احتجاج، مگر کس کے خلاف؟

گاڑیوں کی لمبی قطارہے، خوشیوں کے شادیانے بجتے ہیں، خواتیں، بچیاں اور جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ہوئی لڑکیاں، گلنار حنا رنگے ہاتھوں میں دف لے کر اور تالیاں بجا کر خوشی کا اظہار کر رہی ہیں۔ کہیں گھروں میں خاندان کے لوگ اکٹھے ہو کر نئی زندگی شروع کرنے والے جوڑے کو مبارک باددینے اکٹھے ہوئے ہیں۔ خوبصورت معصوم جان، بے ضرر اور زمانے کے دکھوں سے ناآشنا ننھی کلیاں کہیں مدرسے میں بیٹھے کلام الٰہی پر جھوم جھوم کر استاد محترم کے ساتھ گردان کررہے ہیں۔ علاقے کے بزرگ حجرے،ڈیرے بییٹھک میں جمع ہیں اور زندگی کی پیچیدگیوں واُلجھنوں کی گتیاں سلجھانے کے لئے سرجوڑے ہوئے ہیں۔ کہیں سکول ، مدرسے میں قوم کی مستقبل بنائی جا رہی ہے کہ اچانک آسمان میں ایک عجیب کرہاہت بھری گرگڑاہت سنائی دیتی ہے۔ پھر تیز بجلی چمکتی ہے اور اندھیرا چھا جاتا ہے۔ کالے سیاہ آتشی دھویں کے غبار چاروں اور پھیل جاتے ہیں، ماحول پر ایک سکوت طاری ہوجاتا ہے، موت کی خاموشی، ایسی خاموشی کہ جس کو پہلے کبھی دیکھا نہ محسوس کیا اور پھر اچانک ہر طرف ایک شور و غوغا مچ جاتا ہے، آہوں اور سسکیوں کی یلغار ہوتی ہے۔ چند لمحوں کی یہ خاموشی زماں و مکاں کو تبدیل کر دیتی ہے۔ حنا رنگے ہاتھ لہوں رنگ میں رنگ جاتے ہیں، کچی کلیاں کھلنے سے پہلے مرجھا جاتی ہیں، معصوم بچپن کی مسکراہٹ یک لخت غائب ہوجاتی ہے۔ نئی زندگی کی شروعات کرنے والے وصل سے پہلے ہی ہجر کی راہوں میں گم ہو جاتے ہیں، خوشیوں کے راہی، راہ عدم کی طرف گامزن ہوجاتے ہیں، ننھی کلیاں معصوم شرارتوں اور بچپن کی ننھی ننھی سی خواہشات کا بوجھ اُتار پھینک کر رخصت ہوجاتے ہیں۔ ماؤں کی گودیں اُجڑ جاتی ہیں اور آنکھوں کے تارے چھن لئے جاتے ہیں، سہاگنیں سر کا تاج کھو بیٹھتی ہیں اور دوشیزائیں اپنی آنکھوں میں سجائی خوشیوں سے محروم ہوجاتی ہیں۔ مائیں اپنے لخت جگروں کے ٹکڑے تلاش کرتی پھرتی ہیں اور باپ اپنے بڑھاپے کے سہارے کو لاشوں کے انباروں میں ڈھونڈھتے پھرتے ہیں۔ بیٹے اپنے بزرگوں کو تلاش کررہے ہوتے ہیں اور بچے اپنے والدین کو۔ کچھ لمحوں کے بعد جب دنیا جاگتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ "ڈرون کا حملہ"ہوا ہے۔ ۔ ۔

میں کیا دیکھتا ہوں کہ میری تین سالہ معصوم بچی ہے، میری بیوی کہیں مجھے ڈھونڈتی پھر رہی ہے۔ میری بچی کہیں اپنی ماں کے سینے پر سر رکھ کر اُسے نہ لوٹنے والے سفر سے واپس بلا رہی ہے اور اُس کی معصوم چیخیں دلوں میں دراڑیں ڈال رہی ہے۔ میرا بھائی کہیں کھو گیا ہے، میرے والدین کا کچھ اتا پتہ نہیں ہے، میں کہیں گم ہوگیا ہوں اور پھر لاشوں کے ایک ڈھیر کے پاس اپنے لہو لہاں کٹے پھٹے جسم کو سمیٹتے ہوئے اپنے پیاروں کے ٹکڑے تلاش کرتا ہوں اور کہیں کوئی اور میرے ٹکڑوں کو پہچاننے کی کوشش کرتا ہے۔ اچانک ایک سرد سی جھرجھری میرے بدن میں سر سے پاؤں تک سرائیت کرجاتی ہے اور میں ایک لمحے کے لئے سکتے میں چلا جاتا ہوں۔ ۔بیٹھے بیٹھے اس بھیانک خواب نے مجھے زماں ومکاں کے فاصلے دکھا دئے ، زندگی کی حقیقت اور اپنے رشتوں کی مٹھاس سمجھا دی اور پھر میں میں نہ رہا۔ مجھ میں ایک تبدیلی آئی، میں نکل پڑا، کہاں؟ معلوم نہیں۔ ایک احتجاج کرنے، کس کے خلاف؟ معلوم نہیں۔ چلتا گیا چلتا گیا، کہاں؟ معلوم نہیں۔ تلاش بسیار کے بعد میں ایک ہجوم بے ہنگم میں گھس گیا۔ ہر چہرے پر میرے ہی طرح کے احساسات تھے، کسی کے ہاتھ میں بھائی کی تصویر تو کسی کے ہاتھ میں اپنے لخت چگر اور شوہروں کی تصاویر تھیں، اُن خواتین کی آنکھوں میں کچھ نہیں تھا، شاید آنسوں کبھی کے خشک ہوچکے تھے، اپنے بچوں کو اپنے لخت جگروں کو اپنی آنکھوں کے سامنے تڑپ تڑپ کر مرتے دیکھنے والی آنکھیں اب کیا کہہ سکتی ہونگی۔ بچے اپنے مہربان سائیوں کی تصاویر اُٹھائے خود ہی زندگی کے کینوس پر حسرت ویاس کےتصاویر بنے ہوئے تھے۔ پھر میں ہجوم میں گم ہوتا رہا۔ قریہ قریہ سے آئے ہوئے جوانوں و بزرگوں کو ہاتھوں میں پلے کارڈ اور احتجاجی تختیاں لئے موجود پایا۔ ان سب کی آنکھوں میں نے وہی بہیانک سپنا دیکھا جو مجھے یہاں کھینچ لایا تھا۔ پھر میں آگے کی طرف بڑھتا گیا اور آگے بڑھتا گیا ، رنگ برنگی اور بیشتر سیاسی پارٹی کے جھنڈوں کو نغموں کی دھنوں پر لہراتے ہوئے، جھومتے جوانوں کو دیکھا۔ ایک اونچے چبوترے پر لحیم شحیم، تروتازہ، خوش شکل و خوش لباس عوام کے رہنماؤں کے ایک ٹولے کو دیکھا جو وہی روائیتی الفاظ کے ہتھیار لے کر پھر مجمعے کے سامنے کھڑے اپنے بدیشی آقاؤں اور اپنے سیاسی مخالف حکمرانان وقت کے خلاف گھسی پٹی باتوں کا پلندہ لے کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے اپنی تمام تر تیاریوں کے ساتھ بیٹھے تھے سوائے چند ایک کے جو شاید اپنے دلوں میں قوم و ملک کے لئے کچھ محبت بھی رکھتے ہوں۔ ملکی میڈیا کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی میڈیا کے بھوکے پیاسے گدھ کی طرح اُونچی اُونچی جگہوں پر بیٹھے کیمرے کی آنکھ سے سارے ہجوم پر نظر رکھے ہوئے اس لمحے کے انتظار میں کہ خدا نخواستہ کب کوئی حادثہ ہو اور وہ اپنی بھوک و پیاس انسانی ماس و خون سے بجھا کر دنیا کو دکھا کر اپنی ریٹنگ بڑھا سکیں۔ یہ تماشا ساری دنیا کو دکھ رہا تھا اور اقوام عالم شاید ہنس بھی رہی ہوں، یا شاید اس روز روز کے ناٹک سے تنگ آچکی ہوں، وہ اپنی آنکھیں بند اور کانوں میں اُنگلیاں ٹھونس کر اس احتجاج سے اپنے آپ کو یک لخت لاتعلق ظاہر کر رہی ہوں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ نیٹو سپلائی ایک عالمی قانون کے تحت ہو رہی ہے اور "ڈرون حملے" بھی ان کی اجازت کے بغیر ناممکن ہیں۔

Naeem Khan
About the Author: Naeem Khan Read More Articles by Naeem Khan: 15 Articles with 19244 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.