شاہین کوثر ڈار
27 اکتوبر 1947ء کشمیریوں کیلئے یوم سیاہ تھا اور رہے گاکیونکہ بھارتی
فوجوں نے 27 اکتوبر کو ہی سرینگر کے ہوائی اڈے پر اُتر کر کشمیریوں کے قتل
عام کا آغاز کیا تھا۔ کشمیریوں کی قاتل بھارتی فوج کا قبضہ اور بے گناہ
کشمیریوں کو شہید کرنے کا سلسلہ آج تک جاری ہے تاہم 27 اکتوبر کو جس یوم
سیاہ کا آغاز ہوا تھا نومبر میں وہ یوم شہداء میں تبدیل ہو گیا اور یہ 5اور
6نومبر 1947ء تھا۔
کشمیریوں کے قتل عام کی داستانِ خونچکاں کچھ یوں شروع ہوتی ہے کہ بھارتی
فوج کے سرینگر پر زبردستی قبضے کے ساتھ ہی ڈوگرہ فوج کا کچھ حصہ اکتوبر
1947ء کے آخری ہفتہ جموں داخل ہو گیا کئی علاقوں کی مسلمان آبادی مرکزی
مقام جموں شہر میں پناہ لینے پہنچ گئی۔ اس وقت تک بھارتی افواج بھی کشمیر
کے دیگر حصوں کی طرح جموں داخل ہو چکی تھی۔ ڈوگرہ اور بھارتی فوج نے مشترکہ
طور پر مسلمان آبادی کا محاصرہ کرلیا۔ چوک سارباں اور ریزیڈنس روڈ میں
محصور، مجبور اور نہتے مسلمانوں نے انتہائی جرأت اور قوت ایمانی سے مسلح
تربیت یافتہ بھارتی فوج کا مقابلہ کیا۔ جب دشمنوں نے محسوس کیا کہ مسلمانوں
کی طرف سے مزاحمت کی جا رہی ہے اور وہ ہتھیار پھینکنے کو تیار نہیں تو پھر
انہوں نے انتہائی چالاکی اور مکاری سے لاؤڈ سپیکر کے ذریعے مسلمان کے لئے
یہ اعلانات کرنا شروع کر دیئے کہ اگر مسلمان مزاحمت ترک کردیں تو انہیں
بحفاظت پاکستان پہنچا دیا جائے گا۔ مسلمان اس دھوکہ میں آ گئے اور انہوں نے
مزاحمت بند کردی۔ مسلمانوں کو ڈوگرہ فوج نے گراؤنڈ میں اکٹھا کرکے سردی کے
موسم میں بھوکا پیاسا تڑپایا لیکن پاکستان آنے کی خوشی میں وہ تمام مصائب
خندہ پیشانی سے برداشت کررہے تھے۔ 5 نومبر 1947ء کو مسلمانوں کا پہلا قافلہ
بسوں اور ٹرکوں پر جانوروں کی طرح لاد کر چھاؤنی کے راستے سیالکوٹ کی طرف
موڑ دیا گیا اور شام ہوتے ہی بھارتی فوجیوں و ڈوگروں نے چاروں طرف سے اس
مظلوم قافلہ پر حملہ کردیا اور قافلہ میں شامل مرد، بوڑھے، بچے اور خواتین
پاکستان آنے کی آرزو میں جام شہادت نوش کر گئے اور چند ہی خوش قسمت کسی طرح
جان بچا کر سیالکوٹ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ دوسرے روز 6 نومبر کو ایک
قافلہ ترتیب دیا گیا جس میں ہزاروں مسلمان شامل تھے اس قافلے کو بھی پہلے
کی طرح جموں چھاؤنی کے قریب لاکر شہید کردیا گیا۔
یوم شہداء جموں کے حوالہ سے برطانوی مورخ ایسٹر لیمپ نے اپنی کتاب مستند
حقائق کے حوالہ سے انکشاف کیا کہ پنجاب سے ہندوؤں اور سکھوں کے خونی جھتے
جموں داخل ہو گئے جنہوں نے وحشیانہ قتل و غارت گری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دو
لاکھ سے زائد مسلمانوں کو شہید کردیا اور لاکھوں لوگوں کو مغربی پنجاب (پاکستان)
کی طرف دھکیل دیا۔
زندہ قومیں اپنے محسنوں کو یاد رکھتی ہیں۔ شہداء جموں کی قربانیاں یاد بھی
رکھی جائیں گی اور رائیگاں بھی نہیں دی جائینگی۔ اس مقصد کیلئے وادی جموں
کشمیر کے تمام حصوں اور بیرون ممالک میں بھی یوم شہداء جموں بڑی عقیدت و
احترام سے مناتے ہیں۔ اس موقع پر قرآن خوانی کے ساتھ ساتھ سیمینار ز اور
جلسے جلوسوں کا اہتمام کیا جاتا ہے جس کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں بھارتی
فوجی مظالم اور انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں پر سوئے ہوئے عالمی ضمیر کو
جگانا ہے۔ دوسرا مقصد ہندوستان کو یہ باور کرانا ہے کہ ہندوستانی فوج
کشمیریوں کی قتل عام اور مقبوضہ کشمیر میں اپنے تسلط کو جاری رکھ کر
کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو سرد نہیں کرسکتی۔ کبھی یوم سیاہ اور کبھی یوم
احتجاج مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی پرچموں کی بہار ہندوستانی فوج کے ظلم کی
سیاہ رات کے خاتمے کی نوید ہے۔ |