محرم الحرام کی آمد کے ساتھ اس
عظیم قربانی کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جو نواسیہ ء رسول جگر گوشہ ء بتول حضرت
امام حسین علیہ السلام نے اپنے جانثار ساتھیوں کے ساتھ کربلا کے دہکتے
میدان میں دی تھی۔ امام عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام نے گورنر
مدینہ کے سامنے یزید کی بیعت کرنے سے صاف انکار کردیا اور امام عالی مقام
علیہ السلام آخری وقت تک اپنے اس انکار پر قائم رہے۔ امام عالی مقام کی
یزید سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی اور نہ ہی آپ علیہ السلام کو اقتدارکی
غرض تھی۔ دین اسلام کوبچانے کے لئے امام عالی مقام نے ہی یہ عظیم قربانی دی
تھی۔ امام عالی مقام علیہ السلام نے صرف جان کی قربانی نہیں دی۔ بلکہ جان ،
مال ، اولاد، وطن، وقت، سب کی قربانی دی۔ اپنے بیٹے کے گلے پر چھری چلانا
بھی کوئی معمولی حوصلہ نہیں ہے تاہم اپنے جوان بیٹے کے سینے سے تیر نکالنا
بھی بڑے حوصلہ اور جان جوکھوں کا کام ہے۔ بہتر نفوس قدسیہ کے مقابلے میں
بائیس ہزار کالشکرآنا اس بات کی دلیل ہے کہ یزیدی قوت حیدری سے بہت زیادہ
خوف زدہ تھے۔ اس پر بھی ان کا خوف اور امام عالی مقام علیہ السلام کا رعب
ودبدبہ کم نہیں ہوا انہوں نے پانی بھی بند کردیا۔ اگر ہمیں ایک گھنٹہ پانی
نہ ملے تو ہماری حالت قابل رحم ہوجاتی ہے۔ تو ذرا اس وقت کا تصورکریں۔ جب
تین دن پانی نہیں ملا۔ یزیدیوں نے ظلم وستم کے تمام ہتھکنڈے استعمال کئے کہ
کسی نہ کسی طرح امام عالی مقام علیہ السلام کو یزید کی بیعت کے لئے مجبور
کردیا جائے۔ امام عالی مقام علیہ السلام نے یزید کی بیعت سے صاف انکار کرکے
یہ بتادیا کہ حق پر قائم رہنے والے باطل کے سامنے کبھی نہیں جھک سکتے ہیں۔
امام عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام نے یہ قربانی نظام بچانے کے لئے
دی۔ دنیا بھر کے مسلمان شہداء کربلا کی یاد اپنے اپنے انداز میں مناتے ہیں۔
جو ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ ہر ایک کو اپنا حاکم تسلیم نہیں کرنا چاہیے۔
پہلے اس کے کردار کو دیکھناچاہیے کہ وہ اسلامی ہے یا غیر اسلامی، اس کا
کردار انسانی ہے یا غیر انسانی۔ اس کے نظریات کیا ہیں۔اس کی پالیسیاں کیا
کیا ہیں۔ وہ دین اسلام ، وطن، ملک اور انسانیت کے لئے خطرہ تونہیں۔ آنکھیں
بند کرکے کسی کو حاکم مان لینا حسین کے ماننے والوں کو زیب نہیں دیتا۔ امام
عالی مقام نے مدینہ سے کوفہ تک راستے میں اﷲ کا ذکر جاری رکھا۔ جہاں بھی
نماز کا وقت ہوا ۔قافلہ نے قیام کیا۔ سب نے وضو کیا۔ سب نے اما م برحق کی
اقتداء میں نمازیں ادا کیں۔ دوران سفر اور جب تک کربلا کے میدان میں رہے۔
قرآن پاک کی تلاوت ہوتی رہی۔ نوافل ادا کئے جاتے رہے۔ نماز ادا کی جاتی
رہی۔اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ چاہے ہم مسلمان کسی بھی حالت میں ہوں اﷲ
کی یاد اور اس کے عائد کردہ فرائض کو نہیں بھولنا چاہیے۔ ایک ہم ہیں کہ
ہمیں تھوڑی سی تکلیف ہوجائے تو ہم شکوہ زبان پر لے آتے ہیں۔ نماز پڑھنا
چھوڑ دیتے ہیں۔ ہمارے پاس تو فرائض سے جان چھڑانے کے ایک نہیں ہزاروں جواز
موجودہوتے ہیں۔ جو حسین علیہ السلام کے ماننے والے ہیں وہ فرائض سے کبھی
کوتاہی نہیں کرتے۔ شہادت امام عالی مقام علیہ السلام اور کربلا کے تمام
شہداء کی شہادتوں کا پیغام امن ہے محبت ہے۔ دین اسلام کا دفاع ہے۔ باطل اور
گھٹیا نظام سے انکار ہے۔ نفرت نہیں لالچ نہیں۔ دھوکہ نہیں فریب نہیں۔ یہ بم
دھماکے، یہ خودکش حملے، یہ فائرنگ اور ٹارگٹ کلنگ حسینیت نہیں یزیدیت ہے۔
امام عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے جان نثار رفقاء کی
قربانی کی وجہ سے مسلمان محرم الحرام کا احترام کرتے ہوئے گانے سننا اور
فلمیں ڈرامے دیکھنا بند کر دیتے ہیں۔ یہی احترام ربیع الاول اور ماہ رمضان
المبارک میں بھی اپنا یا جائے تو بہت ہی بہتر ہوگا۔ ایسے کلمہ گو بھی ہم نے
دیکھے ہیں جو محرم الحرام میں گانے بھی سنتے ہیں اورفلمیں بھی دیکھتے ہیں۔
یہ بہت ہی اچھی بات ہے کہ مسلمان محرم الحرام کا احترام کرتے ہیں۔ تاہم یہ
محدود احترام ہے صرف گانے سننا اور فلمیں دیکھنا بند کرنا ہی احترام نہیں
ہے احترام تو یہ ہے کہ امام عالی مقام کے پیغام کے مطابق خود کو ڈھال لیں۔
محرم الحرام میں ہمیں تمام فضول اور غیرضروری کاموں سے بچنا چاہیے۔ اس ماہ
میں پاکستان سمیت کسی بھی مسلمان ملک کی کوئی ٹیم نہ اپنے ملک میں کھیلے
اور نہ ہی کسی اور ملک میں کھیلنے جائے۔ اس دوران سیاسی سرگرمیاں بھی بند
کردینی چاہییں۔ نہ تو اسمبلی اور سینیٹ کااجلاس بلایا جائے اور نہ ہی کوئی
اور سیاسی جلسہ کیا جائے۔ میڈیا بھی اس دوران فلمی ایڈیشن اور خبریں بند
کردے۔ کسی اداکار کی خبر نہ چلائی جائے اور نہ ہی شائع کی جائے۔ سیاسی
خبروں سے بھی اجتناب کیا جائے۔ سب مسلما ن جھوٹ، فریب، دھوکہ، فراڈ، رشوت،
کرپشن سے توبہ کرلیں۔
محرم الحرام کے پہلے عشرہ میں مسلمان اپنے رشتہ داروں کی قبروں پر جاتے ہیں۔
ان کی لپائی کرتے ہیں۔ فاتحہ پڑھتے یا پڑھاتے ہیں۔ قبرستان میں جانا رسم
نہیں یہ ہماری عبرت کے لئے ہے۔کہ قبرستان میں جتنے بھی مسلمان آسودہ خاک
ہیں وہ سب کے سب اسی دنیا میں رہتے تھے۔جس طرح یہ یہاں آگئے ہیں ہمیں بھی
یہاں ایک دن آنا ہے۔ چاہے کسی کی کتنی ہی طویل زندگی کیوں نہ ہو ایک نہ ایک
دن اس نے قبرستان میں ہی دفن ہونا ہے۔ ہمیں قبرستان میں آنا یہ یاددلاتاہے
کہ ہم برے کام چھوڑدیں ایک دن ہم نے بھی اپنے مالک حقیقی کو جواب دینا ہے۔
اب آخر میں چند باتیں ارباب اقتدارکی توجہ کے لئے لکھی جا رہی ہیں۔ کہ ملک
بھر میں ہزاروں کی تعدادمیں قبرستان موجود ہیں اور یہ کسی نہ کسی اﷲ کے ولی
کے دربار کے ساتھ ہی ہیں۔ یہ شہر میں بھی ہیں اور دوردراز کے دیہی علاقوں
میں بھی ہیں۔ ان قبرستانوں کے لئے مختص کردہ زمینوں پر قبضے کی شکایات ہیں۔
اور یہ اکثر قبرستان غیرمحفوظ بھی ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ملک بھر
کے تما قبرستانوں کی حد بندی کرائیں۔ اور پھر تمام قبرستانوں کی
چاردیواریاں تعمیر کرائیں۔ ملک بھر کے قبرستانوں کو جانے والے تما م راستوں
کو پختہ کیا جائے وہاں پختہ سڑکیں تعمیر کی جائیں۔ بجلی اور روشنی کا
انتظام کیا جائے۔ پانی کا انتظام بھی سرکاری طور پر ہونا چاہیے۔ جنازہ
گاہوں کی دیکھ بھال اورمرمت وتوسیع پر بھی خصوصی توجہ دی جائے۔ ان تما م
مسائل کے حل کے لئے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ یوم عاشورہ کو خصوصی گرانٹس کے
اجراء کا اعلان کریں اور محرم لحرام کے فوری بعد جاری کرکے کام شرو ع
کرائیں۔
|