پاکستان میں چھڑی امریکی جنگ کے بعد ہر دور حکومت میں
طالبان سے مذاکرات کی کوشش کی گئی تو کبھی طاقت کے استعمال سے مسئلہ کو حل
کرنے کے لئے گھوڑے دوڑائے گئے۔ مگر طاقت کے استعمال سے یہ مسئلہ نہ حل
ہوسکا بلکہ دن بدن بگڑتا چلا گیا اور پاکستان کے اندرونی حالات بد سے بدتر
ہوتے چلے گئے۔ چناچہ طالبان سے مذاکرات کے ذریعہ مسئلہ حل کرنے کا فیصلہ
کیا گیا اور اسی سلسلہ میں ملک میں اندرونی سطع پر قیام امن کو ممکن بنانے
کی کاوشیں کی گئیں۔ ہر آنے والی حکومت نے کئی دعوے کیے مگر ابھی تک کسی بھی
نتیجہ پر نہیں پہنچ سکے اور نہ ہی مزاکراتی عمل بہتر انداز میں شروع ہو سکے۔
2013 کے الیکشن میں کامیاب ہونے والی جماعت نے بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات
کے فروغ کا نہ صرف ارادہ کیا بلکہ اسکو عملی جامہ پہنانے کے لیے اقدامات
کرنے کے عزم کو دہرایا۔ چناچہ طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل کو آگے تو
بڑھایا گیا مگر وہ پائیہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا کیونکہ یہ طالبان سے
پاکستانی حکومت کے مذاکرات ایک غیر فطری عمل ہے۔ طالبان اور پاکستان کے
عقائد نظریات میں بڑا بنیادی فرق ہے ۔ جس کی بنا پر طالبان سے پاکستان کے
مذاکرات شاید ممکن ہی نہیں اگر ممکن ہونا بھی ہو تو شاید پایہ تکمیل کو نہ
پہنچیں۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ طالبان جس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں وہ گروہ جمہوریت پر
یقین نہیں رکھتا اور نہ ہی جمہوری اقدار کو کسی کھاتے میں لاتا ہے۔ جبکہ اس
کے برعکس پاکستان میں نہ صرف جمہوریت کے تحفظ کے لئے جنگیں لڑی گئیں بلکہ
ہر دور میں جمہوریت کی بقا کے لیے جدو جہد کی گئی۔
دوسری طرف طالبان اور ان کے حمایتی گروہ قیام خلافت اور نفاذ شریعت کے لیے
سرگرمِ عمل ہیں اور انہوں نے ہر دور میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے نہ صرف
جدو جہد کی بلکہ کئی جانوں کے نظرانے بھی پیش کیے۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ
طالبان امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے تعلقات کی بہتری کو اپنی دشمنی سے
تعبیر کرتے ہیں جبکہ پاکستان اس وقت اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ امریکہ کو
آنکھیں دکھا سکے یا امریکہ سے اپنے تعلقات میں کشیدگی برداشت کرسکے۔اور ان
بنیادی اختلافات کا اظہار طالبان کے کمانڈر حکیم اﷲ محسود نے بھی بی بی سی
کو اپنے ایک انٹرویو میں کیا۔
لہذا ایسی صورتحال میں اگر حقیقت پسندانہ نظر سے دیکھا جائے تو نہ طالبان
اپنے عقائد اور مقاصد سے ہٹنے کو تیار ہیں جبکہ دوسری طرف پاکستان کی سیاسی
قیادت پاکستان میں قیام خلافت اور ردِ جمہوریت کو ماننے کو تیار ہے اور نہ
ہی پاکستان کی قیادت کبھی ایسے فیصلوں کی حمایت کرے گی۔ کیونکہ قیام خلافت
کی مخالفت نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی کی جاتی رہی ہے اور آج تک
جاری ہے۔
لہذا ایسی صورتحال میں پاکستان کی قیادت اور طالبان کی قیادت کو چاہیے کہ
اپنے اپنے مؤقف میں لچک پیدا کریں تاکہ اس ملک و ملت کی فلاح و کامیابی کے
لیے جدو جہد کی جاسکے۔ |