مسیحا ئی یا جگ ہسائی

 طلسما تی فضا ؤ ں کی بہر سو ہے عمل دا ری
نگر تیرا، نہیں تیرا نگر میرا ، نہیں میرا
میں نا معلوم دنیا کا حقیقت میں ہو ں با شندہ
یہ گھر میرا، نہیں میرا ، یہ در میرا، نہیں میرا

حضرت وا صف علی وا صف فر ما تے ہیں اگر زندگی بچا نے کی قیمت پو ری زندگی بھی ما نگی جا ئے تو انکا ر نہ کرنا ۔ بقول دانشور کسی معا شر ے میں تعلیم اور صحت بنیا دی سطح پر معیا راور مقدار کے مطابق خا لص ملنا شروع ہو جا ئے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ پستی و تنزلی اس معا شرے میں سراعیت کرسکے تعلیم اور صحت کے حوا لہ سے ہما را معا شرہ خاصا مفلس و مجبو ر دکھائی دیتا ہے یہا ں اسا تذہ کی فہر ست میں ایسے نا اہل اور علم و دانش سے ما ورا افراد جن کا محض بسیرا وڈیروں ، جا گیرداروں ، چو ہدریو ں اور سرداروں کے ڈیرے ہیں ان کو حا دثا تی طو ر پر فروغ تعلیم کا قلمدان تھو نپ دیا جا تا ہے ظا ہری نظر میں ہر نمایا ں اور اہم شعبہ سے فلا پ ہو نے وا لے عنا صر کو تعلیمی سرگرمیو ں سے جو ڑ دیا جا تا ہے جس کی بد ولت آنے والی نسلیں بھی بنیادی نقائص کے با عث تباہی و بربادی کا خمیا زہ بھگتتی رہیں گی ۔ مسیحا ئی کے شعبہ سے وابستہ افراد جن کو خدا نے انسانیت کے جسم وجان کی حفاظت کا ہنر عطا کیا ہے وہ مسیحا بھی ہوس و ہرس میں ڈوب کر اپنے عہد ے اور منصب سے بیزار دکھائی دیتے ہیں حد درجہ حصول مرا عا ت اورآسائش و آرائش نے مسیحا کو آج جلا د کے رو پ میں سرکا ری ہسپتالو ں میں معمور کردیا ہے عوام الناس کی نظر میں اپنے شعبہ میں منجھے ہو ئے اور قا بل ترین ڈاکٹرز کو سرکا ری ہسپتا لو ں میں بڑی سفا رش و رشوت کے بعد تعنیا ت کیا جا تا ہے سالہال اپنا جگر پگلا کر مسیحا ئی کا رو پ دھا رنے والے انسانی سوداگر اپنی ذمہ داریو ں اور دا ئر ہ کا ر کو کا رنر کرتے ہو ئے محض اپنی مقبولیت یعنی سستی شہرت اور زائد فیسز کے خواب آنکھو ں میں سمو ئے تیزی سے شارٹ کٹ کی تلا ش میں رہتے ہیں گذ شتہ رو ز ڈسٹرکٹ ہیڈ کوا رٹر ہسپتال گو جرا نوالہ میں شام کے بعد چند با ضمیر لو گو ں نے ہسپتال انتظامیہ کے خلا ف احتجاج ریکا رڈ کروانے کی سعی کی زاہد ہ بی بی جو اپنی حا ملہ بہن کو رات کے وقت ایمرجنسی میں ٹراما سنٹر لیکر گئی تو وہا ں سٹریچر آپر یٹ کر نے وا لے عملہ نے بڑی تیزی اور غیر ذمہ داری کے ساتھ خا تون کو دھکیلا جو سٹریچر چلا نے والو ں کی غفلت کی وجہ سے مریضہ زمین پر گر کر زخمی ہو گئی اوراسکا بچہ جو ابھی دنیا میں نہیں آیا تھا خا لق حقیقی سے جا ملا کیا گزری ہو گی اس فیملی پر جو دل میں خو شیو ں کا ایک انبا ر لیے دنیا پر ایک نئے آنے والے مہمان کا انتظام کر نے کے لیے سرکا ری ہسپتال کے ڈاکٹر ز کو اپنا مسیحا جا نتے ہو ئے انکی طرف دوڑے اوراس کے نتیجہ میں انہیں نومولو د بچے کی مو ت کا انجان سا تحفہ پیش کر دیا گیا مختصر احتجاج نے اربا ب اختیا ر تک رسائی تو نہ حاصل کی اور نہ ہی ڈسٹرکٹ ہیڈ کو ارٹر انتظامیہ کے کا نو ں پر جو ں تک رینگی اسکا دوسرے دن رزلٹ جو ملا وہ پہلے سے بھی زیادہ بھیا نک اورالمناک تھا حا ملہ خا تون جو کہ آئی سی یو میں داخل کر دی گئی تھی وہ ذہنی شاک اور اپنے بچے کی ذلت آمیز مو ت کا صدمہ بر داشت نہ کر سکی اور چل بسی
کیسی بخشش کا یہ سامان ہوا پھرتا ہے
شہر سارا ہی پر یشان ہوا پھرتا ہے
اک با رود کی جیکٹ اور نعرہ تکبیر
را ستہ جنت کا آسان ہوا پھر تا ہے
کیسا عشق ہے تیرے نام پہ قربان ہے مگر
تیری ہر با ت سے انجان ہوا پھرتا ہے
شب کو شیطان بھی مانگے ہے پناہ جس سے
صبح کو وہ صا حب ایمان ہوا پھرتا ہے
جا نے کب کون کسے ما ر دے کا فر کہہ کر
شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے

ایک انسان کا قتل گو یا پو ری انسانیت کا قتل ہے کیا اس کا اطلا ق محض دہشتگردوں اور خود کش حملہ آوروں پر ہی ہو تا ہے ؟ خو د کش حملہ آور اگر حکمت عملی اور فہم و فرا ست سے کام لیں تو انہیں خود کش جیکٹیں پہنے اپنی جان گو انے کی ضرورت نہیں بس کسی سرکا ری ہسپتال کو زریعہ معاش بنا لیں ۔آج وطن عزیز کو اندرونی اور بیرونی محا ذوں پر خا نہ جنگی کے خد شات لا حق ہیں اپنے اور پرائے مل کر اس کی سرحدوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں سفید لباس میں لپٹے ہو ئے مسیحا اورکا لے لبا س میں لپٹے ہو ئے انصا ف کے پیمبر نہ جا نے کیو ں اپنی ذمہ داریو ں سے بیزار دکھائی دیتے ہیں دہشتگرد ، انتہا پسند اور امن دشمن کردار با طنی طو ر پر ادا کر رہے ہیں مسیحا ئی کے پیشہ سے منسلک افراد بھی اپنے پیشہ کے اندر کسی درجہ کم نہیں رہے کوئی قلم سے کا ٹ رہا ہے، کوئی تلوار سے تو کوئی تیز دھار ی آلا ت سے جس طر ح سیاست نے محکمہ پولیس میں لا قانو نیت اور سفا رش ، رشوت اور بد یا نتی کو فروغ دے رکھا ہے من و عن میڈیکل کے شعبہ میں بھی سیا ست نے مسیحا ئی کا جنا زہ نکال کر رکھ دیا ہے ڈسٹرکٹ ہیڈ کو ارٹر ہسپتال میں موجود سیاسی انتظامیہ محض چند پیا رو ں کے ساتھ بیٹھ کر اپنی اوراپنے اعلیٰ آفیسروں کی کا رکردگی کے تذکرے چھیڑتے اور وقت گزاری سے کام لیتے ہو ئے دکھائی دیتے ہیں خاص معمول یا ہنگا می انسپکشن کے علاوہ کڑوڑوں کا بجٹ وصول کرنے والا سرکا ری ہا سپٹل انسانی سلا ٹر ہا ؤس کی شکل اختیا ر کر چکاہے ایڈمنسٹریشن بری طر ح سے ناکام دکھائی دیتی ہے ، را ئیتی میڈیسن کبھی خوا بو ں اورخیالو ں میں بھی نہیں ملتیں ، ڈا کٹر شا رٹ رہتے ہیں ، ٹراما سنٹر میں ایمرجنسی کے دوران نہ تو مریضو ں کو کوئی سٹریچر میسر آتا ہے اور نہ ہی سٹریچر چلا نے والا مریض کے عزیز و اقا رب اپنی مدد آپ مریض کو سہولیا ت با ہم پہنچا تے ہو ئے دکھائی دیتے ہیں جب کہ درجہ چہا رم ملا زمین کام کی بجا ئے صرف سیاست کرتے ہیں مقامی ایم ایس کو خوش کرنا اور اس کی خو شامد ہی ان کی ذمہ داری کا اولین حصہ ہے اور اس سے بھی خو ش آئند با ت جو کام چو ر نچلے عملہ کے لیے موجود ہے وہ ہے ایک سیاسی اثر و رسوخ کی حامل انتظا میہ جو محض ایم این اے ، ایم پی اے اوروی آئی پی ایز کی آؤ بھگت کے لیے رکھے گئے ہیں ان کو نہ تو کوئی پو چھنے والا ہے اور نہ ہی کوئی شکا یت کر نے والا ان کی رسائی وزیر اعلیٰ تک ایم این اے اور ایم پی اے کے مرہون منت پہنچتی ہے ۔ با عث مجبوری پولیس کیسز ، حادثا تی یا درمیا نے طبقہ کے افراد ہسپتال میں آتے ہیں لیکن پہلا تا ثر داخلہ کے دوران ہی اسقدر بھیانک اور خو فناک ہو تا ہے کہ مریض 50 فیصد مزید بیماری میں مبتلا ء ہو جا تا ہے سنئیر سٹاف کی عدم موجودگی کی بد ولت مریض وارڈ بو ائے ، وارڈ سرونٹ او ر سٹا ف نرسز کے رحم و کرم پر ہوتا ہے ان ٹرینڈ سٹو ڈنٹس نر سیں اپنے تما م تر تجربا ت ہر پیچیدہ سے پیچیدہ امراض میں مبتلا ء مریضو ں پر آزماتی ہیں یا انہیں موبائل فو ن پر خو ش گپیو ں اور آپس کی میل ملا قا ت سے ہی فرصت نہیں ملتی جس قدر نا روا اور غیر فطری سلوک ڈسٹرکٹ ہیڈ کو ارٹر ہسپتال میں مریضو ں سے کیا جا تا ہے اس کی مثال نہیں ملتی اس ایریا میں پہنچنے والا مریض اور اسکے ورثاء یہی محسوس کرتے ہیں کہ حشر بر پا ہو گیا اور اب جنت دو زخ کے ٹکٹ جا ری ہو ں گے ۔ کوئی بھی جعلی میڈیکل یا دستا ویزات ہیلتھ سے متعلقہ با آسا نی چند رو پو ں کے عوض سرکا ری ہسپتال سے کلریکل سٹا ف کے زریعہ حاصل کی جا سکتی ہے یہ کوئی مشکل کام نہیں۔بد نظمی کا یہی سلسلہ جو ں کا تو ں چلتا رہا تو سول ہسپتال کو مکمل طو ر ر بند کردینا چا ہیے اور اس پر خر چ کیے جا نے والا کڑوڑو ں کا بجٹ پرائیو یٹ ہسپتالو ں میں مریضوں کی دیکھ بھال اور ویلفئیر پر صرف کیا جا نا چا ہیے کیونکہ سرکا ری ڈا کٹروں کی اس نا اہلی اورعدم دلچسپی کی بد ولت نہ صرف صحت عامہ کا شعبہ بدنامی کا با عث بنتا جا رہا ہے بلکہ حکو مت وقت پر بھی انگلیا ں اٹھا ئی جا رہی ہیں، جس نے مہنگا ئی اور بے روز گا ری کے ساتھ ساتھ عام آدمی سے اچھی صحت کی بنیا دی سہولتیں بھی چھین لی ہیں ۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

S M IRFAN TAHIR
About the Author: S M IRFAN TAHIR Read More Articles by S M IRFAN TAHIR: 120 Articles with 118486 views Columnist / Journalist
Bureau Chief Monthly Sahara Times
Copenhagen
In charge Special Assignments
Daily Naya Bol Lahore Gujranwala
.. View More