ایک ایسے موقع پر کہ جب حکومت اور تحریک طالبان کے درمیان
مذاکرات کی بات سنجیدہ حد تک پہنچ چکی تھی، حکیم اﷲ محسود پر امریکی ڈرون
حملے نے پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے بہت سے سوالات کھڑے کردیئے ہیں۔
ابھی چند روز قبل ہی وزیر اعظم نواز شریف نے دورہ امریکہ کے دوران ڈرون
حملوں کا معاملہ اٹھایا تھا ۔ جونہی ان کا دورہ ختم ہوا، امریکی ڈرون حملوں
کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ ان حملوں کی ٹائمنگ اس حوالے سے انتہائی اہم
تھی کہ حکومت پاکستان، اپوزیشن اور دوسری سیاسی و مذہبی جماعتیں طالبان سے
مذاکرات کے حوالے سے ایک ہی صفحے پر تھے۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ اس سلسلے
میں حکومت کو فوج کی مکمل تائید و حمایت حاصل تھا۔ تحریک طالبان پاکستان کی
جانب سے بھی ایسے اشارے مل رہے تھے جس سے مذاکرات کی راہ ہموار ہوتی ہوئی
صاف نظر آرہی تھی۔ اس طرح پاکستان کو گزشتہ ایک دہائی سے جس خوفناک دہشت
گردی کا سامنا ہے اور جس کے نتیجے میں ہزاروں معصوم شہری اور افواج پاکستان
کے بہت سے دلیر افسر اور جوان شہید ہوچکے ہیں ،اس کا خاتمہ ہوتا ہوا نظر
آرہا تھا۔ پاکستان کے عوام بھی اس حوالے سے کافی مطمئن تھے۔ گو کہ اس دوران
دہشت گردی کے بہت سے واقعات بھی ہوئے جس سے حکومت مذاکرات سے ہٹ سکتی تھی
خاص طورپر پشاورمیں چرچ پر ہونے والے حملے، اس کے بعد قصہ خوانی بازار اور
سب سے بڑھ کر پاک فوج کے سینئر ترین افسر میجر جنرل ثناء اﷲ نیازی کی دہشت
گردی کے حملے میں شہادت سے مذاکرات کے حوالے سے ماحول کافی کشیدگی کا شکار
ہوچکا تھا مگر پھر بھی حکومت اور فوج نے لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات
کی کوششیں جاری رکھیں۔ اس طرح کم از کم ان عناصر کی خوب حوصلہ شکنی ہوئی جو
اس عمل کو متاثر کرنا چاہتے تھے۔
اب تصویر کے دوسرے رخ کی طرف آتے ہیں کہ اگر ایک طرف دہشت گردی کی
کارروائیوں کے باوجود حکومت طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے پرعزم رہی تو
امریکہ کی جانب سے ڈرون حملے کے ذریعے حکیم اﷲ محسود کو ہلاک کرکے دوسری
طرف اب طالبان کی صفوں حکومت پاکستان کے خلاف اشتعال پیدا کرنے کی کامیاب
کوشش کی گئی ہے۔ اس امریکی ’’کامیابی ‘‘ کی ایک مثال یہ ہے کہ طالبان نے
امن مذاکرات کو یکطرفہ طورپر معطل کرکے دہشت گردی کی کارروائیوں کی دھمکی
دی ہے۔ طالبان کے ترجمان کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ حکومت کے ساتھ اس وقت
تک امن مذاکرات نہیں ہوسکتے جب تک کہ وہ امریکی پالیسیوں سے خود کو الگ اور
اپنی پوزیشن واضح نہیں کرتی۔امریکہ اس صورتحال سے ایک اور فائدہ اٹھانے کی
کوشش کررہا ہے۔ اس کی طرف سے افواج پاکستان کے خلاف نفرت کے بیج بونا اور
اس واقعے کی بنیاد پر کر لوگوں میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کے سلسلے میں
پراپیگنڈہ مہم ہے ۔بہرحال حکیم اﷲ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد
امریکہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے حکومت کو شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ گو کہ
حکومت کی جانب سے اس حملے کی شدید مذمت کی جارہی ہے تاہم ابھی بھی وہ پاک
امریکہ تعلقات کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہے۔ وزیر اطلاعات پرویز رشید نے
کا کہنا تھا کہ ڈرون حملہ مذاکرات پر ہوا ہے لیکن ہم مذاکرات کو’’ہلاک‘‘
نہیں ہونے دیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارا موقف یہی رہا کہ مذاکرات ہونے
چاہئیں اب دوسرے فریق کو بھی اسی جذبے کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ان کا کہنا تھا
کہ جوعناصرمذاکرات میں خلل ڈالناچاہتے ہیں ان کو روکنے کے اقدامات کریں گے۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا بھی کہنا تھا کہ حکیم اﷲ محسود کا قتل
دراصل امن کوششوں کا قتل ہے۔انہوں نے بھی یہ عزم دہرایا کہ حملے کے باوجود
طالبان سے مذاکرات کی کوششیں جاری رکھیں گے۔ طالبان بھی صبر سے کام لیں اور
امریکی پالیسی کو کامیاب نہ ہونے دیں۔ ان کا کہناتھا کہ افواج پاکستان نے
اپنی جانوں کی قربانیوں کے باوجود مذاکراتی عمل کیلئے سیاسی قیادت کا ساتھ
دیا۔ پاکستان کی سیاسی قیادت اور عوام نے بھی دکھ اٹھائے، مگر فوج، حکومت
نے درگزر سے کام لیا۔اس حوالے سے عمران خان نے بھی خیبرپختونخوا میں نیٹو
سپلائی بند کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ حکیم اﷲ محسود کو نشانہ بنا
کرامریکا نے امن عمل کو سبوتاژ کیا ہے۔پاکستان کے مختلف مذہبی و سماجی
حلقوں کی جانب سے بھی امن کوششوں کو سبوتاژ کرنے پر امریکہ کی مذمت کی گئی
ہے۔ دفتر خارجہ نے بھی امریکی سفیر رچرڈ اولسن کو طلب کرکے ڈرون حملوں پر
شدید احتجاج کیا۔ وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں بتایا گیا کہ
پاکستان نے اپنی سرزمین پر ڈرون حملوں سے متعلق تسلسل کے ساتھ یہ مؤقف
اختیار کیا ہے کہ یہ پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کے علاوہ بین
الاقوامی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہیں۔ پاکستان امن کے لئے جو کوششیں کر
رہا ہے یہ حملے ان کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ حالیہ
ڈرون حملے نے پاکستان اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات پر منفی
اثرات مرتب کئے ہیں۔ تاہم حکومت تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کا عمل جاری
رکھنے کے بارے میں پرعزم ہے۔ یہ تو ہے حکومت کی خواہش مگر دوسری جانب
طالبان کی طرف سے مذاکرات کے حوالے سے کوئی مثبت اشارے نہیں مل رہے ۔
اس طرح حکیم اﷲ محسود کو ہلاک کرکے امریکہ نے بہت سے مقاصد حاصل کئے ہیں
بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ایک ڈرون سے کئی شکار کئے ہیں۔ اس حملے نے حکومت کی
مذاکرات کی طویل کوششوں کو ایک ہی پل میں ناکام بنا دیا ہے۔ طالبان کو پھر
سے مشتعل کردیا ہے اور نہتے عوام کو پھر سے خوف اور خدشات کی جہنم میں
دھکیل دیا ہے۔ حکومت کے لیے یہ صورتحال انتہائی مشکل ہے۔ اسے اس حوالے سے
مختلف حلقوں کی جانب سے شدید دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ امریکہ سے تعلقات اور
نیٹو سپلائی کی بندش کے حوالے سے فوری فیصلہ کرے۔ عمران خان کی جانب سے
خیبرپختونخوا میں نیٹو ٹرکوں کو داخلے سے روکنے کا عزم کرلیا گیا ہے۔
طالبان کی جانب سے بھی حکومت پر دوغلا ہونے کا الزام لگایا جارہا ہے
اورحکومت کے حوالے سے ان پر بداعتمادی کا عنصر غالب ہوتا جارہا ہے۔ میڈیا
اور عوام کی جانب سے بھی بہت سے سوالات پوچھے جارہے ہیں۔ یہ بھی اطلاعات
ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کا نیا سلسلہ شروع کردیا
جائے۔ یہ تمام حالات و واقعات اس بات کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ امریکہ
سمیت ملک دشمن قوتیں پاکستان کو تباہی کی جس نہج تک پہنچانا چاہتی ہیں، اس
میں وہ کافی حد تک کامیاب ہوچکی ہیں۔ طالبان کی جانب سے ردعمل دکھایا گیا
تو ظاہر ہے اس کا نقصان معصوم افرادکو اٹھانا پڑے گا جو پہلے ہی سے دہشت
گردی کے بھیانک ناگ کے ہاتھوں سہمے ہوئے ہیں اور مسلسل ڈسے جارہے
ہیں۔پاکستان کے عوام کی خواہش ہے کہ طالبان کی جو نئی قیادت سامنے آئے گی
کہ وہ ان امریکی سازشوں کو بھانپتے ہوئے اپنا غصہ پاکستان اور نہتے عوام پر
نہ اتارے بلکہ مذاکراتی عمل کو جاری رکھ کر امریکی ڈرون حملے کے مقاصد کو
ناکام بنا دے۔ دوسری جانب حکومت پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ
امریکہ سے پاکستان کے مفادات کے تناظر میں تعلقات استوار کرے۔ امریکی
مفادات کی حفاظت کرتے ہوئے ہم نے اپنے ملک کو آگ اور خون کی جس بھٹی میں
جھونک رکھا ہے، اب ہم اس میں کے مزید متحمل نہیں ہوسکتے۔ پاکستان میں اب
جمہوری ادارے فعال ہیں اور جمہوری حکومت کو ملکی مفادات اور عوامی خواہشات
کے تناظر میں کسی اندرونی و بیرونی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر فیصلے کرنے
چاہئیں ۔ |