قومی وطن پارٹی اور تحریک انصاف میں ٹھن گئی

بدھ کے روز وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے صوبائی وزیر محنت بخت بیدار، وزیر جنگلات ابرار حسین اور وزیر مواصلات یوسف ایوب خان کو وزارتوں سے سبکدوش کردیا۔ تینوں وزرا پر کرپشن اور غیر تسلی بخش کارکردگی کے الزامات عاید کیے گئے، جبکہ وزیر مواصلات یوسف ایوب خان کو سپریم کورٹ نے جعلی ڈگری کیس میں نااہل قرار دیا تھا۔

بخت بیدار اور ابرار حسین کا تعلق قومی وطن پارٹی جبکہ یوسف ایوب خان کا تعلق تحریک انصاف سے ہے۔خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے وزرا کو سبکدوش کرنے کے بعد سے قومی وطن پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان الزامات کی ایک جنگ چھڑ گئی ہے۔

قومی وطن پارٹی کے تحریک انصاف کی مخلوط صوبائی حکومت سے علیحدگی اور خیبر پختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کے اعلان کے ساتھ کرپشن کے الزام میں برطرف قومی وطن پارٹی کے صوبائی وزیر نے اپنے خلاف الزامات اور برطرفی پر سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا ہے۔ قومی وطن پارٹی کے صوبائی صدر اور رکن صوبائی اسمبلی سکندر شیرپاﺅ نے کہا کہ قومی وطن پارٹی عوامی جماعت ہے اور ہمیں حکومت میں شامل ہونے کا کوئی شوق نہیں تھا، تحریک انصاف نے خود حکومت میں شمولیت کی دعوت دی تھی اس لیے مخلوط حکومت میں شمولیت اختیار کی۔ قومی وطن پارٹی کرپشن سے پاک اور عوامی خدمت کاجذبہ رکھتی ہے۔ مخلوط حکومت میں شامل ہونے کے بعد ہم نے خود تحریک انصاف کو کرپشن کے خاتمے کے لےے واضح اور جامع پالیسی بنانے کاکہاتھا لیکن تحریک انصاف نے کرپشن کے خاتمے کے لےے پالیسی بنانے پر کوئی توجہ نہیں دی بلکہ خود کرپشن میں مصروف ہوگئی۔ تحریک انصاف سیاسی دباﺅ کا شکار ہے اور وہ اس صوبے میں مزید کام نہیں کرسکتی اس لیے عوام کو بے وقوف بنانے کے لےے قومی وطن پارٹی کے وزرا پر بے بنیاد الزامات لگارہی ہے حالانکہ ان الزامات کا تحریک انصاف کے پاس کسی قسم کا کوئی ثبوت موجو د نہیں ہے۔ اگر ثبوت موجود ہوتا تواسے پیش کیا جاتا اور بے بنیاد الزامات پر کسی کے خلاف کارروائی نہیں کی جاسکتی۔ قومی وطن پارٹی اب اسمبلی میں اپوزیشن میں بیٹھ کر اپنا کردار ادا کرے گی۔ انہوں نے خیبرپختونخوا کی مخلوط حکومت سے علیحدہ ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہاکہ تحریک انصاف کی حکومت کا کردار اب بہت جلد عوام کے سامنے آجائے گا، صوبائی حکومت اب کرپشن کے خاتمے کے لےے کیا عملی اقدامات اٹھائی گی۔

سکندر شیرپاؤ نے جمعرات کو اخباری کانفرنس میں پاکستان تحریک انصاف کا ایک خط دکھایا جو بظاہر عمران خان کی جانب سے تھا اور اس میں خیبر پختونخوا میں تیل اور گیس کے محکمے میں چیف ایگزیکٹو کی تعیناتی کے لیے ایک شحض کی سفارش کی گئی تھی۔انھوں نے کہا کہ ان کے پاس ایسے ثبوت ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت اس طرح کے کاموں میں ملوث ہے جبکہ ان کی پارٹی کے جن وزرا پر الزامات عاید کیے گئے ہیں اس بارے میں کوئی شواہد پیش نہیں کیے گئے۔ان سے جب پوچھا کہ یہ الزامات تحریک انصاف کے اقدامات سے پہلے کیوں نہیں عاید کیے گئے تو انھوں نے کہا کہ ابھی مزید ثبوت ان کے پاس موجود ہیں جو وقت آنے پر ظاہر کریں گے۔

دوسری جانب تحریک انصاف نے قومی وطن پارٹی کے الزامات مسترد کردےے۔ ترجمان تحریک انصاف شیریں مزاری نے کہا کہ سکندر شیرپاؤ نے جعلی دستاویز کے سہارے عمران خان پر بے بنیاد الزامات لگائے ،قومی وطن پارٹی کا جعلی دستخطوں کے ساتھ جھوٹاخط شرمنا ک ہے ،خط پر دکھائے گئے دستخط عمران خان کے نہیں ہیں۔قومی وطن پارٹی کے رہنما کرپشن چھپانے کے لیے ذاتیات پر اتر آئے ، تحریک انصاف کرپشن کے خلاف کسی قسم کی مصلحت کا شکار نہیں ہوگی۔ کرپشن کرنے والے وزرا جس بھی پارٹی میں ہوں برداشت نہیں کریں گے بلکہ ان کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں گے۔ اتحادی ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم بے ضابطگیوں پر آنکھیں بند کرلیں۔

چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے قومی وطن پارٹی کے رہنماؤں کی جانب سے کرپشن کے الزامات کے جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ میری سیاسی زندگی اور سماجی خدمت کھلی کتاب کی مانند ہے۔ قوم نے میری دیانت کی وجہ سے شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر معاونت کی۔ شوکت خانم اور نمل کالج میانوالی بہترین ساکھ اور علمی معیار کے حامل ادارے ہیں۔ دونوں اداروں کو کرپشن سے یکسر پاک اور مداخلت سے بالکل آزاد رکھا ہے۔ چیلنج کرتا ہوں کہ کوئی شخص دونوں اداروں میں میری کسی قسم کی مداخلت یا کرپشن ثابت کر کے دکھائے۔ انہوں نے کہا خیبر پختونخوا حکومت کو بھی انتہائی مو ¿ثر بنانے اور بدعنوانی سے یکسر پاک کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ صوبائی حکومت میں بدعنوان عناصر بالکل برداشت نہیں کروں گا۔ سیاسی مصلحتیں بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوششوں میں حائل نہیں ہو سکتیں۔
خیبر پختونخوا میں کرپشن کی وجہ سے وزرا کی سبکدوشی پر بہت سے لوگ تو تحریک انصاف کی تعریف کررہے ہیں اور اس عمل کو پی ٹی آئی کی گڈگورننس کا نتیجہ بتلارہے ہیں جبکہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ صرف کرپش کا معاملہ ہی نہیں بلکہ وزراکو ہٹانا ان اختلافات کا اظہار ہے جو تحریک انصاف اور قومی وطن پارٹی میں کچھ مہینوں سے چل رہے تھے۔صداقت کیا ہے یہ تو اللہ ہی جانتے ہیں ، لیکن ایک بات ضرور ہے کہ اگر کے پی کے کی حکومت نے صرف کرپشن اور نااہلی کی وجہ سے وزرا کو فارغ کیا ہے تو یہ تحریک انصاف کا ایک اچھا اور مثالی اقدام قرار دیا جاسکتا ہے لیکن اگر کوئی اور وجہ ہے تو اس اقدام کے اچھے نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت سے قومی وطن پارٹی کی ’علیحدگی‘ سے صوبائی حکومت کو فوری طور پر کوئی خطرہ نہیں،یہاں اسمبلی کے کل ارکان کی تعداد 124 ہے تاہم تحریک انصاف کے رکن یوسف ایوب کے جعلی ڈگری پر نااہل ہونے اور اسرار اللہ گنڈاپور کے خودکش حملے میں جاں بحق ہونے کے بعد اس وقت صوبائی اسمبلی کے ارکان کی تعداد 122 ہے جس میں سپیکر اسد قیصر بھی شامل ہیں۔ یوں حکومت سازی کیلئے سادہ اکثریت 62 ارکان بنتی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ تحریک انصاف اور ا س کے اتحادیوں کی تعداد قومی وطن پارٹی کے حکومت سے الگ ہونے کے بعد 66 ہے۔ اس طرح ان کے پاس 4ارکان ابھی بھی زیادہ ہیں۔ ان 66 ارکان میں سے 53 تحریک انصاف، 8 جماعت اسلامی اور 5 عوامی جمہوری اتحاد سے تعلق رکھتے ہیں۔ قومی وطن پارٹی کے ارکان کی تعداد 10 ہے جو اب اپوزیشن میں چلے گئے ہیں۔ اسمبلی میں مسلم لیگ ن اور جے یو آئی (ف) کو 13، 13 نشستیں حاصل ہیں جبکہ اے این پی کے پاس 4، پیپلز پارٹی کے پاس 3 اور اے پی ایم ایل کے پاس ایک ایک نشست ہے۔

اس سب کے باوجود یہ واضح رہے کہ صوبائی حکومت میں 5ماہ میں ہی شکست دریخت کا عمل شروع ہونے سے خیبر پی کے میں سیاسی سطح پر نئی صف بندی شروع ہوگئی ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کچھ روز قبل ہی اس بات کا عندیہ دے دیا تھا کہ وہ دو تین صوبائی وزرا کا ناشتہ کرنے والے ہیں۔ بدمزگی کے ماحول میں دو سیاسی قوتوں کے راستے جدا ہوئے ہیں۔ عمران خان نے خیبر پی کے حکومت سے اتحادیوں کو نکال باہر کرکے غیر سیاسی فیصلہ کیا ہے۔ اگرچہ انہوں نے کرپشن کے بارے میں زیرو ٹالرنس کا دعویٰ کیا ہے اور قومی وطن پارٹی کے دو وزراءپر کرپشن کا الزام عاید کیا ہے جس کے جواب میںسبکدوش کیے جانے والے وزرا نے عمران خان اور صوبائی حکومت کو کرپشن کے حوالے سے عدالت میں لے جانے کا اعلان کیا ہے۔ قومی وطن پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان یہ تنازع اگر بڑھتا ہے تو دونوں کی جگ ہنسائی ہوگی۔ عمران خان کے فیصلے سے خیبر پی کے اسمبلی میں اپوزیشن کو تقویت ملی ہے۔ اپنی صوبائی حکومت برقرار رکھنے کے لیے اب تحریک انصاف کا جماعت اسلامی اور آزاد ارکان پر انحصار بڑھ جائے گا۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 640084 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.