تُم رکھ نہ سکے اپنی جفاؤں کا بھرم بھی
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
میرے ایک انتہائی محترم لکھاری اور دانشور
نے عصرِ حاضر کے ترقی پسند دانشوروں کو ’’ڈالر یافتہ ملالائی دانشور ‘‘کہہ
کر گویا دریا بلکہ سمندر کو کوزے میں بند کر دیا ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ اب اُن
کی ہیروئن طرابلس کی فاطمہ بنت عبداﷲ کی بجائے سوات کی ملالہ یوسف زئی ہے
جس نے پانچویں جماعت میں گُل مکئی کی ڈائری کے عنوان سے BBC اُردو ڈاٹ کام
کی باقاعدہ رپورٹر کی حیثیت سے لکھنا شروع کیا ۔محترم کے خیال میں یہ ممکن
ہی نہیں کہ وہ پانچویں جماعت کی طالبہ کی تحریر ہو ۔محترم لکھاری کا فرمان
بجا لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ملالہ یوسف زئی پیدائشی جینئس ہو اور کل
کلاں اُس کی وہ ڈائری بھی منظرِ عام پر آ جائے جو اُس نے پہلی جماعت میں
لکھی تھی ۔وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ بہت سے لکھاری اِس ڈائری کوبھی اُسی
طرح اصلی ثابت کر دیں گے جیسے محترمہ بینظیر شہید کی شہادت کے بعد لکھی گئی
وصیت کو اصلی ثابت کر دیا گیا تھا ۔جب سے ملالہ کی ڈائری منظرِ عام پر آئی
ہے، مجھے رہ رہ کر اپنے بچوں پر غصّہ آ رہا ہے جنہیں پانچویں جماعت تک قلم
سیدھا کرنا بھی نہیں آتا تھا ۔یہی بات میں نے طنزاََ اپنے ڈاکٹر بیٹے سے
کہی تو اُس نے مسکراتے ہوئے کہا ’’کیا اِس عمر میں آپ کو قلم سیدھا کرناآتا
تھا ؟‘‘۔میں لا جواب ہو گئی اور لا جواب ہونے کے بعد میرا غصّہ ہمیشہ عروج
پہ پہنچ جاتا ہے ۔بیٹا چونکہ میری اِس عادت کو خوب جانتا ہے اِس لیے وہ
جملہ کَس کر یہ جا ، وہ جا ۔
محترم لکھاری لکھتے ہیں کہ یہ ڈائری وسعت اﷲ خاں لکھتا رہا جسے ملالہ سے
منسوب کر دیا گیا ۔میں چاہتے ہوئے بھی وسعت اﷲ پر یہ الزام نہیں دھر سکتی
کیونکہ ہتک عزت کا خطرہ ہے۔اگر وسعت اﷲ خاں یا ملالہ یوسف زئی نے ہتکِ عزت
کا دعویٰ کر دیا تووثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ فیصلہ اُنہی کے حق میں ہوگا
کیونکہ اُن کے پیچھے امریکہ اور یورپ ہے جب کہ ہمارے پلّے کیا ہے سوائے
غیرت و حمیت کے ۔ اِس غیرت و حمیت کی وسعت اﷲ خاں یا اُن کے آقاؤں کے ہاں
کوئی اہمیت نہیں۔وسعت اﷲ خاں صاحب نے ایک ٹاک شو میں فرمایا ’’جہاں عقل کا
دروازہ نہیں کھلتا ،وہاں غیرت و حمیت کی بات کی جاتی ہے‘‘۔وسعت اﷲ صاحب
اپنی عقل کے زور پر شوق سے ڈالر اور پونڈ اکٹھے کریں لیکن ہماری عقل تو عشقِ
مصطفویﷺ کے تابع ہے جہاں مطلوب و مقصود شہادت ہوتی ہے ، مالِ غنیمت اور
کشور کشائی نہیں اورعقل کے بارے میں ہمارا نظریہ تو بقولِ اقبالؒ یہ ہے
عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بیچارہ نہ مُلّا ہے نہ زاہد نہ حکیم
بہرحال میرا آج کا موضوع یہ نہیں تھا اور شاید آئیندہ بھی نہ ہو کہ میں نے
ملالہ کے بارے میں جو کچھ لکھنا تھا پہلے ہی لکھ چکی۔میں تو آج صاف صاف
لکھنے اور بولنے والے اُس بے باک صحافی کو مبارک باد دینا چاہتی تھی جس نے
امیرِ جماعتِ اسلامی سیّد منور حس کا انٹرویو کرکے پرنٹ اور الیکٹرانک
میڈیا کو باغ باغ کر دیا ۔آجکل الیکٹرانک میڈیا کے اینکرز اسی ’’دھوم دھڑکے‘‘
میں مبتلاء نظر آتے ہیں اور پرنٹ میڈیا کے لکھاریوں نے بھی اِس پر لکھنا
اپنا فرضِ عین سمجھ لیا ہے ۔میں کچھ عرصہ تو خاموش رہی لیکن جب بڑے بڑے
اینکرز اور لکھاریوں نے آسمان سَر پر اُٹھا لیا تو میں نے بھی سوچا کہ کیوں
نہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیے جائیں اِس لیے آج کا کالم حاضر ہے۔
پتہ نہیں ہمارے سیّد صاحب کو کیا سوجھی کہ اُنہوں نے بیٹھے بٹھائے یہ
’’کھڑاک‘‘ کر دیا حالانکہ وہ افواجِ پاکستان کی قربانیوں کے بھی قائل ہیں
اور اُنہیں وطنِ عزیز کے محافظوں کی غیرت و حمیت اور خلوص پر بھی کوئی شک
نہیں۔سیّد صاحب افواجِ پاکستان کی قُربانیوں کی ایک سے زائد بار تحسین کر
چکے ہیں اورہم بھی جانتے ہیں کہ جماعت اسلامی نے ہمیشہ کھُل کر فوج کی
حمایت کی اور افواجِ پاکستان کی ’’بی۔ٹیم‘‘ کے طعنے بھی سہتی رہی لیکن یوں
لگتا ہے کہ جیسے سیّد صاحب چوری چوری الطاف حسین برطانوی کی ’’بڑھکیں‘‘ اور
ٹاک شوز میں شیخ رشید احمد کے ’’کھڑاک ‘‘دیکھتے رہتے ہوں ۔جیسے خربوزے کو
دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے ویسے ہی ہمارے سیّد صاحب نے رنگ پکڑا اور دما
دم مست قلندر کر دیا ۔اکابرینِ جماعت اسلامی نے معاملے کو سلجھانے کی لاکھ
کوشش کی لیکن بے سود کہ ہمارے اینکرز کے پاس فی الحال اِس کے سوا کوئی
موضوع نہیں اور اگر ہو بھی تو ہمارا ایک ضرورت سے زیادہ ’’محبِ وطن ‘‘ نیوز
چینل بار بار یہ ٹاک شو’’ آن ایئر‘‘ کرکے جلتی پہ تیل پھینکتا رہتا ہے۔ 10
محرم کوجب پوری قوم سانحۂ کربلا کے سوگ میں ڈوبی ہوئی تھی ، ’’محبِ وطن‘‘
نیوز چینل نے ایک دفعہ پھر اِس ٹاک شو کو آن ایئر کر دیا اور دینی جماعتوں
کو سیدھا کرنے کے ’’ٹھیکیداروں‘‘ کے سینے ’’ٹھنڈے ٹھار‘‘ ہو گئے ۔طُرفہ
تماشہ یہ ہے کہ دینِ مبیں کا نام سُن کر ’’بِدک‘‘ جانے والوں نے ہی یکلخت
دین کو ٹھیکے پر لے لیا اور وہ کہ جن کی زبانوں پر اسلام کا نام لیتے ہی
لکنت طاری ہو جاتی، آج شہید شہید پکار رہے ہیں ۔یہ وہی لوگ ہیں جو افواجِ
پاکستان کے شدید نقاد اور ڈالر کی پیداورا ہیں ۔یہ’’ مشرف بہ
امریکہ‘‘لکھاری اور اینکر اپنے مخصوص اور مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے
لنگوٹ کَس کر جماعت اسلامی پر ٹوٹ پڑے ۔انہیں اِس سے کچھ غرض نہیں کہ وطنِ
عزیز 1971ء سے بھی برے حالات سے گزر رہا ہے اور جتنی قومی و ملّی یکجہتی کی
آج ضرورت ہے پہلے کبھی نہ تھی ۔وزیرِ داخلہ جناب چوہدری نثار احمد نے دِلی
درد کے ساتھ یہ اپیل کی کہ یہ موقع کون شہید اور کون نہیں کی بحث کا نہیں
بلکہ ملک بچانے کا ہے ۔اِس لیے پوری قوم ایک صفحے پر اکٹھی ہو جائے ۔اُن کی
اِس اپیل کا سیاسی جماعتوں نے تو اثر قبول کیا اور آئی۔ایس۔پی۔آر کی طرف سے
بھی خاموشی ہی ہے لیکن میڈیا جان نہیں چھوڑرہا ۔جماعت اسلامی کی طرف سے بھی
بار بار وضاحت آ چکی ہے لیکن بے سود۔ہمیں بار باریہ ٹاک شو دکھانے والے اِس
نیوز چینل کی حب الوطنی کے بارے میں کوئی شک نہیں لیکن ایک دوسرے چینل پر
بیٹھا ایک اینکر ’’ایویں خواہ مخواہ ‘‘ کہانیاں گھڑ گھڑ کر لوگوں کو بد ظَن
کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے ۔در اصل یہ اینکر امن کا دشمن ہے اِس لیے امن کی
آشا کو پروان چڑھتے نہیں دیکھ سکتا جبکہ ہم ٹھہرے امن کے پجاری ۔ ہمارے
قائد کا فرمان ہے کہ ہم نے 9 سال تک جنگ کرکے دیکھ لی ، اب امن کو بھی موقع
دینا چاہیے ۔اسی امن کے حصول کی خاطر ہم 20 نومبر کو نیٹو سپلائی بند کرنے
جا رہے ہیں ۔ہم نیٹو سپلائی کوبرائی گردانتے ہیں اور برائی کو جَڑ سے اکھاڑ
پھینکنے میں ہی حکمت ہے اِس لیے ہمارا پروگرام تو یہی ہے کہ نیٹو کنٹینرز
کو کراچی کی بندرگاہ پرہی روک دیا جائے لیکن ہمیں سندھ کے وزیرِ اعلیٰ سیّد
قائم علی شاہ کی حب الوطنی کا کچھ اندازہ نہیں ۔اگر تو وہ محبِ وطن ہوئے تو
ہمارے ساتھ ہی کنٹینرز کے آگے دھرنا دیں گے وگرنہ پیپلز پارٹی کی حب الوطنی
پر بھی ہزاروں سوالیہ نشان لگ جائیں گے۔
ہمارے دبنگ وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک صاحب نے تو اعلان کر دیا تھا کہ خیبر
پختونخواہ کی حکومت نیٹو سپلائی بند کر دے گی لیکن اب ہمارے’’کپتان صاحب ‘‘
نے فرمایا ہے کہ تحریکِ انصاف کے کارکن نیٹو سپلائی بند کریں گے خیبر
پختونخواہ کی حکومت نہیں ۔اب پرویز خٹک تحریکِ انصاف کے کارکن کی حیثیت سے
دھرنا دیں گے بطور وزیرِاعلیٰ نہیں ۔دراصل ہم ایسا صرف اِس لیے کر رہے ہیں
کہ ہمیں نواز لیگ کی نیت میں فتور نظر آ رہا ہے ۔ہمارے اکابرین کہتے ہیں کہ
اگر اِدھر KPK کی حکومت دھرنا دیئے بیٹھی ہو اور اُدھر نواز لیگ ’’اندیشہ
نقصِ امن‘‘ کا بہانہ بنا کر گورنر راج لگا دے اور مولانا فضل الرحمٰن کو
گورنربھی بنا دے تو پھر ہمارا کیا بنے گا؟۔ |
|