ملک کے اداروں کا جائزہ لیا جائے تو ایک ہی ادارہ ’’
چودھویں کے چاند‘‘ کی طرح واضع ہوتا ہے جس کے باعث تمام اداروں اور شعبوں
کی تاریکی ختم ہورہی ہے جبکہ قانون اور اصولوں کی مزیدروشنی کی توقع کی
جاسکتی ہے ۔یہ ہے وہ عدلیہ ، جس کا 2008 میں جنم ہوا، لوگ کہتے ہیں کہ
حقیقی جمہوریت کے آغاز پر عدلیہ آزاد ہوئی ورنہ اسے قائم ہوئے تو ساٹھ سال
بیت چکے تھے۔اس عدلیہ کو آزادی دلانے کے لیے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی
قربانی اور جدوجہد اہم ہے ۔آئین اور قانون کے راج کے لیے چیف جسٹس اور ان
کے ماتحت جج صاحبان گزشتہ پانچ سال سے محنت کررہے ہیں ۔لوگوں نے دیکھ لیا
اور دیکھ رہے ہیں کہ عام انتخابات ہو یا بلدیاتی انتخابات کا معاملہ عدالت
صرف آئین اور قانون کی بات کرتی ہے ۔اسی طرح ملک میں پیٹرولیم اور سی این
جی کے نرخ میں اضافے پر اگر کسی جانب سے کوئی سخت ردعمل دیکھنے میں آیا تو
وہ عدلیہ ہے ۔ جو کام سیاست دانوں ، سماجی اداروں اور این جی اووز کو کرنا
چاہیے وہ کام سپریم کورٹ کرتے ہوئے نظر آتی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ قوم کے
مسائل اور مشکلات کی مسیحا صرف عدالتیں ہیں ، انہیں ہی قوم کے دکھ درد کا
احساس ہے ، بصورت دیگر قوم کا دکھ درد ختم کرنے کے دعویدار تو بہت سے عناصر
ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اکثر دعویدار صرف قوم کے مسائل اور مشکلات میں
اضافے کا باعث بنے ہوئے ہیں کراچی میں جو ملک کا دل ہے اسے مفلوج کرنے کی
کوششیں متعدد بار کی جاتی رہیں بلکہ اکثر احتجاج اور سوگ کے نام پر شہر کو
بند کرادیا گیا ، عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے کے بجائے عوام کو مزید دکھ ،تکلیف
اور خوف میں مبتلا کرکے ایک نئی روایت قائم کردی گئی تو اس کے ذمہ دار کوئی
اور نہیں اپنے آپ کو عوام کے حقیقی نمائندے کہنے کے دعویدار ہیں ۔ سپریم
کورٹ نے خود اپنے فیصلوں میں واضع کیا کہ کراچی میں امن و امان کی صورتحال
خراب کرنے کی ذمہ دار پیپلزپارٹی ، متحدہ قومی موومنٹ اور اے این پی ہے ۔آج
یا ان دنوں اس سلسلے کو بریک لگا تو عدلیہ کے قانون پر عمل داری کے مسلسل
سبق اور سخت سزاؤں کے خوف سے ۔ ہمیں ماننا پڑے گا جسٹس افتخار چوہدری نے یہ
ثابت کیا کہ وہ ملک قوم کی بہتری کے مخلص ہیں۔
گزشتہ دنوں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کراچی بے امنی کیس کی سماعت
ہوئی۔عدالت کی پوری کارروائی اور چیف جسٹس افتخار چوہدری اور دیگر ججز کے
ریمارکس عدلیہ کی نئی تاریخ رقم کرنے کے مترادف تھے ۔ملک میں پہلی بار
منتخب حکومت کی جمہوری مدت کی تکمیل کی وجہ بھی آزاد عدلیہ کا خوف تھا جو
کسی طور پر غیر جمہوری اور غیر آئینی نظام کو برداشت نہیں کرنا چاہتی تھی
جس کے نتیجے میں تیسری قوت جو ہمیشہ ہی باآسانی جمہوریت کو پٹڑی سے اتار
کرپورے ملک پر قابض ہوجایا کرتی تھی ،اس بار ایسا نہیں کرسکی ۔
ملک خصوصاََ کراچی میں طویل عرصے سے خراب چلی آنے والی امن و امان کی
صورتحال آج بدل رہی ہے شہر میں امن قائم ہورہا ہے تو اس کا کریڈٹ عدلیہ کو
جاتا ہے ، عدلیہ جو چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں آئین اور قانون
کی بالادستی کے لیے قائم ہے ڈر لگتا ہے کہ اسے کہیں ’’ نظرنہ لگ جائے‘‘ َ۔
چلیں چھوڑیں ، کراچی میں حال ہی میں حال ہی میں بے امنی کیس کی ہونے والی
سپریم کورٹ کی سماعت کے دوران ججز کے ریمارکس پر نظر ڈالتے ہیں۔تین رکنی
بنچ نے کہا کہ( ۱) ہم دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا حصہ ضرور ہیں لیکن
ہماری ترجیح اپنے شہروں اور ملک کی حفاظت ہونا چاہیے۔
(۲) کوئی یہ نہیں سمجھ رہا کہ یہ میرا شہر ہے ، میرا ملک ہے، ملک کو بچانا
ہے توکراچی کو محفوظ کریں۔
(۳) اگراسلحے سے بھرے نیٹو کنٹینر چوری نہیں ہوئے تو جدید ہتھیار کہاں سے
آتے ہیں ؟ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ کراچی سے اسلحے کی ترسیل بند کرائی جائے۔
(۴) عدالت نے کہا کہ کراچی میں پولیس اور رینجرز کی کارروائیاں خوش آئند
ہیں ، یہ بڑی بد قسمتی ہوگی اگر اس میں ریورس گیئر لگا،اس لیے پولیس کی
اضافی نفری تعینات کی جائے یاکسی دوسری ایجنسی سے مدد لی جائے ،اس تسلسل کو
جاری رکھیں ۔
(۵) عدالت نے چیرمین ایف بی آر سمیت دیگر اداروں کے ڈی جیز کی شدید سرزنش
کرتے ہوئے کہا کہ آپ میں کوئی قوت ارادی نہیں ہے ،قوت ارادی ہوتی تو آپ
وفاق کو لکھتے کہ کراچی میں اسلحہ اور منشیات کے خلاف بڑے آپریشن کے لیے
فوج سے مدد لیں مگر آپ کام نہیں کرنا چاہتے ۔ہم وفاق سے کہیں گے کہ آپ سب
کو فارغ کردیں اور نیا خون اداروں میں لیکر آئیں۔
(۶) عدالت نے کہا کہ ملک کی معیشت اسلام آباد میں بیٹھ نہیں چل سکتی۔چیرمین
ایف بی آر کو کراچی میں بیٹھنا ہوگاملک کو بچانے کے لیے کراچی کو بچانا
ہوگا۔
(۷) چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں اﷲ کی مدد حاصل ہے ہمیں کسی سے ڈرنے کی ضرورت
نہیں ،ایک کرمنل ملک کا قانون توڑتا ہے تو آپ اس کو کس بات کی رعایت دے رہے
ہیں؟
(۸)چیف جسٹس نے کہا کہ ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ سیاسی جماعتیں جو عوامی
نمائندگی کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں وہ جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی کررہی ہیں۔
سپریم کورٹ کی ازخود نوٹسز اور دیگر اقدامات کے ثمرات واضع ہیں لیکن باوجود
اس کے عام آدمی کے مسائل اور مشکلات اب بھی بہت ہیں ۔سپریم کورٹ اور ہائی
کورٹ عام اور غریب عوام سے اب بھی لحاظ سے دور ہیں ۔میرا خیال ہے کہ سپریم
کورٹ کے بے امنی اور دیگر کیسز کی سماعت کے دوران دیئے جانے والے ریمارکس
اور رولنگ کو ملک کے مختلف اداروں میں اقوال زریں کریں کے طور پر بڑے بڑے
حروف سے لکھے جانا چاہیے تاکہ ہر سرکاری افسر اور دیگر افراد کو یہ یاد
رکھیں اور وہ قانون پر عمل دارآمد کرنا نہ بھولیں۔
تاہم یہ بات بہت تکلیف دہ ہے کہ اب بھی لوئر کورٹس کے حالات پہلے جیسے ہی
ہیں ، متعدد اقدامات کے باوجود مختلف وجوہات کی بناء پر ہزاروں مقدمات
التواء کا شکار ہیں ۔اکثر مقدمات کا سامنا عام غریب افراد کو کرنا پڑتا ہے
۔ان عدالتوں کے متاثرین باآسانی اس لیے بھی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ تک
نہیں پہنچ پاتے کہ ان کے پاس وکلاء کو فیس کی مد میں دینے کے لیے پیسے نہیں
ہوتے ۔جبکہ آئے روز وکلاء کی ہڑتال اور دیگر مسائل کی وجہ سے ایڈیشنل سیشن
ججز ،سیشن ججز کاور مجسٹریٹ کی عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات بری طرح متاثر
ہوتے ہیں۔ ان سب سے بڑھ کر جج صاحبان کی تعیناتی نہ ہونا بھی ایک بہت بڑا
مسلہ ہے ۔صرف کراچی میں ایک درجن سے زائد عدالتوں میں ججز صاحبان نہ ہونے
کی وجہ سے لنک ججز یا قائم مقام ججز اضافی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔
ان تمام صورتحال کے باعث قتل اور دیگر مقدمات میں ضمانت اور بریت کی
درخواستیں التواکا شکار ہیں ۔جس کی وجہ سے کئی خاندان پریشانی میں مبتلا
ہیں ۔ان خاندانوں اور ایسے معاملات کے متاثرین بھی چیف جسٹس افتخارچوہدری
کی جانب للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے ہیں ۔متاثرین کو اس معاملے میں بھی
صرف موجودہ چیف جسٹس افتخارچوہدری اور ان کے کے ماتحت ججز صاحبان سے توقع
ہے کہ وہ ان مسائل کے حل کی بھی کوئی سبیل نکالیں گے۔
ساتھ ہی جیلوں میں نا صرف قیدیوں کی اصلاح بلکہ جیل کے عملے کی اصلاح کے
ساتھ ان کے احتساب پر بھی توجہ دی جائے گی۔اگر جیلوں کا نظام قانون کے
مطابق نہ بنایاجاسکا اور اس معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹنے والوں کا کچھ بھی
نہ ہوگا جبکہ جو جیل میں پہنچ کر توبہ کرتے ہیں ان کے بگڑنے کے مواقع زیادہ
ہیں۔ یہ بات عام ہے کہ جیل میں قیدیوں سے ملاقات اور انہیں ان کی ضروری
اشیاء پہنچانے تک کے لیے روپیہ پیسہ لیا جاتا ہے ۔جیل کے عملے کی آمدنی کا
بڑا ذریعہ ان کی تنخواہیں ہونی چاہیئے لیکن جیل کے قیدی ہیں جو اپنے رشتے
داروں سے منگواکر متعلقہ عملے کو دیتے ہیں۔صرف سنٹرل جیل کراچی ہی نہیں ملک
کی تقریباََ تمام جیلوں کی صورتحال ابتر ہے ،قانون کی حکمرانی جیل کے اندر
کہیں بھی نظر نہیں آتی۔دنیا بھر میں جیل مجرمانہ ذہن کی اصلاح کرتے ہیں اور
ہمارے ملک کے جیلوں میں ایسے اذہان کے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے
۔نتیجہ میں چھوٹا مجرم خطرناک مجرم اور ملزم مجرم بن کرجیل سے باہر آتا
ہے۔۔۔۔۔ان مسائل کو کسی اور کے سامنے رکھنے کے بجائے میں چیف جسٹس افتخار
چوہدری اور ان کی ماتحت عدلیہ کے حوالے کرتا ہوں کہ اب صرف ان سے ہی اچھی
امیدیں وابستہ ہیں۔۔ |