بدوہ سارے ہیرو ہیں
اور ہم سارے بزدل ہیں ، وہ ہیرو اس لیے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے اپنے
چہروں پہ لہو لگایا اور وہ شہیدوں میں شامل ہو گئے اور ہم بزدل اس لیے ہیں
کہ ہم کل بھی گم نام تھے اور آج بھی گم نام ہیں . نہ تو کوئی ہماری بہادری
کی تاریخ لکھے گا اور نہ ہی آنے والی نسلوں کو پتہ چلے گا کہ ہم کن تاریک
راہوں میں مارے گئے مگر سب کو یہ علم ہو گا کہ اسلام آباد ، لاہور ، کراچی
اور پشاور میں کتنے کاغذی شیر تھے اور ان کے کارنامے کیا کیا تھے . میں اگر
پاکستان کے تحفظ کی جنگ پاکستان میں لڑتے ہوۓمارا جاتا ہوں تو ایک چھوٹی سی
تقریب کے بعد میں ان لاکھوں گم نام چراغوں کی طرح صرف آزادی کی سالمیت کا
دیپ بن جاؤں گا جو جلتے ہیں اور اپنے نور سےا وروں کو بھی منور کرتے ہیں ،
اگر مجھے پاکستان سے باہر پاکستان کے مفاد کی خاطر جان دینی پڑ گئی تو ہو
سکتا ہے کہ پاکستان کی حکومت میری لاش بھی قبول نہ کرے کیونکہ میں ایک
خاموش سپاہی تھا . میں افغانستان میں خاموش سپاہی تھا اور میں سیاچن کی
سفید خاموشی کا بھی پاسدار تھا ، میں نے کشمیر کے پہاڑوں کا بھی دفاع کیا
اور میں سندھ کے صحراؤں میں بھی ہمیشہ چاک و چوبند رہا ، میں نے بلوچ ہونے
کا حق بھی ادا کیا اور میں خیبر کے پختونوں کی آزادی کے لیے قربان بھی ہوتا
رہا . میں نے پنجاب کی جانب اٹھنے والی ہر آنکھ کو پھوڑ ڈالا اور میں نے
سمندروں سے فضاؤں تک جہاں جہاں میرا وطن ہے اور جہاں اس کی زمینی ، فضائی
اور سمندری سرحدیں ہیں وہاں اپنے لہو کے بندلے میں اپنی وطن کی آزادی کی
حفاظت کی، مگر پھر بھی وہ ہیرو ہیں .....!
وہ اداس ہیں کہ بال ٹھاکرے مر گیا ، ان کے حلق سے نوالہ نہیں اتر رہا
کیونکہ راجیش کھنہ نہیں رہا ، انھیں پریشانی ہے کہ کاجل اور ایشوریا کی نئی
فلمیں نہیں آ رہیں .......... ایم ایم عالم کو وہ بھول سکتے ہیں مگر انھیں
دلی اور بمبئی کی بارشیں یاد رہتی ہیں. کون ہے جو اس قدر پریشان ہے اور اسے
انڈیا کا اتنا غم ہے ؟
یہ ہیں وہ ہیرو جو پچھلے دس بارہ سال میں ابھرے ، یہ ہیں میڈیا کے وہ گھوڑے
جو ریس میں دوڑتے ہیں اور ان کی بولیاں جہاں جہاں لگتی ہیں یہ وہاں کے گن
گاتے پگھلتے ، روتے اور رلاتے ہیں . یہ ہیرو پاکستان کے میڈیا کے وہ طالبان
ہیں جو امن کی آشا کے دیپ جلاتے جلاتے اپنا گھر ہی اس میں جھونکنے کی کوشش
میں لگےہوۓ ہیں . کیا اس بھارتی در اندازی کا کوئی سدباب ہے؟ کیا یہ ممکن
ہے کہ میرے لہو سے جلنے والے دیپ ہمیشہ روشن رہیں ..........؟ یہ وہ ساری
صدائیں ہیں جو میرے بیتر سے اٹھ رہی ہیں اور عظمت پاکستان پہ قربان ہونے
والے شہدا آج میری طرح مجھے یقین ہے کہ ان سب سے یہ سوال پوچھ رہے ہونگے جو
ان کے بعد ان کے وارث بنے اور آج وہ بھی اپنی وردی کی لاج رکھتے ہوۓ اور اس
قسم کا پاس رکھتے ہوۓ کہ جو انہوں نے اس وردی کو پہنتے ہوۓ اٹھائی تھی ضرور
جواب دیں گے .
پچھلے کچھ دنوں کے واقعات بہت پریشان کن ہیں ، آج کی تاریخ تک بہت سے کالم
نگاروں ، مبصروں اور صحافیوں نے "شہید کون ہے ؟" کے بے تکے مباحثے سے بہت
سی ریٹنگ اور سوشل میڈیا پر شہرت حاصل کی اور سب کی کوشش رہی کہ جلتے ہوۓ
شعلوں پر اور تیل ڈالا جائے اور جتنا ہو سکے فوج اور سیاسی جماعتوں کو
لڑایا جائے . یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں ایک ٹی وی چینل پر کام کرنے والے
اہلکار کی تنخواہ وہ ادارہ اپنی اشتہاری کمائی سے ادا کرتا ہے یا پھر اس
آمدنی سے جو پوشیدہ را ستوں سےآتی ہے اور یہ مدد دینے والے اپنا کام ایسے
نکلواتے ہیں کہ سالوں یہ معلوم کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ نفرت کا بیج کس نے
کب بویا اور ان کے اس کارنامے کے پیچھے کیا مقاصد تھے .
اگر یہ بات سمجھنا مشکل ہو تو میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں فرض کریں آپ کی
کسی سے ناچاکی ہے اور آپ کا مد مقابل مضبوط، باکردار اور ہاہمت شخص ہے اور
وہ آپکے قابو میں نہیں ہے تو آپ کیا کریں گے ؟ بہت آسان ہے ، آپ ایک کاغذ
پر اس شخص کے خاندان اور اس کے متعلق کچھ ایسا لکھیں جس سے اس کی شہرت اور
اس کے خاندان کی عزت خاک میں مل جائے . پھر اس کاغذ کی کچھ سو نقلیں
بنوائیں اور انہیں اس علاقے میں ہر گھر میں دروازے سے اندر ڈال دیں جہاں وہ
شخص رہتا ہو تو وہ کام جو ایک فوج نہیں کر سکتی آپکا یہ چھوٹا سا خط کر دے
گا . اگر یہ مثال بھی مشکل ہو تو میں میں آپکو ایک اور آسان مثال دیتا ہوں
. پاکستان کا کل رقبہ سات لاکھ چھیانوے ہزار ستانوے مربع کلو میٹر ہے
پاکستان میں کروڑوں لوگ بستے ہیں اور ان کروڑوں لوگوں کی نظروں میں پاکستان
ایک گھر نہیں مسجد ہے اور جیسے مسجد کا احترام کیا جاتا ہے ایسے ہی اس ملک
کے شہری اس کی قدر کرتے ہیں . بہت سال بھارت اور پاکستان دشمن ممالک کی یہ
کوشش تھی کہ کسی طرح سے اس مسجد کی عظمت کو نقصان پہنچایا جائے . اگر ہم
آزادی پاکستان سے اب تک مختلف ادوار میں دیکھیں تو ہر دور میں کسی نہ کسی
طرح پاکستانیوں کو پاکستان سے بدظن کرنے کے لیے بہت سی کوششیں کیں گئیں .
یہ کوششیں محدور تھیں اور اس قدر کارگر نہ تھیں کہ عوام میں پاکستان کےلیے
نفرت پیدا ہوتی . وقت گزرتا گیا اور دشمن اپنے پینترے بدلتا رہا .
دشمن کی سب سے اہم کوشش یہ تھی کہ اس مسجد کے نگہبانوں اور محافظوں یعنی
افواج پاکستان کو کسی طرح عوام میں غیر مقبول کیا جائے اور فوج اور عوام
میں ایک خلیج اس قدر طویل ہو جائے کہ عوام فوج کے خلاف سڑکوں پر آئیں اور
ان سے نفرت کرے . مگر یہ وردی اس قدر جادوئی اثر رکھتی ہے کہ جب جب اس کے
خلاف سازشیں ہوئیں تب تب اسے اتنی پزیرائی ملی کہ نوجوانوں نے اپنا گرم لہو
مادر وطن پہ نچھاور کرنے کے لے نہ صرف اسے منتخب کیا بلکہ کبھی بھی ایسی
صورتحال پیش نہیں آئی کہ فوج کو عوام میں آ کر مہم چلانی پڑتی کہ وہ کسی
مادی فائدے کی خاطر اس میں شمولیت اختیار کریں . جہاد فی سبیل الله اور
ایمان یقین و تقویٰ نے ہمیشہ اس وردی کو ایسے ایسے بہادر شیر دیے کہ ان کا
ایک مضمون یا ایک باب میں ذکر نا ممکن ہے . جنگ کوئی بھی ہو اس میں انسانی
جانیں جاتی ہیں مگر کمال شان ہے ان سپاہیوں کی کہ جن کے تابوت جب ان کے
گھروں میں لوٹے تو ان کے گھروں کے نہیں بلکہ علاقے کے لوگوں نے اپنے بچوں
کو ترغیب دی کہ جینا ہے تو ایسے جیو جیسے یہ الله کا شیر جیا اور اگرمرناہے
تو اس عظمت کے ساتھ جو وطن کے اس بیٹے کا نصیب بنا .
کارگل کی جنگ اپنے عروج پر تھی ، بہت سے لوگ اس وقت صرف اخبار پڑھتے تھے
اور بہت کم ایسے لوگ تھے جو ٹی وی چینلز کے زہریلے ناگ سے ڈسے گئے تھے .
موسم گرما میں کارگل کی سرد چوٹیوں سے تابوت خاکی وردی میں لپٹے اپنی عظمت
کی داستان بیان کرنے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے . جس گاؤں یا شہر میں
یہ تابوت آتے وہاں " ساتھیو مجاہدو ، جاگ اٹھا ہے سارا وطن " اور " اے پتر
ہٹاں " کے نغمے گونجتے اور ان سینکڑوں شہدا میں سے کوئی بھی ایسا شہید نہیں
تھا کہ جسے قومی ہیرو کا رتبہ یا مقام نہ دیا گیا ہو . میں اس وقت میڈیا کا
طالب علم تھا ، میرے وسائل کچھ نہیں تھے مگر میں چاہتا تھا کہ میں ان شہدا
کے لواحقین سے ملوں اور جہاں تک ہوسکے ان کے تاثرات کو ریکارڈ کروں . مجھے
نہیں پتہ کہ میں نے ایسا کیوں کیا ! یہ شہید با کمال لوگ ہوتے ہیں شائد وہ
ایسا چاہتےتھے کہ میں ایسا کروں اور کوئی غیبی طاقت تھی جس نے میرے رستے
کھولے . میں راولپنڈی میں ہلال روڈ پر کرنل منصور رشید کو ملا انہوں نے
مجھے آئی ایس پی آر کا دفتر دکھایا اور یہیں میری راؤف خالد صاحب سے ہوئی
کہ جنہوں نے انگار وادی ڈرامہ لکھا تھا . میں جب آئی ایس پی آر کی بلڈنگ
میں گیا تو مجھے اپنے ارد گرد عجیب سا جادو محسوس ہوا . یہیں ایک کمرے میں
پاکستان کی عسکریتاریخ کی ایک آرکائیو تھی جس میں وہ تصاویر اور فلمیں تھیں
جو شائد میں نے پہلے نہیں دیکھی تھیں اور مجھے یقین ہے کہ بیشتر پاکستانیوں
اور آج کی نوجوان نسل کو بھی اس کا علم نہیں ہوگا . بہرحال یہ ادارہ اور اس
ادارے کی موجودگی پاک فوج کے لیے ہی نہیں بلکہ پاکستان کے لیے اہمیت رکھتی
ہے . اس کے بعد زندگی میں بہت سی تبدیلیاں آئیں اور میں میڈیا کی با ضابطہ
تعلیم کے لے برطانیہ آ گیا . آخری بار میں جب کرنل منصور رشید سے ملا تو
انہوں نے مجھے "ایلفا براوو چارلی "کی وڈیو ٹیپس دیں اور مجھے تلقین کی کہ
میں جب میڈیا سکول میں جاؤں تو اپنے پاس ایک ڈائری ضرور رکھوں کیونکہ ایک
صحافی کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے رابطے ان لوگوں سے رکھے جو اس کے
ساتھ زیر تعلیم رہے اور مستقبل میں وہ لوگ بہت کام آتے ہیں . میں نے تعلیم
ضرور حاصل کی اور یونیورسٹی آف بیڈ فورڈ شائر سے میڈیا میں ڈگری لی اور پھر
کوئی سات سال ٹی اور ریڈیو پہ کام بھی کیا مگر میں نے ڈائری نہیں خریدی اور
نہ ہی ان لوگوں سےرابطہ رکھا جو میرے ساتھ پڑھتے تھے . میں جیسے ہی تعلیم
سے فارغ ہوا میں نے پرائیویٹ چینلز پہ کام شروع کر دیا اور مینڈک کی طرح
اسی تالاب میں ڈبکیاں مارتا رہا جس سے باہر نکلنے کا کوئی رستہ نہیں تھا .
یہاں ان سات سالوں میں ایک چیز مجھے پتہ چلی کہ میڈیا کی کوئی قومی پالیسی
نہیں ، گو کہ یہ چینل برٹش پاکستانی ناظرین کے لیےکھولےگئے تھے مگر صورتحال
کچھ اور تھی. اسی دوران پاکستان میں پرویز مشرف حکومت نے میڈیا کی ایک
پالیسی بنائی ، پیمرا اور وزارت اطلاعات و نشریات نے پاکستان میں پرائیویٹ
ٹی وی چینلز کی مچھلی منڈی کھول دی . جہاں قلم کی کمان نے اپنا کام دکھلایا
اور پہلے اخبارات کے صفحات پر اپنا جادو دکھانے والوں نے عوامی نمائندوں کی
موجودگی میں ریٹنگ کے چکر میں اپنا ریٹ اتنا زیادہ کر لیا کہ انھیں جہاں سے
اچھا ریٹ ملا وہ وہیں جا بیٹھے ، کوئی جرگہ کرتا نظر آتا اور کسی کے مطابق
پاکستان کچھ دنوں میں ٹوٹتا نظر آنے لگا ، کوئی حکومت کی قصیدہ گوئی کرتا
اور کسی کو انڈیا اور مکتی باہنی کے علاوہ کچھ یاد نہیں تھا .
میں بھی ایک پرائیویٹ ٹی وی اسٹیشن پر کام کرتا تھا اور بہت سے دوسرے کاموں
کے ساتھ میں اس چینل کا آپریشن منیجر تھا اور جہاں میرے ساتھ بہت سے میڈیا
کے سٹوڈنٹ کام کرتے تھے ان میں سے ایک بڑی تعداد انڈین طلبا کی تھی ، میں
نے دیکھا کہ ان سب کے پاس ایک ڈائری تھی اور یہ کام سیکھنے کے ساتھ ساتھ
اپنے رابطے بھی مضبوط کر رہے تھے . میرے پاس تب بھی کوئی ڈائری نہیں تھی .
شائد تب بھی مجھے یہ علم نہیں ہو پایا کہ اس انڈسٹری میں کام کیسے کیا جاتا
ہے . میں تنخواہ پہ خوش تھا جب کہ میرے لیے کام کرنے والے مجھ سے زیادہ
کماتے اور ان کے رابطے بھی بہت سی ایسی شخصیات کے ساتھ ہوتے کہ جن کی وجہ
سے ٹی وی چینل کو اچھی خاصی آمدن اشتہارات کی صورت موصول ہوتی . میں کبھی
کبھی حیران ہوتا کہ یہ تمام کمپنیاں یا تو ہندوستانی تھیں یا ہندوستان سے
ان کا گہرا تعلق تھا مگر یہ خرچہ پاکستانی چینلز پر کرتیں . کچھ عرصے بعد
مجھے علم ہوا کہ جو پیسہ رفاہی کاموں کی تشہیر کے لے یہ ادارے خرچ کرتے ہیں
اس کے بدلے ان کا خریدا ہوا ایئر ٹائم انہیں ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرتا
ہے کہ وہ نہ صرف اپنا ایجنڈا عوام تک پہنچا رہے ہیں بلکہ ان کی اس کوشش سے
پاکستان کی معاشرت اور تمدن کے خلاف ایک مضبوط سوچ نے جنم لینا شروع کر دیا
. جو بیج یہ ادارے ٹی وی کی اسکرین پر بوتے اس کی فصل میں نے عوامی تنقید
اور اینٹی پاکستان جذبات کی صورت میں دیکھا جس کا اظہار لوگ تب کرتے جب وہ
براہ راست پروگراموں میں آ کر پاکستان کے خلاف بات کرتے اور انڈیا کی
کاوشوں اور امن کے لیے کوششوں کی تعریف کرتے . میں نے اس کے بعد کچھ ایسے
نشریاتی اداروں کے لیے بھی کام کیا جہاں پاکستان کے خلاف خبر کو ایسے نشر
کیا جاتا کہ سننے اور دیکھنے والوں کو یہ تاثر ملتا کہ پاکستان ایک دہشت
گرد ملک ہے اور ان کی فوج دہشت گردوں کی پاسبان.
اسی دوران پاکستان میں بھی بہت سے نئے میڈیا ہیروز پیدا ہو گئے ، ان کےباہر
ملک کے سفر اور نئے رابطوں نے اس فنڈنگ کا رستہ کھول دیا جو آج امن کی آشا
بن کر پاکستان سے پاکستان کے خلاف لکھ بول اور نشر ہو رہا ہے . وہ کام جو
پہلے نہیں ہوا اب ہونے لگ گیا اور پاک فوج اور پاکستان کے خلاف با قائدہ
بحث معمول بن گیا . پاکستان اور نظریہ پاکستان کے خلاف بات ہونا شروع ہو
گئی . پاکستان ٹوٹنے اور نئے پاکستان کے نقشے کی سوچ اور نفرت کا ماحول ٹی
آر پی کے نام پر دیکھنے کو ملا اسی دوران فوج کے خلاف ایک ذہن اور سوچ بھی
قائم کرنے کی کوشش کی گئی جس نے ماحول اسقدر خراب کر دیا کہ آج شہید کون کی
بحث بھی انہی چینلز پر ہونے لگ گئی . پاکستان کے سیاستدان بدنام ضرور ہیں
اور کچھ گندی مچھلیاں بھی ہیں مگر میں سب کو اینٹی پاکستان نہیں کہوں گا
مگر جہاں تک میڈیا کا تعلق ہے میرے تحفظات اور میرے جیسے بے شمار عام لوگوں
کے تحفظات اپنی جگہ ہیں . جماعت اسلامی کے امیر سے یہ کہلوانا کہ پاکستانی
فوجی شہید نہیں ہیں اس مضبوط لابی کی ایک اور کامیابی ہے اور وہ رقوم جو
براستہ برطانیہ اور امریکہ پاکستان کے ان نشریاتی اداروں کو جاتی ہیں کا
کمال ہے .
ان سب مسائل کا حل کیا ہے ؟ بات طویل ہوتی جا رہی ہے مگر کہنی ضروری ہے .
پاکستان فوج کو سب سے پہلے اپنے ٹی وی چینل کا آغاز کرنا ہو گا تا کہ فوج
سیٹھوں کے چینلوں کے رحم و کرم اور چنگل سے آزاد ہو . پاکستان میں پورا سال
عسکری تقریبات ہوتی رہتی ہیں اور اس چینل کی بدولت عوام میں شعور بیدار رہے
گا کہ فوج اور عوام ایک ہیں اور ایک رھیں گے . چودہ اگست ، چھ ستمبر ، تیس
مارچ کے علاوہ یوم اقبال ، یوم قائد اعظم اور دیگر قومی دنوں میں اس بات کا
خطرہ نہیں ہو گا کہ اس روز کسی فلم ایکٹر کی برسی اور کسی نئی فلم کی ریلیز
نے اس دن کی عظمت کو کم کیا . شہدا کی برسیاں اور دیگر ایسے اہم کارنامئی
کہ جو پاکستان فوج کے ان شیروں نے وطن کی خاطر انجام دیے ان کی تشہیر کے لے
بھی امن کی آشا کےامینوں سے وقت لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی . پی - ایم - ا
ے کی پاسنگ آوٹ پریڈ ہی ایک ایسی بڑی تقریب ہے جس سے قوم کے جذبات کو گرما
یا جا سکتا ہے .
آج اگر ڈش ٹی وی اور دیگر کیبل چینل اگر پاکستانی گھروں کا حصہ ہیں تو کل
آرمڈ فورسز چینل سب کی ترجیح ہو گا . کریم پاوڈر اور دیگر مصنوعات کے ساتھ
ساتھ بھارت آج ان کیبل آپریٹرز کے ذریعے جو جو سامان پاکستان میں بیچ رہا
ہے اس کا اثر ہمارے تعلیمی اداروں اور نوجوانوں کے طرز زندگی سے جھلکتا ہے
. اس حملے کو روکنے میں یہ چینل بہت فعال کردار ادا کر سکتا ہے . اگر میری
یہ تجویز کسی پالیسی ساز کی سمجھ میں آگئی تو میں امید کرتا ہوں کہ بہت سے
مسائل اور نفرتوں کے قلعے خود بخود زمین بوس ہو جائیں گے . امریکہ ،
اسرائیل اور بے شمار ممالک میں ایسے چینل ہیں جو یہ کام کر رہے ہیں .
آج بھی میڈم نور جہاں کی آواز اپنا جادو دکھا سکتی ہے اور آج بھی اس نفرت
کو محبت میں بدلہ جا سکتا ہے جس کا آغاز اس سوال نے کیا کہ کیا پاکستان کے
فوجی شہید ہیں یا نہیں ؟
میں امید کرتا ہوں کہ یہ تحریر آئی ایس پی آر اور چیف آف آرمی سٹاف کو میری
نہیں لاکھوں پاکستانیوں کی تجویز لگے گی اور اس پر غور کیا جائے گا کیونکہ
پاک فوج کا اپنا ٹی وی چینل وقت کی ضرورت اور پاکستان کے مفاد میں بہت اہم
ہے ، اس سے پاکستان کے تعلقات بیرونی دنیا میں بھی اچھے ہونگے اور دیگر
ممالک کی افواج میں بھی پاکستان فوج کی عزت اورشہرت میں اضافہ ہو گا . یہ
کوئی جوابی کاروائی نہیں بلکہ اصلاحی کوشش ہو گی جو خطے میں امن کی آواز بن
کر ابھرے گی اور امن کی آشا نہیں بلکہ پاکستان کی عظمت کے جھنڈے گاڑے گی . تحریک انصاف کا جماعت اسلامی اور آزاد ارکان پر انحصار بڑھ جائے گا۔ |