مولاناآزادرحمۃ اﷲ علیہ نے متحدہ ہندستان کا خواب دیکھا تھا

باسمہ تعالیٰ

مولاناابوالکلام آزاد رحمۃ اﷲ علیہ کی حیثیت عام ہندستانیوں کے لیے صرف ایک مجاہدآزادی اورہندستان کے پہلے وزیرتعلیم کی ہے،اورسیاسی لوگوں کے نزدیک ایک کانگریسی کارکن کی،یہی وجہ ہے کہ جب یوم آزادی یایوم جمہوریہ کی تقاریب منائی جاتی ہیں تودیگرمجاہدین آزادی کی طرح مولاناآزادؒ کابھی بس نام لے کر انہیں خراج عقیدت پیش کردیا جاتاہے یااس سے زیادہ یادکرنے کی نوبت آئی توان کے یوم پیدائش پرکچھ تقاریب کاانعقادکرکے یایوم تعلیم مناکر مولاناآزادکی کی روح کوٹھنڈک پہنچادیتے ہیں اوربس،جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مولاناآزادرحمۃ اﷲ علیہ ہمہ جہت شخصیت کے حامل ایسے انسان تھے،جنہوں نے ہندستانی مسلمانوں کی زندگی کے تمام گوشوں میں ان کی قیادت کی ہے،وہ بیک وقت مجاہدبھی تھے،مفکربھی،خطیب بھی تھے اورسیاسی وملی قائدبھی،وہ بے باک صحافی بھی تھے جن کی تحریروں نے انگریزوں کی ناک میں دم کردیاتھااوران کے قلم کی طاقت کوروکنے کے لیے بارہاپریس پرپابندی اورضمانت کی گراں قدررقم کے بوجھ تلے دبایاگیا،وہ اسلامی علوم کے ماہراورمفسرقرآن بھی تھے،غرض کہ آپ مولاناآزادؒ کوزندگی کے جس گوشہ میں تلاش کریں گے وہاں انہیں مکمل طورپرپائیں گے،کہیں کوئی گوشہ تشنہ نہیں ملے گا،لیکن وقت کی ستم ظریفی کہیے یاہماری کوتاہی کہ ہم نے مولاناآزادؒ کو صرف اورصرف مجاہدآزادی اور ملک کے پہلے وزیرتعلیم تک محدودکرکے ان کی افادیت کو محدوددائرے میں سمیٹ کررکھ دیاہے۔

مولاناابوالکلام آزادرحمۃ اﷲ علیہ نے ۱۱؍نومبر۱۸۸۸ء کومکہ معظمہ سعودی عرب میں ایک علمی خانوادے میں آنکھیں کھولیں،مولاناآزادؒکے والدمحترم عرب دنیامیں اپنی خاص شناخت رکھتے تھے،انہوں نے مکہ معظمہ کے باشندوں کے لیے بنائی گئی نہرزبیدہ جسے خلیفہ ہارون الرشیدکی اہلیہ زبیدہ نے خاص اپنے رقم سے مکہ کے باشندوں اورحاجیوں کے لیے بنوائی تھی جووقت کے ساتھ ساتھ کافی بوسیدہ ہوگئی تھی ،آپ کے والدمحترم نے خاص اپنی محنت اورلگن کے ذریعہ اس نہرکی مرمت کروائی جس کے صلہ میں ترکی کے سلطان عبدالمجیدنے انہیں اعزازکے طورپرمجیدی تمغہ سے نوازا۔جب مولاناآزادؒ دوسال کے ہوئے توان کے والدانہیں لے کرکلکتہ آگئے،اورپھریہیں کے ہوکررہ گئے۔عام روایت سے ہٹ کرمولاناآزادکے والدنے ان کے لیے دینی تعلیم کوپسندفرمایااوراس کے لیے انہیں کسی مدرسہ میں بھیجنے کے بجائے گھرپرمستنداورفن کے ماہرعلماء سے تعلیم کاانتظام فرمایا۔ اوراس طرح عام روش سے ہٹ کرجب مولانانے تعلیم حاصل کی تودوسرے طالب علموں کے مقابلہ صرف ۱۶؍سال کی عمرمیں تعلیم سے فراغت حاصل کرلی اوراس کے ساتھ ہی والدصاحب کی ایماء پرطالب علموں کوپڑھانابھی شروع کردیا۔یہ تھی مولاناآزادرحمۃ اﷲ علیہ کی زمانہ طالب علمی کی انفرادیت کہ جس عمرمیں طلبہ حصول علم میں لگے رہتے ہیں مولانا اسی کم عمری میں تمام علوم سے فارغ ہوگئے اورساتھ ہی تدریس کاعمل بھی شروع کردیاجومولاناکے ہمہ جہت اوریکتائے روزگارہونے کی واضح دلیل ہے۔

مولاناآزادرحمۃ اﷲ علیہ سیاسی طورپرملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کانگریس سے وابستہ تھے اوراس کے ایک اہم اورسرگرم کارکن تھے،مولاناآزادؒ کاشمارصف اول کے کانگریسیوں میں ہوتاتھااورگاندھی جی کے قریبی مشیروں یارفقائے کارمیں ان کاشمارہوتاتھاجن میں جواہرلعل نہرواورسردارپٹیل بھی شامل تھے۔مولاناآزادرحمۃ اﷲ علیہ ان مسلم علماء قائدین میں سے ایک اہم قائدتھے جوتقسیم ہندکے سخت مخالف تھے،مولاناآزادکاخواب متحدہ ہندوستان کاتھا،وہ چاہتے تھے کہ ہندستان انگریزوں کی غلامی سے آزادتوہولیکن تقسیم نہ ہو،کیوں کہ تقسیم ملک کوتباہی کی طرف لے جائے گا،اوربعدکے حالات نے مولاناآزادؒ کے اس شبہ کویقین میں بدل دیا،مولاناآزادؒ ان سیاسی قائدین میں سے نہیں تھے جو اپنے مفادات کی خاطرملک کی تقسیم کے درپے تھے،بلکہ مولاناآزادؒ ہندستان کے وسیع ترمفادات کوسامنے رکھ کرتقسیم کی مخالفت کررہے تھے،جب ملک کی سیاسی حالت کانقشہ بدلتے دیکھ کرمولاناآزاددل برداشتہ ہوگئے اورانہیں یہ یقین ہوگیاکہ اب اس تقسیم کوکوئی نہیں روک سکتاتوان کی آخری نگاہ امیدگاندھی جی پرجاکرٹکی اورمولاناآزادنے بڑے الحاح وزاری کے ساتھ گاندھی جی سے التجاکی کہ اب پورے ملک کی نگاہ آپ ہی پرہے،ایسے وقت میں جب کہ جواہرلعل نہرواورسردارپٹیل بھی ہارمان چکے ہیں اوران لوگوں نے تقسیم کی حمایت کردی ہے تواب آپ ہی اس وقت ملک کوتقسیم کی تباہی سے بچاسکتے ہیں،اس سلسلہ میں مولاناآزادرحمۃ اﷲ علیہ کی گاندھی جی سے جوبات چیت ہوئی وہ مولاناکی ہی زبان میں پڑھیں:جب مولاناآزادنے گاندھی جی سے تقسیم کے بارے میں بات کی تو گاندھی جی نے کہا: تقسیم واقعی اب ایک خطرہ بن گئی ہے،پٹیل اورجواہرلال نہرونے تو شاید ہتھیارڈال دیے ہیں،تمہاراکیاارادہ ہے؟تم بھی بدل گئے ہویاتم میراساتھ دوگے؟میں نے جواب دیا:میں ہمیشہ تقسیم کے خلاف تھااوراب بھی ہوں،میں توکہوں گاکہ تقسیم کا جتنا سخت مخالف میں آج ہوں،اتناپہلے کبھی نہیں تھا،مگرمیں اس بات سے بے حدپریشان ہوں کہ جواہرلال اورسردارپٹیل نے ہارمان لی ہے،یاجیساآپ نے فرمایاہتھیارڈال دیے ہیں،اب مجھے جوامیدہے وہ آپ سے ہے،اگرآپ نے استقلال کے ساتھ تقسیم کی مخالفت کی توہم اب بھی بچ سکتے ہیں لیکن آپ بھی دب گئے تومجھے ڈرہے کہ ہندوستان تباہ ہوجائے گا۔گاندھی جی نے کہا:یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے اگرکانگریس تقسیم کوتسلیم کریگی تووہ صرف میری لاش کوروندکرکرے گی جب تک میرے جسم میں جان ہے میں تقسیم پرکبھی راضی نہ ہوں گااوراگرمیرابس چلاتوکانگریس کوبھی راضی نہیں ہونے دوں گا۔(ہماری آزادی:۳۷۵)

اس کے بعدمولانانے اسی خودنوشت میں لکھاہے کہ گاندھی جی کی باتوں سے ہمیں یہ امیدجگی تھی کہ اب جب کہ گاندھی جی بھی تقسیم کے مخالف ہیں اورانہوں نے لارڈماؤنٹ بیٹن سے بات کرنے کی کہی ہے تویقیناتقسیم رک جائے گی،لیکن اس وقت مولاناکی امیدوں پرپانی پھرگیاجب گاندھی جی بھی سردارپٹیل اورجواہرلال نہروکی باتوں میں آگئے اوروہ بھی تقسیم کے لیے رضامندہوگئے۔اس کے بعدجب ۱۴؍جون ۱۹۴۷ء کو کانگریس کاجلسہ ہواجس میں خودکانگریس کوتقسیم کی تجویزپاس کرنی تھی،اس میں مولاناآزادرحمۃ اﷲ علیہ تقسیم ہندکے اس اندوہناک فیصلہ سے اتناٹوٹ چکے تھے کہ خودمولاناکابیان ہے کہ اس سے قبل کئی بارمیں نے کانگریس کے جلسہ میں شرکت کی تھی لیکن اتنابوجھ کبھی محسوس نہیں کیاجتناکہ کانگریس کے اس اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے میں اپنے دل ودماغ پربوجھ محسوس کررہاتھا،پھرمولاناآزادؒ نے اس جلسہ میں جوتقریرکی ہے وہ آب زرسے لکھے جانے کے قابل ہے،مولاناکی تقریرکے ہرہرلفظ سے ان کے گہرے دکھ اورصدمہ کااظہارہوتاہے،اورمولانانے آخرمیں اس بات پرزوردیاکہ بھلے ہی مکان تقسیم ہوجائیں لیکن دل جڑے رہیں، اوریہی مولاناکاآخری پیغام تھا:مولانانے اپنی تقریرمیں فرمایاکہ:’’ہندستان کاتقسیم ہوجاناایک جاں کاہ حادثہ ہے،اورہم اپنی معذرت کے لیے زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اس سے بچنے کی امکانی کوشش کی لیکن ناکام رہے،پھربھی ہمیں یہ بھولنانہ چاہیے کہ قوم ایک متحدقوم ہے ،اوراس کی تہذیب مشترک کانمونہ ہے اوررہے گی،چوں کہ سیاسی اعتبارسے ہم ناکام رہے ہیں اس لیے ملک کوتقسیم کررہے ہیں،ہمیں تسلیم کرلیناچاہیے کہ ہم نے شکست کھائی ہے لیکن ساتھ ہی ہمیں اس کی کوشش کرنی چاہیے کہ ہماری معاشرت اورتہذیب تقسیم نہ ہونے پائے۔پانی پرچھڑی رکھ دینے سے ایسامعلوم ہوسکتاہے کہ وہ دوحصوں میں تقسیم ہوگیاہے لیکن پانی جوں کاتوں رہتاہے اورچھڑی کے ہٹتے ہی ظاہری تقسیم بھی غائب ہوجاتی ہے۔(ہماری آزادی:۳۹۵)

مولاناآزادرحمۃ اﷲ علیہ کایہی وہ دردتھاجس کی بنیادپرانہوں نے۹؍اپریل۱۹۵۰ء میں انڈین کونسل فارکلچرل ریلیشنز کے نام سے ایک تہذیبی وثقافتی ادارہ کی بنیادڈالی،جس کا بنیادی مقصدہی یہی تھاکہ دونوں ملکوں کوآپس میں متحدرکھنے کے لیے بین ملکی تہذیبی وثقافتی پروگرام کرائے جائیں تاکہ جومکانی اعتبارسے دورہوچکے ہیں،وہ کم ازکم قلبی اعتبارسے قریب ہوجائیں اورانہیں اپنوں سے بچھڑنے کاغم نہ ہو۔حکومت ہندکوچاہیے کہ اس ادارہ سے وہی کام لیے جائیں جس کے پیش نظرمولانانے اس کی بنیادرکھی تھی ،یہ بھی ایک طرح سے مولاناکے لیے سچی خراج عقیدت ہوگی اوردونوں ملکوں کے درمیان مضبوط تعلقات قائم کرنے کی ایک سنہری کڑی ثابت ہوگی۔

ایک بات عرض کرتاچلوں کہ مولاناآزادرحمۃ اﷲ علیہ تقسیم ہندکے مخالف ضرورتھے لیکن جب پاکستان وجودمیں آگیا تومولاناآزادرحمۃ اﷲ علیہ پاکستان کی بہترتعمیراورمضبوطی کے لیے ہمیشہ متفکررہاکرتے تھے اورمولاناکی یہ کوشش رہتی تھی کہ جب بھائی نے اپناالگ گھربسالیاہے تواب ضرورت ہے کہ انہیں ان کی ضروریات بھی پوری کی جائیں،تاریخی دستاویزوں سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مولاناآزادرحمۃ اﷲ علیہ نے اس وقت کے مشہوراورمستندعلماء کی ایک جماعت کواپنے دفترمیں بلاکرفرمایاکہ اب جب کہ پاکستان کا وجود ہوچکاہے تومیں چاہتاہوں کہ آپ میں سے کچھ لوگ پاکستان ہجرت کرجائیں اورپاکستان کی تعمیرمیں سرگرم رول اداکریں،اورایساہوابھی۔اﷲ مولاناآزادرحمۃ اﷲ علیہ کی قربانیوں کوقبول فرمائے۔آمین،اوراس وقت ملت اسلامیہ ہندیہ کے لیے مولاناآزادرحمۃ اﷲ علیہ جیساہی کوئی قائدپیدافرمادے جومختلف گروپوں میں تقسیم کرنے کے بجائے سب کے دلوں کوجوڑکرایک متحدقوم بناکرسب کی قیادت کرے۔آمین

Ghufran Sajid Qasmi
About the Author: Ghufran Sajid Qasmi Read More Articles by Ghufran Sajid Qasmi: 61 Articles with 50699 views I am Ghufran Sajid Qasmi from Madhubani Bihar, India and I am freelance Journalist, writing on various topic of Society, Culture and Politics... View More