وحدت الوجودکانظریہ بعد میں آتا
ہے اس سے پہلے یہ ایک تجربے کا نام ہے جسے فلسفہ دین کی اصطلاح میں
religious experience کہاجاتا ہے۔ نظریہ وحدت الوجود دراصل اس عملی تجربے
کی ایک عقلی توجیہہ ہے۔ دینداری کے تین مراحل ہیں : مقلدانہ دینداری ،
محققانہ دینداری اور عارفانہ دینداری۔وحدت الوجود کا تعلق عارفانہ دینداری
سے ہے۔ انسان نے ہمیشہ وحدت کی طرف سفر کیا ہے اور وحدت ہی اس کا مقصود رہی
ہے۔اس نے ہمیشہ گوناں گوں تجلیوں میں واحد کی تلاش کی ہے۔اس نظریے کے مطابق
معبود صرف ایک ہے ،دوسرا کوئی معبود نہیں۔لبید کا ایک شعرہے کہ سن لو اﷲ کے
سوا ہر چیز باطل ہے اور ہر نعمت بہرصورت زائل ہو جانے والی ہے۔یہ کہنا کہ
خدا کے سوا کوئی چیزموجود نہیں اور یہ کہ خدا کے سوا ہر شے فنا ہو جانے
والی ہے، دونوں میں فرق ہے۔ وحدت الوجود کے مآخذ میں ویدانت اور نوفلاطونیت
ہیں۔ آگسٹائین کہتا ہے کہ میں نے زمین سے ،سمندر سے، رینگتی چیزوں سے،
بادصبا، ہوا ،چاند، سورج اور تاروں سے پوچھا کہ خدا کہاں ہے؟ جواب ملا ہم
میں سے کوئی نہیں ہے۔میں نے اپنے حواس سے پوچھاتو انہوں نے جواب دیا کہ وہ
ہمارا خالق ہے ۔جستجو جاری رہی یہاں تک کہ اپنے باطنی وجود inward self سے
سوال کیا۔ جواب ملا تمہارا خدا تمہارے اندر ہے، تمہاری زندگی کی زندگی the
life of the life ا ۔ا سی لیے مرزا غالبؔ کہتے ہیں کہ ۲
کثرت آرائیِ وحدت ہے پرستاریِ وہم
کر دیا کافر ان اصنام خیالی نے مجھے
غالبؔ کا زمانہ ایک عظیم تہذیبی، سیاسی اور معاشی کشمکش کا دور تھا۔ ایک
قدیم اور عالی شان تمدن جس کی بنیادیں بڑی گہری تھیں لیکن جس نے مغرب کے
علمی، مشینی اور انتظامی ترقیوں کا ساتھ نہیں دیا، مغرب سے آنے والے تمدن
سے برسرپیکار تھے۔جس قسم کی کشمکش بیرونی فضا میں جاری تھی اسی طرح کی کرب
انگیزکشمکش غالب کو ذاتی طور پر درپیش تھی۔ غالب ؔکے خیال کا منفی پہلو اس
کے سارے کلام میں جھلکتا ہے بلکہ جزو غالبؔ ہے اور مختلف صورتوں میں رونما
ہوتا ہے۔جن باتوں کو نقاد غالبؔ کا تشکک ، غالبؔ کی بت شکنی، غالبؔ کا غم ،
غالبؔ کی حسرتیں ،حسرت تعمیر ، شاعر کی روح کا اضطراب اور اسی طرح کے دوسرے
ناموں سے تعبیر کرتے ہیں وہ فی الحقیقت ایک ہی شے کے مختلف پہلو ہیں ۔ایک
ہی بنیادی رجحان کے جداگانہ اظہار ہیں اور یہ بنیادی جذبہ شاعر کا وہ شدید
احساس تھا جو فنا آمادہ قدیم اور تاریک ماحول کو دیکھ کر اس کے دل میں پیدا
ہوتا تھا۳ ۔ابتدائی زمانے کی ایک تصویر غالبؔ کی نظر میں یوں ہے کہ
نہ وفا کو آبرو ہے ، نہ جفا تمیز جو ہے
چہ حساب جاں فشانی چہ غرور دل ستانی
لیکن منفیانہ نقطہ نظر کا سب سے پر زور اظہار اردو کے مشہور قصیدہ منقبت
میں ہے۔ ۴
بیدلی ہاے تماشا کہ، نہ عبرت ہے، نہ ذوق
بیکسی ہاے تمنا کہ، نہ دنیا ہے، نہ دیں
کوہکن، گرسنہ مزدورِ طرب گاہِ رقیب
بیستوں، آئینہء خوابِ گرانِ شیریں
غالبؔ کے خیال میں نفی لا کا عنصر بڑا تھا لیکن اس کے برعکس اثبات کی خواہش
بھی زبردست تھی۔ان کے تخیل اور ماحول میں جو شدید کشمکش جاری تھی اس کے یہ
دونوں پہلو تھے اثبات کو زندگی ایک تو ان کی ہمت سے ملتی
ہمت ما غیرت حق است وبس
کثرت ما وحدت حق است و بس
مرزا غالبؔ کے اثبات کا دوسرا ذریعہ نفی کی نفی تھی۔ ایک تو ان کی طبع سلیم
کو خالص منفیانہ نقطہ نظر یعنی نفی کی خاطر نفی ناپسند تھا دوسرے اگر ان کی
عقل ماحول اور اس کے اقدار کی کمزوریوں سے واقف تھی تو وہ عقل کی کمزوریوں
سے بھی بے خبر نہ تھے۔ وہ عقل کے پجاری تھے لیکن گاہے گاہے اسے بھی کسوٹی
پر کستے رہے۔وہ فرسودہ رسم ہائے عزیزاں کو متشکک نگاہوں سے دیکھتے ۔نفی
اوراثبات کی کشمکش مرزا کے کلام پر چھائی رہی مثلاً ۵
ایماں مجھے روکے ہے ، جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے ، کلیسامرے آگے
مرزاغالبؔ نے اس کشمکش کا حل وحدت الوجود میں تلاش کیا۔ لا موجود الااﷲ اور
لاموثر فی الوجود غیر اﷲ۔ مسئلہ وحدت الوجود کا قائل ہونے کے بعد انہوں نے
شدت نفی کا تریاق پیش کر دیا۔ ۶
دہر جز جلوۂ یکتائیِ معشوق نہیں
ہم کہاں ہوتے ، اگر حسن نہ ہوتا خود بیں
لیکن جب لا کے ذکر میں غالبؔ حد سے گزرنے لگتے تو فورا ًالا کی خواہش ابھر
آتی اور وہ اپنے آپ کو روک لیتے ۔ ۷
نہ تھا کچھ ، تو خدا تھا ؛ کچھ نہ ہو تا، تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے ؛ نہ ہوتا، میں تو کیا ہوتا؟
حقیقت اشیاء کے متعلق غالبؔ تحریر کرتے ہیں کہ از روئے مثال ایک نامہ درہم
پیچیدہ سربستہ ہے کہ جس کے عنوان پر لکھا ہے لا موثر فی الوجود الا اﷲ اور
خط میں مندرج ہے لاموجود الا اﷲ۔ مرزا غالب وحدت الوجودی کو جس حد تک وسعت
دیتے تھے وہ اسے اسلامی توحید سے ایک مختلف چیزبنا دیتی تھی لیکن مرزا کو
اس کا احساس نہ تھا بلکہ وہ تو اس کو رسول کریم کی تعلیم کا طرۂ
امتیازسمجھتے تھے ۔تحریر کرتے ہیں کہ مراتب توحید چار ہیں یعنی
آثاری،افعالی،صفاتی اور ذاتی ۔انبیاء پیشین اعلان مدارج سہ گانہ پر مامور
تھے کہ خاتم الانبیاء کو حکم ہوا کہ حجاب تعینات اعتباری اٹھا دیں اور
حقیقت بے رنگی ذات کو صورت الآن کما کان میں دکھا دیں۔ اب گنجینہ معرفت
خواص امت محمدی کا سینہ ہے۔اور کلمہ لاالہ الااﷲ مفتا ح باب گنجینہ ہے۔
دوسری جگہ تحریر کرتے ہیں کہ مشرک وہ ہیں جو وجود کو واجب اور ممکن میں
مشترک جانتے ہیں۔ میں مواحد خالص اور مومن کامل ہوں۔ زباں سے لا الہ الا اﷲ
کہتا ہوں اور دل میں لا موجود الا اﷲ ، لاموثر فی الوجود الا اﷲ سمجھا ہوا
ہوں یعنی ’ ہم مواحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم’۔
یہ دونوں اندراجات آخری عمر کے ہیں جب مرزا غالب چشتیہ سلسلے میں حضرت میاں
کالے صاحب کے مرید ہو چکے تھے اور صوفیاء کے خیالات سے پوری واقفیت رکھتے
تھے۔لیکن ابتدائی اردو فارسی قصائد کے اقتباسات سے ظاہر ہے کہ واحد وجودی
کاخیال ان کے کلام میں شروع سے تھا جو غالبا ًمرزا بیدل سے ماخوذ تھا۔وہ
خود لکھتے ہیں کہ انہوں نے عرفا کے کلام سے حقیقت فقہ وحدت وجود کو اپنے
دلنشیں کیا تھا۔زیادہ تر ان کے ہاں وحدت وجودی کا بیان اسی قسم کا ہے جیسے
اردو فارسی کے دوسرے شعراء میں عام ہے۔اور سوائے اردو نثرکے ان دو اندراجات
کے جن کے بیان کا باعث خاص محرکات تھے کہ پہلا اندراج ایک صوفیانہ کتاب’
سراج المعرفت ‘کے دیباچہ سے ہے ،جس میں انہوں نے صوفیانہ رموزکے متعلق
واقفیت بگھارنی ضروری سمجھی تھی، دوسرابیان ان طعنوں کا پرجوش جواب ہے جو
ان کی مے نوشی اور بدعقیدگی کے متعلق ایک ملائے مکتبی نے کیے اور جن کا
جواب انہوں نے فرقہ متصوفین اوڑھ کر دیا ۸۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ توحید
وجودی کے متعلق ان کی دلچسپی زیادہ تر اس کے عملی ،سطحی اور شاعرانہ پہلوؤں
تک رہی اور اسے انہوں نے اپنی اوراپنے ماحول کی روح فرسا کشمکش اور
اختلافات کا حل ڈھونڈنے کے لئے استعمال کیا اور زبان حال سے کہنے لگے ۹
جلاد سے ڈرتے ہیں ، نہ واعظ سے جھگڑتے
ہم سمجھے ہوئے ہیں اسے ،جس بھیس میں جو آئے
لیکن غالب کے ہاں وحدت الوجود صاف واضح بھی نہیں اور پوشیدہ بھی نہیں۔وہ اﷲ
کے متعلق کوئی بات کرتے ہیں تو نہایت رکھ رکھاؤ ،وضع داری اور مناسب احترام
سے۔اور شکایت بھی کرتے ہیں تو بڑی لجاجت سے ۔شوخی بھی کرتے ہیں تو بڑے
معصوم انداز میں۔اور کبھی اپنے دکھوں کا تذکرہ کرتے ہیں تو اس میں لہجہ کے
تیزہونے پر بھی گستاخی کا رنگ غالب نہیں آتا۔یہ بظاہر گستاخی گستاخی نہیں
بلکہ ایک ستم رسیدہ اور ایک مظلوم کی آہ و بکا یا فریاد و فغاں ہوتی ۔صاف
محسوس ہوتا ہے کہ اس کے ہاں تصور وحدت الوجودی نہیں ۔۰ا
لکھا کرے کوئی احکامِ طالعِ مولود
کسے خبر ہے کہ وہاں جنبشِ قلم کیا ہے
’لکھا کرے کوئی ‘کے الفاظ میں کتنا اختصار ہے اور پھر اس میں کتنا طنز
پوشیدہ ہے کہ انسانوں کے جنم کے حالات لکھنے سے کیا ہوتا ہے؟’ کسے خبر ہے‘
میں’ واں‘ کے لفظ میں ’جنبش قلم کیا ہے ‘میں شاعر نے کیسے رمز و ایما اور
اشارہ اور کنایہ کا پیرایہ اختیار کیا ہے۔ان الفاظ میں کتنی اثر انگیزی ہے
۔’واں‘ اس جہاں کی ضد ہی نہیں اس لفظ میں عالم بالا کی دوری ،بلندی اور
برتری شامل ہے۔اس ایک لفظ کے پیچھے پوری بارگاہ خدا وندی کا منظر ہے اور اس
کا جمال و جلال ۔لیکن جہاں یہ اندازملتا ہے جس میں انکسار ہے تو اسی کے
ساتھ ایک دوسرااندازبھی ہے جو خدائے لم یزل پر گہرا طنز بھی ہے اور اپنی
برتری کا احساس بھی۔ابتدائے آفرینش میں جب خالق کائنات نے آدم کو تخلیق کیا
تو اپنے مقرب فرشتوں سے کہا کہ اسے سجدہ کرو ۔سب کے سب اس کے آگے جھک گئے
سوائے ابلیس کے جسے مردود قرار دیا گیا یہ واقعہ آدم کی عظمت کی نشاندہی
کرتا ہے کہ وہ کبھی مسجود ملائک تھا لیکن اس دنیا میں آکر اپنے اصلی مقام
سے گر گیا اور اپنی روحانی عظمت اور برتری کو بھول گیا اا۔انسان کبھی
فردوس بریں میں تھا لیکن آدم کی ایک لغزش اسے اس دنیا میں لے آئی اور آج
اسے اپنے مرکز کی طرف پیہم بلایا جا رہا ہے لیکن وہ اتنا غافل ہے کہ اس
بلاوے پر کان نہیں دھرتا۔ غالب کہتے ہیں ۔۲ا
ہیں آج کیوں ذلیل؟ کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخیِ فرشتہ ہماری جناب میں
اہل تصوف کا عقیدہ ہے اور یہ وحدت الوجودکانظریہ ہے کہ اﷲ تعالی حسن تھا
اور حسن کا تقاضایہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ظاہر کرے۔اس کا کوئی دیکھنے
والا ہو۔ چنانچہ اس نے یہ کائنات بنائی اور کائنات اور اس کے مافیہا کو
اپنے حسن کا گرویدہ بنا کر خود چھپ گیا۔ اب کائنات کا ہر ذرہ اس کے عشق میں
سرشار اورحسن کے دیدار کے لئے بیتاب ہے۔غالب کو بھی ہر شے میں فقط اﷲ کا
ظہور نظر آتا ہے بلکہ ہر شے ذات الہٰی کا مظہر نظر آتی ہے۔اسی لیے استفہامی
انداز اختیار کیا ہے۔ ۳ا
اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیراں ہوں، پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں
اس انداز میں ایک لطیف اشارہ بھی ہے کہ آخر کچھ تو ہے جس کے دیکھنے کے لئے
ساری کائنات بے چین ہے اور نہایت بے چینی سے ادھر ادھر نگراں ہے۔اس سے اگلے
شعر میں غالبؔ نے اس بات کی وضاحت کر دی ہے ۔۴ا
ہے غیب غیب ، جس کوسمجھتے ہیں ہم شہود
ہیں خواب میں ہنوز، جو جاگے ہیں خواب میں
ہم نے اس مادی کائنات کو دیکھا تو خیال کرلیا کہ حقیقت اس میں آشکار ہو گئی
لیکن صحیح بات تو یہ ہے کہ ہمارا یہ دیکھنا اس آدمی کے دیکھنے کی طرح کا ہے
جوخواب میں کچھ دیکھے اور سمجھے کہ میں جاگ رہا ہوں اور یہ سب کچھ عالم
بیداری میں دیکھ رہا ہوں۔حالانکہ خواب میں جاگنے والے خواب ہی میں ہوتے ہیں
اور جو کچھ وہ دیکھتے ہیں اس کی حقیقت اور اصلیت خواب کے سوا کچھ نہیں
ہوتی۔غالب کے ہاں بعض اشعار میں وحدت الوجودی نظریہ ملفوف نہیں جس کی ایک
مثال مندرجہ بالا شعر جبکہ دوسری مثال یہ شعر ہے۔ ۵ا
دلِ ہر قطرہ ،ہے سازِان البحر
ہم اس کے ہیں ،ہمارا پوچھنا کیا ؟
انسان بلکہ کائنات کی ہر شے ایک قطرہ ہے جو بحر ازلی سے الگ ہو چکا ہے اور
وہ دوبارہ اسی سمندر سے پیوسط ہونے کے لئے بیتاب ہے۔ہرقطرے کا دل ایک
سازہے۔ ایک ایسا ساز جس سے ان البحر کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں کہ میں
سمندر ہوں قطرہ نہیں۔ سمندر سے الگ میرا وجود کچھ نہیں ۔یہ بات حسین بن
منصور حلاج کے نعرے ان الحق’ میں حق ہوں ‘کی یاد تازہ کرتی ہے۔ مرزانے اپنے
آپ کو خود ہی بادہ خار کہہ کر بچا لیا ورنہ شاید اس شعر پر گردن زدنی
ٹھہرتے منصورحلاج غالب کے ہاں بھی ایک استعارہ ہے جسے وہ یوں بیان کرتے ہیں
۔۶ا
قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا، لیکن
ہم کو تقلیدِ تنک ظرفیِ منصور نہیں
غالبؔ نے اپنی اس چھوٹی بحر کی غزل میں تو اپنا نظریہ وحدت الوجود بالکل
کھول کر بیان کر دیا ہے۔ حیرت اور استعجاب کا انداز خوبصورت ہے ۔ ۷ا
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا ،کیا ہے؟
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں ؟
غمزہ و عشوہ وادا کیا ہے؟
سبز ہ و گل کہاں سے آئے ہیں؟
ابر کیا چیز ہے ؟ ہوا کیا ہے؟
تاہم اس میں کچھ فلسفیانہ سوال بھی اٹھا دیے ہیں لیکن یہ تمام اشعار باہم
مربوط ہیں اور خصوصا ًجب وہ یہ کہتے ہیں ۔ ۸ا
قطرہ دریا میں جو مل جائے، تو دریا ہو جائے
اور پھر تو ان اشعار کی بھرمار ہے اور تواتر سے ہے جن میں ہست اور عدم کے
تذکرے ہیں تو کہیں اپنی ذات تک پر حیرت کا اظہار ہے ۔خصوصاً یہ اشعار۹ا
ہر چند ہر ایک شے میں تو ہے
پر تجھ سے کوئی شے نہیں ہے
ہاں ، کھائیو مت فریبِ ہستی
ہر چند کہیں کہ ’ہے‘ ، نہیں ہے
ہستی ہے ، نہ کچھ عدم ہے ، غالبؔ
آخر توکیا ہے ؟ اے’ نہیں ہے‘
مرزاغالبؔ نے مسئلہ وحدت الوجود کواس شعر میں مزید واضح انداز میں بیان کیا
ہے۔۲۰
اسے کون دیکھ سکتا کہ ، یگانہ ہے وہ یکتا
جودوئی کی بو بھی ہوتی ، تو کہیں دو چار ہوتا
کیونکہ اﷲ ایک ہے اور اس کی کوئی مثل نہیں لہٰذا اسے کون دیکھ سکتا ہے۔ اگر
اس کے باوجود کسی دوسرے کا وجودہوتا تو میری کہیں نہ کہیں تو اس سے ملاقات
ہو ہی جاتی ۔وہ کبھی تو نظرآ ہی جاتا ۔یا تو وہ دوسری ہستی ہم انسانوں سے
کہیں ملتی یا پھر اﷲ ہی اس ہستی سے کہیں ملتا۔لیکن بات پھر وہیں ختم ہوتی
ہے ’جو نہ بادہ خوار ہوتا‘۔ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم نے تحریر کیا ہے کہ is a
romance of eithism pantheism یعنی وحدت الوجود دہریت کا رومانس ہے اور یہ
بات درست ہی لگتی ہے ا۲۔ غالبؔ کی بے دینی، اسلامی شعائر کا مذاق اڑانا،
بادہ خواری کے خود تذکرے کرنا، جوئے اور شراب کی وجہ سے پس دیوار زنداں
رہنا ثابت کرتا ہے کہ وحدت الوجود بھی ایک لبادہ تھا ۔لیکن غالبؔ کی وحدت
الوجود لوگ اس لیے ہضم کر گئے کہ شاعری میں ہم اکثر ایسی باتیں سن لیتے ہیں
جس پر نثرمیں گردن اتارنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ اس کی مثال ابن عربی اور
مولانا رومی ہیں۔ ابن عربی کو زندیق تک کہا گیا لیکن رومی بہت کچھ کہہ کر
بھی مولوی ہی کہلائے اور اب بھی مولانا ہی ہیں ۔تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ
مرزا غالبؔ شریعت کا دشمن اور طریقت کادوست تھا۔ انسانیت کی محبت یقینا اس
کا جزو ایمان تھی لیکن نظریہ وحدت الوجود منظم انداز فکر سے نہیں ملتا۔
غالب ؔکے ہاں خدا کا ایک ارفع اور اعلیٰ اور برتر تصوربھی ملتا ہے اور اپنی
کم مائیگی کا احساس بھی اس کی شاعری کا جزو ہے۔ ۲۲ ، ۲۳ ، ۲۴
سفینہ جب کہ کنارے پہ آ لگا ، غالبؔ
خدا سے کیا ستم و جورِ نا خدا کہیے؟
٭٭٭
ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
یا رب؛ اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے
٭٭٭
حد چاہیے سزا میں، عقوبت کے واسطے
آخر گناہگار ہوں ، کافر نہیں ہوں میں
اورآخر میں اس کا یہ کہنا کہ ۲۵
زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری ،غالبؔ
ہم بھی کیا یا دکریں گے کہ، خدا رکھتے تھے
تاہم کیونکہ غالب نے اپنے آپ کو خود ہی وجودی کہہ دیا ہے تو پھر ہم اسے
شہودی کہنے کی گستاخی نہیں کر سکتے۔ ۲۶
ہستی کے مت فریب میں آ جائیو، اسدؔ
عالم تمام ، حلقہء دام خیال ہے
حوالہ جات
ا۔ فضل اﷲ ضیاء نور،’وحدت الوجود‘(مترجم:سیدمنظور حیدر)،اسلام آباد:مقتدرہ
قومی زبان،ا۲۰۰ء،ص ۷۵
۲۔ غالب،اسداﷲ خان،’دیوان غالبؔ‘(مرتب:مالک رام)،لاہور:رابعہ بک ہاؤس اردو
بازار،س ن،ص ۲۴ا
۳۔ شیخ محمداکرام،’حکیم فرزانہ‘،لاہور:ادارۂ ثقافت اسلامیہ،باردوم،۹۷۷اء،ص
۵۷
۴۔ ایضاً، ص ص ۸۶ا تا ۸۷ا
۵۔ ایضاً، ص۶۳ا
۶۔ ایضاً، ص۸۶ا
۷۔ ایضاً، ص۳۳
۸۔ شیخ محمداکرام،’حکیم فرزانہ‘،ص ۲اا
۹۔ غالب،اسداﷲ خان،’دیوان غالب،ص۲۹ا
۰ا۔ ایضاً،ص ۶۸ا
اا۔ صوفی غلام مصطفےٰ تبسم،’روحِ غالب‘،کراچی:فیروسنز،۹۹۷اء،ص ۳۷ا
۲ا۔ غالب،اسداﷲ خان،’دیوان غالب،ص۸۰
۳ا۔ ایضاً ، ص ۸۰
۴ا۔ ایضاً ، ص ا۸
۵ا۔ ایضاً ، ص ۲۶
۶ا۔ غالب،اسداﷲ خان،’دیوان غالب ، ص ۸۳
۷ا۔ ایضاً ، ص ۲۸ا
۸ا۔ ایضاً ، ص ۳۹ا
۹ا۔ ایضاً ، ص۵۴ا
۲۰۔ ایضاً ، ص ۲۵
ا۲۔ خلیفہ عبدالحکیم،’Metaphysics of Rumi ‘،لاہور:ادارہ ثقافت
اسلامیہ،۹۷۷اء،ص ۷۳
۲۲۔ غالب،اسداﷲ خان،’دیوان غالب،ص۶۴ا
۲۳۔ ایضاً ، ص ۷۶ا
۲۴۔ ایضاً ،ص ۸۸
۲۵۔ ایضاً ،ص ۲۰ا
۲۶۔ ایضاً ، ص ۷اا
کتابیات
٭ خلیفہ عبدالحکیم،’Metaphysics of Rumi ‘،لاہور:ادارہ ثقافت اسلامیہ،۹۷۷اء
٭ شیخ محمداکرام،’حکیم فرزانہ‘،لاہور:ادارۂ ثقافت اسلامیہ،باردوم،۹۷۷اء
٭ صوفی غلام مصطفےٰ تبسم،’روحِ غالب‘،کراچی:فیروسنز،۹۹۷اء
٭ غالبؔ،اسداﷲ خان،’دیوان غالبؔ‘(مرتب:مالک رام)،لاہور:رابعہ بک ہاؤس اردو
بازار،س ن
٭ فضل اﷲ ضیاء نور،’وحدت الوجود‘(مترجم:سیدمنظور حیدر)،اسلام آباد:مقتدرہ
قومی زبان،ا۲۰۰ء
Mirza Ghalib is the poet of 19th century and truly said.He has different
colours in his urdu poetry.He was proud of his farsi poetry but is known
for his "Dewan e Ghalib".Wahdatul Wajood is an old idealogy and most of
the poets of 17th to 20th century has used it in their poetry.Ghalib
also used it but his art is unique.I have used his urdu poetry only in
order to show that he was a "Wajoodi" poet and admit it in his own
writings.His "Wajoodiyat" touches pantheism at some point but his art at
the same time block him to negate the existence of Allah. |