گڈبائے مسٹر چودھری

افتخارمحمد چودھری12دسمبر 1948ء کو پاکستان کے شہر کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔وہ ایک ہونہار اور ذہین طالب علم تھے۔وہ زمانہ طالب علمی سے ہی عدلیہ کو پسند کرتے تھے اور قانون میں خاص دلچسپی رکھتے تھے۔اسی لیے انہوں نے قانون میں ہی تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا اور 1974ء میں جامشورو سے LLBکی ڈگری حاصل کی۔وہ اپنی محنت ، لگن اور قابلیت کے باعث صرف 2سال کے قلیل عرصہ میں ہائی کورٹ کے وکیل بن گئے۔ 9سال تک ہائی کورٹ کے وکیل رہے اور پھر1985ء میں سپریم کورٹ کے وکیل بنے ۔اس دوران انہوں نے اپنی بے شمار صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔بطور وکیل انہوں نے کئی کیسز لڑے جن میں سے اکثر جیتے۔آپ کا شمار انتہائی قابل اور چوٹی کے وکیلوں میں ہوتا تھا۔چودھری صاحب کی ایک خوبی تھی وہ جس کیس کو لیتے اس پر اتنی محنت کرتے کہ جتنی ممکن ہو اور نتیجہ تاً جیت جاتے۔وہ زبان پر مہارت رکھتے تھے اور اپنے موقف کو انتہائی خوش اسلوبی سے پیش کرنا جانتے تھے،اسی لیے جج بننے کے بعد ان کے ریمارکس تاریخی حیثیت رکھتے ہیں اور اخبارات کی شہ سرخیاں بن چکے ہیں۔انہوں نے 20سال تک بطور وکیل اپنی خدمات سرانجا م دیں۔6نومبر1996ء کووہ بلوچستان ہائی کورٹ میں ایڈیشنل جج کے عہدہ پر فائز ہوئے اور صرف3سال سے بھی کم عرصہ میں بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بن گئے۔انہوں نے اپنی کامیابیوں کا سفر جاری رکھااور4فروری2000ء کو سپریم کورٹ کے جج بنے۔تقریباً پانچ برس تک سپریم کورٹ کے جج رہنے کے بعدوہ 30جون 2005ء کو57 سال کی عمر میں چیف جسٹس آف پاکستان بنے۔افتخار محمد چودھری پاکستان کی تاریخ کے سب سے کم عمر چیف جسٹس ہیں اور انہیں سب سے زیادہ دیر تک چیف جسٹس آف پاکستان رہنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔قدرت نے انہیں بے شمار صلاحیتیں عطا کیں ہیں۔وہ اپنے ساتھیوں میں سب سے زیادہ محنتی شخص ہیں۔چیف جسٹس بننے کے بعد ان کی زندگی مزید مصروف ہوگئی۔وہ سارا سارا دن عدالت میں کام کرتے۔شام کو گھر پہنچتے ، رات دیر تک مطالعہ کرتے اور کم سوتے،شاید اسی باعث ان کی قوت بصارت کمزور پڑھ گئی ۔وہ ہر صبح کئی انگریزی اور اردو اخبارات کا مطالعہ کرتے اور سووموٹو ایکشن لیتے۔انھوں نے بے شمار ازخود نوٹس لیے جس سے ان عوام کو بھی انصاف مل سکا جن کے پاس اکثر قانونی کاروائی کے اخراجات بھی نہ تھے۔چیف جسٹس بننے کے بعد انہوں سے برسوں سے التوا کا شکار کیسزنمٹانا شروع کیے اور مختصر عرصہ میں ہزاروں کیسز نمٹادیے۔وہ عدالت کا وقت ختم ہونے کے بعد بھی کام میں مصروف رہتے اور بسا اوقات شام کا کھانا بھی سپریم کورٹ میں ہی کھاتے۔ایک اصول پسند جج ہونے کی وجہ سے انہیں اپنی زندگی میں بے شمار مشکلات کا سامنا کرناپڑا۔شاید اسی لیے 9مارچ 2007ء کا دن آیا۔چیف جسٹس پر کرپشن اور Misconductigکے الزامات لگے اور انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔وہ چار ماہ اور گیارہ دن تک عدالت میں کیس لڑتے رہے اور جب الزام ثابت نہ ہوا تو انہیں دوبارہ عہدہ پر بحال کر دیا گیا۔ابھی اس واقعہ کو چند دن ہی گزرئے تھے اور ملک کی تاریخ کا ایک سیاہ دن آگیا۔یہ 3نومبر2007ء کا دن تھا۔ اس دن اس وقت کے فوجی حکمران جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی،اسمبلیاں توڑ دیں اور آئین معطل کردیا۔اس کے ساتھ ساتھ مشرف نے چیف جسٹس اور ان کے حمایتی 60ججز کو برخاست کر دیا اورانہیں گھروں میں نظر بند کر دیا۔ کچھ عرصہ بعد ملک میں آئینی حکومت بن گئی۔اس دوران ایک فقیدالمثال تحریک چلی جو دیکھتے ہی دیکھتے شدت اختیار کرگئی۔عوام کی ایک بہت بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی۔عوام پرجوش تھی اور چیف جسٹس کی بحالی کے لیے نعرہ لگا رہی تھی۔بعض سیاسی جماعتوں نے بھی اس کی حمایت کی۔حکومت نے عوام اور وکلا کا رستہ روکنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔مگر عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر نے رستے میں آنے والی ہر شہ کو روند ڈالا۔ابھی لانگ مارچ گوجرانوالہ تک ہی پہنچا تھا کہ حکومت صورتحال بھانپ گئی ،اسے عوام کے سامنے جھکنا پڑااور 16مارچ2009ء کی صبح وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے چیف جسٹس اور دیگر ججز کو عہدہ پربحال کرنے کا اعلان کر دیا۔ چیف جسٹس کو پہلی دفعہ اتنی بڑی عوامی حمایت کو اندازہ ہواتھا۔بے شک پاکستان کی تاریخ میں کسی اور جج کو اتنی بڑی عوامی حمایت حاصل نہ ہو سکی۔گو کہ چند سیاسی فیصلوں میں چیف جسٹس کسی حد تک متنازع ہوئے مگراپنے عہدہ پربحال ہونے کے بعد بھی افتخار چودھری نے کئی اہم فیصلے کیے۔انہوں نے دو وزاء اعظم کو گرفتار کرنے کا حکم دیا،کھربوں روپے ملکی خزانے میں واپس لائے اور نیب سے لیکر الیکشن کمیشن تک تمام اداروں کے کیسز میں بے باک فیصلے کیے۔سال 2012ء میں معرف رسالہ TIMESنے افتخار چودھری کودنیا کے 100بارسوخ افراد کی فہرست میں شامل کیا۔اب چودھری صاحب اپنی عمر کے آخری حصے میں ہیں۔وہ 12دسمبر2013ء کو پینسٹھ برس کے ہوجائیں گے اور19دسمبر بروز بدھ کو اپنے عہدے سے ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔چند اختلافات کے باوجود چیف جسٹس نے پاکستانی عدلیہ میں ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔اورانہوں نے جو تاریخی فیصلے دیے ہیں وہ بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔عوام کے ساتھ ساتھ پاکستان کی اکثر سیاسی جماعتیں بھی آپ پر اعتماد کرتی ہیں جبکہ طالبان بھی انہیں عدلیہ کا بہترین شخص قرار دیتے ہیں۔اب پوری قوم کی یہی خواہش ہے کہ ان کے بعد جو شخص بھی چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالے وہ اپنی تمام تر صلاحیتں ملک و قوم کے لیے وقف کرے۔پاکستان پچھلے ایک عرصہ سے بد امنی کا شکار ہے اوراس کا خاتمہ انتہائی ناگزیر ہے۔ملک میں امن قائم کرنے کے لیے اشد ضروری ہے کہ ملک میں انصاف عام ہو۔چونکہ مشہور زمانہ دانشور POPE PAUL VIنے کہاتھا"If you want peace work for justic"۔
Javed Askari
About the Author: Javed Askari Read More Articles by Javed Askari: 8 Articles with 6738 views Syndicated Columnist, Political Analyst, Poet and Author, writes "Neemtalh" column 2 to 3 times in a week published in more than 50 Newspapers of Paki.. View More