ہم آپ کی کالونی نہیں

 ہائے رے کاش اَب ہمارے حکمران بھی امریک او برطانیہ کو کبھی یہ کہہ دیں..ہم آپ کی کالونی نہیں..!!!

آج یہ بات توساری دنیا جانتی ہے کہ 2009کے مبینہ جنگی جرائم کے حوالوں سے سری لنکامیں اِنسانی حقوق کی جتنی بھی خلاف ورزیاں ہوئیں ہیں اِس کی تاریخ میں کہیں بھی کوئی مثال ملنی مشکل ہے مگراِسی کے ساتھ ہی ایک افسوس ناک امریہ بھی ہے کہ 2009میں اِنسانیت سوزو تاریخ ساز بُرائیاں کرنے کے باوجودبھی سری لنکن اِس سے متعلق کچھ سُننے اور سمجھنے کو تیار ہی نہیں ہیں اور دنیا میں اپنے جنگی جرائم پر اُٹھنے والے سوالات پر سیخ پاہوجاتے ہیں اور جب کوئی اِنہیں اِن کے جنگی جرائم سے متعلق کچھ کہنااور سمجھناچاہتاہے تو وہ غلط ہوکربھی یہ کہہ دیتے ہیں کہ کوئی ہمیں نہ سمجھائے اور ہمیں نہ بتائے کیوں کہ ” ہم آپ کی کالونی نہیں“ اور یوں سری لنکن حکومت 2009 کے جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے باوجود بھی خود کو پوتراور پاک صاف جانتی ہے اور یہ کس ڈھٹائی کے ساتھ اقوام ِ کل کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر کہہ رہی ہے کہ ہم نے جو کیا وہ سب ٹھیک ہے کوئی ہمیںبُرانہ کہے ،اَب یہ تو عالم ہے سری لنکن حکومت کا جوغلط ہوکر بھی خود کو درست گرداننے کے چکر میں ہے اور کسی سے اِس معاملے میں ڈکٹیشن بھی لینے کو تیار نہیں ہے اِس صُورتِ حال میں دنیا اِسے کس نام سے پکارے گی آپ اِس کا خود فیصلہ کریں۔

بہرکیف ...!اَب دیکھیں ایک طرف تو سری لنکن حکومت کے 2009کے اِنسانیت سوزجنگی جرائم سے بھری داستانیں ہیں تو دوسری طرف ایک ہمارامُلک پاکستان ہے اور اِس کے حکمران ہیں جنہوں نے پچھلے 66سالوں سے سری لنکن حکومت کی طرح کبھی ایساکچھ نہ کرکے بھی خودکو اغیار(ڈالرزدینے والے امریکاو برطانیہ اور اِن جیسے دنیا کے دیگرممالک) کی گود اور جھولی میں ڈالے رکھاہے کہ آج جس کو دیکھو وہ ہم پر اپنی دھونس و دھمکی اور اپناحکم ایسے چلاتاہے کہ جیسے ہم اِس کی کالونی یا اِس کے غلام ہیں۔

مگر آج کے بعد یقینا ساری پاکستانی قوم بھی اپنے حکمرانوں ، سیاستدانوں اور اہم قومی دفاعی و قانونی اداروں کے سربراہان اور اراکینِ پارلیمنٹ کی زبانوں سے( اپنے مُلکی معاملات میں جابجامداخلت کرنے والے )امریکی و برطانوی سمیت دنیاکے دیگر ممالک کے صدور اور اِن کی انتظامیہ کے لئے ” ہم آپ کی کالونی نہیں“ جیسے الفاظ سُننے کی منتظرہے ، جس کی ابتداءگزشتہ دِنوںسری لنکن حکومت نے برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو ” ہم آپ کی کالونی نہیں“ جیسا انتباہ سے لبریز جملہ کہہ کرکردی ہے ۔اوراَب اِس کے بعد ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے مُلک میں خداجانے ایسادن اور وہ لمحہ کب آئے گاکہ جب ہمارے مُلک کے کرتادھرتاؤں کوبھی ہوش آئے گااور وہ بھی سری لنکن حکومت کی طرح ہمت کرکے امریکی اور برطانوی سُپرطاقتوں کے صدورسے چیختے اور اپنے گلے پھاڑتے ہوئے کچھ اِس طرح کہہ دیں گے آج جیسے سری لنکاکی حکومت نے اپنی سرزمینِ پہ آئے ہوئے برطانوی وزیراعظم ڈیوڈکیمرون کو متنبہ کرتے ہوئے کہہ دیاہے کہ ”ہم ایک خودمختارمُلک ہیں اور ہم یہ اچھی طرح جانتے اورسمجھتے ہیں کہ ہماری سلامتی وسا لمیت اور استحکام کے لئے کیا ضروری ہے..؟او رکیانہیںہے...؟ کسی کو بھی ہماری خودمختاری اور ہماری سا لمیت سے متعلق فکرمندہونے اور اپنی جانیں ہلکان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اورہم بہتر سمجھتے ہیں کہ ہمیں اپنے اور اپنی سرحدوں کی حفاظت کس طرح کرنی ہے اور کس طرح نہیں کرنی ہے..؟ اور ہاں سُن لو..!اے برطانوی وزیراعظم مسٹر جنابِ مسٹر ڈیوڈ کیمرون جی” ہم آپ کی کالونی نہیں “ کہ ہم تمہارے مشوروں اور احکامات پر چلیں ہماراجو جی چاہئے گا ہم وہ کریں گے اور جِسے نہیں چاہئے گا ہم وہ قطعاََ نہیں کریں گے ، اور آج کے بعدبس تم اپنا کام کرو اور ہمیں ہماراکام کرنے دو، اور ہاںخبردار ...! یہ یادرکھو کہ ابھی توہمارا رویہ اتناہی سخت تھا جتناکہ تم برداشت بھی کرگئے مگراَب جو تم نے یا تمہارے جیسے کسی اور مُلک کے صدر اُن کے کسی نمائندے نے ہماری فکرکو ملحوظِ خاطررکھ کر کسی بہانے ہماری جوفکر کی،اور ہمیں ڈکٹیشن دینے کی کوشش کو تو بہت بُراہوگا“ اورپھرسری لنکن حکومت کے اِس انتباہ کے بعد برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرو ن جی کا منہ لٹک گیااور وہ کسی بڑی کھسیانی بلی کی طرح کھمبانوچتے اور اِدھراُدھر اپنی بغلیں جھانکتے نظرآئے۔

اگرچہ جن دِنوں میںسری لنکن حکومت نے برطانوی وزیراعظم کو ٹکا ساجواب دیاتھاتو اُن دنوں میںبرطانوی وزیراعظم ڈیوڈکیمرون سمیت اور دیگر ممالک کے سربراہان دولت مشترکہ کے اجلاس میں شرکت کی غرض سے سری لنکن شہر کولمبومیں موجود تھے، یوں اُن دِنوں سری لنکن حکومت دولتِ مشترکہ کے اجلاس کی میزبانی کاشرفِ عظیم حاصل کررہی تھی، اِس موقع پر سری لنکن حکومت کو برطانوی وزیراعظم کی 2009میں سری لنکن حکومت کے جنگی جرائم کے حوالے سے پوچھے جانے والے سوالات پر ” ہم آپ کی کالونی نہیں“ یوں ٹکاسا جواب دیتے ہوئے اِنہیں متنبہ تو نہیںکرناچاہئے تھا مگر سری لنکن بھی بیچارے کیا کرتے ..؟ میزبانی اور مہمانی کے غلاف میں ہی لپٹے رہتے تو برطانوی وزیراعظم اور اِن جیسے دوسرو ں کابھی سری لنکن حکومت کے دیگرمعاملات پر منہ کھلتارہتااور وہ ہر بات پر سری لنکن کو ذلیل کرتے رہتے مگراچھاہی ہواکہ سری لنکن نے (ہمارے پاکستانی حکمرانوں کی طرح )کسی مفاہمتی اور خوشامدی پالیسی کا سہارالیئے بغیر ہی اپنے معاملات میں منہ کھول کر مداخلت کرنے والے برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو اِن کی پہلی اور آخری غلطی پر ایسادپوچ لیا کہ اِن کی زبان بتیس دانتوں کے پیچ ہی میں بل کھاکر رہ گئی اور ایک لمحے کو اِن کا دماغ بھی چکراکررہ گیا اور وہ خاموش ہوکرایک کونے میں دپک کر بیٹھ گئے اور سری لنکن حکومت کی اِس چوری اور سینہ جوڑی پر شسدر ہوکررہ گئے،مگراِس کے باوجود بھی اُنہوں نے یہ تہیہ کرلیاکہ سری لنکن حکومت کو آج نہیں تو کل اِن کے اُن سوالات کا جواب تو ضروردیناہوگاآج جو اِنہوں نے پوچھااوردنیا سری لنکن حکومت سے پوچھ رہی ہے ۔جبکہ یہ ٹھیک ہے کہ آج سری لنکن حکومت 2009میں اپنے یہاں کئے جانے والے جنگی جرائم کے حوالے سے جس طرح کی پہچان رکھتی ہے اِس سے اِس کی ہٹ دھرمی و غنڈہ گردی اوربے شرمی کا عنصرنمایاں طورپر نظرآتاہے،راقم الحرف کا خیال یہ ہے کہ آج اگرسری لنکن حکومت نے 2009میں کئے گئے اپنے جنگی جرائم اور اپنی غلطیوں کو تسلیم نہ کیاتو یہ دنیامیں کسی بھی صُورت میں اپنا وقار بلندنہیں کرپائے گی۔*
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 905677 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.