عمران خان صاحب ! میٹھا کم رکھیں

میں ایبٹ آباد کے ایک سی این جی سٹیشن پہ کھڑا اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا کہ ایک سوزوکی پک اپ والا آیا اور میری گاڑی کے بالکل سامنے اپنی گاڑی کھڑی کر دی۔میں کہ بوڑھا آدمی ہوں اور وہ شکل ہی سے مشٹنڈہ اور بدمعاش لگتا تھا۔میں نے تقریباََ بے بسی سے اس کی طرف دیکھا۔میری آنکھوں میں صرف سوال تھا کہ بھائی زیادتی تو ہے لیکن چونکہ تم زور آور ہو اس لئے جو چاہو سو کرو۔ اس بدبخت کو نہ جانے کیا سمجھ میں آیا کہ وہیں اپنی جگہ پہ بیٹھے بیٹھے غرایا۔بزرگو! مٹھا کہٹ رکھسو۔ مطلب تھا کہ میں جو کر رہا ہوں اس پہ کسی قسم کا کوئی اعتراض تمہارے منہ سے نکلا تو منہ توڑ دوں گا۔میں نے عزت بچانے کو اپنے ذیابیطس کے کہنہ مرض کا سہارا لیا اور میٹھے سے مکمل پرہیز ہی میں عافیت جانی۔اس نے سی این جی ڈلوائی اور مجھے گھورتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔

خان صاحب !آپ بھی اس وقت اسی سی این جی سٹیشن پہ کھڑے ہیں۔باری آپ کی ہے اور آپ حق پہ بھی ہیں۔پاکستان کہنے کوتو ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے لیکن کتنا۔ یہ آپ سے بہتر بھلا کون جانتا ہے۔ ہم معاشی لحاظ سے امریکہ کی رکھیل ہیں اور یہ ہماری مجبوری ہے کہ ہم اس کے اشارہِ ابرو کے محتاج رہتے ہیں۔یہ لیکن حکومتی مجبوریاں ہیں آپ کی اس طرح کی کوئی مجبوری نہیں ۔محسوس یہ ہوتا ہے کہ آپ کے سیاسی حریف آپ کو گھیر گھار کے بند گلی میں دھکیلنے جا رہے ہیں۔اسمبلی کی قراردادوں سے آپ بھی جانتے ہیں کہ نیٹو سپلائی کسی صورت نہیں روکی جا سکتی۔ اب تک آپ کو یہ بھی سمجھ آ گئی ہو گی کہ آپ اس معاملے میں اپنی صوبائی حکومت کو شامل کریں گے تو سیدھے سبھاؤ گورنر راج لگا دیا جائے گا۔آپ سیاست کرنا چاہیں تو اس شہادت سے سیاسی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔یہ دو دھاری تلوار ہے۔یہ آپ کو آسمان کی رفعتوں کا شناسا بھی کر سکتی ہے اور یہ آپ کو زمین کی گہرائیوں میں دفن بھی کر سکتی ہے۔

آپ کو بھی میری طرح یقین ہے کہ نیٹو سپلائی روکنے کے لئے آخر کار سڑکوں پہ آنا پڑے گا۔ایک دن کے دھرنے سے نیٹو سپلائی نہیں روکی جا سکتی۔اس کے لئے لمبی منصوبہ بندی کی ضرورت ہو گی۔ہو سکتا ہے کہ آپ کو اپنے حامیوں سمیت مہینوں سڑکوں پہ رہنا پڑے۔آپ کو گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے اور آپ کے ساتھ آپ کی فرنٹ لائن قیادت کو بھی۔کیا آپ کی دوسرے درجے کی قیادت میں اتنا دم خم ہے اور ان کی اتنی تربیت ہے کہ وہ آپ کی جاری کردہ تحریک کو جاری رکھ سکیں۔آپ کے مقابل امریکہ ہے اور سارا یورپ۔نیم دلی سے اتنا بڑا کام سر انجام نہیں دیا جا سکتا۔آزادی اور خود مختاری اور خصوصاََ گروی رکھی ہوئی آزادی اور خود مختاری آسانی سے واپس نہیں ملا کرتی۔ اس کے لئے قائد کی فراست اور اقبال کا فہم درکار ہوتا ہے۔ اس کے لئے عوام کا شعور بیدار کرنا ضروری ہے۔ میں جانتا ہوں کہ اس وقت ملک کا نوجوان آپ کے ساتھ ہے۔ جذبات اپنی انتہاؤں پہ ہیں انہیں سمت دینے کی ضرورت ہے۔

کیا ہم جانتے ہیں کہ نیٹو سپلائی کو کامیابی سے روکنے کے بعد ہم نے کیا کرنا ہے۔کیا ہم سپلائی روک کے بیٹھ جائیں گے۔دنیا میں ایک در بند ہو تو ہزار در کھلتے ہیں۔امریکہ راستہ تلاش کر لے گااور پھر۔یا ہم نے اس سپلائی کو روک کے امریکہ سے اپنے کچھ مطالبات منوانے ہیں۔اگر کچھ مطالبات منوانے ہیں تو کیا ہم نے وہ مطالبات سوچ رکھے ہیں۔بین الاقوامی معاملات میں کٹی نہیں چلتی۔ایران کی طرح بالآخر مذاکرات کی میز پہ آنا پڑتا ہے۔مسائل کا حل بات چیت ہی کے ذریعے نکلتا ہے۔ہمارا مسئلہ یہ نہیں کہ ہماری کوئی قیمت نہیں۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ ہمیں دنیا کی منڈی میں بیچتے ہیں وہ اپنی ناک اور اپنی توند سے آگے سوچنے کی استظاعت ہی نہیں رکھتے۔ہمیں ایک ایسے شخص کی تلاش ہے جو ہمیں مناسب قیمت پہ بیچ سکے۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہر پاکستانی حکیم اﷲ محسود کے خون کا پیاسا تھا ۔ہماری مذاکرات کرنے والی حکومت نے اس کے سر کی قیمت پچاس لاکھ مقرر کر رکھی تھی۔اسے امریکہ نے مار دیا تو پورے ملک میں صفِ ماتم بچھی ہے کہ اسے امریکہ نے کیوں مارا۔ہمیں اپنے اہداف طے کر کے شروع دن ہی سے اپنے عوام کے سامنے رکھنا ہوں گے۔ اب قوم کو جو بھی دھوکے میں رکھے گا اس کا صفایا ہو جائے گا۔ جن لوگوں نے آپ کے لئے جانیں دینی ہیں انہیں حق ہے کہ وہ جان سکیں کہ وہ کس مقصد کے لئے جان دے رہے ہیں اور ان کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔مقصد کے حصول کی سچی لگن اور مصم ارادہ آپ کو وسائل کے بغیر بھی کامیابی کی منزل تک لے جاتا ہے۔

ہمارا مطالبہ یہ نہیں کہ امریکہ سے بات نہ کی جائے ہمارا مقصد یہ ہے کہ امریکہ سے اپنی شرائط پہ بات کی جائے۔امریکہ کو بتایا جائے کہ اگر اسے آنے اور جانے کے لئے ہمارے راستے استعمال کرنا ہیں تو اسے اس کا عوضانہ پیشگی دینا پڑے گا۔ امریکہ کو ۲۰۱۴ء میں افغانستان سے نکلنا ہے اور اسی میں نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کا بھلا ہے۔بین الاقوامی تعلقات میں شیدے اور میدے کی جذباتی دوستی کوئی شے نہیں ہوتی۔ہم اگر امریکہ اور چین سے صرف معقول راہداری ہی وصول کر لیں تو ہمیں اپنی معیشت سدھارنے کو کسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہتی۔ ایک ایسا قائد جسے کسی کا ڈر نہ ہو۔جس کے اپنے ذاتی مفادات نہ ہوں۔جو اقتدار کو من جانب اﷲ سمجھتا ہو۔جو مخلص ہو اور پاکستان کے لوگوں کو یقین ہے کہ آپ میں یہ سارے کمالات ہیں ۔بسم اﷲ کریں قوم آپ کے ساتھ ہو گی لیکن یاد رہے کہ کمزوری کسی بھی طرح کی ہو منزل کو دور کر دیا کرتی ہے۔زور بازو کا اندازہ کر کے قدم بڑھائیں قوم آپ کو مایوس نہیں کرے گی۔اور ہاں اگر آپ بھی میری طرح باون سالہ بڈھے ہیں تو یاد رکھیں کہ آپ کے آگے کھڑا مشٹنڈہ آپ اور آپ کے ساتھیوں کے کھنے سینکنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔فضائے بدر پیدا کریں مجھے یقین ہے کہ فرشتے آج بھی آپ کی اور ہماری نصرت کو قطار اندر قطار اتر سکتے ہیں۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268798 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More