قاضی عبدالرحمٰن :رستہ دکھانے ولا ستارہ نہیں رہا

 قاضی عبدالرحمٰن1908میں بھٹے وڈ ضلع امرتسر (بھارت )میں پید ہوئے ۔ان کا تعلق ایک ممتاز علمی و ادبی خاندان سے تھا ۔ان کے بزرگوں نے علی گڑھ تحریک اور تحریک خلافت کے قائدین کے ساتھ بھر پور تعاون کیا۔بر عظیم پاک و ہند سے بر طانوی استعمار کے خاتمے اور یہاں کے مسلمان با شندوں کے لیے ایک آزاد اور خود مختار اسلامی مملکت کے حصول کی جد و جہد میں ان کے بزرگوں نے جو قربانیاں دیں وہ ان کے لیے سرمایہ ء افتخار تھا۔قاضی عبدالرحمن نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول امرتسر سے حاصل کی اور انٹر میڈیٹ کا امتحان اسلامیہ کالج لاہور سے پاس کیا یہیں سے تربیت اساتذہ کا امتحان بھی پاس کیا ۔اسلامیہ کالج لاہور کے زمانہ طالب علمی میں وہ ایک پر جوش طالب علم تھے ۔وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرتے تھے اور نماز با جماعت ادا کرتے تھے ۔ اپنے ہم جماعت طالب علموں میں ان کو بہت عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھاجاتا تھا۔اسلامیہ کالج لاہور کے طلبا نے اس عہد میں کئی انتخابی جلوس نکالے اور مسلماں قائدین کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جدو جہد آزادی میں بھر پور حصہ لیا ۔اسی قسم کے ایک انتخابی جلوس میں علامہ اقبال بھی شامل تھے ۔اس کے بارے میں ڈاکٹر عبداﷲ چغتائی نے لکھا ہے :
’’ایک انتخابی جلوس میں علامہ خود بھی شریک ہوئے ۔مجھے یاد ہے کہ جلوس کے دوران میں جب نماز مغرب کا وقت آگیا تو جلوس رک گیا اور قاضی عبدالرحمٰن طالب علم اسلامیہ کالج کی امامت میں نماز پڑھی گئی ۔‘‘(1)

جب آزادی کی صبح درخشاں طلوع ہوئی تو ان کا خاندان پاکستان پہنچا اور عارف والا میں قیام کیا۔ قیام پاکستان سے پہلے ہی قاضی عبدالرحمٰن عارف والا میں مقیم تھے ۔انھوں نے اسلامیہ کالج لاہور سے تعلیم مکمل کی ۔اس کے ساتھ ہی منشی فاضل کا امتحان بھی پاس کیا۔اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ تدریس کے شعبے سے وابستہ ہو گئے اور ضلع ساہیوال کے مختلف ثانوی مدارس میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ قاضی عبدالرحمٰن کے آبا و اجداد نے علم وادب کے فروغ میں ہمیشہ گہری دلچسپی لی ۔شعر وادب سے دلچسپی قاضی عبدالرحمٰن کی گُھٹی میں پڑی تھی ۔انھوں نے علامہ فیروز الدین طغرائی امرتسری ،ڈاکٹر محمد دین تاثیر اور مولانا ظفر علی خان سے اپنے کلام پر اصلاح لی ۔سر سید احمد خان اور ان کے نامور رفقائے کار کی مقصدیت اور اصلاح پر مبنی کاوشوں کو وہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ان کے اسلوب پر مولانا الطاف حسین حالی،شبلی نعمانی ، سید اکبر حسین اکبر الٰہ آبادی ،علامہ اقبال، مولانا ظفر علی خان کے اثرات نمایاں ہیں۔ایک جری تخلیق کار کی حیثیت سے ا نھوں نے اپنے اسلوب میں وقار ،شائستگی ،متانت ،سادگی اور سلاست کو اولیت دی ۔مولانا ظفر علی خان (پیدائش :1873 وفات : 27۔اپریل 1956)نے برطانوی استبداد کے خلاف جس بہادری کے ساتھ جد و جہد کی اسے وہ اسے ملی آزادی کے لیے سنگ میل قرار دیتے تھے ۔بابائے اردو صحافت مو لانا ظفر علی خان کے اخبار ’’زمیندار ‘‘کو وہ جبر کے خلاف حریت فکر کی پیکار کا نام دیتے تھے ۔مولانا ظفر علی خان کی شاعری کے مجمو عوں ’’بہارستان ‘‘،’’نگارستان‘‘ اور ’’چمنستان‘‘ سے ارد وشاعری کی ثروت میں اضافہ ہوا ۔ ان کی یاد کو تازہ رکھنے کے لیے ساہیوال میں ایک سٹیڈیم کو ’’ظفر علی خان سٹیڈیم ‘‘ کا نام دیا گیا ہے ۔مولانا ظفر علی خان کی وفات پر قاضی عبدالرحمٰن کی نظم ’’ظفر علی خان نہیں ملے گا ‘‘جو شور ش کاشمیری کی ادارت میں لاہور سے شائع ہونے والے مجلے ’’چٹان‘‘میں 4۔جنوری 1965کو شائع ہوئی ،ان کے دلی صدمے اور رنج کی مظہر ہے :
ظفر علی خاں کو ڈھونڈتے ہم رہیں گے لیکن نہ پا سکیں گے
بہت کریں گے تو یاد میں اس کی غم کے آنسو بہا سکیں گے
ہزاروں عمریں گزرنے پر بھی یہی فقط ہم بتا سکیں گے
ظفر علی خاں نہیں ملے گا

قاضی عبدالرحمٰن علامہ اقبال سے بڑی عقیدت رکھتے تھے اور انھیں ملت اسلامیہ کے اقبال کی علامت قرار دیتے تھے ۔ 21۔اپریل 1938کو جب علامہ اقبال نے لاہور میں داعیء اجل کو لبیک کہاتو قاضی عبدا لرحمٰن کے دل پر قیامت گزر گئی ۔اگلے روز اپنے جذبات حزیں کو ایک مر ثیے میں پیش کیا اور تزکیہ نفس کی ایک صور ت پیدا کی ۔ وہ جب بھی لاہور جاتے مزار اقبال پر حاضری دیتے اور بادشاہی مسجد میں نماز ادا کرتے ۔سامنے لاہور کے شاہی قلعہ پر نظر پڑتی تو بے اختیار کہتے سیل زماں کے ایک تھپیڑے نے تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلے ہی نیست و نابود کر دئیے ۔علامہ اقبال کی وفات پر ان کا لکھا ہوا ’’مر ثیہ ء اقبال ‘‘جو اردو ڈائجسٹ لاہور کے اپریل 1996کے شمارے میں شائع ہواحکیم الامت کے ساتھ ان کی عقیدت کا مظہر ہے :
ہر بادہ کش کو جس نے کہ بھر بھر پلائے جام
جاری تھا اک جہاں کے لیے جس کا فیض عام
ملک سخن میں جس کا تھا اک منفرد مقام
راوی کو جس کے دم سے ملی شہرت دوام
مدفون ہے وہ مسجد شاہی کے پاؤں میں
ہے محو خواب چادر رحمت کی چھاؤں میں

اپنی ملازمت کا زیادہ عرصہ انھوں نے ٹاؤن کمیٹی ہائی سکول عارف والا میں گزارا ۔1968میں جب وہ ملازمت سے ریٹائر ہوئے تو وہ بہ حیثیت صدر معلم اسی ادارے میں تعینات تھے۔ان کی تخلیقات پاکستان کے اہم علمی و ادبی مجلات کی زینت بنتی رہیں ۔ وہ خیالات کے تنوع ،مضامین کی جدت ،موضوعات کی ندرت اور اسالیب کی تازگی اور شگفتگی کے دلدادہ تھے ۔اپنی تحریروں کے ذریعے انھوں نے عصری آگہی کو پروان چڑھانے کی بھر پور کوشش کی ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے سماج اور معاشرے ،وطن اور اہل وطن اور کائنات کے تمام با شندوں کے ساتھ بے لوث محبت ،خلوص اور درد کا ایک مستحکم رشتہ استوار کرنے کے آرزو مند تھے ۔انھوں نے ہمیشہ زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایات کی پاسداری کی ۔خزاں اور بہار کے آنے اور جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔فرد کی زندگی کے تمام موسموں کا تعلق دل کی کلی کے کھلنے اور مر جھانے سے ہوتا ہے ۔زندگی کی تاب و تواں اور رعنائیاں ہر حال میں اپنے وجود کا اثبات چاہتی ہیں۔قاضی عبدالرحمٰن کے اسلوب میں زندگی کی حرکت و حرارت پورے ولولے کے ساتھ موجود ہے ۔پاکستان کے قومی مسائل کے بارے میں ان کی نظم و نثر پر مبنی تحریریں ’’زمیندار ‘‘،اصلاح (منٹگمری ) ،چٹان (لاہور )،سیارہ ، قندیل ،نوائے وقت ،سیارہ ڈائجسٹ اور اردو ڈائجسٹ میں تواتر سے شائع ہوتی رہیں۔یہ اہم تحریریں ان کے ذوق سلیم کی آئینہ دار ہیں۔ انھیں اس بات کا قلق تھا کہ ہوس نے نوع انساں کو فکری انتشار میں مبتلا کر رکھا ہے ،حق گوئی اور بے باکی کو ترک کر کے لوگوں نے مصلحت کی راہ اپنا لی ہے ۔ چلتے پھرتے ہوئے مُردوں اور جامد و ساکت پتھروں کے سامنے زندگی کے مسائل بیان کرنے پڑتے ہیں ۔المیہ یہ ہوا ہے کہ اس لرزہ خیز کیفیت میں زندگی کی حقیقی معنویت ہی عنقا ہو چکی ہے ۔اگر انسان اپنے انجام پر نظر رکھے تو وہ منزل سے بھٹک کر سرابوں میں خوار و زبوں ہونے سے بچ سکتا ہے ان کی شاعری قلب اورروح کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر کر پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے۔وہ پنجابی کلاسیکی شعرا سے بہت متاثر تھے ۔سلطان باہو ،بلھے شاہ ،خواجہ غلام فرید ،بابا فرید گنج شکر ،شاہ حسین ،میاں محمد بخش اور وار ث شاہ کے کلام کو انھوں نے بڑی توجہ سے پڑھا اوراسے اپنے عہد کی ایک بھر پور آواز سے تعبیر کیا ۔ان تمام شعر ا نے اپنی شاعری میں انسانیت کے وقار اور سر بلندی اور زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کیا ۔قاضی عبدالرحمٰن کی شاعری میں بھی اسی نوعیت کے جذبات کا اظہار ملتا ہے :
تو بھی کر لے سفر کی تیاری
دیکھ تو لد چلے ہیں بنجارے
وہ محلات اب ہیں زیر زمیں
تھے فلک بوس جن کے مینارے

قاضی عبدالرحمٰن ایک قادر الکلام شاعر تھے ۔توحید اور رسالت سے عقیدت اور والہانہ محبت ان کے ریشے ریشے میں سما گئی تھی ۔روحانی اور اخلاقی رفعت ان کی حمدیہ اور نعتیہ شاعری کا امتیازی وصف ہے ۔اسی کے اعجاز سے وہ حق گوئی اور بے باکی کو شعار بناتے ہیں ۔ان کا شعری مجموعہ ’’ ہوائے طیبہ ‘‘جو پہلی بار1981میں شائع ہوا ان کی حدیہ اور نعتیہ شاعری پر مشتمل ہے اس کتاب میں انھوں نے قلبی احساسات ،فکری اور روحانی بصیرتوں اور فنی تجربات کے امتزاج سے ایک دھنک رنگ منظر نامہ پیش کیا ہے ۔تخلیق فن کے لمحوں میں ان کے قلب و ذہن میں توحید اور رسالت کے مبارک تصورسے تطہیر و تنویر کی جو ایمان افروز وجدانی کیفیت پیدا ہوتی ہے اس کی پورے خلوص کے ساتھ لفظی مرقع نگاری کی گئی ہے ۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں آشوب زیست میں سر گرداں انسانیت کے تمام مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ توحید و رسالت کی تعلیمات کو زاد راہ بنا کر زندگی کا سفر طے کیا جائے ۔آج معاشرتی زندگی جس لرزہ خیز ،اعصاب شکن اور تباہ کن انتشار ،خلفشار ،تشکیک ،دہشت گردی ،ہوس زر اور خود غرضی کی زد میں آ چکی ہے اس کے مسموم اثرات نے تہذیبی ،ثقافتی اور ملی اقدار و روایات کو نا قابل ِتلافی نقصان پہنچایا ہے ۔قاضی عبدا لر حمٰن کی شاعری میں اس جانب متوجہ کیا گیا ہے کہ اگر آج بھی ایمان کامل پیدا ہو جائے تو آگ انداز گلستاں پیدا کر سکتی ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ذات اور مفادات کے حصار سے نکل کر توحید و رسالت کی پناہ میں زندگی بسر کی جائے ۔نظام ہستی چلانے والی عظیم ہستی اور اپنے معبود کے حضور نذرانہ ء حمد پیش کرتے ہوئے قاضی عبدالرحمٰن نے لکھا ہے :
اے خالق کل دو جہاں کے والی
ہر شان ہے تری لا یزالی
ہیں تیرے جلال نے مٹائے
عاد اور ثمود جیسے غالی
آیا ہوں میں تیرے در پہ مولا
لے کے اپنی تباہ حالی

اپنے اسلوب میں قاضی عبدالرحمٰن نے عشق رسولﷺ کو کلیدی اہمیت کا حامل قرار دیا ہے۔عشق رسولﷺ کے فیض عام سے حضرت بلال حبشی ؓ کو دوام مل جاتا ہے جب کہ اس عشق کی تمازت سے محروم سکندر تمام قوت و ہیبت کے باوجود سیل زماں کے تھپیڑوں میں خس و خاشاک کے ما نند بہہ گیا ۔عشق رسول ﷺ کی قوت ہر پست کو بالا کرنے پر قادر ہے ۔ان کے اسلوب میں جمالیاتی حس قاری کو مسحور کر دیتی ہے ۔عقیدت کے جذبے سے سر شار ہو کر وہ حسن حقیقی کے کے جلووں کی جس فنی مہارت سے لفظی مرقع نگاری کرتے ہیں اس سے قاری کو جمالیاتی سوز و سرور اور سکون قلب کی دولت میسر آتی ہے ۔آج کے دور میں فرد کو انتشار ،دہشت گردی اور اندیشہ ہائے دور دراز نے اپنے نرغے میں لے رکھا ہے ۔پنے اسلوب میں انھوں نے زندگی کے جملہ اسرر و رموز کی مو ثر تنظیم اور شیرازہ بندی پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ۔ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے انھوں نے تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگ سنگ میں اترنے کی جو سعی کی ہے اس کے نتیجے میں ان کے اسلوب میں جذباتی ،روحانی اور نفسیاتی عوامل کے بارے میں مثبت شعور کو پروان چڑھانے میں مدد ملتی ہے ۔ان کی نعتیہ شاعری میں ان تمام امور کی عکاسی ہوتی ہے :
نگہ بلند رہی ان کی کیف اور کم سے
ترے غلام بڑھے مرتبہ میں ہر جم سے
بنایا خاک نشینوں کو تو نے سِدرہ شناس
ثریٰ کو شان ثریا ملی ترے دم سے
جہاں میں آنا ترا وجہ صد سکوں ٹھہرا
ملی نجات زمانے کو حزن اور غم سے

اس دور کی ظلمت میں ہر قلب پریشاں کو توحید و رسالت کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے سکون قلب کی دولت مل سکتی ہے ۔اضی عبدالرحمٰن کی شاعری میں تو حید اور رسالت کے ساتھ قلبی لگاؤ قارئین کے لیے ایمان افروز تجربے کا نقیب ہے۔یہی روحانی تجربہ ہر انسان کے لیے پیام نو بہار کی نوید لاتا ہے ۔اسی کے معجز نما اثر سے سفاک ظلمتیں کافور ہو جاتی ہیں اور طلوع صبح بہاراں کے امکانات روشن تر ہوتے چلے جاتے ہیں ۔توحید و رسالت کی تعلیمات کے فروغ کو قاضی عبدالرحمٰن نے اپنا نصب العین بنا رکھا تھا ۔وہ اس بات کا بر ملا اظہار کرتے تھے کہ کہ جب انسانیت پریشاں حالی و درماندگی ،حسرت ویاس اور ہجوم غم میں گھر جاتی ہے تو اس وقت تو حید و رسالت ہی کے سائے میں پناہ ملتی ہے ۔ ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے قاضی عبدالرحمٰن نے اپنے اسلوب میں اصلاح اور مقصدیت کو ہمیشہ اولیت دی ۔وہ ادب کے وسیلے سے زندگی میں وحدت ،تنظیم ،قوت ،مقصدیت ،جاذبیت اور بصیرت کو پروان چڑھانے کے آرزومند تھے ۔قیام پاکستان کے بعد حالات نے جو رخ اختیار کیااس پر ان کی گہری نظر تھی ۔ان کے اسلوب میں قومی اور ملی اقدار کے تحفظ پر خصوصی توجہ دی گئی ہے ۔

اپنے سب ملنے والوں کے ساتھ اخلاق اور اخلاص سے لبریز سلوک کرنا قاضی عبدالرحمٰن کا معمول تھا۔وہ خو ش اخلاقی ،دیانت داری ،خلوص ،دردمندی اور انسانی ہمدردی کو ایک فرض اور نیکی سے تعبیر کرتے ۔یہ نیکیاں ایسی ہیں جن کے حصول کے لیے کسی ریاضت اور تپسیا کی ضرورت نہیں۔معاشرتی زندگی میں ان نیکیوں کے فراواں مواقع میسرہیں۔عارف والا کے علاقے میں قاضی عبدالرحمٰن نے نصف صدی تک جو تدریسی ،سماجی ،معاشرتی ،رفاہی اور قومی خدمات انجام دیں ان کا ایک عالم معترف ہے ۔ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے قاضی عبدالرحمٰن نے وطن اور اہل وطن کی مقدور بھر خدمت کی ۔وہ چاہتے تھے کہ اس علاقے میں نئی نسل کو حصول تعلیم کے فراواں مواقع میسر آئیں ۔وہ عارف والا میں اسلامیہ ڈگری کالج کے بنیاد گزاروں میں شامل تھے ۔1970میں جب عارف والا میں اسلامیہ ڈگری کالج نے روشنی کے سفر کا آغاز کیا تو اس علاقے کے طلبا میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔اس تعلیمی ادارے نے نئی نسل کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کیا اور جلد ہی ترقی کے مدارج طے کر کے یہ انٹر کالج ڈگری کالج بن گیا ۔قاضی عبدالرحمٰن کا شمار عالمی شہرت کے حامل پاکستان کے نامور ماہرین تعلیم میں ہوتا تھا ۔تعلیمی انصرام ،نصاب سازی ،امتحانات اور تدریسی مسائل کے بارے میں ان کی وقیع رائے کو ہمیشہ مستند سمجھا جاتا تھا۔تربیت اساتذہ کے تعلیمی اداروں میں ان کے توسیعی لیکچرز سے نو آموز اساتذہ نے ہمیشہ بھرپور استفادہ کیا۔آج بھی کمالیہ،گکھڑ ،پنڈورا (راول پنڈی )ملتان ،فیصل آباد ،چنیوٹ اور سرگودھا کے تربیت اساتذہ کے اداروں میں ان کے دبنگ لہجے کی باز گشت سنائی دیتی ہے ۔25۔اپریل 1990کی شام علم و ادب کا یہ آفتاب جہاں تاب پوری دنیا کو اپنی افکار کی ضیا پاشیوں اور علمی خدمات سے بقعہء نور کرنے کے بعد عارف والا میں غروب ہو کر عدم کی بے کراں وادیوں میں اوجھل ہو گیا ۔عارف والا کے شہر خموشاں کی زمین نے علم و ادب ،تدریس و تربیت اور انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے اس آسمان کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چھپا لیا۔ان کی قومی خدمات کے اعتراف میں ان کے مکان کے سامنے سے گزرنے والی سڑک کا نام ’’قاضی عبدالرحمٰن روڈ ‘‘ رکھ دیا گیا۔ مایہ ناز شاعر یو نس متین نے اپنی نظم ’’ قاضی عبدالرحمٰن روڈ ‘‘ (مطبوعہ سہ ماہی فنون لاہور شمارہ :121)میں اس عظیم انسان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے :
شعور ِ انسانیت کی صبح ِ اذاں کی سطوت
میں سیر کرتا اسی سڑک پر رواں دواں ہوں
کہ جس سے پیہم
وہ اک مرد قلندر مزاج ،روشن صفات تھا منحرف
مگر جب ۔۔۔۔۔
وہ سانس کی ڈور سے کٹا تو
مرے زمانے نے اس سڑک کو اُسی سے منسوب کر دیا ہے

اپنی زندگی کے حسین ترین دن عارف والا کے لوگوں کی تعلیم و ترقی کی نذر کرنے کے بعد یہ یگانہء روزگار فاضل نشیب زینہ ء ایام پر عصا رکھتا زینہ ء ہستی سے اتر گیا ۔ تقدیر کے چاک کو سوزن تدبیر سے کبھی رفو نہیں کیا جا سکتا۔جس دانش ور نے لاکھوں طلبا کی خاک کو اکسیر کر دیا وہ خود پیوند خاک ہو گیا۔ وہ با کمال ماہر تعلیم جس نے اس علاقے کے لاکھوں نوجوانوں کو ذرے سے آفتاب بننے کے مواقع فراہم کیے ،ماضی کا حصہ بن گیا ۔اسی کا نام تو تقدیر ہے جو ہر لمحہ ہر گام انسانی تدابیر کی دھجیاں اڑا دیتی ہے ۔وقت کی مثال بھی پانی کے ایک ایسے تند و تیز دھارے کی سی ہے جس کی لہریں ایک بار گزر جائیں تو کوئی بھی شخص اپنی شدید تمنا اور سخت جد و جہد کے با وجود دوبارہ ان کے لمس سے کبھی فیض یاب نہیں ہو سکتا۔پنجاب کے ا س دور افتادہ علاقے کے نو جوانوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے سلسلے میں انھوں نے جو گراں قدر خدمات انجام دیں ان کے بار احسان سے اہل وطن کی گردنیں ہمیشہ خم رہیں گی ۔عارف والا کا ذکر کرتے تو ان کی آنکھوں میں ایک نورانی چمک پیدا ہو جاتی ۔مخدوم محی الدین کے یہ اشعار عارف والا کے بارے میں ان کی قلبی کیفیات کی ترجمانی کرتے ہیں:
یہیں کی تھی محبت کے سبق کی ابتدا میں نے
یہیں کی جراٗتِ اظہار ِحرف ِمدعا میں نے
یہیں دیکھے تھے عشوے ناز و انداز ِ حیا میں نے
یہیں پہلے سنی تھی دل دھڑکنے کی صدا میں نے
یہیں کھیتوں میں پانی کے کنارے یاد ہے اب بھی
نہ اب وہ کھیت باقی ہیں نہ وہ آب رواں باقی
مگر اس عیش رفتہ کا ہے اک دھندلا نشاں باقی

قاضی عبدالرحمٰں کی وفات پر ہر آنکھ اشک بار تھی اور ہر دل سو گوار تھا۔ان کی نماز جنازہ میں ہزاروں لوگ شامل تھے۔ان میں اساتذہ اور طلبا کی کثیر تعداد شامل تھی ۔یہ سب عارف والا، ساہیوال ،ملتان جھنگ، کمالیہ ،چیچہ وطنی ،پاکپتن ،کبیروالا اور لاہور سے آئے تھے ۔اس علاقے میں اتنی بڑی تعداد میں اپنے آنسوؤں اور آہوں کی صورت میں اپنے جذبات حزیں کا نذرانہ پیش کرنے والے سوگواروں کا یہ بہت بڑا اجتماع تھا۔ تعلیمی ادارے اہم کاروباری اور تجارتی مراکز بند ہو گئے ،شہر کا شہر سوگوار تھا۔
اﷲ کریم نے قاضی عبدالرحمٰن کو جس بصیرت سے متمتع کیا تھا اس کے اعجاز سے وہ ایک صاحب باطن ولی کے منصب پر فائز تھے ۔قیام پاکستان کے بعد اس مملکت خدادا کے نئے وفاقی دار الحکومت کے لیے راول پنڈی کے نزدیک مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں جگہ کا انتخاب ہو ا تو اس شہر کے لیے نام تجویزکرنے کے لیے حکومت کی طرف سے دعوت عام دی گئی ۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے اس اہم مشاورت میں حصہ لیا۔ملک کے طول و عرض سے پاکستان کے نئے وفاقی دار الحکومت کے لیے بے شمار نام تجویز کیے گئے لیکن قاضی عبدالرحمٰن کا تجویز کردہ نام ’’اسلام آباد ‘‘منتخب کر لیا گیا۔یہ وہ اعزاز ہے جس میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں ۔
کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق
ہے مکر ر لب ساقی پہ صلا میرے بعد

پاکستان کے وفاقی دارالحکومت کا ماسٹر پلان 1951میں قائم ہونے والی یونان کے معروف تعمیراتی ادارے ڈوکسی ایڈس ایسوسی ایٹس (Doxiadis Associates)نے تیار کیاتھا۔اس شہر کا نام قاضی عبدالرحمٰن نے تجویز کیا ۔اس کاذکر انسائیکلو پیڈیاپاکستان کے صفحہ 651،اور پاکستان کر و نیکل کے صفحہ 170پر بھی کیا گیاہے ۔ پاکستان کے ممتاز ادارہ نوائے وقت لاہور کے زیر اہتمام شائع ہونے والے ہفت روزہ مجلے ’’قندیل ‘‘نے اس سلسلے میں ایک انعامی مقابلے کا اہتمام کیا پاکستان کے نئے وفاقی دار الحکومت کا نام تجویز کرنے کی دعوت عام ہفت روزہ قندیل ،لاہور میں 19۔جولائی 1959کو شائع ہوئی ۔قاضی عبدالرحمٰن نے ’’قندیل ‘‘میں یہ نام تجویز کیا تھا اس لیے ادارہ قندیل کی جانب سے انھیں ایک ہزار روپے کا انعام دیا گیا۔ (2ٌ) لاہور سے شائع ہونے والے اردو اخبار نوائے وقت کے مدیر مجید نظامی نے اسی زمانے میں اپنے ایک مکتوب میں قاضی عبدالرحمٰن کو پاکستان کے وفاقی دار الحکومت کانام اسلام آباد تجویز کرنے پر مبارک باد دی ۔ ایوان صدر اورحکومت پا کستان کی طرف سے پاکستان کے وفاقی دار الحکومت کا نام ’’اسلام آباد ‘‘ تجویز کرنے پر قاضی عبدا لرحمٰن کو ایک پلاٹ دینے کا تحریری وعدہ کیا گیا ۔(3) اس کے بعد وہی کچھ ہوا جو کہ اس ملک کی بیورو کریسی کا وتیرہ ہے ۔سب وعدے ،یقین دہانیاں ،احکام اور فرمان متعلقہ عملے شقاوت آمیز نا انصافی اور ظالمانہ بے حسی کی بھینٹ چڑھ گئے ۔ المیہ یہ ہے کہ اس بے حس معاشرے میں جاہل تو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے اپنی جہالت کا انعام لے جاتا ہے مگر حساس اور زیرک تخلیق کار کا کوئی پرسان حال ہی نہیں۔وقت کے ایسے حادثے اور انہونی کو کس نام سے تعبیر کیا جائے ۔ قاضی عبدالرحمٰن نے صبر اور قناعت کا دامن تھام کر وقت گزار ا اور کبھی حر ف شکایت لب پر نہ لائے ۔پاکستان کے قومی اخبارات میں ناموردانش وروں اور کالم نویسوں نے حکومت پاکستان کی توجہ اس پیمان شکنی کی جانب مبذول کرائی اور قاضی عبدالرحمٰن کو ان سے کیے گئے وعدے کے مطا بق اسلام آباد میں پلاٹ دینے کی درخواست کی ۔اس موضوع پر مجیب الرحمٰن شامی نے 4۔اگست 1984کو نوائے وقت لاہور میں شائع ہونے ولے اپنے کالم ’’جلسہء عام ‘‘میں لکھاکہ جس مستقل مزاجی سے اسلام آباد میں دار الحکومت کا ترقیاتی ادارہ (سی۔ ڈی ۔ اے) کی انتظامیہ قاضی عبدالرحمٰن کو پلا ٹ دینے سے مسلسل انکار کررہی ہے ،اس کا نوٹس لینا چاہیے ۔اپنے کالم میں انھوں نے متعلقہ حکام کی غفلت پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا اور حکام کی بے حسی پر طنز کرتے ہوئے لکھا :
’’جناب صدر پاکستان کی خدمت میں گزارش ہے کہ اس ’’عظیم تاریخی استقلال پر ‘‘سی۔ ڈی ۔ اے کے متعلقہ کار کنوں کو نشان امتیاز مر حمت فرمائیں۔محتسب بھی انھیں شاباش دیں ۔تمام سرکاری اور نیم سرکاری محکمے اس مثال سے سبق حاصل کر سکتے ہیں اور تاخیری حربے سیکھنے کے لیے ان افراد کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کر سکتے ہیں‘‘(4)

نامور صحافی جمیل احمد عدیل نے روزنامہ ’’دن ‘‘ لاہور میں اپنے کالم ’’بر جستہ ‘‘میں 24نومبر 2001کو قاضی عبدالرحمٰن کی خدمات کو سراہتے ہوئے ان کے اس اعزاز کے بارے میں متعلقہ حکام کی توجہ مبذول کرائی ۔ممتاز صحافی جاوید چودھری نے روزنامہ ایکسپریس لاہور میں شائع ہونے والے اپنے کالم ’’زیرو پوائنٹ ‘‘میں 21جولائی 2013کو لکھا:
’’اسلام آباد کا نام عارف والا کے ایک ہیڈ ماسٹر عبدالرحمٰن نے تجویز کیا ۔ہم اسلام آباد کی کوئی عمارت ان کے نام سے منسوب کر سکتے ہیں اور اس عمارت کو بھی اسلام آباد کی تاریخ اور ہیڈ ماسٹر عبدالرحمٰن کی تصویروں کی یادگار بنا سکتے ہیںَ‘‘(5)

روزنامہ نوائے وقت ،لاہور میں ایک ادارتی نوٹ میں حکومت پا کستان کی توجہ قاضی عبد الرحمٰن کو پاکستان کے وفاقی دا ر الحکومت کا نام تجویز کرنے پر حکومت کی جانب سے اسلام آباد میں پلاٹ دینے کے وعدے کے ایفا کے سلسلے میں مدیر نے لکھا:
’’قاضی عبدالرحمٰن کو اسلام آباد میں پلاٹ دینے کا وعدہ ان کی طرف سے کسی طلب کے بغیر حکومت و مملکت کے سر براہ نے کیا تھا جسے بہ ہر صورت پورا کرنا چاہیے اور غیر معمولی تاخیر کی تلافی جلد از جلد مثبت کارروائی سے کر دینی چا ہیے ۔حکمرانوں کی تبدیلی سے با ضابطہ وعدے ختم نہیں ہو جاتے بل کہ برقرار اور موثر رہتے ہیں جو حکومت سرکاری اور تحریر ی طور پر کرتی ہے ۔‘‘(6)

حیف صد حیف کہ کہ یہ سب وعدے سرخ فیتے کی روایتی بے حسی کی بھینٹ چڑھ گئے اورقاضی عبدالرحمٰن کو وعدے کے مطابق پلاٹ نہ مل سکا ۔یہاں تک کہ 25۔اپریل1990کو وہ اپنے آخری سفر پر روانہ ہو گئے ۔کسی نے آج تک ان کے پس ماندگان سے ان کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا ۔منیر نیازی نے بے حسی کے اس نوعیت کے المیے کے بارے میں لکھا تھا:
تمام عمر رہ رفتگاں کو تکتی رہے
کسی بھی آنکھ میں اتنا تو دم نہیں ہوتا
وہ بے حسی ہے مسلسل شکست دل سے منیر
کوئی بچھڑ کے چلا جائے غم نہیں ہوتا

قاضی عبدالرحمٰن کی وفات سے تاریخ کا ایک باب اپنے اختتام کو پہنچا ۔تاریخ ہر دور میں ان کی خدمات اور قابل صد احترام نام کی تعظیم کرے گی ۔ان کی نماز جنازہ میں ملک بھر سے نامور علمی و ادبی شخصیات نے شرکت کی ان میں محمد شیرافضل جعفری،سید جعفر طاہر ،سید مظفر علی ظفر ،امیر اختر بھٹی ،محمد فیروز شاہ ،غلام علی خان چین ،حاجی محمد یوسف ، چودھری ظہور احمد شائق ،رجب الدین مسافر ،تقی الدین انجم (علیگ )، عبدالستار چاولہ ،رام ریاض ، محسن بھوپالی ،سید عبدالباقی (عثمانیہ)،مرزا معین تابش ،دیوان الیاس نصیب میر تحمل حسین جعفری ،مہر محمد امیر خان ڈب ،عبدالحلیم انصاری ،میاں رب نواز بھٹی ،میاں علی محمد اور فیض محمد خان ارسلان کے نام قابل ذکر ہیں۔قاضی عبدالرحمٰن کی وفات پر ان کے بیٹے قاضی حبیب الرحمٰن نے اپنے جذبات حزیں کا اظہار ایک رثائی غزل میں کیا :
اب کہاں پہلا سا وہ رنگِ محبت دیکھنا
اڑ رہی ہے صحنِ دل میں خاکِ وحشت دیکھنا
رات کے پچھلے پہر جب دفترِ امکاں کُھلے
دیر تک بے حرف لفظوں کی عبارت دیکھنا
آئنہ در آئنہ اُتری ہیں کیا کیا صورتیں
دائرہ در دائرہ اک رقصِ حیرت دیکھنا
آنکھ کیا کھولی درِ شہر تمنا کُھل گیا
دردِ تازہ کار کی گھر گھر اشاعت دیکھنا
جلتی بُجھتی ساعتوں کے درمیاں ،اے ذوقِ دید !
رنگ ِوصلت دیکھنا ،نیرنگ ِ ہجرت دیکھنا
کس کے روکے ُرک سکا ہے سیلِ دریائے وجود
کس کے ٹالے ،ٹل سکا ہے وقت ِرخصت دیکھنا
یوں بھری محفل سے ُاٹھ جانا تری عادت نہ تھی
اپنی قسمت تھا مگر روزِ قیامت دیکھنا
تیرے زیر ِ سایہ ،یہ ہر گز پَنپ سکتا نہ تھا
اب زمینِ دل میں نخلِ غم کی نشات دیکھنا
میں کہ اک درماندہ رہرو ہوں ،مجھے معلوم ہے
ایک اک لمحے میں صدیوں کی مسافت دیکھنا
کیسے کیسے لوگ تھے ،پل میں فسانہ بن گئے
اپنی جانب بھی ذرا۔اہلِ بصیرت دیکھنا
دل پہ پڑتی ہے براہ ِراست ،ضرب اس کی حبیب
کس قدر سفاک ہے ،تیغِ مودت دیکھنا

سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے موجودہ زمانے میں فکر و خیال کی کایا پلٹ گئی ہے ۔افکار تازہ کے سیل رواں میں توہمات اور خام خیالی پر مبنی فرسودہ تصورات خس و خاشاک کی طرح بہہ گئے ہیں ۔آج قارئین ادب جس طرح افکار تازہ کی مشعل تھام کر جہان تازہ کی جانب سر گرم سفر ہیں یہ سب کچھ ہمارے بزرگوں کی فکری کاوشوں کا ثمر ہے۔قاضی عبدالرحمٰن نے نصف صدی تک خون جگر سے گلشن ادب کو سیراب کیا ۔تمام زندگی ستا ئش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے پرورش لوح و قلم کا فریضہ انجام دیا ۔شعر و ادب میں خیالات ،احساسات ،موضوعات ،تخلیقی تجربات اور اظہار و ابلاغ کے نئے معائر کی جستجو مین ان کی دلچسپی آج بھی فکر و نظر کو مہمیز کرتی ہے ۔انھیں استاد الاساتذہ کا درجہ حاصل تھا ،اس لیے ان کی اصلاحی کاوشیں ہر دورمیں اہل نظر کو متوجہ کرتی رہیں گی ۔زندگی کی برق رفتاریوں نے حالات کو ایک نیا رخ عطا کیا ہے ۔ان کے پیش نظر زندگی کی نئی اور حقیقی معنویت کی تفہیم پر توجہ دے کر قاضی عبدالرحمٰن نے قابل قدر کام کیا ہے ۔

قاضی عبدالرحمٰن اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔انھوں نے اس قدر دور اپنی بستی بسا لی ہے کہ اب یاد رفتگاں کے سو اکچھ بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ان کی رحلت یک ایسا درد لا دوا ہے جس کا مداوا سوائے صبر کے ممکن ہی نہیں ۔وہ عظیم ہستیاں جنھیں ہم دیکھ دیکھ کر جیتے ہیں جب ہمیں دائمی مفارقت دے جاتی ہیں تو حوصلے اور صبر کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ۔بالآخر مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے، اسی کا نام تو تقدیر ہے ۔مجید امجد نے مصیبت میں صبر کے حوالے سے واقعہء کر بلا کی مثا ل پیش کرتے ہوئے کہا تھا :
سلام ان پہ تہِ تیغ بھی جنھوں نے کہا
جو تیرا حکم جو تیری رضا جو تو چاہے

درد مندوں ،مصیبت زدہ لوگوں اور ضعیفوں سے بے لوث محبت کرنے والے اس عظیم انسان کی یادیں فضاؤں میں اس طرح پھیلی ہوئی ہیں کہ جس سمت بھی نظر اٹھتی ہے ان کی پر کیف یادوں کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے ۔ ان کی نیکیاں ،خوبیاں اور علمی و ادبی خدمات انھیں تاابد زندہ رکھیں گی ۔فروغ علم کے سلسلے میں ان کی فقیدالمثال خدمات کی وجہ سے جریدء عالم پر ان کا دوام ثبت رہے گا ۔ ان کی یادیں ہی اب سرمایہ ء حیات ہیں۔یہ حسین یادیں خورشید جہاں تاب کی شعاعوں کے مانند اندھیروں کی دسترس سے دور سدا روشنی کے سفر میں رہیں گی۔ ان کی پیشین گوئی درست ثابت ہوئی ہے ،ان کی وفات کے بعد ان کی اولاد نے بزم وفا سجا رکھی ہے اور یہ نئے تارے افق علم و ادب کے افق پر نئی تابانیوں کے ساتھ اُبھرے ہیں۔ان با صلاحیت اور پر عزم نو جوانوں نے روشنی کے اس سفر کو جاری رکھا ہوا ہے جس کا آغاز قاضی عبدالرحمٰن نے کیا تھا ۔ عبدالمجید سالک کے یہ اشعار میرے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں:
چراغِ زندگی ہو گا فروزاں ہم نہیں ہوں گے
چمن میں آئے گی فصلِ بہاراں ہم نہیں ہوں گے
ہمارے ڈُوبنے کے بعد اُبھریں گے نئے تارے
جبینِ دہر پر چھٹکے گی افشاں ہم نہیں ہو ں گے
ہمارے دور میں ڈالیں خِرد نے اُلجھنیں لاکھوں
جنوں کی مُشکلیں جب ہوں گی آساں ہم نہیں ہوں گے
مآخذ:
(1) ڈاکٹر محمد عبداﷲ چغتائی :اقبال کی صحبت میں ،مجلس ترقی ادب ،لاہور ،صفحہ 179۔
(2)مولانا محمد اسماعیل ذبیح :اسلام آباد ۔منزل مراد ،القلم اسلام آباد ،طبع دوم ،صفحہ 139۔
(3)Govt.Of Pakistan NO.FCC-15(10)/59 R.Pindi The 15 th April 1960
(4)مجیب الرحمٰن شامی : قاضی صاحب کا ایک پلاٹ ،کالم جلسہ ء عام ،روزنامہ نوائے وقت لاہور ،4۔اگست 1984صفحہ 2۔
(5)جاوید چودھری :سیاحت ،مشمولہ کالم ’’زیرو پوائنٹ ‘‘ روزنامہ ایکسپریس ،لاہور ،21۔جولائی 2013،صفحہ 4۔
(6)مدیر نوائے وقت :’’یہ سرکاری وعدہ پورا ہونا چاہیے ‘‘ادارتی نوٹ ،اشاعت 20۔ستمبر1984،صفحہ 4۔
Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 614133 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.