اسلامی ریاست اور مسلمانوں کو
بشارتیں اور ان کے اکرام کا زکر جابجا قرآن و حدیث میں ملتا ہے جن میں سے
چند پیش خدمت ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کی راہ میں قتل کیے جانے ( شہید
بھی عربی متن میں لکھا جا سکتا تھا ) کی زبردست خواہش و تمنا کا زکر کرتے
ہوئے مشہور حدیث جو کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی مستند حدیث ہے کرتے ہوئے
درج زیل حدیث بیان فرمائی حضور اکرم صلی اللہ وآلہ علیہ وسلم کی تمنا تھی
پیش خدمت ہے۔
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والذی نفسی بیدہ لو ددت ان اقتل فی سبیل
اللہ ثم احیی اقتل ثم احیی ثم اقتل ۔ ( بخاری و مسلم )
ترجمہ :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری تمنا ہے کہ
میں اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں اور پھر مجھے زندہ کیا جائے، پھر قتل کیا
جاؤں، پھر زندہ کردیا جائے، پھر قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کر دیا جائے، پھر
قتل کیا جاؤں
( دیکھا بھائی آپ نے قتل کیا جانا اگر ہم کسی شہید کے لیے لکھ دیں کہ وہ
مارا گیا یا قتل کر دیا گیا تو لوگ طوفان سر پر اٹھا لیتے ہیں اور ایسے
ایسے تخیلات پیدا کرلیتے ہیں اور بیان کر دیتے ہیں کہ ہم کیا کہیں آگے اب
قربان جائیں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کہ کس صاف انداز سے
“ قتل “ کی گردان فرمائی ہے اپنی اس مختصر مگر جامع حدیث میں حالانکہ قتل
کی جگہ لفط شہید بھی لکھ دیا جاتا تو بھی مفہوم وہی نکلتا مگر واللہ جس طرح
فرمایا اس نے آنے والی نسلوں کے درمیان حجت تمام کردی۔)
نیچے کی حدیث میں شہید اور قتل دونوں کا تزکرہ ہے مگر کیا مطلب الگ الگ ہے۔
عن انس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مامن احد یدخل الجنۃ یحب ان
یرجع الی الدنیا ولہ ما فی الارض من شئی الااشہید یتمنٰی ان یرجع الی
الدنیا فیقتل عشر مرات لما یری من الکرامۃ ۔ (بخاری و مسلم)
ترجمہ :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص جو جنت
میں داخل ہوجائے اور پھر اسکو یہ کہا جائے کہ تو لوٹ کر دنیا میں چلا جا،
ساری دنیا کی حکومت ودولت تجھے دے دی جائے گی تووہ کبھی جنت سے نکل کر
دوبارہ دنیا میں آنے پر راضی نہ ہوگا، بجز شہید کے جو یہ تمنا ظاہر کرے گا
کہ مجھے دنیا میں بھیج دیا جائے تاکہ میں پھر جہاد کر کے شہید ہوں۔ اسی طرح
دس مرتبہ زندہ کر کے دنیا میں بھیجا جاؤں، پھر شہید ہو کر آؤں۔ کیونکہ اللہ
کی راہ میں شہید ہونے والا بڑے اعزاز و اکرام کا مشاہدہ کرے گا ( جو کسی
اور عمل کا نہیں ہے) ۔
اب ملاحظہ ہو مندرجہ زیل حدیث جس میں اللہ کے راستے میں قتل ہوجانے والے
یعنی شہید ہوجانے والے حضرات کے درجے بتائے گئے ہیں ملاحظہ ہو کہ فرمایا
گیا کہ تین قسم کے جہاد میں قتل ہونے والے آدمی ہیں۔ شروع کے دو آدمیوں کے
لیے اچھا فرمایا گیا ہے اور تیسرے قسم کے یعنی آخری قسم کے آدمی کے لیے
فرمایا تیسرا وہ منافق ہے جس نے اپنی جان و مال سے جہاد کیا اور دشمن سے لڑ
کر مقتول ہو گیا یہ جہنم میں جائے گا، اور بریکٹ یعنی ( ) میں لکھتے ہیں کہ
“مگرنیت خالص اللہ کے لیے نہیں تھی“
باقی آپ خود ملاحظہ فرمالیں ہم اگر کچھ سے کچھ بیان کر بیٹھیں ( اپنی کم
علمی میں تو بڑا ناجائز ہوگا اللہ سے ہر دم توبہ و استغفار ہے کہ اللہ حدود
سے باہر نا نکلنے دے آمین )۔ نیچے بالکل حدیث اور اس کا کلی ترجمہ درج زیل
ہے ہمارے کسی بھی کمنٹس کے بغیر ( پیش نظر یہ بات بھی رہے کہ حدیث و روایت
میں جو بریکٹ ( ) دیے گئے ہیں وہ صاحب تشریح یا ترجمہ کرنے والے حضرات کی
طرف سے ہی ہیں:
عن عقبہ بن عبد السلمی قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم القتلی ثلثہ
مؤمن جاھد بنفسہ ومالہ فی سبیل اللہ فاذا لقی الحدو قاتل حتی یقتل قال
النبی صلی اللہ علیہ وسلم فیہ فذالک الشھید الممتحن فی خیمۃ اللہ تحت عرشہ
لا یفضلہ النبیون الا یالنبوۃ ومؤمن خالط عملا صالحاً وآ خر سیئاً جاھد
بنفسہ وما لہ فی سبیل اللہ اذالقی العدو قاتل حتی یقتل قال النبی صلی اللہ
علیہ وسلم مصمصۃ محت ذنوبہ وخطایاہ ان السیف محاء للخطایا واد خل الجنۃ من
ای باب شاء ومنافق جاھد بنفسہ ومالہ فی سبیل اللہ اذا لقی العدو وقاتل حتی
یقتل فذلک فی النار ان السیف لا یمحو النفاق۔ ( دارمی از مشکوۃٰ)
ترجمہ:۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جہاد میں قتل
ہونے والے تین طرح کے آدمی ہیں۔ ایک وہ شخص ہے جو خود مومن کامل، صالح ہے۔
اس کے ساتھ اس نے اللہ کی راہ میں اپنی جان ومال سے جہاد کیا اور جب دشمن
سے اس کا مقابلہ ہوا تو ڈٹ کر لڑا یہاں تک کہ قتل کردیا گیا۔ اس شخص کے
بارے میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یہی وہ اصل شہید اور
امتحان میں کامیاب ہے جو قیامت کے دن عرشِ رحمنٰ کے نیچے خیمہ میں ہوگا اور
انبیاء سے اس کا مقام صرف اتنا ہی کم ہوگا جو درجہ نبوّت کا تقاضا ہے۔
دوسرا وہ شخص ہے جو مومن مسلمان تو ہے مگر عمل میں کچھ نیک کام کیے، کچھ
برُےکیے، پھر اس نے اپنی جان ومال سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور دشمن کے
مقابلے میں لڑا، یہاں تک کے قتل کردیا گیا۔ اس شخص کے بارے میں رسول صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا جہاد مصمصہ ( یعنی سینگ کی طرح چوس
کر فاسد مادہ نکالنے والا ) ہے جس نے اس کے سب گناہوں کو مٹا دیا۔ اور
تلوار سب خطاؤں کومٹا دینے والی ہے۔ یہ شخص جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل
ہوسکے گا۔ تیسرا وہ منا فق ہے جس نے اپنی جان و مال سے جہاد کیا اور دشمن
سے لڑ کر مقتول ہوگیا ( مگر نیت خالص اللہ کے لیے نہیں تھی) یہ جہنم میں
جائے گا، کیو نکہ تلوار کفر و نفاق کو نہیں مٹا سکتی۔ |