میرے آقا ،،،،صرف دو کلو آٹا

روئے زمین پر پاکستانی قوم سے بد قسمت بھی شاید ہی کوئی قوم ہو گی جس کے محافظ ہی اس کی خوشیوں اور خواہشوں کے قاتل ہیں،جس کے چوکیدار ہی چور ہیں اور وہ بنک وہ ادارا ہ یا وہ شاپنگ مال کیا خاک پھلے پھولے گا جس کے رکھوالے ہی اصل میں ڈکیت ہوں اور چوری ،ڈکیتی اور لوٹ مار کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے ہوں،یہاں ہر کوئی ہر وقت تاک میں ہے کہ کب موقع ملے اور کب وہ اپنی جیبیں اور اپنا پیٹ بھرے،ہر کوئی شارٹ کٹ اور دونمبری کے رستے پر، بہت سے بے چارے راتوں رات امیر ہونے کی خواہش میں جمع کی گئی کمائی سے بھی ہاتھ دھوتے جا رہے ہیں،راہزن ہیں تو کبھی عمدہ حکمرانی کے نام پر لوٹتے ہیں تو کبھی جگاڑ جمہوریت کے نام پر،جو بچ جائیں وہ مذہبی ٹھیکیداروں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں،ایک سے ایک بڑا ڈبل شاہ اور توقیر صادق یہاں مو جود ہے مگر مشہور ی کسی ایک آدھ کو ہی نصیب ہو تی ہے،چند دن شور اور غلغلہ مچتا ہے پھر چراغوں میں روشنی نہیں رہتی،یہاں یار لوگ جہازوں کے جہاز کلو کے حساب میں بیچ کر کھا گئے،بم دھماکوں سے جس طرح اب اس قوم کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی اسی طرح اب چھوٹی موٹی کرپشن بھی ان کو ٹس سے مس نہیں کر سکتی،ہرمہینہ پندرہ دن بعد پٹرول گیس اور بجلی کی قیمت بڑھتی ہے مگر حرام ہے جو کوئی ذرا بھر اف بھی کرے،اعلان ہوتا ہے کہ عام آدمی پراس کا کوئی فرق نہیں پڑے گا اور یہ عام آدمی یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ سب کچھ میرا ہی مکو ٹھپنے کو کیا جا رہا ہے یہ اعلان جھوٹ ہے مگر کان لپیٹے نہ صرف بیٹھا ہے بلکہ دوبارہ انہی کو اپنے سر پر سوار کرنے کو بے چین رہتا ہے،یہ عام آدمی جانتا ہے کہ الیکشن کے دنوں میں میرے دور پرے کے رشتے دار کی نماز جنازہ اور فاتحہ خوانی کرنے والا منتخب ہونے کے بعد اس کے کسی قریبی ترین عزیز یہاں تک کہ ماں اور باپ کے مرنے پہ بھی نہیں آئے گا،مگر یہ عام آدمی نہ صرف ان کے لیے لڈیاں اور بھنگڑے ڈالتا ہے بلکہ ان کی گاڑیوں کے آگے ناچتا اور نعرے بھی مارتا ہے اور جب الیکشن کا موسم گذرجاتا ہے تو انہیں ڈھونڈتا اور عام محفلوں میں گلے شکوے کرتا ہے،یہ ایم این ایز ،ایم پی ایز جو غرض اور مطلب کے وقت دوسروں کے بھائی اور بیٹے بننے کو اپنی عزت اور اعزاز سمجھتے ہیں مطلب نکل جانے پہ ان کے باپ بننے کو بھی تیا ر نہیں ہوتے،ایک لحاظ سے سارا قصور ان کا بھی نہیں بلکہ ذیادہ قصوروار اور اپنے ان حالات کے ذمے دار ہم خود بھی ہیں،ہم ان سب کو اچھی طرح جانتے ہیں ان کا ماضی ،حال اور مستقبل تک کا اندازہ ہوتا ہے ہمیں،مگر لعنت ہے اس پھٹییچرکلچر پر جس میں اپنے چاچے مامے کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہونے اور جھوٹی انا کی تسکین کی خاطر ایک باہر سے آنیوالے کی جوتیوں میں بیٹھ جاتے ہیں ،پھر رونا کیسا اور دہائیاں کیسی،ان کو نہ کل ہم سے کوئی دلچسپی تھی نہ آج کوئی سروکار،جو سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہو اسے کیا پتہ غریب آدمی ایک کمرے کے مکان میں پانچ بچوں کے ساتھ تین سو روپے دیہاڑ آمدنی کے ساتھ کیسے گذارا کرتا ہے،جو سر درد کے چیک اپ کے لیے انگلینڈ اور امریکہ جائے اسے کیا پتہ سرکاری ہسپتال کی ڈسپنسری کی کھڑکی پر نیلی پیلی گولیوں کے لیے شاپنگ بیگ یا لفافہ مانگنے پر کس تذلیل کا سامنا کرنا پڑتا ہے،جن کے بچے ایچی سن،گھوڑا گلی اور لارنس کالج میں پڑھتے ہوں انہیں کیا پتہ کہ غریب آدمی کا بچہ موسم کی نرمی سختی کیسے برداشت کرتا ہے اور کتنے اسکولوں میں سردیوں کی بارش میں محض اس وجہ سے چھٹی دے دی جاتی ہے کہ وہاں بیٹھنے کا کوئی مناسب بندوبست نہیں ہوتا،دانش بکھیرتے اسکولوں کو نکھارنے والوں کو پتہ ہی نہیں کہ عام سرکاری اسکولوں میں ٹیچر ہے تو فرنیچر نہیں اور فرنیچر ہے تو چاردیواری نہیں اور پانی ٹھندا تو دور کی بات گرم بھی ناپید،اور یہ اپنے یار دوستوں کو نوازنے کے لیے کیسے کیسے رنگ ڈھنگ اپناتے ہیں ذرا س پہ بھی ایک نظر ڈالیں،کبھی مو ٹر سائیکل ہیلمنٹ کے دو چار کنٹینرز منگوا کر شاہی فرمان جاری کرتے ہیں کہ ہر کوئی ہیلمنٹ پہنے اور جب یہ امپورٹڈ مال ختم ہو جاتا ہے تو پھر نہ کسی کو ہیلمنٹ کی فکر ہوتی ہے نہ عوام کے سروں کی،یہ ڈیپارٹمنٹس کے اندر نئے ڈیپارٹمنٹس کھول لیتے ہیں،کبھی صرف ایک پولیس کا محکمہ تھا جس کی کارکردگی بے مثال تھی،یہی پولیس ٹریفک سے لیکر امن وامان تک تمام معاملات دیکھتی تھی،پھر بجائے اس کو بہتر کرنے کے اول ٹریفک پولیس کو الگ کیا پھرموٹر وے پولیس بنائی،پھر ایلیٹ فورس بنا کہ وارڈنز پہ جا دم لیا اور اب کی بار ایک نئی فورس جس کی تنخواہ پچھتر ہزار روپے سبحان اﷲ جس نے بھی یہ پالیسی بنائی یا مشورہ دیا دل کرتا اس کا ماتھا چوم لیا جائے،کہ ایک ٹیچر کی تنخواہ پندرہ سے بیس ہزار ،ڈاکٹر پینتیس سے چالیس ہزار اور محض چھوٹے تے وڈے میاں صاحب کے منظور نظر محکمے کے ایک اہلکار کی تنخواہ پچھتر ہزار واہ جی واہہ سپاہی کی تنخواہ ڈی آئی جی کے برابر،کون پاگل کا بچہ اب جان مار کے سارا دن دھوپ میں کھڑا ہو کر ٹریفک کنٹرول کرے گا یا کون کسی مسجد وامام بارگاہ کے باہر جان ہتھیلی پر رکھ کر کھڑ اہو گا، کون اس قوم کے نونہالوں کی تربیت پہ اپنی جان مارے گا،کون غریبوں کے علاج کو عبادت سمجھے گایہاں ہر کام کچھ خاص لوگ کچھ خاص لوگوں کے لیے کچھ خاص اوقات میں کرتے ہیں،ملک میں پانی نہیں ،گیس نہیں ،بجلی نہیں،ہسپتالوں میں ڈسپرین کی گولی تک نہیں اور یہاں ایک نئی فورس کا قیام عمل میں لایاجا رہا ہے جس کی تنخواہ پونے ایک لاکھ روپے ماہوار،دوسری طرف بڑے بھائی جان، اسحٰق ڈارون کو ساتھ لیکر کشکول اٹھائے ڈرون ڈرون کرتے نگر نگر کے دورے پر ہیں ،گویا پاکستان کا واحد مسئلہ ڈرون ہی ہیں ،ڈرون خود مختاری پر حملہ ہیں کیسی خود مختاری ،غلاموں اور گردن گردن تک قرضوں میں جکڑے لوگوں کی بھی کوئی خود داری ہوتی ہے،اگر اتنا ہی خود داری کا زعم ہے تو جدھر گئے ہوئے ہیں وہاں پاکستان کی ایک بیٹی بھی قید ہے ذرااس کا بھی احوال لیتے آئیں تو پتہ چلے کہ شیر کتنا شیر ہے،ڈنگ ٹپاؤ پالیسیاں جو نجانے کب سے جاری ہیں اور نجانے کب تک جاری رہیں گی،یہاں سارا زور آج کا دن گذارنے پہ ہے کہ یہ خیریت سے گذرے کل کی کل دیکھی جائے گی،جب ذرا ہاتھ تنگ پڑتا ہے تو اول پٹرول پھر بجلی نہیں تو گیس کی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں،یا پھر اپنے مہربان و مربی آقا ورلڈ بنک کے سامنے سر بسجود ہوتے ہیں کہ دے جا سخیا تیرا اﷲ ہی بوٹا لائے گا اور وہ کچھ نہ کچھ جھاڑ جھنکار ہماری جھولی میں ڈال دیتا ہے،اور آخر میں ایک گذارش کہ مہربانوں کو گلہ ہے کہ ہمارے اچھے کاموں کی تعریف نہیں کی جاتی تو جناب کوئی اچھا کام ہو تو تعریف بھی کی جائے وزیر اعظم پاکستان اس دفعہ چھوٹے جہاز پر چھوٹا سا وفد لیکر قصر سفید کو سدھارے جو کہ یقینا خوش آئند اور اچھی روایت ہے،مگر ایک عرض یہ بھی کرتا چلوں کہ تئیس اکتوبر کی ملاقات پہ ذیادہ اترانے اور خوش فہمی کی ضرورت نہیں کیوں کہ اس دن کی ملاقات کا وقت جناب اوووبامہ صاحب نے برازیل کے صدر کو دے رکھا تھا جنہوں نے اوبامہ سے ملنے سے انکار کر دیا،یہاں پہ پاکستانی خدمتگاروں نے موقع غنیمت جان کر اپنی گوٹی فٹ کر لی،وہاں جا کر سنا ہے جناب وزیر اعظم ڈرون حملوں پر امریکی صدر کی سخت سرزنش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں،بجلی کا مسئلہ بھی فی الفور حل کرنے کا آرڈر دیں گے کہ امریکہ ہمارا یہ مسئلہ بھی بلا تاخیر حل کرے،سرمایہ داروں کو بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کا حکم دیا جائے گا کہ یہاں سے نہ صرف سرمایہ پاکستان لائیں بلکہ بجلی اور سیکورٹی بھی ساتھ لیکر پاکستان پہنچیں،اوبامہ کوپاکستان کا دورہ کرنے کا بھی حکم دے سکتے ہیں،یہ تمام احکام کس انداز میں دئے جائیں گے اگر کوئی ملاحظہ کرنا چاہے تو ترقی کا ڈرامہ میرا سلطان دیکھ لے ،واضح رہے اس وقت دنیاکا سلطان امریکہ ہے،اور رہی اپنی قوم اور عوام کی تو اگر ان کو موقع ملے تو لگتا ہے کہ عنقریب وہ وقت بھی آنیوالا ہے جب یہ امریکی صدر سے فقط اتنی التجا کریں گے ،میرے آقا،،،،،صرف دو کلو آٹا،،جسے ہمارے ہی غم میں دبلے ہوتے اپنے حکمران جنس نایاب بنانے کے درپے ہیں،،،،،،،،،،