حقیقی دشمن کون؟

تحریر: آمنہ سلیم

2 نومبر کو غیر ملکی خبر رساں اداروں نے ایک خبر بریک کی، جس میں کہا گیا تھا کہ گزشتہ شب کالعدم تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اﷲ محسود شمالی وزیرستان کے علاقے ڈانڈے درپہ خیل میں ڈرون حملے میں مارے گئے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ حکیم اﷲ محسود کے زیر استعمال ایک گاڑی اور ایک مکان کو نشانہ بنایا گیا جس میں ان کے سمیت 5 افراد مزید بھی مارے گئے۔ یہ خبر جنگل میں طوفانی موسم کے دوران لگی آگ کی طرح پھیلی، جس کے بعد مختلف بیانات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔

کسی نے کہا کہ اس حملے کے پاکستان پر بہت گہرے اور برے اثرات مرتب ہوں گے۔ میڈیا نے باقاعدہ سیل بنا لئے اور اس پر بحث و مباحثہ شروع ہوگیا۔ کسی نے حکیم اﷲ محسود کو شہید کہا تو کسی نے ہلاک ۔ کسی نے شہید کہنے والوں پر تنقید کردی تو کسی نے امریکا کی جانب سے قتل کیے گئے کتے تک کو بھی شہید کہنے کا فتویٰ جاری کردیا۔ بحث لا حاصل کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔

خبر یہ بھی تھی کہ حکیم اﷲ محسود سے متعلق اطلاع دینے پر امریکا کی جانب سے پچاس کروڑ روپے انعام کا اعلان کیا گیا تھا۔ تاہم اب وہ انعام کسے ملے گا یہ کوئی نہیں جانتا۔ حکیم اﷲ محسود کے بعد کالعدم تحریک طالبان نے ملا فضل اﷲ کو نئے سربراہ کے طور پر منتخب کردیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ پہلی مرتبہ اس گروپ کی قیادت ملک سے باہر چلی گئی ہے۔ بی بی سی پر جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملا فضل اﷲ کا تعلق نورستان سے ہے اور ان کا گروہ وہیں سے پاکستان میں کارروائیاں کرتا ہے۔ ملا فضل اﷲ کے بارے میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ انتہائی خطرناک قسم کا شخص ہے۔

حکیم اﷲ محسود کی موت کے بعد پاکستان پر واقعی میں بہت برے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ اگر بات خالی بیانات پر کی جائے تو سید منور حسن نے کہا وہ شہید ہیں، الطاف حسین نے کہا سید منور حسن توبہ کریں، مولانا فضل الرحمن سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا امریکا اگر کتے کو بھی مارے گا تو وہ شہید ہوگا، سید منور حسن نے پھر ایک غلطی کی اور پاکستانی فوج کو امریکا کے ساتھ دینے پر شہید کے لفظ پر تنقید کر ڈالی اور پھر یہیں سے بات سیاسی ایوانوں سے نکل کر عسکری میدان میں آگئی۔ ابھی یہ گرم گرم بحث کا سلسلہ جاری تھا کہ اتنے میں پاکستان کی بنیادوں پر وار پہ وار کرنے والے امریکا نے ایک اور ڈرون پاکستان پر داغ دیا۔ متعدد بے قصور افراد اس کا نشانہ بنے۔

حکیم اﷲ محسود پر حملے کے حوالے سے ایک چھوٹا سا تبصرہ بھی سامنے آیا کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے خصوصی ہدایات دیتے ہوئے اپنے وزیر داخلہ کو طالبان کے ساتھ مذاکرات پر تیار کیا تھا، تاہم جب بات بننے لگی تو امریکا کے پیٹ میں مروڑ اٹھا کہ اگر مذاکرات کامیاب ہوگئے تو پاکستان طالبان تصادم تھم نہ جائے اس لئے اس نے حکیم اﷲ محسود کی گاڑی پر ایک ڈرون حملہ کیا اور کالعدم تحریک طالبان ایک مرتبہ پھر پاکستانی حکومت کے خلاف ہوگئی۔ مذاکرات سب کے سب بے کار اور بے فائدہ گئے اور سننے میں آیا کہ طالبان اب نئے انداز میں پاکستان کو نشانہ بنانے والے ہیں۔ امریکا اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا۔ مگر ایک ایسا مقصد جس کا اس نے سوچا بھی نہیں تھا وہ سیاسی وڈیروں نے کھول دیا۔ الٹے سیدھے بیانات دیتے گئے اور محاذ گرماتے گئے۔ اب جو صورتحال بن چکی ہے، اس نے غیر ملکی طاقتوں کے اسلام اور پاکستان دشمن مشن کو آسان کردیا ہے۔ ایسے حالات میں جب جماعت اسلامی اور پاک فوج میں ایک کشیدگی کی صورت کو پیدا کیا جارہا ہے، تکفیری اور پاکستان دشمن قوتیں اور خود وطن عزیز میں غیر ملکی پیسوں پر پلنے والوں کو کھل کر کام کرنے کا موقع ملا گیا ہے۔

وزیر اعظم کے دورہ امریکا سے ڈرون حملوں کی روک تھام اور نیٹو سپلائی کی بندش کے سلسلے میں سنجیدہ قسم کی گفتگو نے پاکستانیوں کے لئے ایک امید باندھ دی تھی۔ قبائل جن کے بچے اور خود بڑے بوڑھے ان ڈرون حملوں کی وجہ سے یہ تو جسمانی معذور ہوچکے ہیں یا پھر ذہن معذور ہیں، خیبر پی کے حکومت کی ڈرون حملوں کے بند ہونے پر بیان نے ان میں امید کی کرن روشن کی تھی۔ مگر اب جو صورتحال پیدا ہوچکی ہے اس سے امریکا اور دشمنان اسلام و پاکستان کے خلاف اٹھنے والی انگلیاں اپنے خلاف اٹھ رہی ہیں۔

حملوں کے سلسلے میں پاکستان میں ایک زبردست تحریک نے سر اٹھایا تھا، جماعت اسلامی، جماعۃ الدعوۃ ، دفاع پاکستان کونسل، پاسبان ، عافیہ موومنٹ سمیت دیگر کئی جماعتوں نے احتجاجی مظاہرے کیے، دھرنے دیے امریکا سے نفرت کا اظہار کیا ، حکومت سطح پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ جس کے بعد یقین ہونے لگا تھا کہ اب پاکستانی حکومت اس سلسلے میں اہم اقدامات کرے گی مگر حکیم اﷲ محسود جسے خود ڈرون حملے کا نشانہ بنایا گیا اس نے دیگر حملوں میں حائل رکاوٹیں بھی ختم کرنا شروع کردیں ہیں۔

میری تمام جماعتوں اور محب وطن پارٹیوں سے ایک ادنی سی گزارش ہے کہ اپنوں کے خلاف ہونے اور دنیا میں نہیں رہا اس پر لا حاصل بحث کرنے سے پرہیز کرتے ہوئے کیوں نہ اپنے دفاع پر توجہ دیں۔ اپنے حقیقی دشمن کو پہچانیں جس نے پاکستان کو اپاہج بنا کر رکھ دیا۔ جس کی وجہ سے آج پاکستان بدنام ہے، پاکستان کا حسین اور خوبصورت چہرہ آج خوف کی علامت بن چکا ہے۔ یقینا امریکا ہی ہے وہ جس نے ڈرون حملے کیے اور قبائلیوں کے دلوں میں پاکستان کی محبت کو ختم کرنے کی کوشش کی، آزادی کی تحریکیں کھڑی کرنے جیسی ناقابل مذمت جسارت کی، کالعدم جماعتوں کو دوام بخشا اور پھر انہیں پاک فوج و محب وطن لوگوں کے خلاف کھڑا کیا۔ اپنے آپ میں دست و گریباں ہونے کی بجائے کیوں نہ ایسے دشمن کو پہچانیں جو ہمارے درمیان دوریاں پیدا کررہا ہے۔ ہماری فوج دنیا کی سب سے بہترین، نڈر اور بہادر فوج ہے۔ پاکستان کا بیش قیمتی سرمایہ ہے، اس فوج کے جوانوں نے روکھی سوکھی کھا کر ملک کے دفاع کے لئے جانوں تک کی قربانی سے گریز نہیں کیا۔ آج کیوں ہم اپنے ماتھے کے جھومر پر انگلیاں کھڑی کرکے عالم کفر کو خوش کر رہے ہیں۔ کسی ایسے بیان دینے سے گریز کریں جس سے ہمارے اداروں پر حرف آئے۔

آج ہماری غیر سنجیدہ بحث پر پرائے انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ دیکھو اس پاکستان کے لئے ان لوگوں نے اس قدر قربانیاں دی تھیں۔ بلکہ وہ تو یہ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ اب ان پر حملہ کیا کرنا یہ تو خود کی جنگ سے فراغ نہیں ہوئے ہیں۔ ہمیں ہوش کے ناخن لینے ہوں گے۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کہیں ہم کسی غیر کے ہاتھ میں تو استعمال نہیں ہورہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو خود کو بچائیں، اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر شکوک و شبہات کو دور کریں تاکہ اپنے اندر کے معاملات کو دور کر کے آپس میں بھائی چارہ کو فروغ دیا جاسکے۔ اﷲ وطن عزیز کا حامی و ناصر ہو۔

Ulfat Akram
About the Author: Ulfat Akram Read More Articles by Ulfat Akram: 12 Articles with 10025 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.