جہاں پانچ ریاستوں میں اسمبلی
انتخابات کے مدنظر سیاسی پارٹیوں میں ہلچل مچی ہے وہیں عام انتخابات کے
تناظر میں ان اسمبلی انتخابات کی اہمیت مسلم ہے ، تمام سیاسی پارٹیاں عام
انتخابات کو سامنے کر اپنی اپنی ڈفلی اور اپنے اپنے راگ کے ساتھ سیاسی
گلیاروں میں دھماچوکڑی مچارہی ہیں ، ہر ایک کی زبان پر سنہری وعدے رقص
کررہے ہیں ، عوام کو سبز باغ دکھانے میں ہر ایک پارٹی بازی لے جانے کی کوشش
کررہی ہیں ،بالخصو ص مسلم دوستی کی بہار سی آگئی ہے ، ہرا یک پارٹی
مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے تعلق سے نغمہ سرائی میں مصروف ہیں ، ان پارٹیوں
کے وعدوں اور کارگزاریوں کو اعدادوشمار کے آئینہ میں دیکھنے سے بہت مایوسی
ہوتی ہے ، کیوں کہ اسکیموں سے اس طرح اقلیتی طبقہ بالخصوص ہندوستان کی
دوسری سب سے بڑی اکثریت مسلمانوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ، جس طرح کے دعوے
فضا میں گونج رہے ہیں اور نہ ہی پورے ملک میں مسلم ممبران اسمبلی کو
وزارتوں میں مناسب نمائندگی ملی ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق ر یاستی وزارتوں
میں مسلم وزراء کی تعداد انتہائی افسوسناک ہے،13ریاستوں میں کوئی بھی وزیر
مسلم نہیں ہے، ریاستی 609وزراء میں صرف 51مسلم ہیں،مسلم ووٹ بینک کے لئے بی
جے پی کے وزیراعظم امیدوار نریندرمودی کی قیادت میں ایک بار پھر بی جے پی
نے مہم شروع کردی ہے وہ بھی مسلم ہمدردی کا راگ الا پ رہے ہیں، مگر
اعدادوشمار سے پتہ چلتاہے کہ حکمراں پارٹی سمیت بی جے پی نے بھی مسلمانوں
کو اقتدار میں مناسب نمائندگی نہیں دی ہے ۔ ملک کی 28ریاستوں میں سے 13ایسی
ریاستیں ہیں ،جن میں ایک بھی مسلم وزیر نہیں ۔ بی جے پی چار ایسی ریاستوں
میں برسر اقتدار ہے، جہاں پارٹی کا کوئی مسلم ایم ایل اے تک نہیں ہے۔ مختلف
ریاستوں میں کل 609 وزیروں میں سے صرف 57 یعنی 9.35 فیصد مسلمان ہیں۔1 2001
کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی ہندوستان میں آبادی 14 فیصد ہے۔ جموں و
کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، وہاں19وزیر ہیں ، اگر جموں و کشمیر کو
الگ کردیاجائے توپورے ملک میں کل ملاکر صرف39 وزیر ہیں۔ بی جے پی حکومت
والی ریاست گجرات میں مسلم آباد ی 9.06فیصد ہے، جبکہ چھتیس گڑھ میں 3.97
فیصد ہے۔گوا میں 6.84اور مدھیہ پردیش 6.37فیصد ہیں۔ لیکن بی جے پی سے تعلق
رکھنے والا وہاں کوئی بھی مسلم وزیر یا ایم ایل اے نہیں ۔ پنجاب میں اکالی
دل بی جے پی کی مشترکہ حکومت ہے لیکن وہاں بھی کوئی مسلمان وزیرنہیں
بنایاگیا۔ا گرچہ اکالی دل سے مالیر کوٹلہ کے ایم ایل اے مسلمان ہیں۔
کانگریس کی حکومت والی ریاستوں میں بھی صورت حال اچھی نہیں ہے۔ اتراکھنڈ
جہاں مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی ہے، اس کا اوسط 11.92 فیصد ہے۔ مسلم
ممبران اسمبلی تو ضرور ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی وزیر نہیں ،اسی طرح
ہماچل پردیش میں جہاں کانگریس کا راج ہے کوئی بھی مسلم وزیرنہیں ہے۔ اگرچہ
ان کی آبادی کا اوسط 3فیصد ہے۔ ہریانہ میں مسلمانوں کی آبادی 5.78فیصد ہے۔
لیکن بدقسمتی سے وہاں کی کابینہ میں صر ف ایک مسلم وزیرہیں ۔آندھراپردیش کی
اگر مثال دیں تو وہاں مسلمانوں کی آباد ی دس فیصد ہیں۔یہ ریاست مسلم
حکمرانی کی ایک لمبی تاریخ رکھتی ہے۔ لیکن کانگریس کے 37وزیروں میں سے صرف
ایک مسلم وزیر ہے۔ اسی طرح آسام، منی پور، میگھالیہ، اروناچل اور دوسری
ریاستوں میں بھی مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی ہونے کے باوجود وہاں ایک یادو
مسلم وزیر ہی دکھائی دیتے ہیں۔
اسی طرح اگر ریاستی اسمبلیوں میں مسلم نمائندگی کی بات کرتے ہیں بہت مایوسی
ہوتی ہے ،نہ وہاں کی وزاتوں میں ان کی نمائندگی تناسب کے اعتبارسے ہیں
اورنہ ہی اسمبلی میں، یوپی جہاں 403ممبران اسمبلی ہوتے ہیں وہاں مسلمانوں
کی تعداد صرف 69ہے ، بہار میں کل273 ممبران اسمبلی میں سے 22 مسلم ہیں ،
جھارکھنڈ میں5/81،پانڈیچری1/30، تمل
ناڈومیں2/234،آسام28/126،کیرلہ36/140،ویسٹ بنگال59/294، گجرات2،ہریانہ5/90،
مہاراشٹر 11/288، چھتیس گڑھ1،میگھالیہ میں صرف 1ممبر اسمبلی ہے ۔
ٹکٹ تقسیم کرتے وقت ہی سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کے ساتھ کھیل کھیلتی ہے
توالیکشن کے بعد وزارتوں کی تقسیم میں کیسے ایمانداری برتے گی ، یہی وجہ
ہوتی ہے کہ مسلمانوں کی تعداد روز بروز گھٹتی جاتی ہے ، رہی سہی کسر
خودمسلمان پوری کردیتے ہیں ، وہ اس طرح الیکشن ریاستی ہو کہ قومی ، بے شمار
پارٹیاں میدان میں آتی ہیں ، تمام پارٹیوں کو مسلم ووٹ درکار ہوتی ہے ، اس
لئے انہیں لامحالہ مسلم امیدوار کی ضرورت پیش آتی ہے ، چنانچہ ایک ہی حلقہ
سے کئی ایک مسلم امیدوارہوجاتے ہیں ، یہی وجہ ہوتی ہے کہ مسلم ووٹرس تذبذب
کے شکار ہوجاتے ہیں ۔ نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ مسلم ووٹرس پارٹی کی پرواہ
نہ کر کے خاندانی امیدواروں کاخیال کرنے لگتے ہیں،گویا مسلمان پارٹی بھنور
سے نکل کر ’’خاندانی ‘‘ سمندر میں ہچکولے کھانے لگتے ہیں ۔ اس صورتحال میں
کوئی مسلمان کامیاب ہونے سے رہا ۔ پارٹی اورمسلم امیدواروں کی کثرت سے اس
وجہ کر بھی مسلمانوں کا نقصان ہوتاہے کہ پارٹی کے نظماء و صدور کی آمد ورفت
مسلم مذہبی لیڈران کے ’’غریب خانوں ‘‘پر تیز ترہوجا تی ہے ، وہ ان سے
مستقبل کے تئیں مراعات کے حوالہ سے گفتگو کر تے ہیں ، مسلم مسائل حل کے جال
میں انہیں پھانس کر اپنی حمایت کے لئے راضی کرتے ہیں ۔
آزادی کے بعد سب سے پہلے الیکشن میں کل 17مسلمان ہی پارلیمنٹ پہونچنے میں
کامیاب ہوئے تھے۔ 1957میں31،1962میں 20، 1967میں 28، 1971میں 25، 1977میں
30،1980میں 46، 1984میں سب سے زیادہ47، 1989میں 31، 1991میں 20، 1996میں
24، 1998میں 28،1999میں 31اور 2009میں کل 29مسلمانوں کو ہی پارلیمنٹ
پہونچنے میں کامیابی مل سکی ۔
آج ہندوستان کی مسلم آبادی 13سے لے کر 15فیصد ہے ، اگر اس کی نمائندگی
آبادی کے لحاظ سے ہوتو کم از کم80ارکان پارلیمنٹ ہوں گے ۔ اگر بہار کی بات
کی جائے تووہاں مسلم آبادی 17فیصد ہے ، اس لحاظ سے وہاں کی اسمبلی میں
45ممبران ہونے چاہئے ، مگر وہاں ہمیشہ ان کی نمائند گی کی شرح اکثر 7فیصد
ہوتی ہے اور ایک مرتبہ بڑھ کر 10فیصدہوئی ۔ بالکل یہی صوتحال اراکین
پارلیمنٹ کا بھی ہے ۔
سوال یہ ہوتا ہے کہ آخر آبادی کے لحاظ سے مسلمانوں کی نمائندگی کیوں نہیں
ہوپاتی ہے ؟ اس کا ایک اور واضح جواب ہے کہ عمومی مسلم لیڈران کی ناعاقبت
اندیشی و اناپسندی اور مذہبی لیڈاران کی انتشار پسندی ۔ ان ہی دونوں کی
کوتاہی کے نتیجہ میں مسلم نمائندگی باعث تشویش ہے ۔ ایک سوال یہ بھی ہوتا
آخر دیگر مذاہب کے رہنماؤں سے زیادہ مسلم مذہبی رہنما اربابِ سیاست کی نظر
میں کیوں محبوب ہوتے ہیں ؟ زمانہ ٔ الیکشن میں ان کے غریب خانوں کا چکر
لگانا انہیں کیوں بہت اچھالگتا ہے ؟ مسلم مذہبی لیڈران کے علاوہ رفاہی
تنظیم کے نظماء وصدور یعنی خود ساختہ قائد بھی زمانہ ٔ الیکشن میں مسلم
ووٹوں کے سودا گر بن جاتے ہیں اور بغرض ذاتی مفاد ہر ایرے غیرے پارٹی سے
تعلقات نبھانے لگ جاتے ہیں ، ان کی تعریف میں منہمک ہوجاتے ہیں، اس طرح
مسلم ووٹرس ان کی جانب بڑھنے لگتے ہیں ۔ یہ افراد تو زمانہ ٔ انتخاب میں
مسلم ووٹوں کے دشمن ہوتے ہیں مگر انتخاب کے بعد مسلم اراکین پارلیمنٹ وممبر
ان اسمبلی مسلمانو ں کے ووٹوں کا کچھ بھی پا س و لحاظ نہیں رکھتے ، انہیں
صرف پارٹی سے ہی سروکار ہوتا ہے ، مسلم مسائل سے نہیں ، مگر زمانہ ٔ الیکشن
میں انہیں مسائل کو مدعہ بنا کر ووٹ بٹورتے ہیں ۔ مسلمانوں کی نمائندگی
بڑھانے کے لئے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ مسلم افراد خود ہوش کے ناخن لیں
، ورنہ تو جوں جوں سیاسی پارٹیوں کی تعدادانتخابی میدان میں بڑھے گی ، ویسے
ہی مسلمانوں کی نمائندگی کم ہوتی جائے گی ، آج آئے دن سیاسی پارٹیوں کی
تعداد میں اضافہ ہوتا ہی جارہا ہے ، جوکہ مسلمانوں کی نمائندگی کے لئے زہر
ہے ۔ |