اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے

بالآخر سپریم کورٹ نے سابق صدر اور آرمی ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو ایمرجنسی کے حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لئے عدالت میں حاضر ہونے کا نوٹس جاری کردیا۔ نوٹس جاری ہونے کے بعد پرویز مشرف کے سارے “رتنوں“ میں سے آخری خبریں آنے تک دو “رتنوں“ کے علاوہ کسی نے اس کی حمایت کرنے کی کوشش نہیں کی۔ پرویز مشرف کی اب تک حمایت کرنے پر پوری قوم کو ان کی تعریف تو بہرحال کرنا پڑے گی۔ جی ہاں ان میں سے ایک جمہوریت اور آئین کے بزعم خود چیمپئن (جبکہ قوم کے نزدیک مشرف کا جو یار ہے، غدار ہے غدار ہے ) شیر افگن نیازی جبکہ دوسری شخصیت، جو اپنے طور پر آئین و قانون کی محافظ بنی پھرتی ہے ( جس کی کرپشن بھی ریکارڈ پر ہے اور باقی کرتوت بھی ) سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کی ہے۔ شیر افگن نیازی کے بقول سپریم کورٹ مشرف کو طلب کرنے کا سرے سے اختیار ہی نہیں رکھتی، ان کے نزدیک سپریم کورٹ مشرف سے اپنی دشمنی کا بدلہ لینے کی کوشش کررہی ہے۔ جبکہ ملک قیوم کو ایک بار پھر امید نظر آرہی ہے کہ شائد اس بار بھی ایک تگڑی رقم فیس کی مد میں ان کی جیب میں آجائے گی لیکن ان کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ اس بار مشرف قومی خزانے کو ان کے لئے کھولنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ملک قیوم نے فوراً بیان داغ دیا ہے کہ اگر مشرف انہیں وکیل کریں تو وہ ان کا کیس لڑنے کو تیار ہیں۔ ابھی ملک قیوم کی سابقہ فیسوں کی وصولی بارے بحث ہورہی ہے اس لئے ملک قیوم نے جو اندھیر نگری پہلے اٹارنی جنرل اور بعد ازاں مشرف کے وکیل کے طور پر قائم کی ہوئی تھی اب وہ دوبارہ ہونے کا کوئی چانس نظر نہیں آرہا۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ مشرف کے دوست اور اس کی دوستی میں وکلا تحریک سے منہ موڑنے والے لطیف کھوسہ اور مشرف کو جان کی امان دینے والی پیپلز پارٹی کی حکومت بھی ان سے رخ موڑ چکی ہے اور لطیف کھوسہ نے بطور اٹارنی جنرل حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں بیان دیا ہے کہ ان کی حکومت مشرف کا دفاع نہیں کرنا چاہتی۔ کھوسہ صاحب کو بھی ملک قیوم جتنا باضمیر ہونا چاہئے، ضروری نہیں کہ ہر کام فیس لےکر ہی کیا جائے، کچھ کام فیس کے بغیر بھی کرنے پڑتے ہیں خاص کر جب کڑکی میں کوئی یار دوست پھنستا نظر آرہا ہو۔

پرویز مشرف کے لئے جو سب سے بڑا دھچکہ ہے وہ امریکہ کا رد عمل ہے جس کے مطابق مشرف اب ماضی کا قصہ بن چکا ہے اور امریکہ اس کو بچانے کی کوئی کوشش نہیں کرے گا، خلق خدا کے ذہنوں میں بعض سوالات گردش کرتے نظر آتے ہیں کہ امریکا کی جانب سے گرین سگنل ملنے کے بعد ہی حکومت نے پرویز مشرف کے تین نومبر کے اقدامات کا دفاع نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ ابھی امریکہ کو پاکستان میں موجودہ حکومت سے کچھ اور کام بھی لینا ہیں۔ امریکہ کی مشرف کو نہ بچانے کی بار سے زرداری اور نواز شریف کی آنکھیں بھی کھل جانی چاہئیں، اے این پی اور الطاف بھائی کو بھی غور کرنا چاہئے کہ امریکہ کی حمایت کے بل بوتے پر وہ کب تک اپنا اقتدار قائم رکھ سکیں گے؟ پرویز مشرف کو بھی یار دوست شاہ ایران اور صدام حسین کے انجام سے ڈراتے تھے لیکن اقتدار اور تجوریاں بھرنے کی ہوس نے اس کو اندھا کیا ہوا تھا، اپنے ذاتی اغراضو مقاصد کے لئے اس قوم کا بیڑہ غرق کرنے میں مشرف نے کوئی کسر تو نہیں اٹھا رکھی تھی۔ ایک جانب بش تھا تو دوسری جانب مش، جو پاکستان کے غریب عوام پر دن رات نئی سے نئی مشق ستم ایجاد کررہے تھے۔ بش کا حال بھی عراق میں سب نے دیکھ لیا اور مشرف کا جو حال ہونے جا رہا ہے وہ بھی سب کو نظر آرہا ہے۔ اگر حکومت اس نکتہ پر پہنچ ہی چکی ہے کہ وہ مشرف کے اقدامات کی حمایت نہیں کرے گی تو اس کو کھل کر ان اقدامات کی مخالفت کرنی چاہئے، سپریم کورٹ کو بھی چاہئے کہ مشرف کو انٹروپول کے ذریعہ پاکستان میں واپس بلا کر اس کے خلاف جتنے الزامات ہیں، ان کے تحت مقدمات درج کئے جائیں اور آئین و قانون کے مطابق ان جرائم کی سزا دی جائے۔ کیونکہ اگر ایک بار کسی ڈکٹیٹر کو ملک کا آئین اور عوام کے حقوق پامال کرنے کی سزا دے دی گئی تو انشاﺀ اللہ مستقبل میں دوبارہ کبھی کسی کو مشرفی اقدامات کرنے کی جرات نہیں ہوگی۔ سپریم کورٹ کو یہ ہرگز نہیں سوچنا چاہئے کہ اس کے سخت اقدامات سے اس کی ساکھ متاثر ہوگی یا یہ سمجھا جائے گا کہ شائد وہ اپنے ساتھ ہونے والے واقعات کی وجہ سے ایسا کررہی ہے۔ اگر کوئی ایسا سمجھتا بھی ہے تو سمجھتا رہے لیکن سپریم کورٹ کو قانون اور آئین کے مطابق سخت سے سخت فیصلہ دینا چاہئے کیونکہ یہ قوم کی عزت نفس کا معاملہ بھی ہے اور آنے والی نسلوں کی بقا کا بھی!

وہ دن بھی دور نہیں جب مشرف کی حمایت میں ابھی تک بولنے والوں کا بھی ناطقہ بند کردیا جائے گا، عوام مشرف کی وکالت کو شیطان کی وکالت سمجھیں گے، اگر مشرف جیسے شخص کی وکالت بھی کی جاسکتی ہے تو شیطان اس سے زیادہ برا تو نہیں، بہرحال اونٹ پہاڑ کے نیچے آ رہا ہے، دیکھیں کس کروٹ بیٹھتا ہے!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222578 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.