حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف حیات
الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ فرماتے ہیں ایک مرتبہ
حضورؐ نے ہم لوگوں میں بیان فرمایا اس میں ارشاد فرمایا ظلم سے بچو کیوں کہ
قیامت کے دن یہ ظلم بہت سے اندھیرے ہوں گے اور بد کلامی اور بہ تکلف بد
کلامی سے بچو اور لالچ سے بچو کیوں کہ تم سے پہلے لوگ لالچ کی وجہ سے ہلاک
ہوئے اور لالچ کی وجہ سے رشتے توڑ دیئے اور کنجوسی سے کام لیا اور لالچ میں
آکر بد کاری کے مرتکب ہوئے پھر ایک آدمی نے کھڑے ہوکر عرض کیا یا رسول اﷲ ؐ
اسلام کا کونسا عمل سب سے افضل ہے آپؐ نے فرمایا یہ کہ مسلمان تمہاری زبان
اور ہاتھ سے محفوظ رہیں ا س آدمی نے یا دوسرے نے پوچھا یا رسول اﷲ ؐ ہجرت
کی کونسی صورت سب سے افضل ہے فرمایا یہ کہ تم ان کاموں کو چھوڑ دو جو
تمہارے رب کو نا پسند ہیں ہجرت دو طرح کی ہے ایک شہر والوں کی ہجرت اور ایک
دیہات والوں کی ہجرت ،دیہات والوں کی ہجرت یہ ہے کہ ( رہے تو اپنے دیہات
میں لیکن ) جب اسے ( تقاضے کے لیے ) بلایا جائے تو فوراً ہاں کہے اور جب
اسے حکم دیا جائے تو اسے فورا ً پورا کرے ،شہر والوں کی ہجرت میں آزمائش
بھی زیادہ ہے اور اجر بھی زیادہ ہے ( کیونکہ اپنا وطن ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر
مدینہ آکر رہے گا اور دعوت کے تقاضوں میں ہروقت چلے گا )
طبرانی میں حضرت ہرماس بن زیادؓ سے یہی حدیث مختصر طور سے منقول ہے لیکن اس
کے شروع میں یہ ہے کہ خیانت سے بچو کیونکہ یہ بہت بُری اندرونی صفت ہے ۔
قارئین آج شہدائے جموں کو یاد کرتے ہوئے ہم کالم بھی تحریر کر رہے ہیں اور
یاد وں کے بند دریچوں کو کھولتے ہوئے ماضی قریب میں استاد محترم راجہ حبیب
اﷲ خان کی خصوصی فرمائش پر بانی نظریہ خود مختار کشمیر و بانی صدر جموں
کشمیر محاذ رائے شماری عبدالخالق انصاری کی رہائش گاہ ’’ آزادی ہاؤس ‘‘
سیکٹر بی ٹو میرپور میں کیا گیا ایک خصوصی انٹرویو بھی ہم یاد کر رہے ہیں
اس طویل دورانیہ کے انٹرویو میں عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ مرحوم نے سانحہ
جموں کے حوالے سے اپنی یاداشتیں ہم سے شیئر کی ۔مرحوم لیڈر کا کہنا تھا کہ
سانحہ جموں کی اصل وجہ برصغیر کی تقسیم کے موقع پر دو نئے جنم لینے والے
ممالک کے عوام کے درمیان پائی جانے والی غلط فہمیاں اور کسی حد تک پاکستانی
سیاسی قیادت کی غلطیاں تھیں جو قائداعظم محمد علی جناح ؒ کے واضح احکامات
کے برعکس کشمیر میں قبائلی لشکر کے داخلے کی صورت میں سامنے آئیں اس قبائلی
لشکر نے بقول عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ مرحوم جہاد کرتے ہوئے مختلف کام
کیے اس قبائلی لشکر میں جہاں پر رضائے الہیٰ کی خاطر اپنے کشمیری بہن
بھائیوں کی مدد کے لیے آنے والے معصوم قبائلی مجاہد شامل تھے وہیں پر ’’
مال غنیمت ‘‘ کے عشق میں مبتلا وہ جرائم پیشہ لوگ بھی موجود تھے کہ جنہوں
نے کشمیر میں داخل ہوتے ساتھ ہی اپنوں اور بیگانو ں کے ساتھ ایک جیسا سلوک
کیا اور حتیٰ کہ ایسا بھی ہو اکہ مال غنیمت لوٹتے ہوئے ان لوگوں نے جنگ کے
تمام قانون توڑ ڈالے اور ہندوؤں او رمسلمانوں کے ساتھ ایک جیسا وحشیانہ
سلوک کیا ۔ایسا بھی دیکھنے میں آیا کہ یہ قبائلی مسلمان اور ہندو خاندانوں
کی خواتین کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر لے گئے ۔جب اس وحشیانہ سلوک کو
مذہبی پس منظر میں ہندوؤں او ر سکھوں تک پہنچایا گیا تو میرپور اور گرد
ونواح میں ہونے والے جہاد کے نام پر فساد جیسے قتل عام کا بدلہ لینے کے لیے
ایک منظم منصوبہ بندی کی گئی اور اس منصوبہ بندی کے نتیجے میں لاکھوں بے
گناہ مسلمانوں کو ہندوؤں اور سکھوں نے گاجر مولی کی کاٹ کر رکھ دیا
۔عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ مرحوم نے استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان اور
راقم کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے انتہائی دکھی لہجے میں بتایا کہ 1947ء
میں قیام پاکستان کے موقع پر کشمیری قیادت واضح طور پر یہ فیصلہ کر کے
اعلان کر چکی تھی کہ کشمیری مذہب کے نام پر نہ تو پاکستان کا حصہ بنیں گے
اور نہ ہی ہندوستان میں شمولیت اختیار کریں گے کیونکہ اگر اکثریتی مذہب کی
بنیاد پر کشمیری پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں تو لا محالہ طور
پر کشمیر میں رہنے والے اقلیتی مذاہب کے لوگ عدم تحفظ کا شکا رہو جاتے ہیں
اور اسی طرح اگر کشمیر پر قابض مہا راجہ بھارت میں شمولیت کا فیصلہ کرتا ہے
تو 80فیصد سے زائد کشمیری مسلمان بھی عدم تحفظ میں گھر جاتے ہیں اس لیے
کشمیر میں کام کرنے والی اکثریتی سیاسی جماعتیں یہ فیصلہ کر چکی تھیں کہ
پہلے مرحلے پر کشمیری ہندوستان اور پاکستان کسی بھی ملک کا حصہ بن کر مذہبی
شورش کا شکار نہیں ہوں گے لیکن یہ تمام فیصلے دھرے کے دھرے رہ گئے اور
قبائلی لشکر کشمیر میں داخل ہوا اور کچھ کا کچھ ہو گیا اور آخر میں تاریخ
عالم کے خطرناک ترین سانحوں میں سے ایک سانحہ جموں کے شہداء کے خون سے
تحریر کیا گیا ۔
قارئین عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ مرحوم نے اپنی زندگی کے اس یادگار
انٹرویو میں یہ بھی بتایا کہ پاکستان کے تمام حکمران بشمول بانی پاکستان
قائداعظم محمد علی جناح ؒ دل سے نظریہ خود مختار کشمیر کو تسلیم کرتے تھے
یہ علیحدہ بات ہے کہ کشمیر نے آزادہو کر یا تو پاکستان کے ساتھ ہی اپنے نہ
ختم ہونے والے رشتے استوار کرنے تھے یا پھر اگلے مرحلے میں پاکستان کا ہی
حصہ بن جانا تھا لیکن بھارت سے آزادی حاصل کرنے کے لیے کشمیریوں کے کیس کو
دو ممالک کا بارڈر ایشو یا سرحدی تنازعہ بنا کر عالمی برادری کی حمایت کبھی
بھی حاصل نہ ہو سکتی تھی یہی وجہ تھی کہ جنگ بندی کے بعد بھارت نے اقوام
متحدہ سلامتی کونسل میں عالمی برادری کے سامنے یہ وعدہ کیا کہ مسئلہ کشمیر
کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل ہو گا اور مناسب وقت آنے پر آر پار کے
کشمیریوں کو ’’ رائے شماری ‘‘ کا حق دے کر انہیں اپنی تقدیر کا فیصلہ خود
کرنے کا موقع دیا جائیگا ۔قائداعظم محمد علی جناح ؒ کشمیر کی جغرافیائی و
علاقائی اہمیت اچھی طرح جانتے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ کشمیر پاکستان
کے لیے زندگی اور موت کی حیثیت رکھتا ہے وہ پاکستان بننے کے بعد بہت جلد
داغ مفارقت دے گئے اور ان کے بعد آنے والی لیڈر شپ ان کے ویژن کے مطابق
فیصلے نہ کر سکی۔عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ مرحوم نے یہ بھی بتایا کہ ایئر
مارشل نور خان اور پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی قائد ذوالفقار علی بھٹو بھی
نظریہ خود مختار کشمیر کے حامی تھے اور متعدد ملاقاتوں میں یہ تسلیم کر چکے
تھے کہ کشمیر کے قضیے کا حل یہی ہے کہ کشمیر ی اپنی مستقبل کا فیصلہ خود
کریں ۔عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ مرحوم نے دکھ بھرے انداز میں مسکراتے ہوئے
بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو ایک بڑے قد کاٹھ کے ایک انتہائی ذہین سیاستدان
تھے اور باوجود اس کے کہ مجھ سے ہونے والی ملاقاتوں میں انہوں نے تسلیم کر
لیا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اس تنازعہ کو عالمی برادری کے سامنے ایک
قوم کی آزادی کا مسئلہ بنا کر پیش کرنا ضروری ہے اور خود مختار کشمیر کا
نعرہ درست ہے اس کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو نے اعتراف کیا کہ پنجاب اور
سندھ کے جاگیردار خاندان کشمیر سے آنے والے پانی کو اپنی زمینوں کی زرخیزی
کے لیے نا گزیر قرار دیتے ہیں اور مسئلہ کشمیر کو اس انداز میں حل کروا کر
اگر بات کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ تمام جاگیر دار ٹولہ میرے خلاف ہو
جائے گا اور میں اس کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ
مرحوم نے 87سال کی عمر میں چمکتی آنکھوں ،کھلتی مسکراہٹ اور جوان جذبوں سے
بھرپور کھنکتی آواز میں راقم اور راجہ حبیب اﷲ خان کو کہا کہ ہم اپنی زندگی
کا سفر مکمل کر چکے ہیں ہم نے زندگی کے اس سفر میں دیانتداری کے ساتھ جتنی
سیاسی جدوجہد کرنی تھی وہ کر لی اب ہمارے ادھورے مشن کو ہماری آنے والی نسل
پورا کرے گی اور انشاء اﷲ تعالیٰ کشمیر آزاد ہو کر رہے گا ۔عبدالخالق
انصاری ایڈووکیٹ مرحوم نے کہا کہ پاکستانی وزارت خارجہ ،پاکستانی سیاسی
جماعتوں ،پاکستانی عسکری قیادت اور پاکستانی عوام خدا را یہ غلط فہمی ذہن
سے نکال دیں کہ خود مختار کشمیر کا نعرہ پاکستان دشمنی ہے یہ نعرہ سرا سر
پاکستان دوستی ہے اگر کشمیری آج عالمی برادری کے سامنے اپنی آزادی کے کیس
کو ’’کشمیر بنے گا پاکستان ‘‘ کے نعرے کے ساتھ لے کر جاتے ہیں تو چین سمیت
دنیا کا کوئی بھی ملک کشمیریوں کے اس کیس کو بھارت او ر پاکستان دو ممالک
کا سرحدی تنازعہ قرار دے دیتے ہیں کیوں کہ بھارت میں بھی ’’ کشمیر بھارت کا
اٹوٹ انگ ہے ‘‘ کی گردان ان کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے کشمیر جب کبھی بھی
آزاد ہوا تو وہ خود مختاری کے نام پر ہی آزاد ہو گا کیونکہ بین الاقوامی
برادری انتہائی آسانی سے کسی بھی قوم کی آزادی کے مسئلے کو تسلیم کر لیتی
ہے اور پھر انسانی حقوق کی تنظیمیں انسانی حقوق کے بین الاقوامی چارٹر کی
روشنی میں اس قوم سے یہ سوال کرتی ہیں کہ وہ قوم کیا چاہتی ہے آزادی حاصل
کرنے کے بعد پاکستان ہی کشمیر اور کشمیریوں کی اگلی منزل ہو گی لیکن اگر
پہلے ہی ہم پاکستان سے روابط کی بات کریں گے تو اس کو نہ تو بھارت تسلیم
کرے گا اور نہ ہی بین الاقوامی دنیا ہماری آواز سنے گی کاش پاکستانی پالیسی
ساز ہماری اس نازک اور سچی آواز کو سمجھ سکیں ۔پاکستان کے لاکھوں لوگوں نے
کشمیر او ر کشمیریوں کی خاطر اپنی جانیں قربان کی ہیں ہم پاکستان سے بے
وفائی کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتے ۔کاش پاکستانی پالیسی ساز اس نازک نقطہ کو
سمجھ کر لاکھوں کشمیری شہداء کے خون کو رائیگاں نہ جانے دیں کشمیر نہ تو
گلیشئرز ،پہاڑوں ،وادیوں ،باغوں اور جنگلات کا ایشو ہے اور نہ ہی دریاؤں کے
پانی کا مسئلہ اور نہ ہی دو ممالک کا سرحدی تنازعہ ۔یہ ڈیڑھ کروڑانسانوں
یعنی کشمیریوں کے بنیادی حق یعنی ’’ حق خود ارادیت ‘‘ ایک قوم کی آزادی کا
مسئلہ ہے جلدیا بدیر کشمیر آزاد ہو کر رہے گا کیونکہ جو قوم اپنی آزادی کی
خاطر قبرستان آباد کرنا جانتی ہے اسی دنیا کی کوئی بھی طاقت غلام نہیں رکھ
سکتی ۔
قارئین یوم شہداء جموں کے حوالے سے یہ تو وہ گفتگو تھی جو تاریخی اہمیت کی
حامل ہے اور ایک قرض کی صورت میں ہم پر واجب تھی اور ہم نے آپ کی نذر کر دی
آئیے اب چلتے ہیں کالم کے دوسرے حصے کی جانب ’’ شہدائے کرپشن ‘‘کے عنوان سے
اس حصے کو دیکھ کر ہمارے دوستوں اور نکتہ چینوں کے ذہن میں سوالیہ نشان
ابھرے ہوں گے تو آئیے ان سوالیہ نشانوں کے جوابات کی طرف ۔آزاد کشمیر کے
نام سے کشمیر میں آزادی کے بیس کیمپ کی حکومت قائم کی گئی جنجال ہل کے
خیموں میں قائم ہونے والی یہ حکومت مظفرآباد میں دارالحکومت کی صورت میں
قائم ہوئی اور ابتدائی چند سالوں کے دوران درویش صفت ایماندار حکمران اور
جذبہ ایمانی سے سرشار لوگوں نے واقعی ثابت کیا کہ وہ کشمیر کو آزاد کروانا
چاہتے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ترجیحات بدلتی گئیں اور آزادی کی
بجائے اقتدار اور دولت کے پجاری کشمیر کے اقتدار پر قابض ہو گئے اور وہیں
پر ’’ شہد ائے کرپشن ‘‘ کی اس اصطلاح نے جنم لے لیا یہاں ازراہ تفنن کہتے
چلیں کہ کسی گاؤں کی مسجد میں شوگر مل کے مالک نے تبرک کے طو رپر دو بھاری
بھرکم چینی کی بوریاں بھیجیں چینی کی یہ بوریاں سٹور میں رکھ دی گئیں رات
کے وقت گاؤں کا ایک نامی گرامی چور سٹور روم میں پہنچا اور اندھیرے میں
بوری اٹھا کر جب لے جانے لگا تو بوری سر سے پھسل کر چھاتی پر آن گری۔چوٹ
بھی لگی اور جب بوری کے نیچے سے نکلنے کی کوشش کی تو کچھ نہ بن پڑا تنگ آکر
چور نے آواز لگائی
’’ او گاؤں والوں مجھے بوری کے نیچے سے نکالو میں بوری کے نیچے شہید ہونے
والا ہوں ‘‘چوری کی بوری کے نیچے شہید ہوتے ہوئے اس چور کی طرح آزادی کے
بیس کیمپ میں ’’ شہدائے کرپشن ‘‘ کی فہرست بہت طویل ہے بقول شاعر
داورِ حشر میرا نامہ اعمال نہ کھول
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
بد قسمتی سے اگر ہم آزاد کشمیر جسے آزادی کا بیس کیمپ قرار دیا گیا تھا
وہاں کے حکمرانوں اور لیڈرز کو دیکھتے تو بہت سے پردہ نشین بہت سی قابل
پردہ کارروائیوں میں ملوث دکھائی دیتے ہیں اور اگر آج کی حکمران مجاور
حکومت کو دیکھ لیں تو اس کے لیے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری سابق وزیراعظم
کی طرف سے عائد کیے جانے والے الزامات اور پیش کیے جانے والے دستاویزی ثبوت
ہی کافی ہیں حال ہی میں آزادکشمیر کے سابق وزیراعظم اور پیپلزپارٹی
آزادکشمیر کے سینئر راہنما بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے کہا ہے کہ میں خود
وزیراعظم رہا ہوں اور بحیثیت وزیراعظم میں یہ بات اچھی طرح جانتا ہوں کہ
کسی بھی جونیئر لیول کے افسر کی یہ جرات نہیں ہو سکتی کہ وہ کسی بھی سرکاری
خط پر وزیراعظم وقت سے دھوکے کے ساتھ دستخط کروا لے ۔وزیراعظم آزادکشمیر
چوہدری عبدالمجید کی طرف سے سیکشن افسر کو معطل کرنا در اصل کرپشن کو تسلیم
کرنے کے مترادف ہے میں نے اس حوالے سے جدوجہد کا آغاز کر دیا ہے اور اربوں
روپوں کی کرپشن کے ا س تمام سلسلے کو بے نقاب کرنے کے لیے وزیراعظم پاکستان
میاں محمد نواز شریف اور پاکستان پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت بشمول سابق صدر
پاکستان آصف علی زرداری ،شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ،محترمہ فریال
تالپور اور تمام اہم شخصیات کو کلک آئی ڈیز کی اربوں روپوں کی کرپشن میں
وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید اور دیگر اہم حکومتی اہلکاران کے براہ
راست ملوث ہونے کے ثبوت پیش کر دیئے ہیں ۔جلد ہی ڈراپ سین ہو جائے گا میڈیا
سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کا کہنا تھا کہ اس وقت پوری
دنیا میں موجودہ مجاور وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کی وجہ سے کشمیریوں کی جگ
ہنسائی ہو رہی ہے پوری دنیا میں کشمیری تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے
جدوجہد کر رہے ہیں اور یہاں پر آزادی کے بیس کیمپ میں مجاور ٹولہ کرپشن کے
مختلف منصوبوں کے بعد اب افغان نیٹ ورک کے ساتھ مل کر سائبر کرائمز میں
ملوث ہو کر معصوم شہریوں کے اربوں روپے لوٹ چکا ہے اس تمام سلسلے کو سمجھنا
اور سیکیورٹی رسک بننے والے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کو اقتدار سے ہٹانا
انتہائی ضروری ہے قومی سلامتی کے لیے کام کرنے کے لیے تمام اداروں سے ہم
رابطہ کر رہے ہیں اور جلد ہی اس حوالے سے اہم ترین پیش رفت دیکھنے میں آئے
گی ۔ایف ایم 93میرپور ریڈیو آزادکشمیر کے مقبول ترین پروگرام ’’ لائیو ٹاک
ود جنید انصاری ‘‘ میں براہ راست گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر سلطان محمود
چوہدری نے کہا کہ اس وقت وزیراعظم چوہدری عبدالمجید جناح ماڈل ٹاؤن سکینڈل
،میرپور تا خالق آباد ڈیول کیرج وے سکینڈل سمیت کرپشن کی مختلف داستانوں
میں اربوں روپے کی خرد برد کر چکے ہیں اور اسی طرح میڈیکل کالجز اور میگا
پراجیکٹس کے نام پر بھی اربوں روپے لوٹ کھسوٹ کی نذر کر چکے ہیں اس حوالے
سے بھی تمام ثبوت قومی میڈیا کی خدمت میں پیش کیے جا چکے ہیں میرپور میں
ایوان صحافت میں صحافیوں کے انتہائی اہم اور سنجیدہ سوالوں کا جواب دینے کی
بجائے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے بد تہذیبی اور بد تمیزی پر مبنی جو
زبان استعمال کی ہے اس سے تمام صحافی برادری کی توہین ہوئی ہے وزیراعظم کا
یہ فرض بنتا ہے کہ وہ صحافی برادری کی طرف سے اٹھائے گئے سوالوں کا جواب
دیں نہ کہ اس کے جواب میں ناشائستہ رویہ کا مظاہرہ کریں ۔پروگرام میں
ایکسپرٹ کے فرائض سینئر صحافی راجہ حبیب اﷲ خان نے انجام دیئے پروگرام میں
آل کشمیر نیوز پیپر ز سوسائٹی کے صدر عامر محبوب ،سینئر صحافی و نکیال پریس
کلب کے صدر عبدالقیوم طاہر اور سینئر صحافی سجاد قیوم خانپوری نے بھی شرکت
کی ۔اے کے این ایس کے صدر عامر محبوب نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت
وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کلک آئی ڈیز سکینڈل میں اپنے ملوث ہونے کے
الزامات کا مناسب جواب نہیں دے پا رہے سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود
چوہدری کی طرف سے دستاویزات پیش کی جا رہی ہیں جو وزیراعظم سیکرٹریٹ کی طر
ف سے سپریم کورٹ کی طرف سے عائد کردہ پابندی کے منافی احکامات پر مشتمل ہیں
۔کلک آئی ڈیز سکینڈل میں ہزاروں معصوم شہریوں کے اربوں روپے لوٹے گئے ہیں
اس معاملے کو حتمی انجام تک پہنچانا ضروری ہے اس حوالے سے آزادکشمیر کی
سیاست بھی ایک نیا رخ اختیار کر چکی ہے ۔
قارئین کرپشن کی ان کہانیوں اور ماضی کی تمام داستانوں کی پوری فلمی ٹیموں
کا عبرت کا نشان بننا اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ مقدس خطہ ایک عظیم مقصد کے
لیے آزاد کروایا گیا تھا اگر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے وزیراعظم
آزادکشمیر پر عائد کیے جانے والے الزامات اور دستاویزی ثبوت غلط ہیں تو
یقینا ان کا احتساب کیا جانا چاہیے لیکن اگر ان کے پیش کردہ تمام ثبوت اور
عائد کردہ الزام سچ ہیں تو موجودہ حکمرانوں کو عبرت کا نشان بنانے کیلئے
انہیں احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرنا ضروری ہے کشمیر لبریشن سیل کے نام پر
ماضی اور حال میں سیاسی رشوت کا جو بازار گرم کیا گیا ہے یقینا شہدائے
کشمیر اور شہدئے جموں کی روحیں اس پر تڑپ تڑپ جاتی ہوں گی ۔ہمیں امید ہے کہ
پاکستانی وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور قومی سلامتی کے دیگر تمام ادارے
’’ شہدائے کرپشن ‘‘ کی اس نئی فلم کی تمام کاسٹ کو منظر عام پر لا کر ان کا
کڑا احتساب کریں گے ۔آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
ایک پاگل نے دوسرے پاگل ک فون کیا اور کہا
’’یار کل اخبار میں میرے مرنے کی خبر چھپی تھی تم جنازے پر کیوں نہیں آئے
‘‘
دوسرے پاگل نے جواب دیا
’’ ہاں یار میں نے پڑھی تو تھی لیکن دراصل کل میری اپنی برسی تھی اس لیے نہ
آ سکا ‘‘
قارئین ہمیں یوں لگتا ہے کہ جیسے شہدائے جموں کی یاد میں یہ کالم تحریر
کرتے ہوئے ہم اپنی برسی خود منا رہے ہیں ۔ |