سانحہ شوپیاں:حقوق نسوان کے چیمپئین چپ کیوں؟
(Saleem Ullah Shaikh, Karachi)
اور مقبوضہ کشمیر میں سینتالیس روز سے جاری
احتجاج ختم کردیا گیا اور حالات معمول پرآنا شروع ہوگئے ہیں۔ تفصیلات اس کی
یہ ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی انتظامیہ نے سانحہ شوپیاں کے شواہد ضائع کرنے کے
الزام میں چار پولیس افسران کو گرفتار کرلیا ہے۔ گرفتاری کے احکامت مقبوضہ
کشمیر کی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بیرن گوش نے جاری گئے۔ جس کے بعد شوپیاں کی
مجلس مشاورت نے سینتالیس روز سے جاری احتجاج ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
سانحہ شوپیاں کی انتیس مئی کو اس وقت پیش آیا تھا جب مقبوضہ کشمیر کےعلاقے
شوپیاں( بون گام ) کے رہائشی شکیل نے تھانے میں رپورٹ درج کرائی کہ اس کی
اہلیہ بائیس سالہ نیلوفر جان،اور چھوٹی بہن سترہ سالہ آسیہ شوپیاں سے ڈیڑھ
کلو میٹر دور ناگہ بل میں اپنے میوہ کے باغات میں کام کے دوران گم ہوگئیں
ہیں۔ پولیس نے ابتدائی رپورٹ درج کردی۔ اگلے دن یعنی تیس مئی کو دونوں
خواتین کی لاشیں علاقہ میں رمبی ندی میں پائی گئیں۔ پولیس نے ابتدائی طور
پر یہ مؤقف اختیار کیا کہ دونوں لاشوں پر کسی قسم کے تشدد کے نشانات نہیں
پائے گئے ہیں۔ لیکن مقتولہ آسیہ کے بڑے بھائی ریاض کے مطابق دونوں لاشوں کی
ٹانگوں، کلائیوں، اور چھاتیوں پر کھرونچوں کے نشانات اور خون جما ہوا تھا۔
دونوں مقتول خواتین کے اہل خانہ اور اہل شوپیاں نے الزام لگایا کہ گھر اور
میوے کے باغات کے درمیان بھارتی سیکورٹی فورس سی آر پی ایف کی بارہویں
بٹالین کا کیمپ واقع ہے اور خدشہ ہے کہ سیکورٹی فورسز کے اہل کاروں نے ان
کو زیادتی کو نشانہ بنا کر لاشیں ندی میں پھینک دی ہیں۔ اور انہوں نے
مطالبہ کیا کہ اس واقعے کے ذمہ داران کے خلاد کاروائی کی جائے۔ لیکن مقبوضہ
کشمیر کی انتظامیہ نے اس پر کوئی کاروائی نہیں کی جس کے بعد مقبوضہ وادی
میں مظاہرے اور ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس آٹھ جون کو دوران پوسٹ
مارٹم کی حتمی رپورٹ میں دونوں مقتولہ خواتین سے موت سے تھوڑی دیر پہلے
اجتماعی زیادتی کی تصدیق کردی اس کے بعد حکومت نے اس کا اعتراف کرلیا کہ
دونوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی ہوئی ہے جبکہ اس سے پہلے حکومت کا مؤقف تھا
کہ دونوں پانی میں ڈوبنے سے ہلاک ہوئیں ہیں۔ اس کے بعد پولیس نے اجتماعی
زیادتی کا مقدمہ درج کرلیا لیکن اس میں کسی کو ملزم نامزد نہیں کیا گیا۔ جس
کے بعد احتجاج میں شدت آتی گئی اور اس احتجاجی تحریک میں ڈیڑھ ماہ کے دوران
پولیس کے ہاتھوں تین کشمیری مسلمان نوجوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش
کیا، جبکہ سینکڑوں افراد زخمی ہوگئے۔ سینتالیس دن کے احتجاج کے بعد بالآخر
انتظامیہ سے مذاکرات کے بعد یہ احتجاجی تحریک ختم کردی ہے۔ اور حالات معمول
پر آنے شروع ہوگئے ہیں
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اب بھارتی قابض فوج نے مسلمان خواتین کی عصمت
دری کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا ہے تاکہ اس کے
ذریعے کشمیری مسلمانوں کی مزاحمت کا زور توڑا جاسکے۔ کیوں کہ گزشتہ ڈیڑھ
ماہ دوران سانحہ شوپیاں کے بعد جون میں کپواڑہ میں ایک نوجوان طالبہ کے
ساتھ ٹیریٹوریل آرمی کیمپ کے ایک سپاہی نے زیادتی کی اور اس کے بعد قتل
کردیا۔ جبکہ جولائی کے اوائل میں ہونے والا واقعہ اور بھی زیادہ افسوناک ہے
جس میں بھارتی قابض فوج کے دو سپاہیوں نے ایک گھر میں گھس کر ایک اسی سالی
ضعیف بزرگ خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی اور فرار ہوگئے۔ یہ چیز جہاں
بھارتی قابض فوج کے ظلم و ستم کو ظاہر کرتی ہے وہیں یہ بھارتی فوج کی
اخلاقی گراوٹ، اور پست ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔
سانحہ شوپیاں کا ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے کہ اس واقعے نے نام نہاد
حقوق نسواں کے حامیوں، اور چیمپئنوں کا چہرہ بھی بے نقاب کیا ہے۔ کیوں کہ
سوات کی ایک جعلی ویڈیو پر آسمان سر پر اٹھا لینے والے، اس کی آڑ میں اسلام
کی تعلیمات کو نشانہ بنانے والے، اور اس واقعے کے بعد دو دن تک نیند نہ آنے
کا دعویٰ کرنے والے، سانحہ شوہیاں اور دیگر واقعات پر بالکل خاموش رہے ہیں
کیوں کہ یہاں ملزمان مسلمان نہیں تھے بلکہ ہندو اور سکھ تھے۔ اور ان کی پشت
پناہی پر بھارت تھا اس لیے یہ سارے بالکل چپ سادھ کر بیٹھے رہے۔ ہاں اگر
یہاں بھی ملزمان مسلمان ہوتے اور اگر غلطی سے ان کے چہرے سنت نبوی صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم سے مزین ہوتے تو اب تک ایک قیامت آچکی ہوتی، ٹی وی کے
مذاکروں میں یہ لوگ کف اڑاتے ہوئے، ان ملزمان کی آڑ میں اسلام کی تعلیمات
اور مدارس پر تنقید کر کے اپنے اندر کا خبث اور اسلامی حدود کے خلاف اپنا
بغض ظاہر کرچکے ہوتے اور بہت سے لوگ اس کی آڑ میں اسلام پسند تنظیموں کی
اپنے کالمز میں لتاڑ چکے ہوتے۔ لیکن چونکہ یہ مقبوضہ کشمیر کی مسلمان
خواتین تھیں اور ملزمان بھارت کے سپاہی، اس لیے یہاں سب خاموش رہے۔
مجھے یقین ہے کہ میرے اس مضمون پر بھی بہت سے لوگ بغیر سوچے سمجھے طنز اور
تنقید کے نشتر چلائیں گے اور مجھے کچھ کہنے کی آڑ میں بھی اسلام پسندوں،
دینی مدارس، اور مذہبی جماعتوں کو نشانہ بنایا جائےگا۔ لیکن مجھے اس کی
کوئی پرواہ نہیں ہے کہ میرے بارے میں لوگ کیا سوچتے ہیں۔ مجھے اس بات کی
کوئی فکر نہیں ہے۔ دیکھیں لوگ ہمیں بنیاد پرست کہتے ہیں اور یہ ہمارے لیے
بڑے فخر کی بات ہے کیوں کہ ہم مسلمان ہیں اور اسلام کی بنیاد قرآن و سنت پر
ہے۔ اگر کوئی مسلمان اپنی اس بنیاد پر شرماتا ہے تو اس کو فکر کرنی چاہئے
اور اپنے اس احساس کمتری کا علاج کرانا چاہئے۔ کچھ لوگوں کو اس بات پر بھی
اعتراض ہوگا کہ کیا پوری دنیا کی صرف ہمیں ہی فکر ہے۔ تو جناب عالی نبی
مہربان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے جس کا مفہوم ہے کہ
مسلمانوں کی مثال ایک جسد واحد کی طرح ہے جس طرح جسم کے ایک حصے کو تکلیف
پہچنتی ہے تو پورا جسم اس کو محسوس کرتا ہے۔ اس شعر پر اپنی بات ختم کرونگا
کہ ع
باطل کے ایوانوں میں نام ہیں تیرے چیدہ چیدہ
دہشت گرد، بنیاد پرست، حریت پسند، راسخ العقیدہ |
|