سانحہ راولپنڈی: کوئی منظم سازش تو نہیں؟

راولپنڈی میں واقع مدرسہ تعلیم القرآن میں جو کچھ بھی ہوا وہ انتہائی افسوسناک ہے۔اطلاعات کے مطابق دس محرم بروز جمعہ کو نکالے گئے جلوس کے شرکاءنے ایک چھوٹے سے واقعے کی بنیاد پر راول پنڈی کے علاقے راجا بازار کی معروف دینی درس گاہ جامعہ تعلیم القرآن پر دھاوا بول دیا، متعدد معصوم طلبہ کو بے دردی سے شہید کردیا اور سو سے زائد زخمی ہوئے، لاپتا ہونے والے طلبہ ان کے علاوہ ہیں۔شرپسندوں نے مسجد اور مدرسے کو آگ لگادی، یہ آگ قرب وجوار کی دکانوں تک پھیل گئی جس سے سو سے زاید دکانیں اور اربوں روپے کا مال واسباب جل کر راکھ ہوگیا۔ مسلح جلوس کے شرکاءنے اس موقع پر پولیس ا ہلکاروں سے کلاشنکوفیں حاصل کرلیں اور موقع واردات کی ویڈیو بنانے والے میڈیا اہلکاروں پر تشدد کرکے ان کے کیمرے توڑ دیے۔ اس المناک اور انتہائی افسوس ناک سانحے کے بعد راول پنڈی شہر کو عملاً فوج کے حوالے کرکے کرفیو نافذ کردیا گیا ۔ذرائع کے مطابق ہر سال یہ جلوس تقریبا چار بجے کے قریب اس مقام پر پہنچتا ہے،لیکن اس برس یہ جلوس عین اس وقت پہنچا جب جمعہ کا خطاب جاری تھا، جلوس کے شرکاءنے مطالبہ کیا کی جمعہ جلدی ختم کیا جائے ، جبکہ مسجد کی انتظامیہ کا موقف تھا کہ جلوس کو اپنے وقت پر آنا چاہیے۔ جلوس کو نصف گھنٹہ پیچھے ہی روکا جائے تاکہ جمعہ ختم کیا جاسکے۔اسی دوران نعرہ بازی شروع ہوگئی اور تقریبا دس افراد نے پولیس سے کلاشنکوفیں حاصل کرلیں۔مدرسہ کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مسلح افراد نے آتے ہی فائرنگ شروع کردی اور اس کے کچھ ہی دیر بعد خنجر، چھرے اور لوہے کے راڈ لیے کچھ اور افراد بھی مسجد میں گھس گئے،طلبہ چونکہ نہتے تھے اس لیے کچھ نہ کرسکے۔متعدد طلبہ موقع پر ہی شہید ہوگئے۔ایک پولیس افسر افضل حسین نے امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ جلوس کے شرکاءنے مدرسے سے 3 افراد کو باہر گھسیٹ لیا اور تشدد کرکے انہیں قتل کردیا۔ افضل حسین کا کہنا تھا کہ انہوں نے مدرسے کے باہر دکانوں کو بھی آگ لگادی۔ ایک اور پولیس افسر وسیم احمد کا کہنا تھا کہ جلوس کے گزرتے وقت مسجد میں نماز جمعہ کا خطبہ دیا جارہا تھا جس پر جلوس کے شرکاءنے دھاوا بول دیا۔اسی دوران کچھ اور افراد پیٹرول کی بوتلیں لیے اندر آئے اور آگ لگادی،اس کے بعد انہوں نے دکانوں کو بھی آگ لگائی۔اس سارے وقعہ میں پولیس کافی دیر کے بعد پہنچی۔ سانحہ راولپنڈی کے بعد کئی شہروں میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ایبٹ آباد روڈ ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا۔ پشاور میں سانحہ راولپنڈی کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ ساہیوال میں تاجر تنظیموں اور سول سوسائٹی نے احتجاجی ریلی نکالی۔ مانسہرہ میں مظاہرین نے ایبٹ آباد روڈ کو ٹریفک کے لیے بند کر دیا اور نعرے بازی کی۔ بٹگرام میں بھی مختلف مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے احتجاج کیا، ہزاروں مظاہرین نے شٹرڈاؤن کر کے شاہراہ ریشم پر دھرنا دیا۔رہنماﺅں نے کہا کہ مدرسہ تعلیم القرآن پر حملہ کھلم کھلا دہشت گردی ہے۔ اگر ملوث ملزمان کو گرفتار نہ کیا گیا تو ہم احتجاج کا دائرہ وسیع کریں گے ۔جبکہ اس سے اگلے ہی روز صحابہ کرامؓ کی شان میں گستاخی کے خلاف مذہبی جماعتوں کی اپیل پر چشتیاں میں مکمل شٹر ڈاﺅن ہڑتال کی گئی۔ملتان، ہارون آباد میں بھی ہنگامے پھوٹ پڑے جس کے نتیجے میں چالیس کے لگ بھگ افراد زخمی اور کئی جان سے بھی گئے۔فیصل آباد اور ملتان میں دفعہ ایک سو چولیس نافذ کردی گئی۔

سانحہ راولپنڈی کی تقریبا تمام سیاسی و مذہبی شخصیات نے مذمت کی اور مجرموں کڑی سزا دینے کی اپیل کی گئی۔وفاق المدارس ،جمعیت علماءاسلام ،اہلسنّت والجماعت اور جمعیت اہلسنّت سمیت کئی جماعتوں کے قائدین نے کہا کہ سانحہ راولپنڈی قومی سانحہ ہے، ذمہ داران کو راجا بازار میں سرعام پھانسی دی جائے، اس وقت بیانات کی نہیں اقدامات کی ضرورت ہے، اگر حکومت نے صرف بیانات پر اکتفاءکیا تو ہم امن کی ضمانت نہیں دے سکتے۔ نااہل انتظامیہ کو فی الفور برطرف کیا جائے، یہ سانحہ اتفاقی نہیں بلکہ طے شدہ منصوبے کے نتیجے میں رونما ہوا، سانحہ کے ذمہ داروں کو کیفر کردارتک پہنچانے تک جدوجہد جاری رہے گی۔ سینئر ججوں سے اس واقعے کی غیر جانبدارانہ اور منصفانہ تحقیقات کروائی جائےں، مسجد ومدرسہ اور مارکیٹ کی تعمیر نو اور متاثرین کے اربوں روپے کے نقصان کا معاوضہ ادا کیا جائے، قوم کو اصل حقائق سے آگاہ کیا جائے۔ یہ حکومت کی ناکامی اور راولپنڈی انتظامیہ کی نااہلی کا ثبوت ہے جس وحشت وبربریت کا راولپنڈی میں مظاہر ہ کیا گیا اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ،صرف بے گناہ لوگوں کو شہید نہیں کیا گیا بلکہ ان کی لاشوں کو مسخ بھی کیا گیا ،ان کے اعضاءکا ٹے گئے ،ان کی آنکھیں نکالی گئیں ،ڈیڑھ سو کے قریب دکانوں کو نذر آتش کیا گیا ،فائر بریگیڈاور ایمبولینس کو جائے وقوع پر نہیں جانے دیا گیا ۔پولیس او ر قانون نافذ کرنے والے ادارے خاموش تماشائی بنے رہے ۔میڈیا حقائق کو چھپانے میں حکومت کے ساتھ برابر کا شریک ہے اور بدترین جانبداری کا مظاہرہ کر رہا ہے ۔اس سانحہ کے خلاف لاہور کے جید علماءکرام اور 300 سے زاید مدارس کے سربراہان اور مساجدکے ائمہ کرام نے پنجاب حکومت سے استعفے کا مطالبہ بھی کیا۔علماءکرام نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ راولپنڈی میں جلوس کی جانب سے اہلسنّت والجماعت کی عظیم دینی درسگاہ دارالعلوم تعلیم القرآن راجا بازارپر حملے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ ہم جمعیت اشاعت التوحید والسنہ، وفاق المدارس العربیہ اور اہلسنّت والجماعت کے مشترکہ فیصلے کے انتظارمیں ہیں، اگر انہوں نے حکم دیا تو ہم پر امن انداز میں لاہورکی شہروں پر دھرنے دیںگے، احتجاج کریںگے اور اس وقت تک اپنا احتجاج جاری رکھیں گے جب تک ہمارے مطالبات پورے نہیں ہوتے۔اہلسنّت والجماعت کے سربراہ علامہ محمد احمد لدھیانوی نے راولپنڈی میں پیش آنے والے واقعہ کو انتہائی افسوس ناک قراردےتے ہوئے تین روزہ سوگ کا اعلان کےا۔ ان کا کہنا ہے کہ قانون نافذکرنے والے ادارے مکمل طور پر ناکام رہے، چیف جسٹس اس قتل عام پر از خود نوٹس لیں، تمام مذہبی جلسے جلوسوں کو عبادت گاہوں تک محدود کیا جائے، شفاف انکوائری کراکے قاتلوں اور دہشت گردوں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ مولانا سمیع الحق نے راولپنڈی واقعے کو انتظامی نااہلی قرار دیتے ہوئے واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ سانحہ راولپنڈی کے بعد مولانا فضل الرحمن نے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، صوبائی وزیر قانونی رانا ثناءاللہ، چیف سیکرٹری پنجاب، آر پی او راولپنڈی کو ٹیلی فون کر کے سانحہ پنڈی سے متعلق تفصیلات معلوم کیں۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ پنڈی سانحہ فرقہ واریت کو ہوا دینے کی سازش ہے۔ عوام صبرو تحمل کا مظاہرہ کریں اور ان سازشوں کو ناکام بنا دیں۔ سانحہ میں ملوث عناصر کو فوری گرفتار کیا جائے۔اتوار کے روز سانحہ راولپنڈی کی تحقیقات کے لیے پنجاب حکومت کی درخواست پر جسٹس مامون رشید کی سربراہی میں عدالتی کمیشن قائم کر دیا گیا، جو تحقیقات کر کے ذمہ داروں کا تعین کرے گا۔کمیشن آج سے راولپنڈی میں انویسٹی گیشن شروع کرے گا، انکوائری کے لیے تیس روز کا ابتدائی وقت مقرر کیا گیا ہے۔کمیشن اپنی رپورٹ مکمل کر کے پنجاب حکومت کو دے گا۔ رپورٹ کو منظر عام پر لانے یا نہ لانے کا فیصلہ پنجاب حکومت کا استحقاق ہو گا۔

دوسری جانب راولپنڈی میں دس محرم کی شام ہونے والے واقعے کی تحقیقات ابھی شروع نہیں ہوئیں لیکن بعض انٹیلی جنس ادارے اس واقعے میں سرکاری اداروں کے بعض اہلکاروں کے ملوث ہونے کو خارج از امکان قرار نہیں دے رہے۔ ایک سینیئر سیکورٹی اہلکار کے مطابق اس سانحے کی مجوزہ تحقیقات میں اس پہلو کا بھی بغور جائزہ لیا جائے گا کہ اس روز شرپسندی اور تشدد میں ملوث افراد کو خاص طور پر پولیس اہلکاروں کی مدد تو حاصل نہیں تھی۔ بعض سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بارے میں راولپنڈی کی اعلیٰ انتظامی اہلکار اور سیاسی قیادت، جن میں وزیراعلیٰ اور بعض وزرا بھی شامل ہیں، شدید تشویش کا شکار ہیں کہ اس واقعے میں بعض پولیس اہلکار بھی ملوث ہو سکتے ہیں جو سرکاری فرائض کی ادائیگی کی بجائے اپنے مسلکی مفادات کے تحت تشدد کو بڑھاوا دیتے رہے۔ پاکستان میں فرقہ واریت کا زہر سرکاری اور ریاستی اداروں میں سرایت کر جانے کے خدشات طویل عرصہ سے ظاہر کیے جا رہے ہیں لیکن یہ غالباً پہلا موقع ہے کہ بڑے پیمانے پر ہونے والے فرقہ وارانہ جارحیت میں اس ریاستی مشینری کے بعض پرزوں کے ملوث ہونے کے بعض شواہد سامنے آئے ہیں۔ ایک سینیئر سیکورٹی اہلکار کے مطابق عین جمعے کی نماز کے وقت جلوس کا ایک خاص مسجد کے سامنے سے گزرنا، فائرنگ میں سرکاری اسلحے کا استعمال، آتش زنی کے لیے وافر مقدار میں پیٹرول کی دستیابی، فائر برگیڈ اور مزید نفری کے آمد کے ممکنہ راستوں کی بندش اور نذر آتش ہونے والی مدینہ مارکیٹ کا گیٹ کھول دینا، ایسے واقعات ہیں جن سے صرف نظر کرنا ممکن نہیں۔جمعے کے روز راولپنڈی کے جس مقام پر تشدد کا واقعہ پیش آیا وہ روایتی طور پر فرقہ وارانہ کشیدگی کے لحاظ سے فلیش پوائنٹ مانا جاتا ہے۔یہاں ہر سال محرم کے موقع پر اس مسجد کے گرد خصوصی حفاظتی انتظامات کیے جاتے ہیں۔اس بار فرق یہ تھا کہ جمعہ کا دن تھا اور مسجد میں نماز جمعہ کی تیاری کی جا رہی تھی۔مقامی انتظامیہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھی کہ جمعے کی مناسبت سے یہ جلوس ایسے وقت میں اس مسجد کے قریب سے گزرنا چاہیے جب نماز جمعہ کی ادائیگی میں رخنہ نہ پڑے۔لیکن ایسا نہیں ہوا۔۔۔ مزید یہ کہ جلوس کے قریب پہنچنے کے باوجود پولیس اہلکاروں نے ’ایس او پی‘ یعنی روایتی حفاظتی انتظامات کے پیش نظر مسجد کا لاو ¿ڈ سپیکر بھی بند نہیں کراویا۔یہ تمام باتیں سیکورٹی اداروں میں انگلی اٹھنے کا موقع دے رہی ہیں۔اسی وجہ سے خفیہ ادارے نے سانحہ راولپنڈی کی رپورٹ پنچاب حکومت کو ارسال کردی ہے جس میں راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ اور پولیس کو ذمے دار ٹھہرایا گیا ہے۔رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ پولیس کے سینئر حکام جائے وقوعہ پر اس وقت پہنچے جب حالات انتہائی خراب ہوچکے تھے۔ رپورٹ کے مطابق انتظامیہ اور پولیس نے امن کمیٹی کے اراکین کو اپنے ساتھ نہیں رکھا اور جب واقعہ پیش آیا تو امن کمیٹی کے اراکین کو تلاش کر کے لایا گیا جس کے باعث وقت کا زیاں ہوا۔بعض سرکاری اہلکار اس بات پر بھی حیران ہیں کہ تشدد شروع ہونے کے بعد نذر آتش ہونے والی مدینہ مارکیٹ کے داخلی راستے کو بعض پولیس اہلکاروں نے کیوں کھولا؟راولپنڈی پولیس کے بعض اہلکاروں نے جان بچانے کے لیے اسی مسجد میں ’پناہ‘ کیوں لی جو حملے کی سب سے زیادہ زد میں تھی؟شر پسندوں کے ہاتھوں اپنی بندوقیں کھونے والے پانچ اہلکار تو موقعے سے فرار ہو گئے، لیکن وہ اہلکار کہاں گئے جن کے پاس آنسو گیس کے گولوں کا ذخیرہ تھا؟ تشدد شروع ہونے کے ابتدائی ایک گھنٹے میں پولیس کی مداخلت نظر کیوں نہیں آئی؟۔یہ وہ سوال ہیں جن کے جواب عدالتی تحقیقات میں تلاش کیے جا سکتے ہیں۔

بعض ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ سارا معاملہ منصوبہ بندی سے پہلے ہی تشکیل دے دیا گیا تھا، جس میں لوگ باہر سے منگوائے گئے تھے۔اس حوالے سے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ سانحہ راولپنڈی ایک بڑی سازش تھا، ہنگامے میں ملوث لوگ شناسا نہیں تھے۔ ہنگامے میں ملوث افراد اس علاقے کے نہیں تھے انہیں پہلے کبھی یہاں دیکھا نہیں گیا۔حیرت اس بات پر ہے کہ مشتعل افراد کے پاس اتنی جلدی پیٹرول کی بوتلیں کہاں سے آگئی اور پولیس کے اہلکار تو یہ کہہ رہے تھے کہ بندوقیں فائر کرکے ہمیں واپس ضرور کردینا۔ شیخ رشید احمد نے واقعے کا ذمہ دار پنجاب حکومت کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ کی نا اہلی کا یہ عالم تھا کہ خوف زدہ پولیس اہلکاروں نے خود رائفلیں سرنڈر کر دیں۔ انتظامیہ بتائے عمارتوں کو آگ لگانے کیلئے پیٹرول کے کین کیسے پہنچے۔ذرائع کے مطابق عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ فساد میں غیر مقامی افراد متحرک تھے،یوم عاشورہ کو پیش آنے والے واقعے میں پولیس اور مقامی انتظامیہ کی جانب سے بنائی گئی حکمت عملی میں نقائص اور جلوس کے ساتھ ساتھ چلنے والے تین تین افراد کی چار ٹولیاں فساد کا سبب بنیں، عاشورہ کے جلوس کے ساتھ موجود افراد اور سانحے کے عینی شاہدین کا دعویٰ ہے کہ عین اس وقت جائے وقوعہ پر پہنچا تھا جب راجا بازار کی بڑی مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کا وقت تھا،جلوس کب کس جگہ ہوگا اور کتنے بجے مخصوص مقامات سے آگے بڑھے گا، امسال اس مر کو نظر انداز کردیا گیا۔حتی کہ جس جگہ فریقین کے مابین تنازعے نے جنم لیا اس مقام پر جلوس کے دیر تک پڑاﺅ کے معاملے کو شاہدین حیران کن قرار دیتے رہے،ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیس کے گرد مختلف نوعیت کے افراد نے اہلکاروں سے رائفلیں ہی نہیں چھینی بلکہ بعض اہلکاروں کو جلوس کے افراد نے کھینچ کر سڑک پر گرالیا۔عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ راجا بازار کے ایریا میں ایسے افراد بھی دیکھے گئے جنہیں کسی صورت پنجاب کا باسی قرار نہیں دیا جاسکتا، یہ افراد اس وقت زیادہ متحرک دکھائی دیے جب معاملہ تلخی کی طرف جارہا تھا، مشتعل افراد کو لیڈ کرنے والے بھی یہی افراد تھے۔اطلاعات کے مطابق کچھ نامعلوم افراد 333کے نمبر والی ایک گاڑی میں پیٹرول ، بوتلیں اور اسلحہ پہنچا رہے تھے، یہ گاڑی دو مرتبہ پیٹرول لے کر اندر آتی دیکھی گئی۔مبصرین کا کہنا ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پہلے سے ہی منصوبہ بندی کی گئی تھی ، ورنہ اتنی جلدی پیٹرول کا میسر آجانا مشکل ہے۔نجانے یہ غیر مقامی لوگ کس ملک سے لائے گئے تھے۔ یہ سب کچھ تو سامنے آسکتا ہے اگر حکومت سامنے لانا چاہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700601 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.