چرچل نے کہا تھا "جو قومیں اپنا
ماضی بھول جاتی ہیں ان کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا ". پچھلے تین دنوں سے
پاکستان کا میڈیا ایک لا حاصل بحث میں الجھا ہوا ہے ، شہید کون ہے اور کون
نہیں اس بات پر وہ لوگ بحث کر رہے ہیں کہ جن لوگوں کا نہ تو پاکستانی قوم
سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی ان کا مقام یا رتبہ ایسا ہے کہ وہ شہادت کا
سرٹیفکیٹ دےسکیں یا واپس لے سکیں . یہ سیاستدان ہیں یا پھر وہ اشرافیہ جو
سونے کا نوالہ اپنے منہ میں لے کر پیدا ہوے اور جنہوں نے کبھی کسی شہید کے
بلند مراتب کو قریب سے محسوس نہیں کیا .
دوسری جانب ہم نے یورپ اور دولت مشترکہ میں جنگ عظیم اول میں قربان ہونے
والے سپاہیوں کی یاد میں پچھلے دو دن میں ہونے والی تقریبات کو بھی ٹی وی
پر دیکھا اور ایک چیز نے مجھے بہت حیران کیا کہ تریسٹھ برطانوی سکولوں کے
طلبا نے ستر تھیلوں میں مختلف مقامات سے کہ جہاں یہ سپاہی دفن ہیں یا اپنی
آزادیوں کی حفاظت کرتے ہوے مارے گئے سے مٹی برطانیہ لے کر آرہے ہیں تا کہ
اس مٹی سے ایک باغ بنایا جا سکے جو ان بہادر سپاہیوں کی یادگار کی علامت ہو
گا . یہ بات نہ تو فضل الرحمان صاحب کو متاثر کرے گی اور نہ ہی اس بات سے
امیر جماعت اسلامی کے رویے اور جماعت کے نقطۂ نظر پر فرق پڑے گا کیونکہ یہ
برطانوی سکول کےبچے ہیں اور ان کا یہ عمل کبھی بھی ان علما کے فتوے کی زد
میں آسکتا ہے . کچھ سال سے میں 1947 کی جنگ آزادی کے ایک شہید اور نشان
حیدر کے مساوی جنگی اعزاز حاصل کرنے والے عظیم سپوت ننائیک سیف علی جنجوعہ
شہید کی بائیوگرافی پر کام کر رہا ہوں . پاکستانی علما اور دانشوروں کے
مباحثوں بلکہ لاحاصل مباحثوں کے بعد میں آپ سب تک جو صاحب نظر بھی ہیں اور
اپنے وطن سے پیار بھی کرتے ہیں سیف علی شہید کی سوانح حیات کے کچھ صفحات
پیش کر رہا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ خود کو پریشان کرنے کے بجائے قرآن
اور احکامات الہی سے رجوع کریں گے اور ان مباحثوں سے ذہنی انتشار اور فرقہ
وارانہ فساد کی جانب جانے کے بجائے بہتری کا رستہ اختیار کریں گے .
میری اپنی سوچ کے مطابق یہ فکری بحث نہیں بلکہ ایک شیطانی چال ہے جس کا
مقصد فرقہ وارانہ انتشار کی راہیں ہموار کرنا ہے . الله نہ کرے مگر مجھے
لگتا ہے کہ بہت جلد یہ لا حاصل مباحثے سنی وہابی جنگ میں بدل جائیں گے اور
یہ عالم کہ جنہوں نے ملکی سطح پر ایک فساد کا آغاز افواج پاکستان کے ساتھ
الجھ کر اور شہدا کے مقام کو شک میں ڈال کر کیا ہے دیگر سیاستدانوں کی طرح
کسی محفوظ مقام پر جا بیٹھیں گے اور پاکستان پھر سے ایک اور جنگ کی زد میں
آ جائے گا .
کون کہتا ہے کہ ڈکٹیشن صرف ادارے دیتے ہیں ؟ جو کردار دینی جماعتوں کا ہے
اور جس انداز سے میڈیا ان کے ساتھ ملکر پاکستان کی جگ ہنسائی کروا رہا ہے
اس پر نہ تو کوئی سوموٹو نوٹس جاری ہوگا اور نہ ہی کسی کے کان کھینچے جائیں
گے . اگر میں سلیم صافی کے انٹرویو کے مندرجات پر تنقید کرتا ہوں تو وہ وقت
برباد کرنے کے مساوی ہوگا اور اگر میں جناب منور حسن کے جوابات پر کچھ
لکھوں گا تو بہت سے لوگ مجھے ایجینٹ یا کافر کہیں گے . فضل الرحمان صاحب کے
بیانات پر کچھ کہنا بھی ایسے ہی ہو گا جیسے فلمی اداکاراؤں کے دیے ہوے بے
مقصد اور بے معنی انٹرویوز پر لکھنا ہوتا ہے .
خیر ایک شہید کی قبر اور خاندان سے ملاقات کا کچھ تذکرہ نیچے کی سطور میں
پیش خدمت ہے ، امید کرتا ہوں کوئی منور حسن صاحب تک اسے پہنچا دے گا
"............. موضع کھنڈھاڑ میں مختصر قیام اور شہید کشمیر نائیک سیف علی
جنجوعہ ہلال کشمیر کی بیوہ، بیٹوں اور دیگر عزیز رشتہ داروں کے خیالات سے
فیض یاب ہونے کے علاوہ مجھے علاقہ کے بڑے بوڑھوں سے بھی ملنے کا اتفاق ہوا
جنہوں نے اس تحریک میں بھرپور حصہ لیا اور معرکہ بڑا کھنا ( بڈھا کھنا)
سمیت دیگر کئی معرکوں میں بھی شامل رہے۔ ان لوگوں کے خیالات اور ان کی
زبانی واقعات سنتے وقت یوں محسوس ہوا جیسے میں خود پیرکلیوا کی پہاڑی پر
کھڑا سیف علی جنجوعہ کو میدان جنگ میں لڑتے دیکھ رہا ہوں۔ وہ ایک پہاڑی سے
دوسری پہاڑی پر برق رفتاری سے دوڑتے اپنے جوانوں کو ہدایت دے رہے ہیں اور
دشمن اپنی لاشوں کے ڈھیر چھوڑ کر جگہ جگہ پسپائی اختیار کررہا ہے۔ وادیوں
میں دشمن کے ٹینک اور فتح پور کی نیلگوں فضا میں دشمن کے ہوائی جہاز
مجاہدین کے مورچوں پر آگ برسا رہے ہیں۔
میدان جنگ کی یہ فلم میرے ذہن میں چلتی رہی اور میں شہید کی بیوہ کی قدم
بوسی کے بعد شہید کے کچے مکان کی دہلیز چھوڑ کر کوٹلی کی جانب چل دیا۔ فتح
پور کی پہاڑی پر پہنچا تو سورج دریا کے پارسرساواہ کی پہاڑیوں کے اوٹ میں
آہستہ آہستہ غروب ہورہا تھا جبکہ کوٹلی کی وادی پر سورج کی آخری سنہری
کرنیں کیپٹن اظہار الحسن شہید ستارہ جرأت کو سلام عقیدت پیش کر رہی تھیں۔
کچھ دیر اس بلند مقام پر کھڑا میں ہر سمت پھیلی سنہری کرنوں کو شہیدوں کے
رنگ میں ڈھلتا دیکھتا رہا۔ اب کوٹلی کی وادی پر اندھیرا چھا رہا تھا اور
فتح پور کی پہاڑیوں پر سبز چیڑ کے درختوں نے سیاہ لباس اوڑھ لیا تھا۔ میں
صبح جب فتح پور کی جانب چلا تو پہلے اظہارالحسن کی قبر پر حاضری دی۔ قبر کی
گیلی مٹی سے عجیب خوشبو آرہی تھی جو صرف کارگل کے شہیدوں کے خون سے آتی تھی۔
اب تو یہ خوشبو میرے خون، میرے ضمیر اور میری مٹی میں بس چکی ہے۔ ایک ماہ
بعد اسی خوشبو میں معطر کیپٹن جاوید اقبال شہید بھی کارگل سے واپس آیا اور
وطن کی مٹی پر ایک قبر کا اضافہ کرکے سورج کی ایک اور سنہری کرن کو اپنے
خون کی سرخی میں بدل گیا۔
صبح جب میں اظہار الحسن کو سلام پیش کرنے گیا تو وہاں صرف دو آدمی موجود
تھے۔ ایک عمر رسیدہ باپ قبر پر ہاتھ پھیر رہا تھا اور بار بار اپنے اظہار
الحسن سے پیار بھری باتیں کرتا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور ایک
ہی فقرہ اس کی زبان پر آتا۔ بیٹا جی اللہ کے حوالے۔ اظہار الحسن کے سرہانے
اس کا چھوٹا بھائی خاموش بیٹھا تھا۔ کبھی وہ اظہار کی قبر اور کبھی بوڑھے
باپ کی طرف دیکھتا۔ اس کے چہرے پر عجیب اداسی تھی۔ اس کے لبوں پر کئی سوال
تھے جن کا جواب نہ تو کسی دانشور کے پاس ہے نہ کارگل کی جنگ کا منصوبہ
بنانے والوں اور نہ ہی کشمیر کی پالیسی بنانے اور بگاڑنے والوں کے پاس۔ اس
کے سوالوں کا جواب اس کا بھائی اپنے سینے میں لئے سامنے خاموش پڑا تھا۔
جو منظر میں صبح کوٹلی کے قبرستان میں دیکھ کر گیا تھا ویسا ہی منظر سیف
علی شہید کے گھر میں بھی تھا۔ سیف علی کی بیوہ عمر رسیدہ ہوچکی تھی۔ بچے
بھی اب جوانی کی حدود پار کرچکے تھے مگر جب محترمہ زہرہ بی بی نے اپنے شہید
خاوند کی زندگی کے ایک ایک دن کی کہانی بیان کرنا شروع کی تو محمد صدیق اور
محمد رفیق کی آنکھوں سے آنسوؤں کی بارش شروع ہوگئی۔ اظہار الحسن کے بھائی
کی طرح دونوں بھائی بار بار ماں کے معصوم چہرے کی طرف دیکھتے اور آنکھیں
بند کر لیتے۔ میرے دیکھتے ہی صدیق اور رفیق سالوں پر محیط اپنے ماضی میں
چلے گئے۔ جب زہرہ بی بی نے بتایا کہ وہ مکئی کے کھیت میں فصل اکھٹی کر رہی
تھی اور دونوں بچے انکے پاس بیٹھے تھے کہ ایک مجاہد نے آکر انہیں خبر دی کہ
سیف علی شہید ہوگئے ہیں۔ زہرہ بی بی اچانک چپ ہوگئی اور پھر بولیں”میں نے
کام چھوڑا اور دونوں کو اٹھا کر گھر چلی گئی۔ میرے پاس اور کچھ بھی نہیں
تھا۔ میرا مالک کچھ دیر پہلے اس دھرتی کی رکھوالی کرتے ہوئے اپنے خالق
حقیقی سے جا ملا تھا۔ میرے کھیتوں کی فصل کھیتوں میں بکھری پڑی تھی اور
میری گود کی فصل میرے سامنے تھی۔ ہر طرف توپوں اور جہازوں کے گولے اور بم
برس رہے تھے اور ہم عین میدان جنگ میں بے آسرا اور بے سہارا تھے
…"..................(سربکف- سوانح حیات سیف علی جنجوعہ ) "............
قارئین یہ ہیں اصلی شہید جو وطن کی مٹی کے محافظ اور عاشقان رسول تھے .
انہوں نے کبھی کسی معصوم کو قتل نہیں کیا اور نہ ہی کسی کو سر بازار پھانسی
چڑھایا . کیا ہم اب ان شہیدوں کا سرٹیفکیٹ بھی سیاستدانوں سے مانگیں گے
؟.......... نہیں ہرگز نہیں ! کوئی ہے جو ان مجاہدوں کی آذانوں کی صدائیں
بدل سکے ؟ نہیں کوئی نہیں ! الله کی قسم وو عظیم تھے اور ہم مفاد پرست اور
خود نمائی کے پتلے . سیف علی شہید کے علاوہ ان ہزاروں لاکھوں شہیدوں پر
سالوں بات کی جا سکتی ہے کیونکہ وہ سرخرو تھے اور رہیں گے کیونکہ وہ زندہ
ہیں اور ایسا میرے الله نے کہا ہے .
میں اپنے الفاظ میں کوئی پوشیدہ ایجینڈا بیان کرنے کی کوشش نہیں کر رہا مگر
جو زہر شہادت اور شہیدوں کے خلاف اگلا جا رہا ہے اس سے تو ایسے لگتا ہے کہ
دشمن کبھی بھی باہر سے نہیں آیا بلکہ دشمن ہمیشہ گھر میں ہی موجود تھا بس
نظر نہیں آ رہا تھا .
اس بحث میں الجھے ذہن اگر اسی وقت کو جو انھوں نے اس فضول بحث میں برباد
کیا کسی اچھی اور مثبت بات یا کام کرنے میں صرف کرتے تو شائد پاکستان کے
عوام کی بہتری ہو جاتی . یہاں میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ امن کی آشا کے
مضبوط ستون ریاست کو جہاں کمزور کر رہے ہیں وہیں ان پر کوئی چیک اور بیلینس
نہیں ہے . میں پاکستان فوج کے نشریاتی ادارے اور چیف آف آرمی اسٹاف سے
گزارش کروں گا کہ پاکستان کے عوام کو پاکستان کے سپاہیان کی قربانیوں سے
روشناس کروانے کے لیے ایک ٹی وی چینل کا آغاز کیا جائے تاکہ بھارتی طرز
زندگی سے متاثر ٹی وی چینلوں کی گرفت سے عوام کو آزادی ملے اور انھیں پتہ
چلے کہ وہ مٹی کہ جس پر وہ رہتے اور آزادی کے مزے لوٹتے ہیں کس قدر زرخیز
ہے اور کن کن کا لہو اس کی بنیادوں میں شامل ہے ، اسرائیل میں اگر ایک ایسا
ٹی وی چینل ہو سکتا ہے ، ڈسکوری چینل اور بی بی سی اگر ایسی سروس مہیا کر
سکتا ہے تو پاکستان فوج کو بھی اس میں دیری نہیں کرنی چاہیے . میں امید
کرتا ہوں کہ پڑھنے والے اس مضمون کو کسی جماعت کے خلاف یا کسی سوچ کے حق
میں نہیں پڑھیں گے اگر آپ نے پھر بھی ایسا تاثر لیا ہے تو حضرت اقبال کے یہ
الفاظ شائد میرے باتوں کو آپ کے لیے آسان کر دیں :
ہے مریدوں کو تو حق بات گوارا لیکن
شیخ و ملا کو بری لگتی ہے درویش کی بات
قوم کے ہاتھ سے جاتا ہے متاع کردار
بحث میں آتا ہے جب فلسفۂ ذات و صفات |