زبان گرجتی ہے تو بیچارے الیکشن شیڈول پر

سیاستدانوں اورسیاسی جماعتوں کی جمہوریت سے محبت کا ایک اور ثبوت الیکشن کمیشن کی طرف سے بلدیاتی الیکشن کا شیڈول جاری ہونے کے بعد سامنے آیا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعلان کردہ شیڈول کے مطابق پنجاب میں پولنگ سات دسمبر جبکہ سندھ میں ستائیس نومبر کو ہوگی۔ نتائج کا اعلان تین روزکے بعد کیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے شیڈول کے مطابق کے مطابق پنجاب اور سندھ میں کاغذات نامزدگی حاصل کرنے کی تاریخ 9نومبر ہے۔ کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لئے گیارہ اور بارہ نومبر کی تاریخ دی گئی ہے۔ کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال پنجاب میں سولہ سے اٹھارہ نومبر اور سندھ میں سولہ اور سترہ نومبر کو کرنے کا شیڈول دیا گیا ہے۔ کاغذات نامزدگی کی منظوری یا مسترد کیے جانے کے خلاف اپیلیں پنجاب میں انیس او ربیس نومبر کو اور سندھ میں اٹھارہ اور انیس نومبر کو کی جاسکیں گی۔ان اپیلوں کو پنجاب میں اکیس سے 23اور سندھ میں سندھ میں بیس او راکیس نومبرکو نمٹایا جائے گا۔ پنجاب میں چوبیس اور سندھ میں بائیس نومبر کو کاغذات نامزدگی واپس لیے جاسکیں گے۔ امیدواروں کی حتمی فہرست اورانتخابی نشانات کی الاٹمنٹ سندھ میں 23پنجاب میں پچیس نومبر کو جاری ہوگی۔ یہ انتخابات یونین کونسل اور وارڈ کی سطح پر ہوں گے۔ الیکشن کمیشن نے ضابطہ اخلاق بھی جاری کردیا ہے۔ جس کے مطابق کوئی بھی تبادلہ یا تقرری الیکشن کاعمل مکمل ہونے تک نہیں کی جاسکے گی۔ وزیراعظم ، گورنرز،وزرائے اعلیٰ، وفاقی اور صوبائی وزراء انتخابی مہم میں حصہ نہیں لے سکیں گے اور نہ ہی وہ ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کرسکیں گے۔ کوئی بھی ڈپٹی کمشنراور ڈی سی اووزیراعظم، وزرائے اعلیٰ ، وفاقی اور صوبائی وزراء کے ساتھ پروٹوکول ڈیوٹی نہیں دے سکے گا۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد خان نے صحافیوں کو بتایا کہ صوبائی حکومتوں کو بلدیاتی انتخابات کرانے کے حوالے سے ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔ مقناطیسی سیاہی کی فراہمی کے لئے پی سی ایس آئی آر کو احکامات جاری کردیئے گئے ہیں۔ بیلٹ پیپر کی بروقت چھپائی یقینی بنانے کے لئے پرنتنگ کارپوریشن آف پاکستان کے ساتھ تفصیلی ملاقات ہوئی ہے۔ انہوں نے بتایا صوبائی الیکشن کمشنز کو ہدایت جاری کی گئی ہے کہ وہ ریٹرننگ آفیسرز سے پولنگ اسٹیشنز کی فہرستیں طلب کی جائیں اس عمل میں سات دن لگیں گے۔ پولنگ اسٹیشنز پر عملے کی تعیناتی کے حوالے سے بھی ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔ اشتیاق احمد نے بتایا کہ پی سی ایس آئی آرکو ہدایات جاری کردی گئی ہیں مقناطیسی سیاہی کے بائیس لاکھ سٹمپ پیڈزکی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ الیکشن کمیشن کے ذرائع کے مطابق ایک کروڑنوے لاکھ ووٹرز کے لئے65ہزارسے زائد پولنگ اسٹیشنز بنائے جائیں گے۔ ادھر الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے انتخابی فہرستوں کی تیاری کی ذمہ داری صوبوں کے حوالے کردی۔ جبکہ چیف سیکرٹریزکوبھی خط لکھ دیئے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا ہے کہ فہرستوں کی تیاری کی اہم ذمہ داری صوبوں پر ڈال دی جائے۔ اس رپورٹ کو پڑھ کر یہ بات آسانی سے کہی جاسکتی ہے کہ بلدیاتی انتخابات کرانے کے لئے الیکشن کمیشن بھی پوری طرح تیارنہیں تھا۔ اس نے عدالت عظمیٰ کی ہدایات کی روشنی میں پنجاب اورسندھ میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا شیڈول جاری کردیا۔ سابقہ دورحکومت میں پرویزمشرف کے ضلعی نظام کی مدت ختم ہوئی تو اس کے ساتھ ہی اس ضلعی نطام کی بساط ہی لپیٹ دی گئی۔ پہلے بلدیاتی انتخابات کرانے کا اختیار وفاق کے پاس تھا پھر یہ اختیار صوبوں کو دے دیا گیا۔ سابقہ دورحکومت میں بھی بلدیاتی انتخابات کرانے کے لئے عدالت عظمیٰ نے باربارہدایت جاری کی مگر تمام صوبائی حکومتیں اوردیگر ادارے ٹال مٹول سے کام لیتے رہے۔ اب جبکہ ایک اور حکومت کام کررہی ہے۔ اس کو بھی عدالت عظمیٰ نے باربارہدایت جاری کی کہ بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں۔ اب لیکشن کمیشن آف پاکستان نے بلدیاتی انتخابات کرانے کا جو شیڈول جاری کیا ہے۔ اس سلسلہ میں صوبوں نے خود ہی پولنگ کی تاریخیں دی ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری ہونا اتنا پسند آیا کہ ہررکن اسمبلی نے قومی اسمبلی میں الیکشن کمیشن کے اس اقدام کو خراج تحسین پیش کرنا ضروری سمجھا۔ آیئے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کس کس نے الیکشن کمیشن کی طرف سے بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کرنے کو کن کن الفاظ میں خراج تحسین پیش کرکے کیسے جمہوریت سے اپنی محبت کا ثبوت دیا۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں اس کی مخالفت میں قراردادمنظورکرلی۔ تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی نے بلدیاتی انتخابات کے شیدول کے خلاف قراردادقومی اسمبلی میں پیش کی۔ جس کی مسلم لیگ ن ، پیپلزپارٹی، ایم کیوایم سمیت تمام جماعتوں نے حمایت کی۔ قراردادمیں موقف اختیارکیاگیا ہے کہ اعلان کردہ شیڈول کے مطابق انتخابات کا شفاف انعقاد ممکن نہیں۔ قانون کے مطابق بیلٹ پیپرزکی چھپائی چھپائی پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان کے ذریعے ہی ہوسکتی ہے۔ نجی پرنٹنگ پریس سے بیلٹ پیپرزکی چھپائی سے انتخابات کی ساکھ پر سوالات اٹھیں گے۔ قرارداد پر خورشیدشاہ، شاہ محمودقریشی اور فاروق ستار کے دستخط موجود تھے۔ قراردادپیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن ، ایم کیو ایم ، مسلم لیگ ق اور دیگر سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر پیش کی۔ بعد میں محمود خان اچکزئی نے بلدیاتی انتخابات کے شیڈول کے خلاف حکومت اور اپوزیشن کی متفقہ قراردادقومی اسمبلی میں پیش کی جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ سیاستدانوں نے ایک با ر پھر ثابت کردیا ہے کہ وہ باہمی مفادات کے لئے پہلے کی طرح اب بھی ایک ہیں۔ کوئی بھی سیاسی جماعت نہیں چاہتی کہ ملک میں بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں۔ اب کسی ایک سیاسی جماعت پر یہ الزام لگانا درست نہیں ہوگا بلکہ یہ توتمام سیاسی جماعتیں نہیں چاہتیں کہ بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں۔ اس بات پر کوئی حیرت نہیں کہ بلدیاتی انتخابات کے شیڈول کے خلاف قراردادسے کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا۔ کیونکہ اس سے سب کے مفادات وابستہ ہیں۔ قرارداد میں سندھ اور پنجاب کے ساتھ بلوچستان کو بھی شامل کرلیاگیا۔ ترمیمی قرارداد کے مطابق تینوں صوبوں میں اعلان کردہ شیڈول کے مطابق شفاف بلدیاتی انتخابات ممکن نہیں۔ نہ جانے شفاف انتخابات کے لئے ان سیاسی جماعتوں کے نزدیک وہ کون سے اقدمات ہیں جو ابھی تک نہیں کیے جاسکے۔ انتخابات کی شفافیت کو برقرارررکھنا ضروری ہے تاہم دوسرادور حکومت جاری ہے ۔ اب تک کسی بھی حکومت سے ایسے اقدامات نہیں ہوسکے۔ عدالت نے بھی ایک بارنہیں باربارہدایت کی کہ بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں۔ اجلاس میں حکومت اوراپوزیشن نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ سے دوبارہ رجوع کیا جائے عجلت کے الیکشن جھرلو ہوں گے۔ اتنے انتظارکے بعد بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری ہواہے اور سیاستدان کہتے ہیں کہ جلدبازی میں کرائے گئے انتخابات جھرلو ہوں گے۔ بلدیاتی انتخابات کے شیڈول پر اپنے ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے اپوزیشن لیڈرخورشیدشاہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات کے شیڈول کا اعلان کردیا ہے۔ جوسپریم کورٹ کے حکم پر کیا گیا ہے۔کابینہ ڈویژن نے الیکشن کمیشن کولکھ دیا ہے کہ پی سی بی بیلٹ پیپر نہیں چھاپ سکتا۔ کابینہ ڈویژن نے انکارکردیا ہے۔ہم پرائیویٹ پرنٹنگ پریس کے بیلٹ پیپر تسلیم نہیں کریں گے۔ سپریم کورٹ کاکام الیکشن کرانا نہیں ہے۔ یہ کام سیاسی ہے سیاستدانوں کاہے۔ ملک کا پہلے ہی بیڑاغرق ہوچکا ہے۔ اتنی آزادعدلیہ بھی نہیں ہونی چاہیے۔ ملک پر رحم کریں۔ عجلت میں الیکشن جھرلو ہوں گے۔ ہم نہیں چاہتے پنجاب میں جھرلو پھرے۔ اورمن پسند لوگ آجائیں۔ہم ایسے الیکشن تسلیم نہیں کریں گے۔ ہم اس بارے تو کوئی تبصرہ نہیں کرسکتے کہ پی سی بی بیلٹ پیپرچھاپ سکتا ہے یا نہیں۔ پرائیویٹ پرنٹنگ پریسوں سے چھپوائے گئے بیلٹ پیپرز پر بھی خورشیدشاہ او ر دیگر سیاسی جماعتوں کے تحفظات اپنی جگہ درست ہوسکتے ہیں تاہم ان پرائیویٹ پرنٹنگ پریسوں کے پاس اتنا وقت ہی کہاں سے آئے گا کہ وہ بیلٹ پیپرچھاپیں۔ ان کے پاس تو امیدواروں کی تشہیری مہم کا ہی اتنا کام ہوگا کہ ان کوسرکھجانے کی بھی فرست نہیں ہوگی۔ سپریم کورٹ کاکام بقول خورشیدشاہ الیکشن کرانا نہیں ہے۔ یہ بات تو وہ مانتے ہی ہوں گے کہ عدالت عظمیٰ کاکام آئین پر عملدرآمد کرانا ہے۔ آئین میں کہاں لکھا ہوا ہے کہ بلدیاتی انتخابات اتنی دیر سے کرائے جائیں کہ جیسا کہ اب کرائے جارہے ہیں۔ بلکہ اب بھی سیاسی جماعتیں اس کے لئے تیارنہیں ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ بلدیاتی انتخابات کرانا سیاسی کام ہے اور سیاستدانوں کا ہے۔ تو کیا سیاستدانوں نے اپنایہ کام کیا ہے۔ کیا یہ بھی آئین کے مطابق ہے کہ سیاستدان نہ چاہیں تو بلدیاتی انتخابات نہ کرائے جائیں۔ سیاستدان اگر اپنا کام خود وقت پر کرنے لگ جائیں تو عدلیہ سمیت کسی کو یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی کہ وہ یہ کام کریں۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک کا پہلے ہی بیڑہ غرق ہوچکا ہے۔ تو یہ بیڑہ کس نے غرق کیا۔ سیاستدانوں نے یا کسی اورنے ۔ اتنی آزادعدلیہ نہیں ہونی چاہیے۔ تو آپ ہی بتا دیں کتنی آزاد عدلیہ ہونی چاہیے۔ جو من مانی کرنے دے۔ جو کسی کو کچھ نہ کہے۔ ملک پرکون رحم کرے۔ کیا بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم دینا ملک پر ظلم ہے۔کہا تو ایسے ہے کہ جیسے ملک میں کئی سالوں سے التواء کا شکار بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم دینا کوئی ظلم ہو۔ اصل بات اب آئی ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ پنجاب میں جھرلو پھرے اورمن پسند لوگ آجائیں۔ ان کو انتخابات میں اپنی شکست نظرآرہی ہے۔ اس لئے یہ نہیں چاہتے ۔ یہ من پسند لوگوں کا منتخب ہونا نہیں چاہتے بلکہ یہ اپنی پسند کے امیدواروں کو منتخب کرانا چاہتے ہیں۔ ہم ایسے الیکشن تسلیم نہیں کریں گے جس میں ہمیں شکست ہو۔ شاہ محمد قریشی نے کہا کہ ہم الیکشن چاہتے ہیں سلیکشن نہیں چاہتے۔ سمجھے نہیں وہ سلیکشن دوسروں کی نہیں چاہتے ۔ اپنوں کی چاہتے ہیں۔ کوئی اور منتخب ہوجائے تو وہ سلیکشن ہوتی ہے اور کوئی اپنا منتخب ہوجائے تو وہ الیکشن ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم عام انتخابات میں بھی الیکشن کمیشن سے مطمئن نہیں ہیں۔ کہ ہم حکومت نہیں بناسکے۔ نہ ہمارا وزیراعظم بن سکا ہے اور نہ ہی قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر۔ ستائیس نومبر کو سندھ اور سات دسمبر کو پنجاب میں انتخابات ناممکن ہیں۔ اب عدالت عظمیٰ کی طرف سے سندھ میں سات دسمبر تک مہلت مل گئی ہے۔ اس کے لئے کوئی تیار ہی نہیں تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ محرم الحرام کا بھی احترام نہیں کیا گیا۔ تو کیا اپوزیشن کی طرف سے سینیٹ کا اجلاس باہر لگانا یہ محرم الحرام کا احترام ہے۔ تو کیا کسی رکن اسمبلی نے اسمبلی میں یا کسی سینیٹر نے سینیٹ میں یہ قرارداد پیش کی ہے کہ محرم الحرام میں سیاسی سرگرمیاں معطل رہیں گی۔ نہ تو کسی ایوان کا اجلاس بلایا جائے گا اور نہ ہی کوئی سیاسی جلسہ ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ بلدیاتی الیکشن میں دھاندلی کی گئی تو وہ قبول نہیں کریں گے۔ جس الیکشن میں ہمارے امیدوار ہار جائیں وہ دھاندلی ہوتی ہے۔ سڑکوں پر نکلیں گے ۔ دھرنے دیں گے۔ سپیکر نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل کے تحت سپریم کورٹ کے فیصلے پر بحث نہیں ہوسکتی ۔ اراکین خیال کریں۔ سپیکر کی اس بات کی کسی نے پروانہیں کی۔ الٹا یہ جواب دیا رانا تنویر حسین نے ۔ کہ عدالت عظمیٰ کے کسی سیاسی فیصلے پر بحث ہوسکتی ہے۔ بلدیاتی الیکشن عوامی معاملہ ہے۔ آئین پر عمل کرنے کا حکم دینا بھی سیاسی بن گیاہے۔ انتخابات کرانے کا حکم دینا ساسی ہے یا انتخابات کو موخر کرتے جانا سیاسی ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے بیلٹ پیپر کی چھپائی کے لئے ایک سوبیس دن کی مہلت مانگی ہے۔ ہم پرائیویٹ پرنٹنگ پریس کے بیلٹ پیپر تسلیم نہیں کریں گے۔ نادرانے بھی انکا رکردیا ہے۔ اگر ان تاریخوں میں الیکشن ہوگئے تو الیکشن کمیشن کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہوجائے گی۔ الیکشن کمیشن نے تو سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کا شیڈول جاری کیا ہے۔ یہ باتیں اسمبلی ہال میں کرنے کی نہیں ہیں کمرہ عدالت میں کرنے کی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسی صورت میں ناقص ترین انتخابات ہوں گے۔ اس ایشو پر ہم پی پی کے ساتھ ہیں ۔ آئندہ جس کے ایشو کے ساتھ ہمارے مفادات وابستہ ہوں گے ہم اسی کے ساتھ ہوجائیں گے۔ غوث بخش مہر نے کہا کہ نجی پرنٹنگ پریس سے بیلٹ پیپروں کی اشاعت دھاندلی ہوگی۔ یہاں ایک بات باربار ذہن میں آرہی ہے کہ سب کہہ رہے ہیں کہ پرائیویٹ پرنٹنگ پریس سے بیلٹ پیپرزکی چھپائی قبول نہیں کریں گے۔ یہ دھاندلی ہوگی۔ کہ یہ بیلٹ پیپرز کے نمونے چوری نہ ہو جائیں اور پھر جعلی ووٹ نہ ڈالے جائیں۔ تو سرکاری پرنٹنگ پریس کے بیلٹ پیپرز سے دھاندلی نہیں ہوسکتی تو پھر انتخابات میں جعلی ووٹ کیسے ڈالے جاتے ہیں۔ جولوگ جعلی ووٹ ڈالتے ہیں ان کے پاس جعلی بیلٹ پیپرزکہاں سے آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ابھی حلقہ بندیاں مکمل نہیں ہوئیں اوپر سے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا آرڈر آگیا ہے۔ پنجاب او رسندھ میں وہی حکومتیں ہیں جو انتخابات سے پہلے کام کررہی تھیں۔ اب تک یہ کام مکمل نہیں ہوا تو پھر کب ہوگا۔ سندھ میں ہمارے امیدواروں کو گرفتارکیاجارہا ہے۔ الیکشن شیڈول پر نظر ثانی کی جائے۔ قومی اسمبلی متذکرہ اجلاس میں خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ سمجھ نہیں آرہی کہ ہمارا کیا بنے گا۔ بلدیاتی انتخابات کرانے پڑے تو ہم ہار اجائیں گے یا جیت جائیں گے۔ کنٹونٹمنٹ بورڈ میں کس قانون کے تحت الیکشن ہوں گے ۔ پاکستان کو ایسی جمہوریت نہیں چاہیے جس میں عدلیہ بلدیاتی انتخابات کرانے کاحکم دے اور سیاستدانوں اس کے حکم پر عمل کرنا پڑے۔ بلکہ ایسی جمہوریت چاہیے جس میں صرف ہماری حکومت ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ عجلت میں الیکشن بنیادی، انسانی، سیاسی حقوق کی خلاف ورزی ہیں۔ عجلت میں الیکشن بنیادی، انسانی ، سیاسی حقوق کی خلاف ورذی ہیں تو کیا ان کو دیرسے کرانا ایسا نہیں ہے۔ مشرف کے ضلعی نظام کو ختم ہوئے کتنا عرصہ گزرگیا ہے۔ ابھی تک بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے۔ اور اب اگر الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کیا ہے تو یہ جلدبازی ہے۔ جلد بازی یا عجلت تو تب ہوتی جب مشرف کی ضلعی حکومتوں کی مدت ختم ہوئی تھی۔ اس کے دوسرے دن ہی عدالت عظمیٰ حکم دے دیتی کہ فلاں دن تک بلدیاتی انتخابات کرالئے جائیں۔ سعد رفیق کہتے ہیں بلدیاتی انتخابات کے معاملے پر اپوزیشن حکومت ایک ہیں۔ کیونکہ اس سے دونوں کے مفادات وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ ہم لیٹ ہوئے ہیں تاہم ہم بہتر انداز میں الیکشن کراناچاہتے ہیں۔ بعض اوقات شاہی محل بنانے سے سرچھپانے کے لئے جھونپڑی کا بنانا زیادہ اہمیت کا حامل ہوا کرتاہے۔ یہ بہتر اندازکیا ہوگاکہ جب ہمیں یہ یقین ہوجائے گا کہ ہم ہی جیت جائیں گے۔ ایم کیو ایم کے عبدالرشید گوڈیل نے کہا کہ ہم پانچ سال سے چلارہے تھے کہ بلدیاتی انتخابات کراؤ۔ لیکن جمہوری حکومتیں خاموش بیٹھی رہیں۔ اس لئے سپریم کورٹ نے نوٹس لیا ہے۔ سیاستدان اس صورتحال کے قصوروار ہیں۔ الیکشن شیڈول کے خلاف جو قرارداد پاس کی گئی اس میں ایم کیو ایم بھی شامل تھی۔ اب وہ کہہ رہی ہے کہ ہم چلاتے رہے بلدیاتی انتخابات کراؤ۔ سیاسدان اس صورتحال کے قصوروار ہیں۔ایک طرف وہ جاری کیے گئے شیڈول کی مخالفت کررہے ہیں۔ اور دوسری طرف وہ انتخابات کرانے کی اپنی پرانی خواہش کا اظہار کررہے ہیں۔ وہ کیا چاہتے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کا انعقادچاہتے ہیں یا التواء چاہتے ہیں۔ جہموری حکومتوں نے ہمیشہ اختیارات اپنے پاس رکھے۔ مرضی کی حلقہ بندیاں کرائیں۔ آپ بھی تو ایساچاہتے ہیں کہ کراچی میں حلقہ بندیوں پر آپ نے شورمچادیا تھا۔ بلدیاتی الیکشن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین لائی جائے۔ مخدوم امین فہیم نے کہاکہ الیکشن کمیشن معذرت کرچکا ہے کہ وہ عجلت میں انتخابات نہیں کراسکتے۔ عدلیہ کا کام حکومت چلانا یا الیکشن کرانا نہیں ہے۔ ہم سیاستدان جو کرتے رہیں اس پر آنکھیں بندکرلینا ہے؟انہوں نے بہت خوبصورت مشورہ دیا ہے کہ آئین میں ترمیم کی جائے کہ پارلیمنٹ کے کام میں مداخلت نہ کی جائے۔ تو کیا یہ ترمیم نہیں لائی جانی چاہیے کہ ہر کام وقت پر کیا جائے ۔ تاخیر نہ کی جائے۔ سپریم کورٹ والے کوئی مقدس گائے نہیں ہیں۔ جو ان کی ہربات مانی جائے۔ ہم ہی مقدس گائے ہیں ہماری ہی بات مانی جائے۔ایسی صورتحال میں الیکشن غیر منصفانہ ہوں گے۔ جماعت اسلامی کے شیراکبر خان کہتے ہیں کہ بلدیاتی الیکشن میں دھاندلی قبول نہیں ہے۔ الیکشن ضرور کرائے جائیں مگرعجلت نہ کی جائے۔جمشید دستی نے کہا کہ پنجاب میں من پسند حلقہ بندیاں کی گئی ہیں۔ یہ دھاندلی نہیں دھاندلہ ہے۔حکومت پنجاب اپنے مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے۔ سپریم کورٹ میں نظرثانی کی اپیل کی جائے۔

قومی اسمبلی کے اس اجلاس میں بلدیاتی انتخابات کے شیڈول کو جاری کرنے کو سب نے جلدبازی کا نام دیا ہے۔ یہ جلدبازی ہے یا نہیں یہ فریقین کا معاملہ ہے ۔ ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ سیاستدانوں نے یہ سب باتیں کس کو سنائی ہیں۔ عدالت کو، الیکشن کمیشن کو یا حکومت کو۔ بلدیاتی انتخابات کا شیڈول الیکشن کمیشن نے عدالت کے حکم پر جاری کیا ہے۔ توپھر یہ جلدبازی کا الزام کس پر لگایا جا رہا ہے۔ ہر ایک نے دھاندلی کی بات بھی کی تو یہ الزام بھی کس پر لگایا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن پر یاکسی اورپر ؟کیا انتخابات کا شیڈول جاری کرنا بھی دھاندلی ہوجاتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ کہا کسی اور کو گیا ہو اور سنایا کسی اور کو گیا ہو۔ تاہم یہ بات ایک بار پھر واضح ہوگئی ہے کہ یہ سیاستدان جمہوریت سے کتنا اور کیسا لگاؤ رکھتے ہیں۔اب برق گرتی ہے تو بیچارے الیکشن کمیشن پر۔ اب وہ کیا کرے ۔ عدلیہ کی مانے یا سیاستدانوں کی۔ عدلیہ کی مانتا ہے تو سیاستدان اسمبلی میں مذمتی قرارداد منظور کرلیتے ہیں اور اگر وہ سیاستدانوں کی مانتا ہے تو توہین عدالت کا خطرہ ہے۔
 
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 350948 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.