پیپلز پارٹی کی حکومت میں جہاں
مہنگائی ہوئی تھی عوام چاہتی تھی کہ اس حکومت کے بعد کوئی ایسا حکمران آئے
جو مہنگائی کا خاتمہ کرے تا کہ ہر غریب دو وقت کا کھانا پیٹ بھر کر کھا
سکے۔مئی میں ہونے والے الیکشن میں عوام نے تبدیلی کا نعرہ لگانے والے عمران
خان کی بجائے سابقہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو مینڈیٹ دیا اور مسلم
لیگ(ن) ایک بار پھر اقتدار میں آگئی۔ابھی اس حکومت کو چند ہی ماہ گزرے ہیں
کہ مہنگائی کے ڈرون پر ڈرون گرائے جا رہے ہیں۔کبھی پٹرولیم مصنوعات کی
قیمتوں میں اضافہ ،کبھی بجلی کے نرخوں میں اضافہ،کبھی اشیائے خوردونوش کی
قیمتوں میں اضافہ،عوام بھی بیچاری کیا کرے؟اس غریب عوام نے ہی تو میاں صاحب
کو مینڈیٹ دیا تھا غربت کے خاتمے کے لئے،مہنگائی کے خاتمے کے لئے،ملک میں
جاری دہشت گردی کو روکنے کے لئے،تا کہ عوام اس ملک میں سکون کی زندگی بسر
کر سکیں۔اس ملک کے ہر شہر کے ہر بازار میں امن ہو۔مساجد میں عبادت کرنے
والے محفوظ ہوں۔مگر عوام کا یہ خیال صرف خواب ہی رہا۔پیپلز پارٹی کا تو
نعرہ تھا کہ روٹی ،کپڑا اور مکان،مگر پانچ سال حکومت کرنے کے باوجود اس
عوام کو نہ روٹی ملی،نہ کپڑا اور نہ ہی مکان،’’ن‘‘ لیگ کا یہ نعرہ تو نہیں
تھا البتہ انکے منشور میں عوام کو سہانے خواب ضرور دکھائے گئے تھے جن پر
عملی اقدامات کے لئے قوم ترس رہی ہے۔اور انہی کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے
’’عوامی نمائندے‘‘اب انہیں بھول چکے ہیں۔حالیہ دنوں میں اشیائے خوردونوش کی
قیمتوں میں اضافے نے تو عوام کی جان ہی نکال کر رکھ دی۔ چکی آٹا مالکان نے
ایک کلو چکی آٹا کی قیمت میں 2 روپے اضافہ کر دیا ہے جس سے اس کی قیمت 50
روپے کلو ہو گئی ہے چکی آٹا مالکان کا کہنا ہے کہ اوپن مارکیٹ میں ایک من
گندم کی قیمت 200 روپے اضافے سے 1600 روپے تک پہنچ گئی ہے ان حالات میں
ہمارے لئے چکی آٹا کی فی کلو قیمت میں اضافہ ناگزیر تھا۔ انہوں نے حکومت پر
زور دیا کہ گندم کی قیمتوں میں کمی کے لئے اقدام کرے ورنہ صورت حال بہت
خراب ہو جائے گی۔ یوٹیلٹی سٹورزبھی پر 20کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت میں 10
روپے اضافہ کر دیا گیا ہے جس سے اس کا ریٹ 785 روپے ہو گیا۔ مختلف شہروں
میں سبزیاں پھل اور دیگر اشیا کئی گنا مہنگے داموں فروخت ہو رہی ہیں۔ آلو
نیا 60 کے مقررہ سرکاری ریٹ کی بجائے 85، پیاز 52 کی بجائے 65، ٹماٹر 110
روپے کی بجائے 150، لہسن چائنہ 104 کی بجائے 135 روپے کلو، ادرک چائنہ 204
کی بجائے 250، پالک 18 کی بجائے 25 روپے کلو، بینگن 29 کی بجائے 34 روپے،
کھیرا فارمی 28، بند گوبھی 60، پھول گوبھی 70، دیسی ٹینڈے 65، کریلے 110،
گھیا کدو 44، مٹر 110 روپے، شملہ مرچ 90 روپے کلو، سبز مرچ 75 روپے، لیموں
70 روپے، مولی 9 روپے کی بجائے 20 روپے، بھنڈی 95، اروی 60 روپے، پھلیاں 60
روپے، شلجم 50 روپے، گاجر 45، ساگ 30 روپے کلو، سیب کالاکولو پہاڑی 90 روپے
کی بجائے 100 وپے، کھجور 124 روپے کی بجائے 220 روپے، کیلا درجن 44 کی
بجائے 50روپے۔ انار قندھاری 145، انگور ٹافی 200 روپے، جاپانی پھل 70،
امرود 55 روپے کلو، فروٹر درجن 44 روپے کی بجائے 60 روپے، مسمی درجن 64
روپے کی بجائے 75 روپے میں فروخت کئے جا رہے ہیں۔دکانداروں کی جانب سے من
مانے ریٹس لگانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب بھر میں مہنگائی کا جن بے قابو
ہوگیا۔ انتظامیہ بے بس تماشائی بنی ہوئی ہے۔ گھی، چینی، دالیں، چاول، آٹا،
سبزی، پھل، مصالحہ جات اور انڈوں کی قیمتوں میں پچیس سے تیس فیصد تک اضافے
نے لوگوں کی چیخیں نکال دیں۔ دال مسور کی سو کلو کی بوری نو ہزار پانچ سو
روپے سے بڑھ کر 12 ہزار جبکہ دال مونگ 1150 تک جا پہنچی ہے۔ رہی سہی کسر
بھی چاول نے نکال دی۔ تھوک میں سو کلو کی بوری 11 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔
ادھر ملک بھر میں گنے کی کرشنگ میں تاخیر سے ملک کے مختلف شہروں میں چینی
کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا۔ رواں ماہ چینی کی فی کلو قیمت میں ملک بھر میں
اوسط 3 سے 4 روپے اضافہ دیکھا گیا۔ لاہور میں چینی 4 روپے مہنگی ہوکر 61
روپے، اسلام آباد میں 62، راولپنڈی میں 8 روپے بڑھ کر 62، پشاور میں 5 روپے
اضافہ کے ساتھ 60 روپے جبکہ کوئٹہ میں چینی 2 روپے مہنگی ہوکر 60 روپے فی
کلو تک پہنچ چکی ہے۔ سابقہ حکومت کے پانچ سالہ دور اقتدار کے مقابلے میں
موجودہ حکومت کے پانچ ماہ میں ہی مہنگائی کے ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں ۔ ملک میں
بڑھتی ہوئی مہنگائی،بے روز گاری ،غربت اور بدامنی نے عام آدمی کی نیندیں
اڑا دی ہیں ہر پاکستانی سوچ رہا ہے کہ ان حالات سے کیسے چھٹکارا پایاجائے
لیکن دوسری طرف حکومت جس کا یہ فرض ہے کہ وہ لوگوں کے اندر بڑھتی ہوئی
مایوسی اور ناامیدی کو ختم کرے،مہنگائی میں اضافہ کر کے عوام کی ان توقعات
پر پانی پھیر دیا ہے جو انہوں نے 11 مئی کو ووٹ دیتے وقت مسلم لیگ ن اور
میاں نوازشریف سے وابستہ کی تھیں۔ ایک طرف جہاں مہنگائی زیادہ ہوتی ہے
،قیمتوں میں نرخوں کا اضافہ ہوتا ہے تو دوسری طرف مارکیٹ والے بھی اپنی من
مانیاں کرتے ہیں ۔وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے پنجاب بھر میں ہفتہ
کو سستے بازار لگانے کا اعلان کیا ہے۔خوش آئند تو ہے مگر اس بات کی کیا
گارنٹی ہے کہ وہاں بھی عوام کو نہیں لوٹا جائے گا؟رمضان میں سست بازاروں کا
تجربہ تو ہو چکا ہے۔کچھ اچھی کوالٹی کی چیزوں کے علاوہ اکثر ناقص ہوتی تھیں
جنہیں مارکیٹ ریٹ پر ہی فروخت کیا جاتا رہا۔مسلم لیگ(ن) کی حکومت کو چاہئے
کہ غریب کش پالیساں بنانے کی بجائے اس ملک میں سے مہنگائی کے طوفان کو کم
کیا جائے۔اس طوفان سے عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔اگر حکومت نے اس کا
سدباب نہ کیا تو پھر جو حال مئی کے الیکشن میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ق)
کا ہوا ۔یہ عوام یہی حال اس حکومت کا کرے گی کیونکہ حکومت بھی عوام کے
سہارے ہی بنتی اور چلتی ہے۔تحریک انصاف نے گزشتہ دنوں مہنگائی کے خلاف ملک
گیر احتجاج تو کیا تھا مگر اس کا تنا اثر سامنے نہیں آیاتھا۔اگر مہنگائی
میں اضافہ ہوتا گیا تو تحریک انصاف کو احتجاج کی کال کی ضرورت نہیں پڑے گی
بلکہ عوام خود نکلنے پر مجور ہو جائیں گے۔قوم سوال کرتی ہے کہ جب تک ہمیں
مہنگائی کو طوفان ملتا رہے گا؟میاں صاحب خدا را عوام کو اس حد تک نہ لے
جائیں کہ وہ بد دعائیں کرنے لگیں۔آپ نے اس ملک کے دفاع کو مضبوط کیا۔ایٹمی
دھماکے کئے اس ملک کی محب وطن عوام کو آپ پر فخر ہے ۔مگر انہیں مایوس مت
کیجئے۔جس ملک کا دفا ع مضبوط کیا اس ملک میں رہنے والوں کو بھی مضبوط
کیجئے۔تبھی عوام کے دل آپ پھر ایک بار جیت سکیں گے۔ |