شیخ المحدثین حضرت مولانا محمد وصی احمد
محدّث سُورتی رحمۃ ا للہ علیہ---رُخِ حیات کی چند جھلکیاں
1252ھ/1836ء۔۔۔۔۔1916ء/1334ھ
کشورِ ہند میں درسِ حدیث کی مقدس محفلیں سجانے والی محترم و مکرم ہستیوںمیں
ایک نمایاں نام شیخ المحدثین حضرت مولانا وصی احمد محدث سورتی رحمۃ اللہ
علیہ کا بھی ہے ۔ آپ کا اسمِ گرامی وصی احمد بن مولانا محمد طیب بن مولانا
محمد قاسم بن مولانا محمد طاہر ہے۔ اور مشہور لقب" شیخ المحدثین" ہے۔
حضرت مولانا وصی احمد محدث سورتی رحمۃ اللہ علیہ کا نسبی تعلق حضرت علی
مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے صاحب زادے محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ سے
ملتا ہے۔ اس لحاظ سے آپ "حنفی علوی" ہیں۔ آپ کے جد اعلیٰ مولانا قاسم بن
شیخ طاہر جو مدینۂ منورہ کے باشندے تھے اپنے اہل و عیال کے ساتھ سولہویں
صدی عیسوی کے ربع آخر میں شاہِ جہاں کے زمانے میں ہندوستان تشریف لائے اور
سورت کی بندرگاہ سے راندیر پہنچے۔حضرت مولانا وصی احمد محدث سورتی رحمۃ
اللہ علیہ کے خاندان کے افراد دو حصوں میں منقسم ہوکر ایک راندیر ہی میں
سکونت پذیر ہوگیا جب کہ دوسرے افراد شاہی فوج میں ملازمت اختیار کرکے عنایت
خاں بن قاسم کی سرپرستی میں بنگال جاکر مقیم ہوگئے۔
حضرت مولاناوصی احمد محدث سورتی رحمۃ اللہ علیہ کے جد اعلیٰ مولانا
محمدقاسم نے راندیر(سورت) میں تعلیم و تربیت کاسلسلہ شروع کیا اور تدریسی و
تبلیغی سرگرمیاں انجام دینے لگے ۔اس زمانے میں سورت ایک مشہور تجارتی مرکز
اور بندرگاہ تھی، لہٰذا اہل و عیال کی پرورش و پرداخت کے لیے آپ نے اسی
قصبے میں کپڑوں کی تجارت شروع کی ۔یہیں حضرت محدث سورتی رحمۃ اللہ علیہ
نے1252ھ/1836ءکوآنکھ کھولی۔
ابتدائی تعلیم و تربیت:
شیخ المحدثین حضرت مولانا وصی احمد محدث سورتی رحمۃ اللہ علیہ کا خانوادہ
مدینۃ العلم سیدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم سے نسبی تعلق رکھتا
تھا۔یہی وجہ ہے کہ آپ کے بزرگوں میں علمی وجاہت بدرجۂ اتم پائی جاتی تھی۔
آپ کے دادا مولانامحمد قاسم اپنے عہد کے بڑے متبحر عالم و فاضل اور متقی و
پرہیزگار بزرگ تھے۔ اور والدِ ماجد مولانا محمد طیب کا شمار بھی اپنے عصر
کے ممتاز اور یگانۂ روزگار علما میں ہوتا تھا۔ چناں چہ حضرت مولانا وصی
احمد محدث سورتی رحمۃ اللہ علیہ کو علم کا شوق اور ذہانت و فطانت ورثہ میں
ملی تھی۔ منزلِ ہوش میں قدم رکھتے ہی آپ علم کی تحصیل کی طرف متوجہ ہوئے
اور ابتدائی تعلیم اپنے والدِگرامی مولانا محمد طیب سورتی سے حاصل کی۔
ہجرت:
ابھی سلسلۂ تعلیم کی تکمیل بھی نہ ہوسکی تھی کہ1857ء کی تحریکِ آزادی شروع
ہوگئی۔ حضرت مولانا وصی احمد محدث سورتی رحمۃ اللہ علیہ کا خانوادہ انگریز
دشمنی میں مشہور تھا اور انگریزوں کے خلاف آپ کے خاندان کے افراد نے بھی
جنگِ آزادی میں بھر پور حصہ لیا جس میں مولانا محمد طیب سُورتی کے دو
صاحبزادے اور دیگر رشتہ دار شہید ہوئے۔آپ کی دکان جلاکر خاکستر کردی گئی
اور مکانات پر انگریزوں نے قبضہ جمالیا ۔شیخ المحدثین حضرت مولانا وصی احمد
محدث سورتی رحمۃ اللہ علیہ کےوالدین اور بھائی مولانا عبد اللطیف اور دیگر
اہلِ خانہ بغداد ہجرت کرگئے اور وہاں تین سال تک رہنے کے بعد حجازِ مقدّس
حاضر ہوئے۔ جہاں فریضۂ حج کی ادایگی اور روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر
حاضری دی بعدہٗ جب ہندوستان کے حالات سازگار ہوئے توواپس ہندوستان کی طرف
رُخ کیا راستے میںوالد گرامی انتقال فرماگئے اور راندیر پہنچنے کے بعد
والدۂ محترمہ بھی وفات پاگئیں ۔
اعلیٰ تعلیم کا حصول:
ان پے درپے حادثات نے حضرت وصی احمد محدث سورتی رحمۃ اللہ علیہ کے دل پر
گہرے اثرات مرتب کیے۔ آپ نے اپنے چھوٹے بھائی مولانا عبد اللطیف کو ساتھ
لیا اور راندیر سے اعلیٰ دینی تعلیم کی تحصیل کے لیے دہلی کی طرف کوچ کیا
اور مسجد فتح پوری دہلی میں قیام کیا۔ اُس وقت مسجد فتح پوری میں حضرت مفتی
محمد مسعود محدث دہلوی درس و تدریس میں مصروف تھے۔اُن کے ہی مشورے پر مدر
سۂ حُسین بخش ، دہلی میں داخلہ لیا اور علما و فضلاسے صرف و نحو، تفسیر و
تراجم اور دیگر قرآنی علوم حاصل کیے اور ایک سال بعد مدرسۂ فیض عام
کانپور میں داخلہ لیا۔بعدہٗ وہاں سے علی گڑھ گئے جہاں مولانا مفتی لطف اللہ
علی گڑھی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مفتی صاحب سے خوب خوب اکتسابِ فیض کیا
اور اپنی زنبیلِ حیات میں علم وفضل کے خزینے یکجا کیے اور 1868ء میں اس دور
کے جملہ علومِ عقلیہ و نقلیہ، فقہ و تفسیراور حدیث و اصولِ حدیث کی تکمیل
کرلی ۔ علی گڑھ میں آپ نے مولانا محمد علی کان پوری مونگیری سے بھی درس لیا
۔
بیعت و خلافت:
اویسِ دوراں حضرت مولاناشاہ فضل رحمٰن گنج مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ
متوفی1313ھ سے دورانِ تعلیم بیعت ہوئے اور تکمیلِ ریاضت کے بعد خلافت سے سر
فراز ہوئے۔ اِسی دوران اعلیٰ حضر ت عظیم البرکت امام احمد رضا بریلوی قدس
سرہٗ سے بھی گہرے تعلقات استوار ہوئے جس کا تذکرہ آگے کیا جائے گا۔
دورۂ حدیث:
چوں کہ آپ کو علمِ حدیث سے خصوصی لگاو اور شغف تھا اس لیے اُس میں مزید
پختگی کی غرض سے استاذِ محترم مولانالطف اللہ علی گڑھی اور پیر و مرشد حضرت
مولانا فضل رحمٰن گنج مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ کی ایما پر اُس زمانے کے
مشہور محدث مولانا احمد علی سہارن پوری متوفی 1297ھ کے حلقۂ درس میں شامل
ہوئے ۔ جہاں حضرت مولانا سید پیرمہر علی شاہ گولڑوی اور حضرت مولانا دیدار
علی شاہ محدث الوری علیہم الرحمہ جیسی عظیم ہستیاں آپ کی ہم درس ہوئیں۔علم
و فضل میں یگانہ استاذ اور ذی فہم و ذی علم رفیقانِ درس کی صحبت نے حضرت
وصی احمد محدث سورتی رحمۃ اللہ علیہ کواتنا نکھارا اور سنوارا کہ آگے چل کر
آپ "شیخ المحدثین" کے لقب سے مشہور ہوئے۔
حضرت وصی احمد محدث سورتی رحمۃ اللہ علیہ کے تذکرہ نگاروں کے مطابق محدث
سہارن پوری مولانا علی احمد صاحب جو اپنے زمانے میںتشنگانِ علومِ نبویہ کے
لیے ایک سمندر کا درجہ رکھتے تھے ۔ حضرت محدث سورتی پر خاص لطف و عنایت
فرمایا کرتے تھے جس کا سبب آپ کی بے پناہ ذہانت و فطانت ، قوتِ حافظہ اور
تحصیل علم کا ذوق و شوق تھا۔ دوسری وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ حضرت
محدث سورتی کے پیر و مرشد حضرت مولانا فضل رحمٰن گنج مرادآبادی رحمۃ اللہ
علیہ اور محدث سہارن پوری دونوں ہی خانوادۂ ولی اللہی سے فیض یافتہ تھے
اور مولانا فضل رحمٰن گنج مرادآبادی ، حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے
خاص تلامذہ میں سے تھے۔ محدث سہارن پوری کے دل میں آپ کے لیے بے پناہ عقیدت
و محبت تھی ، لہٰذا آپ کے ذریعے روانہ کیے گئے مرید حضرت وصی احمد محدث
سورتی رحمۃ اللہ علیہ پر آپ خصوصی التفات فرمایا کرتے تھے۔
تعلیم طب:
اُس زمانے کی روایت کے مطابق حضرت وصی احمد محدث سورتی نے مقدور بھر علم طب
بھی حاصل کیا ۔شروع میں آپ نے لکھنؤ جھوائی ٹولہ کے معروف حکیم عبدالعزیز
متوفی1329ھ کی کتابوں سے استفادہ کیا اور بذریعہ خط و کتابت معلومات حاصل
کرتے رہے۔ حکیم صاحب نے آپ کی رغبت کا اندازہ لگایا تو لکھنؤ طلب کرلیا
جہاں آپ نے تقریباًچھ ماہ حکیم صاحب کے نائب کی حیثیت سے ان کے مطب میں
خدمات انجام دیں اور سند حاصل کرکے واپس کانپور آگئے۔
اساتذہ:
حضرت مولانا مفتی لطف اللہ علی گڑھی
حضرت مولانا احمد حسن کانپوری
حضرت شاہ فضل رحمن گنج مراد آبادی
حضرت مولانا احمد علی محدث سہارنپوری
حضرت مولانا محمد علی مونگیری
آغازِتدریس:
شیخ المحدثین حضرت وصی احمد محدث سورتی رحمۃ اللہ علیہ سہارن پور سے تکمیل
درسِ حدیث کے بعد اپنے پیر ومرشد حضرت مولانا فضل رحمٰن گنج مرادآبادی رحمۃ
اللہ علیہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے ۔ ان کے یہاں رہ کر علومِ باطنی سے بہرہ
ور ہوئے۔ مجاہدہ و ریاضت، تزکیۂ نفس اور تصوف و معرفت کی عظیم دولت حاصل
کی۔ کچھ عرصہ بعد مرشدِ گرامی نے اپنی خلافت و اجازت سے نوازا اور علم حدیث
کی ترویج و اشاعت کا حکم فرمایا۔
چناں چہ مرشدِ برحق کے ایما و اشارہ پر آپ کان پور تشریف لائے ۔جہاں استاذِ
محترم مولانا احمد حسن کان پوری کے پاس قیام کیا۔ مولانا نے اپنے اس تلمیذِ
خاص کے ساتھ اپنی چھوٹی سالی کا بیاہ فرمادیا ، اور مدرسۂ فیض عام کان پور
میں محدث کے عہدے پر متمکن کیا ۔ حضرت وصی احمد محدث سورتی رحمۃ اللہ علیہ
نے چند سال اس مدرسہ میں درس و تدریس کے فرائض انجام دئیے اور تشنگانِ
علومِ حدیث کی سیرابی کا کام انجا م دیا۔ وہاں سے کچھ عرصہ فرنگی محل لکھنو
میں بھی درس و تدریس کی محفل سجائی۔
مدرسۃ الحدیث پیلی بھیت :
شیخ المحدثین حضرت وصی احمد محدث سورتی رحمۃ اللہ علیہ کی سسرال پیلی بھیت
میں تھی۔ بایں سبب اکثر آپ وہاں جایا کرتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب حضرت
مولانا فضل رحمٰن گنج مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ کے مریدین کی ایک اچھی خاصی
تعداد پیلی بھیت میں موجود تھی۔ وہاں کے علمااور عوام و خواص کی خواہش تھی
کہ حضرت محدث سورتی پیلی بھیت تشریف لائیں اور علمِ حدیث کے تشنگان کی پیاس
بجھائیں۔ چناں چہ مولاناحکیم خلیل الرحمٰن خاں کی درخواست پر پیر و مرشد
حضرت شیخ گنج مرادآبادی علیہ الرحمہ نے محدث سورتی کو پیلی بھیت جاکر درسِ
حدیث کا حکم دیا اور حکیم خلیل الرحمٰن نے نواب حافظ رحمت خاں کی تعمیر
کردہ مسجد میں مدرسہ حافظیہ قائم کیا جس میں محدث سورتی علیہ الرحمہ نے
درسِ حدیث کا آغاز فرمایا ۔ علم و فضل کا دریا جب جوش پر ہوا تو دور دراز
سے جوق در جوق طلبہآنے لگے ۔ طلبہ کی تعداد کافی ہوگئی تو مسجد کے سامنے
ایک وسیع زمین خرید کر حضرت محدث سورتی نے "مدرسۃ الحدیث، پیلی بھیت" تعمیر
کرایا ۔ جس کا سنگِ بنیاد اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہٗ نے
فرمایا اور اِس موقع پر تین گھنٹے علم حدیث پر تقریر فرمائی۔
مدرسۃ الحدیث پیلی بھیت میں حضرت وصی احمد محدث سورتی علیہ الرحمہ نے اپنی
وفات 1334ھ تک پورے عزم و استقلال اور خلوص و للہیت کے ساتھ درسِ حدیث کی
نورانی و عرفانی محفلیں آراستہ فرمائیں۔ آپ کے مخلصانہ طریقۂ تدریس اور
محدثانہ بصیرت کا ڈنکا ملک کے گوشے گوشے میں بجنے لگادور دراز سے علمِ حدیث
کے پیاسے اس چشمۂ جاری کے پاس جمع ہونے لگے اور آپ کے علمی فیوض و برکات
سے مالامال ہوکر دین و سنیت کی ترویج و اشاعت اور ایمان وعقیدے کی حفاطت کا
کام انجام دینے لگے۔
شیخ المحدثین حضرت وصی احمد محدث سورتی علومِ اسلامیہ پر بڑی عمیق نگاہ
رکھتے تھے ۔ فقہ و تفسیر، منطق و فلسفہ وغیرہ جملہ علومِ عقلیہ و نقلیہ کی
بیک وقت تدریس میں آپ کو مہارت حاصل تھی ۔ لیکن ان کا خاص موضوع "فنِ حدیث"
تھا۔ انھوں نے مکمل چالیس سال تک درسِ حدیث میں گذارے ۔ بے شمار احادیث
اسناد کے ساتھ ان کو ازبر تھیں۔ صبح سے ظہر تک اور ظہر سے رات تک درس دیتے
تھے ۔ انھوں نے بے وضو کبھی کسی کتاب کو ہاتھ نہیں لگایا اور نہ ہی اس کا
درس دیا۔ دورانِ درس نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نامِ مبارک کو ادا
کرنے کے بعد قدرے توقف فرماتے تھے۔ آقاے کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا جہاں
بھی اسمِ گرامی آتا بڑی محبت و الفت کا ساتھ درود و سلام کا نذرانہ پیش
فرماتے ۔
علمِ حدیث کی تدریس میں مولانا احمد علی محدث سہارن پوری آپ کو اپنا جانشین
کہا کرتے تھے۔ علامہ ہدایت اللہ خاں رام پوری (متوفی 1336ھ) امام احمد رضا
بریلوی، مولانا عبدالوہاب فرنگی محلی علی گڑھی، مولانا احمد حسن کان پوری
اور مولانا شاہ فضل رحمٰن قدس سرہم فنِ حدیث میں ان کی مہارتِ تامہ اور
وسعتِ نظری کے معترف بلکہ مدّاح تھے۔ یہاں تک کہ اول الذکر اور آخری تین
بزرگ اپنے تلامذہ کو دورۂ حدیث کے لیے انھیں کے پاس بھیجا کرتے تھے۔
معروف تلامذہ:
علمِ حدیث کے اس چشمۂ شیریں سے اپنی پیاس بجھانے والے حضرات کی تعداد بہت
ہے اور قطعی تعداد معلوم کرنا تونہایت مشکل ، ذیل میں اہم اور مقتدر تلامذہ
کے اسماے گرامی نشانِ خاطر فرمائیں اور اس فہرست میں شامل شخصیات کے ناموں
اور کاموں سے استاذِ مکرم شیخ المحدثین حضرت وصی احمد محدث سورتی رحمۃ اللہ
علیہ کی عظمت و رفعت کا اندازہ لگائیں :
صدر الشریعہ حضرت علامہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ متوفی 1367ھ(صاحب
بہارِ شریعت)
حضرت مولانا سیّد محمد محدث کچھو چھوی علیہ الرحمۃ متوفی 1383ھ
ملک العلماء مولانا ظفر الدین بہاری علیہ الرحمۃ متوفی 1382ھ(صاحبِ صحیح
البہاری)
پروفیسر مولانا سیّد محمد سلیمان اشرف بہاری علیہ الرحمۃمتوفی 1939ء(سابق
صدر شعبۂ سنی دینیات مسلم یونی ورسٹی ، علی گڑھ)
قطبِ مدینہ مولانا شاہ ضیاء الدین احمد مدنی علیہ الرحمۃ متوفی 1401ھ
حضرت مولانا عبدا لحیٔ پیلی بھیتی علیہ الرحمۃ متوفی 1940ء
حضرت مولانا محمد شفیع بیسلپوری علیہ الرحمۃ متوفی 1338ھ
مولانا عزیز الحسن پھپو ندوی علیہ الرحمۃ متوفی 1262ھ
سید خادم حسین محدث علی پوری علیہ الرحمۃ متوفی 1951ء
حضرت علامہ قاری غلام محی الدین شیر وی علیہ الرحمۃ
مولانا فضلِ حق رحمانی علیہ الرحمۃ
مولانا نثار احمد کانپوری علیہ الرحمۃ متوفی1931ء
مولانا عبدالعزیز خان محدث بجنوری علیہ الرحمۃ متوفی 1369ھ
مولانا عبد القدیر میاں پیلی بھیتی علیہ الرحمۃ متوفی 1384ھ
مولانا حافظ محمد احسن کانپوری علیہ الرحمۃ
مولانا مصباح الحسن پھپوندوی علیہ الرحمۃ متوفی 1384ھ
مولانا حافظ محمد اسماعیل محمود آبادی علیہ الرحمۃ متوفی 1371ھ
مولانا مشتاق احمد کانپوری علیہ الرحمۃ متوفی 1360ھ
مفتی عبد القادر لاہوری علیہ الرحمۃ
مولانا محمد قمر علی ہزاروی علیہ الرحمۃ
مولانا امداد حسین رامپوری علیہ الرحمۃ
مولانا عبد السلام گھوسی علیہ الرحمۃ
قاضی عبد الوحید عظیم آبادی علیہ الرحمۃ
ابوالمساکین مولانا ضیاء الدین پیلی بھیتی علیہ الرحمۃ متوفی1364ھ
قاضی خلیل الدین حسن حافظ پیلی بھیتی متوفی1348ھ
مولانا حبیب الرحمن خان پیلی بھیتی علیہ الرحمۃ متوفی 1943ء
مولانا عبدالحق کر گہنوی علیہ الرحمۃ متوفی 1355ھ
مولانا عبدالحق محدث پیلی بھیتی علیہ الرحمۃ
مولانا حافظ یعقوب علی خان علیہ الرحمۃ متوفی 1357ھ
اور مولانا حکیم عبدالجبار خان علیہ الرحمۃ متوفی 1951ء،
اولاد:
شیخ المحدثین حضرت وصی احمد محدث سورتی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک صاحبزادے اور
چار صاحبزادیاںتھیں۔ صاحبزادے سلطان الواعظین مولانا عبد الاحد محدث پیلی
بھیتی علیہ الرحمۃ کو اعلیٰ حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا بریلوی قدس
سرہٗ سے اجازت و خلافت حاصل تھی۔ آپ کے وعظ میں جادو کی تاثیر تھی ۔زورِ
خطابت سے خوش ہوکر اعلیٰ حضرت نےآپ کو " سلطان الواعظین"کا خطاب مرحمت
فرمایا۔1313ھ میں آپ نے اعلیٰ حضرت کی معیت میں حج بھی کیا۔ امام احمد رضا
بریلوی نے اپنی مشہور نظم الاستمدادکے ایک شعر میں اپنے اِس عزیز کا یوں
ذکربھی فرمایا :
اِک اِک وعظِ عبدالاحد پر
کیسے نتھنے پھلاتے یہ ہیں
تصانیف:
حضرت محدث سورتی نے درس و تدریس کے ساتھ ساتھ دینِ متین کی تائید و حمایت
اور سنیت کی ترویج و اشاعت کے لیے اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود علمی و
تحقیقی تصانیف بھی قلم بند فرمائیں ۔۲۵سے زائد کتبِ حدیث وفقہ کی شرح
لکھی۔آپ کی تصانیف میں سے چند کے اسما ذیل میں ملاحظہ فرمائیں :
٭ حاشیہ مدارک ٭ حاشیہ بیضاوی (قلمی)
٭ حاشیہ جلالین(قلمی) ٭ تعلیقات سنن نسائی
٭ حاشیہ شرح معانی الآثار ٭ شرح سنن ابی داؤد (قلمی)
٭ تعلیقات شروح اربعہ ترمذی شریف ٭ التعلیق المجلیٰ لما فی منیۃالمصلّی
٭ جامع الشواہد ٭ شرح مشکوٰۃ المصابیح(قلمی)
٭ حاشیہ شافعیہ ٭ انفع الشواہد
٭ تعلیقات شرح ملا حسن ٭ حاشیہ میبذی
٭ الدرّۃ فی عقد الایدی تحت السرّۃ ٭ کشف الغمامۃ عن سنیتہ العمامہ
٭ امام بقالی اور مکتوب اعلیٰ حضرت وغیرہ۔
امام احمد رضا بریلوی سے مراسم :
شیخ المحدثین حضرت وصی احمد محدث سورتی رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں امام احمد
رضا بریلوی قدس سرہٗ کی بے پناہ عقیدت و محبت رچی بسی ہوئی تھی۔ آپ اکثر و
بیشتر دوران درس بڑے خلوص و احترام کے ساتھ امام احمد رضا کا ذکرِ جمیل
فرمایا کرتے تھے۔ چناں چہ اس ضمن میں حضور محدثِ اعظم ہند کچھوچھوی علیہ
الرحمہ کے ان جملوں کو یہاں پیش کرنا غیر مناسب نہ ہوگا، جن سے امام احمد
رضا کے تئیں حضرت محدث سورتی علیہ الرحمہ کا والہانہ جذبۂ محبت ٹپکتا ہے :
"میرے استادفن حدیث کے امام(حضرت وصی احمد محدث سورتی) کو بیعت حضرت مولانا
فضل رحمٰن گنج مرادآبادی سے تھی مگر حضرت کی زبان پر پیر ومرشد کا ذکر میرے
سامنے کبھی نہ آیا اور اعلیٰ حضرت کے بکثرت تذکرے محویت کے ساتھ فرماتے
رہتے ۔ اس وقت تک بریلی حاضر نہ ہوا تھا۔ اس انداز کو دیکھ کر میں نے ایک
دن عرض کیا کہ:" آپ سے آپ کے پیرومرشد کا تذکرہ نہیں سنتا اور اعلیٰ حضرت
کاآپ خطبہ پڑھتے رہتے ہیں ۔" فرمایاکہ :"جب میں نے پیر و مرشد سے بیعت کی
تھی بایں معنی مسلمان تھا کہ میرا سارا خاندان مسلمان سمجھا جاتا تھا، مگر
جب اعلیٰ حضرت سے ملنے لگا تو مجھ کو ایمان کی حلاوت مل گئی۔ اب میرا ایمان
رسمی نہیںہے۔بلکہ بعونہٖ تعالیٰ حقیقی ہے جس نے حقیقی ایمان بخشا اس کی یاد
سے اپنےدل کو تسکین دیتا رہتا ہوں۔" حضرت کا اندازِ بیان اور اس وقت چشمِ
پُرنم۔ مگر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ واقعی ولی را ولی می شناسد اور عالم را
عالم می داند ۔ میں نےعرض کیاکہ:" علم الحدیث میں کیا وہ آپ کے برابر ہیں
۔" فرمایا کہ:" ہرگز نہیں۔" پھر فرمایا کہ:" شہزادہ صاحب !آپ کچھ سمجھے کہ
ہرگز نہیں کا کیا مطلب ہے ؟ سنیے !اعلیٰ حضرت اس فن میں امیرالمؤمنین فی
الحدیث ہیں کہ سالہا سال تک صرف اس میں تلمذ کروں تو بھی ان کا پاسنگ نہ
ٹھہروں ۔"(ماہ نامہ المیزان ، بمبئی، امام احمد رضا نمبر ، اپریل، مئی ،
جون 1976ء ص247)
استادِ مکرم کاامام احمد رضا سے متعلق اسی الفت و محبت کے جذبے نے مہمیز
کیا تو حضرت محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ نے بریلی کا قصد فرمایا اور اعلیٰ
حضرت سے ایسا متاثر ہوئے کہ تاعمر مسلکِ رضا کے فروغ واستحکام کواپنا نصب
العین بنا لیا۔ لکھتے ہیں :
"حضرت محدث صاحب قبلہ کے اسی قسم کے ارشادات نے میرے دل کو بریلی کی طرف
کھینچا اور بالآخر آنکھوں سے دیکھ لیا کہ اعلیٰ حضرت کیا ہیں؟ اس کا
اندازہ بڑے سے بڑا مبصر بھی نہیں کرسکتا۔"(ایضاً)
علاوہ ازیں اعلیٰ حضرت کے نام لکھے گئے حضرت محدث سورتی کے خطوط سے بھی
جنابِ رضا سے اُن کے محبت و الفت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ذیل میں چند مکتوبات
سے اُن القاب وآداب کونقل کیا جاتا ہے جو آپ نے امام احمد رضا کے لیے تحریر
فرمائے :
(۱)از پیلی بھیت ، 2شعبان 1313ھ
امام الدہر و ہمام العصر عالم ربانی و فاضل حقانی بحرالعلوم مولانا سیدنا
مولوی احمد رضا خاں صاحب دام ظلہم و عم فیضہم،
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ!
(مکتوبات علما و کلام اہل صفا ، بریلی، ص107)
(۲)از پیلی بھیت ، 11شعبان 1313ھ
اما م المتکلمین و ہمام الفقہا وا لمحدثین خیر اللحقہ بالمہرۃ السابقین
بحرالعلوم مولانا و بالفضل اولانا مولوی احمدرضا خاں صاحب عمت فیوضا تہم
اہل المشارق والمغارب،
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ!
(مکتوبات علما و کلام اہل صفا ، بریلی، ص108)
(۳)از پیلی بھیت، 4 صفر المظفر 1314ھ
حامی سنت واسلام ہادی خواص و عوام اعلم العلماء و افہم الفضلا فقیہ بے
تمثیل و محدثِ بے عدیل مجدد دین متین ناصر سنت قامع بدعت حضرت مولانا و
ہادینا مولوی احمد رضا خاں صاحب اعزاللہ الاسلام و اہلہ بنصرتہ واعلیٰ کلمۃ
لبیعہ و حمایتہٖ وبارک فی ارشادہم و شکر مساعیہم ۔
(مکتوبات علما و کلام اہل صفا ، بریلی، ص111)
حضرت محدث سورتی کی طرح اعلیٰ حضرت خود بھی اپنے اس ذی علم عقیدت مند کے
علم و فضل کی بڑی قدر ومنزلت فرمایا کرتے تھے۔محدث سورتی کے نام لکھے گئے
امام احمد رضا کے چند خطوط سے ذیل میں القاب و آداب ملاحظہ کریں اور اندازہ
لگائیں کہ وقت کے عظیم مجدد کی نگاہ میں حضرت محدث سورتی رحمۃ اللہ علیہ کا
مقام و مرتبہ کس قدر بلند و بالاتھا۔
(۱)ازبریلی، 28 جمادی الاولیٰ 1330ھ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نحمدہٗ و نصلی علیٰ رسولہٖ الکریم
بملاحظہ مولانا الاسد الاسد الاشد الاسعد الامجد الاوحدمولانا محمد وصی
احمد صاحب محدث سورتی دامت برکاتہم۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ!
(کلیاتِ مکاتیب رضا ، ڈاکٹر شمس مصباحی ،ص313)
(۲)از بریلی
سلام منی ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ علی العالم الکالم المحدث الفاضل بین الحق و
الباطل جبل الاستقامۃ اللہ ادامہ بالعز والکرامۃ، آمین۔
(تذکرہ محدث سورتی، ص 341)
شیخ المحدثین حضرت وصی احمد محدث سورتی رحمۃ اللہ علیہ اور اعلیٰ حضرت کے
دیرینہ روابط کی یہ بالکل ہلکی سی جھلک ہے وگرنہ یہ ایک علاحدہ سے مستقل
تفصیل طلب موضوع ہے۔ تحریکِ ندوہ کے رد میں حضرت محدث سورتی نے ہر ہر قدم
پر اعلیٰ حضرت کا ساتھ دیا۔بلکہ جب اعلیٰ حضرت اور ان کے متبعین نے با
ضابطہ طور پرندوہ کے ردمیںایک مہم کا آغاز فرمایا تو اُس کے ایک متحرک اور
فعال رکن کی حیثیت سے حضرت وصی احمدمحدث سورتی نے قائدانہ کردار ادا کیا ۔
خود اس بات کا اعتراف و اظہار دعائیہ رنگ و آہنگ میںمجدد اسلام اما م احمد
رضا بریلوی نے " المستند المعتمد بناء نجاۃ الابد" کے صفحہ 233 پر اس طرح
فرمایا ہے:
ترجمہ: " فاضلِ کامل ، استقامت کے پہاڑ ، بزرگی کا خزانہ ، ہمارے دوست
اورہمارے حبیب مولانا مولوی محمد وصی احمد محدث سورتی وطناً اور پیلی بھیت
نزیلاً دین کے مددگار اور مبتدعین کی طاقتوں کواُکھاڑنے والے، اللہ تعالیٰ
ان کی حفاظت فرمائے اور حق پر ان کو بہترین ثبات عطا فرمائے (اللہ تعالیٰ
انھیں سلامت رکھے)۔ مولانا محمد علی کان پوری ناظم ندوہ اور ان کے استاذ
(مولانا لطف اللہ) صدر ندوہ کے شاگرد تھے۔ لیکن یقین کی دولت سے محروم حق
پر ثابت قدم ہونے کے بعد اُن کے پاے استقلال کو متزلزل نہ کرسکے حال آں کہ
محدث سورتی کو معاش کی سہولتیں ندویوں کی طرف سے حاصل تھیں جسے ان لوگوں نے
بند کردیا لیکن میرے حبیب فاضل( اللہ تعالیٰ ان کو سلامت رکھے ) نے دنیاوی
منافع کو دین وآخرت کے منافع پر موخر نہ ہونے دیا اسی وقت میں نے ان کا نام
"الاسد الاسد الارشد الارشد" رکھ دیا اور یہ اس کے اہل ہیں بلکہ اس سے
زیادہ بہتر ہیں۔"
اخلاق و عادات :
شیخ المحدثین حضرت وصی احمد محدث سورتی رحمۃ اللہ علیہ" حنفی علوی "تھے۔
حضرت مولاے کائنات علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم سے نسبی رشتہ تھا۔ یہی
سبب ہے کہ آپ کے اندر خوف و خشیت الٰہی اور دین پر ثابت قدمی کا جوہر کوٹ
کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ آپ اخلاق و کردا ر کے بلند مرتبے پر فائز تھے۔ آپ عمل
صالح اور حُسنِ کردار کے حسین و جمیل پیکر تھے۔ اُن کی زندگی اَسلافِ کرام
کا بہترین نمونہ تھی۔ علمِ دین بالخصوص علمِ حدیث کی ترویج و اشاعت اور
اتباعِ سنت آپ کو محبوب ترین مشغلہ تھا۔ عبادت و ریاضت میں اکثر اوقات بسر
ہوتے ۔ہمیشہ باوضو رہتے کبھی کسی کتاب کو بے وضو ہاتھ نہیں لگایا۔ لباس اور
غذاسادہ استعمال کرتے ،بڑے خلیق اور منکسرالمزاج ، اخلاص و ایثار اور سادگی
کا مجسمہ تھے۔ آپ کی ایک ایک اداسے سنتِ مصطفیٰ علیۃ التحیۃ والثناء کی
اتباع جھلکتی تھی۔علماے حق اور ساداتِ کرام کی بے پناہ عزت و تکریم فرمایا
کرتے تھے۔ہاں! دشمنانِ دین کے لیے شمشیرِ برہنہ تھے۔ بڑے سخی اور فیاض تھے
اپنے شاگردوں کی مالی امداد و اعانت بھی کیا کرتے تھے۔ غرض یہ کہ علم حدیث
کی گراں قدردولت سے مالامال شیخ المحدثین حضرت مولانا وصی احمد محدث سورتی
رحمۃ اللہ علیہ اللہ رب العزت جل جلالہٗ کےمحبوب اولیا میں سے تھے۔
معاصر :
اعلیٰ حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خاں محدث بریلوی علیہ الرحمۃ متوفی
1340ھ
تاجدارِ گولڑہ حضرت پیر سیّد مہر علی شاہ گولڑوی علیہ الرحمۃ متوفی 1356ھ
حضرت مولانا ارشاد حسین رامپوری علیہ الرحمۃ متوفی 1311ھ
حضرت مولانا احمد حسن کانپوری علیہ الرحمۃ متوفی 1322ھ
حضرت مولانا عبد القادر بد ایونی علیہ الرحمۃ متوفی 1319ھ
علامہ پیر سیّد جماعت علی شاہ محدث علی پوری علیہ الرحمۃ
ابوالذکاء سراج الد ین علامہ سلامت اللہ رامپوری علیہ الرحمۃ
مولانا عبد العلی آسی مدراسی علیہ الرحمۃ متوفی 1327ھ
حضرت مولانا دیدار علی محدث الوری علیہ الرحمۃ متوفی1354ھ
حضرت شاہ جی محمد شیر میا ں پیلی بھیتی علیہ الرحمۃ متوفی1324ھ
مولانا شاہ عبدالکریم گنج مراد آبادی علیہ الرحمۃ متوفی 1349ھ
مولانا حکیم خلیل الرحمن خان پیلی بھیتی علیہ الرحمۃ۔
وصال :
8جمادی الاخریٰ 1334ھ بمطابق 12 اپریل1916ء بروز بدھ کو علم حدیث کے اس جبل
شامخ نے اس دارِ فانی سے دارِ بقا کی طرف کوچ فرمایا۔ آپ کی نمازِ جنازہ
شہزادۂ اعلیٰ حضرت حجۃ الاسلام مولانا حامدرضا خاں رحمۃ اللہ علیہ نے
پڑھائی۔ مدرسۃ الحدیث پیلی بھیت کے سامنے مسجد کے احاطہ میں آپ کی تدفین
عمل میں آئی۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضلِ بریلوی نے قرآن حکیم کی
آیتِ کریمہ یطاف علیھم بانیۃ من فضہ واکواب سے تاریخِ وفات1334ھ نکالی اور
فرمایا کہ اگر اس میں واو شامل کردیا جائے تو میری تاریخ ہوجائے گی۔ چناں
چہ ایسا ہی ہوا چھ سال بعد 1340ھ میں اعلیٰ حضرت امام احمدرضا بریلوی نے
وصال فرمایا۔
(راجع:الاستمداد، تذکرۂ محدث سورتی، ماہ نامہ المیزان اما م احمدرضا نمبر
، تذکرۂ علماے اہل سنت، محدثین عظام حیات و خدمات، خطوط مشاہیر بنام امام
احمد رضاجلد دوم،کلیاتِ مکاتیب رضاجلد دوم)
|