یکم اکتوبر کو اخبارات میں شائع
ایک خبر میں بتایا گیا کہ ’’ آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی میں ممبران کی
تنخواہ اور مراعات میں اضافے کے لئے پانچ رکنی کمیٹی قائم کر دی گئی ہے جو
جلد سفارشات ایوان میں پیش کرے گی‘‘۔30ستمبر کو آزاد کشمیر اسمبلی کے اجلاس
میں ممبران اسمبلی سردار سیاب خالد،چودھری محمد اسماعیل ،چودھری یاسین گلشن
اور چودھری اسحاق کی جانب سے ایوان میں پیش کردہ توجہ دلاؤ نوٹس میں کہا
گیا کہ ممبران اسمبلی کی بڑی تعداد متوسط طبقہ سے تعلق رکھتی ہے جبکہ ان کی
تنخواہ و مراعات بہت کم ہیں۔موجودہ مہنگائی کے پیش نظر ممبران اسمبلی کی
مراعات و تنخواہ میں اضافہ کیا جائے تا کہ ممبران باعزت گزارہ کر سکیں۔اس
پر ایوان میں پانچ رکنی کمیٹی وزیر قانون سید اظہر گیلانی کی سربراہی میں
بنائی گئی جس میں سردار عابد حسین عابد،عبدالماجد خان،سردار سیاب خالداور
چودھری محمد اسماعیل شامل ہیں۔سپیکر غلام صادق نے کمیٹی کو جلد سفارشات
ایوان میں پیش کرنے کی بات کی اور کہا کہ کسی بھی ممبر اسمبلی کی تنخواہ و
مراعات اتنی ہونی چاہئے جس سے وہ باعزت گزارہ کر سکے۔وزیر قانون سید اظہر
گیلانی نے کہا کہ یہ سب کا مشترکہ مسئلہ ہے ،اسے حل کیا جائے گا۔
اس وقت آزاد کشمیر اسمبلی کے ہر ممبر کو تنخواہ اور مراعات کی مد میں
ماہانہ 74721=/ روپے ملتے ہیں۔اس کی تفصیل یوں ہے کہ آزاد کشمیر اسمبلی کے
ممبر کو بنیادی تنخواہ میں26055=/روپے ،آفس میٹینینس الاؤنس 10000=/روپے،سمپٹیوری
الاؤنس5000=/روپے،ٹیلی فون الاؤنس5000=/روپے،ہاؤس رینٹ 10000=/روپے،ایڈہاک
الاؤنس10350=/روپے(2010,50%)،ایڈہاک ریلیف الاؤنس(2011)3105=/روپے ،ایڈہاک
ریلیف الاؤنس(2012)5211=/روپے(کل 74721=/روپے) ہے۔اس میں سے3414=/روپے
کٹوتی(ٹیکس کٹوتی1264=/روپے،KLCکٹوتی150=/روپے ،ممبر ویلفیئر
فنڈکٹوتی2000=/روپے) ہے۔یوں کٹوتی کے بعد ممبر اسمبلی کو 71307=/روپے
ماہانہ تنخواہ و مراعات کی مد میں دیئے جاتے ہیں۔
آزاد کشمیر کے صدر ،وزیر اعظم،وزراء و مشیران کرام کی تنخواہیں اور مراعات
ممبران اسمبلی کو ملنے والی تنخواہوں اور مراعات سے بہت زیادہ ہیں۔2001 ء
سے2006ء کی اسمبلی کے دوران آزاد کشمیر کے سابق وزرائے اعظم کے لئے بھی
تنخواہ اور گاڑی سمیہت مختلف مراعات کی منظوری دی گئی جس کے تحت اس وقت چھ
شخصیات سابق وزیر اعظم کی حیثیت سے تنخواہیں اور مراعات حاصل کر رہی ہیں
تاہم انتقال کر جانے والے وزیر اعظم کے ورثاء کے لئے کسی قسم کی کوئی مراعت
وغیرہ نہیں ہے۔دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ آزاد کشمیر کے سابق صدور نے سابق
وزرائے اعظم کوملنے والی مراعات کو از خود اپنے لئے بھی ضروری قرار دیتے
ہوئے ایک ایک سرکاری گاڑی رکھی ہوئی ہے۔محکمہ سروسز کی طرف سے ان سابق صدور
کو سرکاری گاڑی واپس کرنے سے متعلق کئی بار خطوط لکھے جانے کے باوجود سابق
صدور کی طرف سے سرکاری گاڑی واپس نہیں کی جا رہی ۔مزے کی بات کہ چھ سابق
وزرائے اعظم میں سے کم از کم تین شخصیات کو سابق وزیر اعظم کی حیثیت سے
ملنے والی تنخواہ و مراعات کے ساتھ ساتھ ممبر اسمبلی ہونے کی تنخواہ و
مراعات بھی حاصل ہیں۔
24اکتوبر1947ء میں تمام ریاست جموں و کشمیر کی نمائندہ انقلابی حکومت کے
طور پر آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کا قیام عمل میں لایا گیا۔معاہدہ
کراچی کے ذریعے آزاد کشمیر حکومت گلگت بلتستان کا انتظام وفاقی حکومت کے
سپرد کرنے کے بعد 1974ء کے عبوری آئین کے ذریعے مسئلہ کشمیر بھی وفاقی
حکومت کے حوالے کرتے ہوئے اپنی علاقائی حدود میں ہی محدود و مقید ہو کر رہ
گئی۔اس سے آزاد کشمیر حکومت علاقائی و قبیلائی میرٹ کے نام پر مفادات کی
بندر بانٹ میں یوں مصروف ہوئی کہ اب اس کی بدترین شکل درپیش ہے۔اور اب یوں
محسوس ہورہا ہے کہ آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی آزاد کشمیر کے ریاستی عوام
کے حقوق کے بجائے اپنے مفادات کے تحفظ و اضافے کی ’’ جدوجہد‘‘ کو واضح طور
پر ترجیح دیتی ہے۔کہنے کو تو آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی ہے لیکن
حقیقت میں اس اسمبلی کو قانون سازی کا اختیار حاصل نہیں ہے ۔ اسی لئے آزاد
کشمیر اسمبلی چاہتے ہوئے بھی 1974ء کے عبوری آئین میں خود ترامیم نہیں کر
سکتی اور اس کے لئے وفاقی حکومت کی منظوری کی پابند ہے۔یوں آزاد کشمیر میں
جو حکومت تمام متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کے مظلوم عوام کی نمائندگی کے
طور پر وجود میں آئی تھی ،آج ہمیں وہ حکومت علاقائی اور قبیلائی ازم کی
بیماری میں شدید مبتلا نظر آتی ہے۔آزاد کشمیر کے ریاستی عوام کے حقوق کا
تحفظ ممبران اسمبلی کیا کرتے،آزاد کشمیر اسمبلی کو ایک کلب سمجھ کر ممبران
اسمبلی کی مراعات وغیرہ میں اضافہ کی کوششوں میں محدود نظر آتے ہیں۔
آزاد کشمیر کے وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں چاہے وزیر اعظم موجود ہو یا نہ ہو ،پی
ایم سیکرٹریٹ کے سامنے اکثر اوقات مفلس و نادار خواتین و حضرات کا ایک ہجوم
مالی امداد ملنے کا منتظر رہتا ہے۔مالی امداد کے منتظر صرف پی ایم سیکرٹریٹ
کے سامنے ہی نہیں،وزراء ومشیران کے دفاتر اور دوسرے سرکاری دفاتر کے سامنے
بھی موجود نظر آتے ہیں۔کیا عوام اپنے نمائندوں کو اس لئے الیکشن میں کامیاب
کرتے ہیں کہ وہ عوامی حقوق کے بجائے اسمبلی کو ارکان اسمبلی کے مفادات کا
ایک کلب سمجھ کر باہمی مفادات کے تحفظ کو اولین ترجیح دیتے رہیں؟ہر بات میں
اختلافی پہلو نمایاں رکھنے والی حکومت اور اپوزیشن کے ارکان یکساں باہمی
مفاد کے اس عمل میں بانہوں میں بانہیں ڈالے متفق و متحد نظر آتے ہیں۔آزاد
کشمیر حکومت اور ممبران اسمبلی کی کار گزاری دیکھ کر بے اختیار دل سے دعا
نکلتی ہے کہ ’’ خدا عطا کرے شوق پرواز اور بھی زیادہ‘‘۔ |