پاکستان کے وزیر اعظم میاں
نوازشریف نے تقریباً چودہ برس بعد جی ایچ کیو کا دورہ کیا ‘ جہاں آرمی چیف
جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ان کا پُرتپاک استقبال کیا جبکہ وزیر اعظم اور
آرمی چیف کی ون آن ون ملاقات بھی ہوئی جس میں ملکی سلامتی کی صورتحال اور
پیشہ ورانہ امور پر بات چیت کی گئی۔ دوران ملاقات شہادت سے متعلق امیر
جماعت اسلامی سید منورحسن کا متنازعہ بیان بھی زیر غور آیا جس کی روشنی میں
وزیراعظم نے دہشت گردی کیخلاف جانوں کے نذرانے پیش کرنیوالے پاک فوج کے
افسران و جوانوں کو بھرپور انداز میں خراج عقیدت پیش کیا۔مسلح افواج کے
بارے میں وزیر اعظم کے انتہائی حوصلہ افزا الفاظ نے نہ صرف فوجی جوانوں
بلکہ عوام کے دِل بھی جیت لئے ہیں ۔وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا کہ قوم
مسلح افواج کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے،مسلح افواج کے دلوں
میں شہادت کا چراغ جلتا ہے ‘ مسلح افواج نے وطن کے دفاع کیلئے جانوں کے
نذرانے دے کر روشن تاریخ رقم کی ہے ۔ ہمارے کل کیلئے اپنے آج کو قربان
کرنیوالے غازی اور شہید ہمارے محسن ہیں۔ قارئین ! وزیر اعظم کے فوج کے بارے
میں دئیے جانے والے ریمارکس کو کوئی بھی ذی شعور جھٹلانہیں سکتا کیونکہ
مسلح افواج کا ہر جوان اور افسر جذبہ ایمانی اور حب الوطنی کے ساتھ میدان
میں اترتا ہے جبکہ دہشت گردوں کیخلاف جانوں کے نذرانے دینے والے شہداء کو
قوم ہمیشہ یاد رکھے گی زمانہ امن اور جنگ کے دوران مسلح افواج کی صلاحیتوں
کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک ترقی یافتہ ریاست
کی حیثیت سے اسی وقت پہچانا جا سکتا ہے جب ہم مسلح افواج کی صلاحیتوں پر
بھرپور اعتماد کریں ۔قارئین ! اس بات کو نظر انداز کرنا انتہائی بیوقوفی
ہوگی کہ مظبوط ریاست کے لئے مظبوط دفاع انتہائی ضروری ہے۔اس میں کوئی شک
نہیں کہ ماضی میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی قیادتوں میں فوج کی سیاسی
معاملات میں مداخلت کے تناظر میں تلخی کی فضا قائم رہی ہے ‘ اسی بنیادجس
طرح پیپلزپارٹی کی سابقہ حکومت نے بھی اور مسلم لیگ (ن) نے اپنے موجودہ دور
اقتدار کے دوران بھی فوج کو سیاسی معاملات سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی
ہے عین اسی طرح چیف آف آرمی سٹاف جنرل کیانی نے بھی فوج کو سیاسی معاملات
سے دور رکھنے کی نہ صرف کوشش کی بلکہ اسے عملی جامہ پہنایا ۔ قارئین! میں
محمد اکرم خان فریدی بحثیت پاکستانی شہری میری یہی اپیل کروں گاکہ کسی فرد
واحد کے اقدام کی بنیاد پر پورے عسکری ادارے کے بارے میں منفی رائے قائم
کرنا قطعاً مناسب نہیں جبکہ ملک کی سالمیت کو لاحق تمام اندرونی اور بیرونی
خطرات سے افواج پاکستان ہی اپنی بہترین صلاحیتوں اور استعداد کی بنیاد پر
عہدہ برا ہوتی ہیں۔ اس تناظر میں جہاں ملک کی سرحدوں کو لاحق بیرونی خطرات
کا مقابلہ کرکے دشمن کے دانت کھٹے کرنے کی افواج پاکستان کی آئینی ذمہ داری
ہے ‘ اسی طرح اندرون ملک سے دہشت گردی یا کسی دوسرے خلفشار کی بنیاد پر ملک
کی سلامتی کو لاحق خطرات کا توڑ کرنا بھی افواج پاکستان ہی کی ذمہ داری ہے
جبکہ افواج پاکستان ہمیشہ ہی اپنا یہ آئینی فریضہ سول حکومت کی معاونت کرکے
ادا کرتی ہیں۔قارئین!یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ پاکستان کا سب سے
بڑا مسئلہ دہشت گردی کا خاتمہ اور امن و امان کا قیام ہے جبکہ پاکستانی فوج
کی بھی سب سے بڑی ترجیح یہی ہے کہ ملک میں جلد از جلد دہشت گردی کا خاتمہ
اور ملکی معیشت بہتر سے بہتر ہوسکے لیکن افسوس کہ اندرونی اور بیرونی دشمن
پاکستان کی ترقی کو رکوانے اور دہشت گردی کو تقویت دینے کے لئے پاکستانی
افواج کے خلاف مختلف پراپیگنڈے کرنے میں مصروف ہے جسکی وجہ سے پاکستانی فوج
کی جانب سے کی جانے والی امن کوششیں بارآور نہیں ہو رہیں ۔دہشت گردوں نے
فاٹا اور خیبر پختونخواہ کا سکون برباد کر رکھا ہے لیکن افسوس کہ ان حالات
میں مسلح افواج میں بد دِلی پھیلائی جا رہی ہے ۔آج پیارے پاکستان کے ہر
شہری پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے امن کی بحالی
کے اقدامات میں فوج کا بھرپور ساتھ دیں اور پیارے پاکستان کے دفاع کی خاطر
قربان ہونے والے شہداء کو عین اُسی طرح خراجِ تحسین پیش کریں جیسے کہ وزیر
اعظم پاکستان نے جی ایچ کیو میں انتہائی خوبصورت انداز میں پیش کیا ۔میری
ہر شہری سے درخواست ہے کہ عین اُسی طرح ہر لمحہء پاکستانی فوج کو خراجِ
تحسین پیش کریں جس طرح 1965ء کی جنگ میں کیا گیا ۔بہر کیف پاک فوج کے
سپاہیوں کو کسی بھی سیاسی رہنماء کی باتوں پر غور کئے بغیر جہاد جاری رکھنا
ہو گا اور قومی یکجہتی کے فروغ کے لئے عوام کو بھی اتفاق و اتحاد کے ساتھ
پیارے پاکستان کی حفاظت کرنا ہوگی۔ |