نیٹو سپلائی یا شہادت! اصل مسئلہ کیا ہے؟

کیا واقعی شہادت کی سند اب منصورہ سے ملا کرے گی یا ڈیرہ اسمعیل خان میں مولٰنا مفتی محمود کی گدڑی پہ تخت بچھائے ان کے گدی نشین اس کی تقسیم فرمائیں گے جیسے انہوں نے مشرف کی گریجوئیٹ اسمبلی میں رکنیت کے طلبگاروں کے درمیان شہادت العالمیہ کی اسناد تقسیم کی تھیں۔کیا اب اسے ٹیکس چور اور ایجنٹ الیکٹرانک میڈیا کی تصدیق سے جاری کیا جائے گا۔ جماعت اسلامی کے امیر منور حسن کا بیان اور فضل الرحمن کا ہذیان اس قابل نہ تھا کہ انہیں دھرایا بھی جاتا لیکن فوج کے ترجمان کے بیان نے گویا مردے میں جان ڈالدی۔منور حسن الیکٹرانک میڈیا میں اپنی کج بحثی اور کٹ حجتی کے لئے معروف ہیں۔ برداشت کا یہ عالم کہ خال ہی ان کا کوئی انٹرویو مکمل ہوتا ہے۔رہے مفتی محمود کے فرزند تو انہوں نے دنیا کے لئے دین تیاگ دیا۔ کایاں ایسے کہ دن کے اجالے میں امریکہ پہ لعنت اور رات کے اندھیرے میں ان کے ترلے کہ بھلے کچھ دنوں ہی کے لئے ہی سہی میرے نام کے ساتھ سابقہ وزیر اعظم کا دم چھلا لگ جائے۔

حکیم اﷲ محسود ہزاروں بے گناہ معصوم جانوں کا قاتل تھا۔ بینک ڈکیتیوں اور اغواء برائے تاوان کا مجرم،اقلیتیوں پہ حملوں کا ذمہ دار،اسلاف کی روایات کو پامال کرنے والا،دین کی آڑ میں دنیا کا طلبگار،امریکہ کی طرف سے کئے جانے والے ایک ڈرون حملے میں مارا گیا۔شریعت کہتی ہے کہ جو مر جائے اس کے بارے میں خاموشی بہتر ہے۔ جب تک وہ زندہ تھا پاکستان اور پاکستان کے عوام کے ساتھ جنگ میں ہمہ تن اور ہمہ وقت مصروف۔وہ اب اﷲ کے ہاں حاضر ہے برا ہو گا تو جہنم کا ایندھن بنے گا اور اگر اﷲ کریم اسے شہادت کی عظمت عطا فرما دیں تو اسے کسی سے تصدیق کی قطعاََ کوئی ضرورت نہیں کہ اﷲ دلوں کے حال خوب جانتا ہے اور انسان کی نیت بھی کہ نیت ہی پہ اعمال کا دارو مدار ہے۔بات سادی اور سیدھی ہے کہ جو اﷲ کے لئے لڑتے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہے اور اﷲ کے لئے کون لڑ رہا ہے یہ اﷲ ہی جانتا ہے۔ ممکن ہے دونوں،ممکن ہے ایک اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی نہیں۔

کیا واقعی یہی ہمارا دکھ ہے کہ حکیم اﷲ کو شہید کیوں کہا گیا؟ نہیں یہ معاملہ تو کہیں تھا ہی نہیں۔ ہمارا اصل دکھ تو یہ تھا کہ جب وہ ریاست کے خلاف لڑ رہا تھا تو امریکہ کے نشانے پہ ہونے کے باوجود امریکہ کی آشیر واد سے کھلے بندوں دنداناتا رہا اور جونہی اس نے اس بات پہ اپنی ہلکی سی آمادگی کا اظہار کیا کہ وہ ریاست کے ساتھ امن مذاکرات پہ آمادہ ہے ہمارے نام نہاد دوست نے ڈرون مار کے اسے عالمِ بالا کے سفر پہ روانہ کر دیا۔ لوگ معصوم ضرور ہیں لیکن اتنے بھی نہیں کہ انہیں اس بات کی سمجھ نہ آتی کہ ہمارا اصل دشمن کون ہے۔ امن کا دشمن ،پاکستان کی ریاست اور اس کے عوام کی خوشحالی کا دشمن۔ریاست کی پالیسیاں کبھی بھی منافقت سے خالی نہیں ہوتیں۔ خدا جانے کہ ہمارے حکمران امن مذاکرات کر رہے تھے یا نہیں لیکن ظاہر انہوں نے بھی یہی کیا کہ حکیم اﷲ کو مار کے امریکہ نے ہمارے ساتھ بہت بڑا ظلم کیا ہے حالانکہ اس کے سر کی قیمت اسی ریاست نے پچاس لاکھ مقرر کر رکھی تھی اور ابھی تک یہ بر قرار تھی۔کل کلاں کو ممکن ہے کوئی امریکی پاکستان سے اس رقم کا مطالبہ بھی کر دے۔

قوم بجا طور پہ اس بات پہ متحد اور متفق ہو رہی تھی کہ امریکہ کا یہ اقدام ہماری آزادی اور خود مختاری پہ حملہ ہے وہ یوں کہ جب تک ہم اس سانپ کا سر کچلنا چاہتے تھے اسے امریکہ کی پوری سپورٹ حاصل تھی اور جونہی ہم نے اس سے بات چیت کرنے کا سلسلہ شروع کیا اسے مار دیا گیا۔یہ احساس پیدا ہورہا تھا کہ امریکہ اب ہمیں اپنی مرضی سے مذاکرات بھی نہیں کرنے دیتا۔ پاکستان میں امریکہ سے نفرت ایک ایسا پودا ہے جس کا بیچ بہت طاقتور ہے ۔ہلکی سی حرات اور تھوڑی سی نمی مہیا ہو تو یہ زمین سے یوں نکلتا ہے جیسے بانس کا پودا کہ اس لمحے اس قطعہ زمین پہ سوئے انسان میں سوراخ کر کے باہر آ جاتا ہے۔اب کی بار یہ نفرت اتنی شدید تھی کہ وہ پارٹیاں جو اس ملک میں امریکہ کی تسلیم شدہ داشتائیں ہیں ان کے پاس بھی امریکہ کی حمایت میں کہنے کو کچھ نہ تھا۔ امریکیوں نے بھی اس کی حدت اور حرارت کو محسوس کیا۔ خصوصاََ یوں کہ اس امریکی اقدام پہ عمران خان اور جماعت اسلامی وغیرہ ڈرون کی بندش کا مطالبہ کر رہی تھیں۔یہ سپلائی رک جائے تو ڈرون خود بخود رک جاتے ہیں کہ ان کا فیول پاکستان کے راستے ہی ان تک پہنچتا ہے۔ڈرون روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ سپلائی روکی جائے۔ یہ کسی حکومت خواہ وہ صوبائی ہو یا وفاقی کے بس کا نہیں تھا۔ جذبات کا یہ عالم تھا کہ عوام خود ہی اس سپلائی کو روکنے کا عہد کر رہے تھے کہ میر جعفر اور میر صادق کی معنوی اولادیں اپنے سارے ہتھیار لے کے میدان میں آ گئیں۔ان امڈتے جذبات کے آگے بند باندھنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی گئی۔ اسی کوشش میں ایک نجی چینل کے ایک طالبان ہمدرد اینکر کو منور حسن سے ایک ایسا فقرہ نکلوانے میں کامیاب ہو گئے جس کو سامنے رکھ کے نان ایشو کو ایشو بنا دیا گیا اور جو اصل ایشو تھا وہ سرے سے منظر ہی سے ہٹ گیا۔پاک فوج نے بھی دانستہ یا نادانستہ اس میں اپنا حصہ ڈالا اور یوں اب ہر طرف ملک کے طول وعرض میں شہادت ہی شہادت ہے اور باقی رہے نام اﷲ کا۔

عمران خان جو نیٹو سپلائی پہ اپنے جذباتی بیانات پہ پہلے ہی اپنے آپ کو نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والی کیفیت میں محسوس کرتے تھے اب سکون میں ہیں کہ چلو قوم کی توجہ اس مسئلہ سے ہٹ گئی۔ قوم لیکن اب اتنی بھولی رہی نہیں۔ ہو بھی جائے تو خان صاحب کچھ ہی دنوں میں آپ کا مخالف میڈیا نیٹو سپلائی پہ آپ کے بیانات اس قوم کو یوں زبانی یاد کرائے گا کہ آپ کی رہی سہی ساکھ بھی جاتی رہے گی۔چہید کون ہے اور ہلاک کون ؟ ہم تیار ہیں آپ کی کہی ہوئی بات کو اس کی انتہاء تک پہنچانے کے لئے لیکن کیا ٓپ بھی تیا ر ہیں۔ اٹھیے آپ کا اٹھایا ہوا ایک قدم کل اوبامہ کو آپ کے سامنے لا بٹھائے گا اور اگر آپ کا اٹھا ہوا یہ قدم اگر رک گیا تو آپ بھی کبھی ہمارے حکمرانوں کی طرح امریکیوں کے قدموں سے اٹھ نہیں پائیں گے۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268819 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More