مسلم لیگ (ن ) کی حکومت جب بھی قائم ہوتی ہے یہ لوگوں سے
ان کے بنیادی حقوق چھیننے کی کوشش میں لگ جاتی ہے کیونکہ یہ جس مخصوص طبقے
کی نما ئندہ جماعت ہے اس میں عوام کے بنیادی حقوق کا کوئی تصور نہیں
ہوتا۔مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ میاں محمد نواز شریف نے اپنے دوسرے دورِ
حکومت میں فوجی عدالتیں قائم کی تھیں اور انسدادِ دھشت گردی کا قانون منظور
کیا تھا جس کے تحت پولیس کو کسی بھی شخص کو موقعہ پر ہی گولی مار کر ختم کر
نے کے بے پناہ اختیارات حاصل تھے۔اس قانون کے خلاف اپوزیشن نے بڑا واویلا
مچایا تھا اور بڑا شدید احتجاج کیا تھا لیکن حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی۔ اس
زمانے میں میاں محمد نواز شریف کے پاس ہیوی مینڈیٹ تھا اور اس ہیوی مینڈیٹ
کی زنجیرو ں میں وہ سب کو جکڑ کر رکھنا چاہتے تھے ۔اس زمانے میں آزادعدلیہ
اور آزاد میڈیا کا بھی کوئی وجود نہیں تھا لہذا ریاستی رٹ بڑی طاقتور ہوتی
تھی۔ اپوزیشن ممبران کو جھوٹے مقدمات کے تحت پسِ زندان رکھنے کا کلچر بڑا
مضبوط تھایہی وجہ ہے کہ اپوزیشن عدالتوں کے چکر ہی کاٹتی رہتی تھی۔اس دور
میں حکومت کے جابرازنہ اقدامات کی وجہ سے محترمہ بے نظیر بھٹو کو آٹھ سالوں
کیلئے یو ا ے ای میں جلا وطن ہونا پڑا تھا۔اس زمانے میں سینیٹر سیف الرحمان
خدا بنے ہوئے تھے اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے جو کوئی بھی ان سے
اختلاف کی جرات کرتا تھا وہ اس کا جینا حرام کر دیتے تھے ۔ اس زمانے میں ان
کی پھرتیاں دیکھنے والی ہوتی تھیں۔اپوزیشن کو کچلنا اور ملیا میٹ کر دینا
ہی ان کا پہلا اور آخری سپنا تھا۔قانون تو بنا دیا جاتا ہے لیکن کبھی کبھی
انسان اس قانون کی گرفت میں خود بھی آجاتا ہے جو اس نے دوسروں کو پھانسنے
کیلئے بنایا ہوا ہو تا ہے۔دھشت گردی کی وہی عدالتیں جو میاں صاحب نے دوسروں
کو پھانسنے کیلئے بنا ئی تھیں ۱۲ نومبر ۱۹۹۹ کو جنرل پرویز مشرف نے فوجی
شب خون کی وجہ سے اقتدار پر قبضہ کر لیا تو دھشت گردی ایکٹ کے تحت انہی
عدالتوں میں میاں براد ران کے خلاف مقدمات چلائے گئے جس میں میاں محمد نواز
شریف کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ابھی اس سزا کے خلاف حکومت کی اپیل سپریم
کورٹ میں سنی جا رہی تھی کہ سعودی مداخلت پر میاں محمد نواز شریف دس سال
کیلئے سعودی عرب جلا وطن ہو گئے اور جنرل پرویز مشرف کے وارے نیارے ہو گئے۔۔
اب ایک دفعہ پھر پاکستان پر میاں برادران کی حکومت ہے اورانھوں نے ایک دفعہ
پھر تحفظِ پاکستان کا قانون منظور کر کے پرانے دور کی یاد تازہ کر دی ہے۔وہ
دوسروں کو اس بات کا حق دینے کیلئے تیار نہیں ہیں کہ وہ اپنی آزادی اور
مرضی کے ساتھ پاکستان میں زندہ رہ سکیں۔یہ نیا قانون آمریت کی بد ترین شکل
ہے اور ایک بلیک وارنٹ ہے جو پاکستانی شہریوں کے نام جاری کیا گیا ہے۔کسی
بھی شہری پر یہ الزام لگا کر کہ مذکورہ شخص امن و امان کو بگاڑنے کا موجب
بن سکتا ہے اور اور اس کی ذات سے دھشت گردی کا خطرہ ہے اسے موت کی نیند سلا
یاجا سکتا ہے۔اس قانون کا بنیادی مقصداپنے مخا لفین کو خو ف و ہراس میں
مبتلا رکھنا ہے تا کہ وہ حکومت کے خلاف سخت مزاحمتی رویوں کا اظہار نہ کر
سکیں۔اس وقت دھشت گردی اوربدامنی کے لحاظ سے ملک کی جو کیفیت ہے وہ سب کے
سامنے ہے۔ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے کیونکہ بد امنی نے ہر سو
ڈیرے ڈ الے ہوئے ہیں۔حکومت کا کام اپنے شہریوں پر بے جا الزام لگانا نہیں
ہوتا بلکہ انھیں امن اور تحفظ مہیا کر کے بد امنی سے نجات دلانا ہوتا
ہے۔خوف وہرا س کی فضامیں شہری امن و سکون کی دولت سے محروم ہو جاتے ہیں اور
ان کے شب و روز خوف کی نذر ہو جاتے ہیں۔صورتِ حال یہ ہے کہ ایک طرف دہشت
گردوں اورشدت پسندوں کا زور ہے جھنوں نے اپنی دھشت گرد کاروائیوں سے ملک کو
لہولہان کرکے عوام کی زندگین کو اجیرن بنا رکھا ہے اور دوسری طرف نئے قانون
کا خوف ہے جو انھیں مزید غیر محفوظ بنا رہا ہے ۔ عوام بیک وقت حکومتی عتاب
اور دھشت گردوں کے عتاب کا نشانہ بنے ہوئے ہیں جس سے وہ نفسیاتی مریض بنتے
جا رہے ہیں۔حکومت کا اصل کام دھشت گردوں کو گرفتار کر کے قانون کے کٹہرے
میں کھڑا کرنا ہے تا کہ قانون و انصاف ان کے بارے میں حتمی فیصلہ کر کے
انھیں عبرت ناک سزائیں سنا سکے ۔دھشت گرد حیلے بہانوں سے قانون سے بچ نکلنے
میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ حکومتی اہلکار ان سے ملے
ہوئے بھی ہیں اور ان کی اعانت بھی کرتے ہیں ۔ کراچی میں ٹارگٹ
کلنگ،بلوچستان میں لسانی فسادات اور خیبر پختونخواہ میں بم دھماکے اس کا
واضح ثبوت ہیں۔حکومت ایسے تما م عناصر کو جو اس طرح کی کاروائیوں میں ملوث
ہوتے ہیں ان کا قلع قمع کرنے میں ناکام ہو چکی ہے کیونکہ ایسے عناصر کو خود
حکومت کی اشیر واد حا صل ہے۔بھتہ خوری ،اغوا برائے تاوان ،بینک ڈکیتیاں اور
ٹارگٹ کلنگ میں پولیس خود ملوث ہوتی ہے جس سے عوام کا پولیس سے اعتماد اٹھ
چکا ہے۔ایسے کئی واقعات کے عوام چشم دید گواہ ہیں جس میں پولیس اہلکار
ڈاکوؤ ں کے ساتھ ملے ہوتے ہیں اور عوام کو لوٹتے ہیں۔ حکومت ان ساری
قباحتوں سے عوام کو ریلف دینے کی بجائے انھیں اس نئے قانون سے مزید حراساں
کر رہی ہے۔فرض کریں ایک پولیس آفیسریہ فیصلہ کرتا ہے کہ سمندر خان دھشت
گردی کا ارتکاب کرنے کا سوچ رہا ہے اور اسی مفروضے پر پولیس آفیسر سمندر
خان کی زندگی کا خاتمہ کر دیتا ہے تو پھر مجھے یہ بتا یا جائے کہ سمندر خان
جیسے لاتعداد شہریوں کی زندگی کا ضامن کون ہوگا؟پویس آفیسر اپنی ذاتی
دشمنی، رنجش اور انتقام کی آگ بجھانے کی خاطر سمندر خان کے قتل کا فیصلہ
کرتا ہے تو قانون اسے سمندر خان کو مار دینے کا جواز مہیا کرتا ہے۔سمندر
خان کی موت پر عدا لت پولیس آفیسر سے جواب طلبی نہیں کر سکتی کیونکہ پولیس
آفیسر نے قانون کی عملداری میں سمندر خان کی جان لی ہوتی ہے۔۔
آجکل ملک میں بلدیاتی انتخابات کا بڑا چرچا ہے۔ پنجاب میاں برادران کا گھڑ
ہے اور مسلم لیگ (ن) اپنے اس گھڑ ھ میں کسی کو دم مارنے کی اجازت نہیں دینا
چاہتی۔مسلم لیگ (ن) پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کو ہر حال میں جیتنا چاہتی
ہے بالکل ویسے ہی جیسے اس نے ۱۱ مئی ۲۰۱۳ کے انتخابات جیتے تھے۔پاکستانی
انتخابات میں دھاندلی کا کلچر بڑا مضبوط ہے اور بڑے بڑے زمیندار،سرمایہ دار
اور وڈیرے انتخابات میں دھاندلی کے کرتب اور کمالات دکھاتے رہتے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) نے انتخابات میں جھرلو پھیرنے کی خاطر بلدیاتی
انتخابات غیر جماعی بنیادوں پر منعقد کرانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ہر یونین
کونسل میں با اثر افراد ووٹرز پر دباؤ ڈال کر انھیں حکومتی حمائت پر مجبور
کر سکیں ۔اگر کوئی فرد یا گروہ حکومتی دباؤ میں آنے سے انکار کر دیتا ہے تو
پھر تحفظِ پا کستان کا قانون حرکت میں آ جائیگا اور ایسے عناصر کو حکوتی
موقف کی طرف لانے میں اپناکردار ادا کریگا۔تھانہ کلچر ،پٹواری نظام
اوروڈیرہ ازم کی پرچھائیوں میں محروم طبقات کو زیرِ نگین رکھا جاتا ہے تا
کہ ان سے ووٹ ہتھیانے میں آسانی رہے ۔عام ووٹر میں اتنی مجال کہاں کہ وہ
اپنے علاقے کے چوہدری اور وڈیرے سے ٹکر لے سکے ۔اب سیاست چونکہ اصولوں کی
سیاست نہیں رہی اس لئے نظریاتی سیاست کا وہ ٹنٹنا بھی باقی نہیں رہا جس کی
خاطر کارکن جھگڑتے تھے اور اپنے نظریات کی سچائی کی خاطر اپنی جماعت کے
ساتھ بڑی استقامت کے ساتھ کھڑے ہوکر اپنے موقف پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے
تھے۔پی پی پی کی مقبولیت کا راز اس کے وہ ترقی پسند نظریات تھے جن کا علم
ذولفقار علی بھٹو نے بلند کیا تھا اور سیاست میں وفا ؤں کے نئے باب کا
اضافہ کیا تھا۔اب تو سیاست مفادات کی سیاست رہ گئی ہے۔مفادات عزیز ہو جائیں
تو نظریات دم توڑ جاتے ہیں اور جب ملک نظریات سے تہی دامن ہو جائیں تو افرا
تفری اور انتشار ہر سو اپنے جھنڈے گاڑ لیتی ہے۔پاکستان کا المیہ یہی ہے کہ
اس پر چند خاندانوں نے اپنی حکومت قائم کر لی ہے ۔ان کا مقصد ِ اولین دولت
کا حصول اور لوٹ مار کے کلچر کو رائج کرنا ہے۔ عوام تڑپ رہے ہیں،چیخ رہے
ہیں،چلا رہے لیکن مفاد پرست ٹولہ اپنی تجوریاں بھرنے کے عمل میں مشغول ہے۔ا
نھیں عوام سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کیونکہ عوام ان کا مسئلہ نہیں ہیں۔ان کا
مسئلہ ارتکازِ دولت ہے اور وہ اس مسئلے سے بخوبی نپٹ رہے ہیں۔ان کی جیبیں
تو بھری جا رہی ہیں لیکن عوام کی داد رسی کیلئے کون میدانِ عمل میں نکل کر
اس مفاد پر ست ٹولے کا خاتمہ کریگا؟۔ |