اقبال بڑا اپد یشک ہے ،من با توں میں مو ہ لیتا ہے

نشا ں یہی ہے زما نے میں زندہ قومو ں کا
کمال صدق و مروت ہے زندگی ان کی
کہ صبح و شام بد لتی ہیں ان کی تقدیریں
معا ف کرتی ہے فطر ت بھی ان کی تقصیریں
قلندرانہ ادائیں سکندرانہ جلال
یہ امتیں ہیں جہا ں میں بر ہنہ شمشیریں
حضرت وا صف علی واصف فر ما تے ہیں حیا ت فی نفسہ مقصد حیا ت نہیں مقصد حیا ت تو حیا ت جا وداں ہے ۔مفکر پا کستان ڈا کٹر علا مہ محمد اقبال ؒ نے شا عری کو جس ہتھیا ر کے طو ر پر استعمال کیا ہے اس کی مثال تا ریخ اسلام کے شعراء میں ہر گز نہیں ملتی ۔ اقبال نے خو دی کا فلسفہ ، جذبہ اورنظریہ اس قدر اپنے فن اور شوق سے بیان کیا ہے کہ اسکی حقیقت اور اہمیت مز ید اجا گر ہو نے لگی ہے ۔ ان کے معروف و مشہو ر شا عرانہ اسلوب اور نظریا ت میں نظریہ خو دی ، بے خو دی ، نظریہ وطنیت و قو میت ، تصور شاہین ، تصو ر ابلیس ، تصور علم و عمل ، تصور عشق و محبت ، تصور جبر و قدر ، تصور جمہو ریت و آمریت ، تصو ر حیا ت و مو ت ، تصور تو حید و رسالت پہنا ں ہیں ان کا نصا ب عام فہم انسان کی عقل اور سوچ سے ما ورا دکھائی دیتا ہے اس کلا م کو پرکھنے والے یو ں محسوس کرتے ہیں جیسے نزول وحی کا حصہ ہو ڈا کٹر علامہ محمد اقبال ایک ولی کامل اورقلندر دوراں تھے جن کی شا عری کو سمجھنے والے کے لیے بھی درویشانہ صفا ت کا مالک ہو نا پڑیگا ہر کسی کو اس تر تیب و تحریر کا ادراک ناممکن ہے اقبال کو شاعر پاکستان کے ساتھ ساتھ بطور شا عر مشرق بھی جا نا اور مانا جا تا ہے ۔ آپ کی محدود زندگی میں آپکی طا ئرانہ نگاہ صدیو ں کا سفر کر چکی تھی حیا ت جا وداں کامصداق یہ نایا ب اوربے مثال شخصیت ایسا شاعرانہ فلسفہ تیا ر کر کے گئی ہے جس کی بد ولت انکی عدم موجود گی میں انکا نام اور کام انکی شاعری کے ساتھ زندہ و جا وید ہے ۔ جو مد تو ں قومو ں اور نسلو ں کے لیے مشعل راہ کا کام دے گا ۔ کلام اقبال کی چاشنی اور دلچسپی کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگا یا جاسکتا ہے بر سوں بیت جا نے کے باوجود بھی کا ئنا ت کے سمندروں اور خشکی پر اپنی سحر انگیزی چا رسو پھیلا تا اور خو شبو بکھیرتا ہو ا دکھائی دیتا ہے ۔ اقبال کے لفظو ں میں خدا ئے لم یزل نے وہ تا ثیر بخشی جس نے قوم اور زبان کو عروج وقا ر اور فضیلت سے نواز دیا ۔ انکی فلسفا نہ شا عری نے نوجوانو ں میں روح انقلا ب پھو نک دی اسلامی رفعت و عظمت اور شعا ر کو دنیا بھر میں فر وغ دیا ۔ اقبال کے کتابی مجمو عوں کے انگریزی ، جرمنی ، فرانسیسی ، چینی،جا پانی اور دیگر ز زبانو ں میں تر اجم منظر عام پر آچکے ہیں جس سے اقوام عالم میں موجود ہر طالب علم اور ذی شعور انسان اسفادہ حاصل کرتا اور اپنی علمی پیاس بھجا تا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔ ڈا کٹر علا مہ محمد اقبال ؒ 9 نومبر 1877 کو سیالکو ٹ میں پیدا ہو ئے ، ابتدائی تعلیم کے بعد اعلیٰ تعلیم کی غرض سے 1905 کو انگلستان تشریف لے گئے وہا ں کیمر ج یو نیورسٹی سے فا رغ التحصیل ہو نے کے بعد جرمنی کا رخ کیا اور وہا ں میو نخ یو نیو رسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حا صل کی ۔ وکالت کے ساتھ ساتھ شعرو شاعری کو بھی جا ری و ساری رکھا ۔ 1922 میں حکومت کی طرف سے آپ کو سر کا خطاب دیا گیا آپ کی مشہو ر تصا نیف میں شامل ہیں با نگ درا ، با ل جبریل ، ضر ب کلیم ، ارمغان حجا ز ، زبور عجم ، پیا م مشرق ، جا وید نامہ ، رمو ز خو دی ، اسرار بے خو دی ، پس چہ با ید کرد اے اقوام مشرق آپ آزادی سے قبل 21 اپریل 1938 کو انتقال فرما گئے ۔
ہز ارو ں سال نر گس اپنی بے نو ری پہ رو تی ہے
بڑی مشکل سے ہو تا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

افسوس ہم لو گ یہ بھی نہیں جا نتے کہ اقبال ہے کیا ؟ یہ وہ انسان ہے جس کے با رے میں 1932 میں بر ٹش حکمران نے کہا تھا کہ اس انسان نے اپنے قلم کے زریعے وہ تباہی پھیلا دی ہے جس کو ہم لو گ اب چاہ کر بھی کبھی روک نہیں سکتے ہیں کس طر ح سے نصا ب میں سے اقبال کی شا عری اور نظر یا ت و فکر کو فا رغ کیا جا رہا ہے اور اقبال کی زندگی سے متعلق پر وگرامز میڈیا سے محدود ہو تے جا رہے ہیں اور یہ سب ایک سو چی سمجھی سازش کے تحت کیا جارہا ہے امریکہ ، جا پا ن ، چا ئنہ اور دیگر ز کئی ممالک میں اقبال کی شا عری پر با ریک بینی سے ریسرچ جا ری ہے اور اس با ت سے مخا لف ممالک اور قومو ں نے یہ با ت اخذ کرلی ہے کہ اگر نوجوان مسلم طبقہ اقبالیا ت سے متعارف ہو گیا تو ان کی تقدیر بدل جا ئے گی اور ان میں ایسی رو ح بیدار ہو گی کے مشرق و مغرب کا رخ تبدیل ہو جا ئے گا ۔ جس طر ح سے قرآنی تعلیم کو آہستہ آہستہ نصا ب سے دو ر کیا جا رہا ہے من و عن اقبال کی شا عری اور ذکر کو بھی محدود کیا جا نے لگا ہے بیر ونی دنیا قرآن اور اقبال سے مجمو عی طو ر پر استفا دہ حا صل کر کے آج تعمیر و تر قی کی اس نہج اور مقام پر پہنچ چکی ہے جس سے مسلم امہ بہت پیچھے ہے ہما ری قوم بے مقصد چیزوں پر زیا دہ دھیان دیتی ہے لانگ ٹرم پالیسی کی بجا ئے محض شارٹ ٹرم پالیسیز کو تو جہ دی جا رہی ہے نہ تو قرآن کے ساتھ مضبوط رشتہ استوار رکھا جا سکا اور نہ ہی اقبال کے ساتھ کیونکہ اقبال کی شاعری بھی درحقیقت قرآن و حدیث کی تفسیر اور تا ثیر ہے اس میں مہک ہے تو حید و رسالت کے احکا ما ت کی بد قسمتی سے ہما رے ہا ں نہ تو اہل قرآن دکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی اہل اقبال ۔ قرآن اور اقبال کا رشتہ بہت گہرا ہے صا حب نظر ، صا حب فکر ، صا حب کما ل ، صا حب ذوق ، صا حب شوق ، صاحب عمل اور صاحب بصیرت شخصیا ت کا کہنا ہے کہ اقبال کی شا عری درحقیقت قرآن کریم کی تفسیر اورتشریح ہے ۔ اگر صرف اقبال کی خو دی کا تصور سمجھ میں آجا ئے تو شا ید آج دنیامیں ایک ہی سپر پا ور وجود میں پاکستان کی صورت ہو کا ش ہم اقبال کی شا عری اقبال کا پیغام اور اقبال کا مقا م سمجھ پائیں ؟ اقبال ایک مفکر ، مرد قلندر ایک حقیقی عاشق صادق اور بندہ خدا تھا جو حیا ت جا وداں کا عملی ثبوت دے گیا قیا مت کی سحر ہو نے تک اقبال کا نام ، کردار ، افکا ر اور نظریا ت زندہ و پا ئندہ رہیں گے ۔خدا ئے بزرگ و بر تر اس بلند پا ئیہ ہستی کی مرقد پر نور پر کڑوڑو ں حمتو ں اور انوار تجلیا ت کا نزول فر ما ئے آمین ۔
دل مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبا رہ
کہ یہی ہے امتو ں کے مر ض کہن کا چا رہ
S M IRFAN TAHIR
About the Author: S M IRFAN TAHIR Read More Articles by S M IRFAN TAHIR: 120 Articles with 106224 views Columnist / Journalist
Bureau Chief Monthly Sahara Times
Copenhagen
In charge Special Assignments
Daily Naya Bol Lahore Gujranwala
.. View More