑا مروائے اپنے کسی لیڈر کے بچوں کا نام تو بتاؤ جس کو جہاد کا ٹکٹ کٹوا کر دیا ہو۔ سارے لیڈران شروع سے آخر تک (شروع کا مطلب جماعت کی ابتدا کرنے والے محترم) کے بچوں میں کوئی امریکہ اور کوئی کہیں اور ہی پایا جائے گا۔

آپ بھی زرا اپنی پسندیدہ جماعت جس کے کبھی مودودی صاحب، کبھی مرحوم طفیل محمد صاحب، کبھی البدر کبھی الشمس اور کبھی اسی طرح کے دوسروں کے لیے جو گوہر افشائیاں کرتے ہیں ہم بھی صبر و شکر سے پڑھ لیتے ہیں ہمارے پاس بھی بہت کچھ ہوتا ہے پیش کرنے کو۔ مثلاً ہر فوجی آمر کی گود میں جماعت اسلامی کا جا بیٹھنا، ہر حکومت کی مخالفت کے لیے کمر بستہ رہنا اور پھر معاملہ فہمی یا مصلحت کے تحت خاموش ہوجانا۔ جیسے مولانا فضل الرحٰمن صاحب کے گزشتہ جماعت کے ساتھ اتحاد کے بعد ہاتھ کرجانے کو قاضی صاحب یہ کہہ کر خاموش ہوجاتے تھے کہ کیا کہیں ہم نہیں چاہتے ہماری وجہ سے ایم ایم اے میں دراڑیں پیدا ہوں۔ جمہوریت کے لیے سب سے زیادہ شور کرنا اور پھر بھی اکیلے انتخابات لڑ نا سکنے کی طاقت رکھنا اور ہمیشہ کوئی پانچ سات گروہوں کو ملا کا ایک اتحاد کے نام پر مختلف پارٹیوں سے انتخابات لڑنا۔ پتہ نہیں کیوں مردانہ وار مقابلہ (چاہے جمہوری اور سیاسی میدان ہی ہو) کرنے سے جماعت اسلامی خاص طور پر اور نام نہاد جمہوریت٬ ملٹری٬ ملا٬ اسٹیبلیشمنٹ ٹائپ کی ملغوبہ جماعتوں عام طور پر گھبراتی ہیں۔

مشرف کو وردی پہننے کے لیے آئینی مدد فراہم کرنا۔ کبھی بے نظیر کے خلاف کبھی حمایت میں ہوجانا۔ کبھی نواز شریف کے خلاف اور کبھی حق میں ہوجانا۔

ناموس رسالت کے حق میں اتنی بڑی بڑی باتیں کرنا کہ زمین اور آسمان ایک کردینا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر ہماری جان بھی قربان ہیں مگر پھر بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شان میں دنیا کے کچھ علاقوں میں گستاخی کے باوجود بے غیرتی سے خاموش رہنا اور خصوصاً ایک نام نہاد اسلامی جماعت ہونے کے دعوے داروں کے لیے۔

ڈاکٹر عافیہ جو ایک امریکہ بیسڈ سائنٹسٹ تھیں اس کے گرفتار ہوجانے کے بعد منافقت کی حد کردینا کہ ڈاکٹر عافیہ کو گرفتار کرنا پاکستان اور عالم اسلام کا عظیم ترین نقصان قرار دینا اور جو روز ملک بھر میں مسلمان عورتوں کے ساتھ جو زبردستی زنا جبر کے واقعات ہوتے ہیں ان میں سے کس کس مسلمان با حیا با کردار عورت کے لیے نام نہاد جماعت اسلامی نے جلسہ ریلیاں اور لاکھوں روپے کے بینر چھپوائے۔ امریکہ نے ہی ڈاکٹر عافیہ کو ٹرینڈ کیا تھا اور وہ لے گیا آپ کے اور ہمارے ملک سے ہماری قومی بے حسی اور بے غیرتی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا۔

بائیکاٹ کردیں ساری یورپ اور امریکہ کا اور اپنے سارے جتنے بھی سیاستدان ہیں اور خاص کر اسلام کا نام لے کر لوگوں کو سالہا سال سے بے وقوف اور گمراہ کرنے والے سیاسی لوگ اپنے اپنے بچوں کو فی الفور پاکستان واپس آنے کا حکم دیں۔ کہ کفر کے ماحول میں نام نہاد اسلامی جماعتوں کے بچے کہیں مغربی رنگ میں نا ڈھل جائیں۔ اور کہیں بقول مشرف کے انلائنٹینٹ اور ماڈریٹ نا ہوجائیں۔ سارے مسئلے مسائل کے جواب میں چند جگہوں کو چند بزرگوں کو کھڑا کرکے انکے ہاتھ میں بینر پکڑوا دینا اور بینر روڈوں پر لگوا دینا اور صرف اخباروں اور میڈیا میں زندہ رہنے کے لیے سیاسی اسکورنگ کے لیے ارشادات دے دینا یہ بڑا آسان ہے بھیا۔ عملی زندگی میں کچھ کیا ہے جماعت یا نام نہادی اسلامی جماعتوں نے تو زرا ہمارے بھی گوش گزار کر دیجیے گا ہاں جو تحفہ دیا ہے قائد کے پاکستان کے ٹکڑے کروانے کا اس میں جماعت کا جتنا بڑا کردار اور اس کی دو مشہور و معروف شاخوں کا (البدر اور الشمس) کا اس کے بھی بڑے قصے سن رکھے ہیں۔ جیسے آج کل بھی دو کا بڑا چرچہ ہے (پاسبان اور شباب ملی)۔ کچھ لوگ دریافت کرتے ہیں کہ پرانی والوں کے ناموں میں کیا خرابی تھی جو نئے نام رکھنے پڑ گئے۔

مجھھ سمیت)ہم میں سیاسی برداشت اور جمہوری سوچ اگر ختم ہوتی جارہی ہے تو اس میں باقی لوگوں کا کیا قصور ہے۔ بھیا میں کوئی ایم کیو ایم کا وکیل نہیں ہوں ہاں ایک ہمدرد اور نیک خواہشات رکھنے والا ضرور ہوں اور کیوں نا ہو، ہر ایک کو حق ہے کہ کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت سے وابستگی رکھتا پھرے اور رہی بات تنقید اور طنز کے نشتر چلانے کی تو بھیا آپ اپنے آپ کو بنیاد پرست اور راسخ العقیدہ اور حریت پسند جیسے اچھے الفاظ سے پکارنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔

آخری بات اور وہ یہ کہ ہمیں اور آپ کو بنیاد پرست، حق پرست، راسخ العقیدہ، حق گو، حریت پسند ضرور بننا چاہیے اور اس پر فخر بھی ہونا چاہیے۔ مگر خدارا منافقت کا لبادہ مت اوڑھو۔ عبداللہ بن ابی بھی نام اللہ اور رسول کا لیتا تھا اور آج کے مفتی اعظم سے بھی زیادہ بظاہر شرعی چہرہ اور لبادہ اوڑھتا تھا مگر تھا تو منافقوں کا سردار تو خدارا داڑھی کی لمبائی چوڑائی، پائنچوں کا اتنا اور اتنا اٹھنا اور چڑھانا، ہری، سفید، کالی پگڑی (امامہ شریف)، اور جھک کر ملنے سے کسی دھوکہ میں مت آجانا۔ یاد رکھوں تقویٰ ہے اصل چیز اور باقی جو چیزیں اللہ کی مخلوق کو دھوکہ دینے کے لیے اختیار کی جائیں ان کی وقعت واللہ کچھ بھی نہیں چاہے داڑھی پیٹ تک ہی کیوں نا ہو۔

امید ہے میری اتنی ساری باتوں سے آپ کو زیادہ تکلیف نہیں پہنچے گی اور ہو سکتا ہے کچھ باتیں اپنے روائتی جذباتی پن میں زیادتی کی حد تک لکھ گیا ہوں مگر بھائی سوال کا جواب ضروری نہیں کہ سوال کرنے والے کی مرضی کا ہو۔

آپ کا مخلص
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 533564 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.