مقصدِ جہاد
مومن کی جدو جہد کا یہی مقصد ہوتا ہے کہ دنیا میں خدا کا قانون رائج ہو اور
اللہ کا حکم بلند ہو۔ کیونکہ اللہ تعالٰی تمام مخلوق کا مالک ہے اور اس کا
قانون خالص انصاف پر مبنی ہے۔ اور جب انصاف کی حکومت قائم ہوگی تو امن قائم
رہے گا۔ دنیا کے امن کے لیے یہ ضروری ہے کہ دنیا میں وہ قانون رائج ہو جو
خدا کا قانون ہے۔ لہٰذا کامل مومن جب جنگ کرتا ہے تو اس کے سامنے یہی مقصد
ہو تا ہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں کفار کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ کفر کی ترویج
ہو اور کفر کا غلبہ ہو ۔
آیت ( وان نکثوا ایمانھم من بعد عھد ھم واطعنو فی دینکم فقاتلو ائمۃ الکفر
انھم لا ایمان لھم لعلھم ینتھون ) ۔ (9 : 12 )
میں مسلمانوں کو اس کی ہدایت کی گئی تھی کہ وہ کسی قوم سے اپنا غصہ اتارنے
کے لیے نہ لڑیں بلکہ ان کی اصلاح و ہدایت کو مقصد بنائیں اس آیت میں یہ
بتلا دیا کہ جب وہ اپنی نیت کو اللہ کے لیے صاف کرلیں اور محض اللہ کے لیے
لڑیں تو پھر اللہ تعالٰی اپنے فضل سے ایسی صورتیں بھی پیدا فرما دیں گے کہ
ان کے غم وغصہ کا انتقام بھی خود بخود ہو جائے ۔
( معارف القرآن ص 325 ج 4 )
چنانچہ ہر مسلمان جہاد میں جتنی عملی شرکت یا مالی معاونت کرسکتا ہو اس سے
دریغ نہیں کرنا چاہئے ۔
مدت جہاد :۔ (وقاتلو ھم حتٰی لا تکون فتنۃ ویکون الدین کلہ للہ )
خلاصہ اس تفسیر کا یہ ہے کہ مسلمانوں پر اعداء اسلام کے خلاف جہاد و قتال
اس وقت تک واجب ہے جب تک مسلمانوں پر ان کے مظالم کا فتنہ ختم نہ ہو جائے
اور اسلام کو سب ادیان پر غلبہ حاصل نہ ہوجائے اور یہ صورت صرف قرب قیامت
میں ہوگی اس لیے جہاد کا حکم قیامت تک جاری اور باقی ہے ۔ ( جیسا کہ حدیث
شریف سے ثابت ہے ۔ ( الجھاد ماض الی یوم القیامۃ ) ( معارف القرآن ص 233 ج
4 )
( حتی یعطوا لجزیۃ ) ( 9 : 29 ) ۔۔۔۔۔۔۔ الخ ۔ میں ان لوگوں سے جہاد وقتال
کرتے رہنے کی ایک حد اور انتہا بھی بتلائی ہے یعنی یہ حکم قتال اس وقت تک
جاری رہے گا جب تک کہ وہ ماتحت ہو کر رعیت بن کر جزیہ دینا منظور نہ کرلیں
۔ (معارف القرآن ص 320 ج 4 )
طریق غلبہ اور جہاد کی تیاری
غلبہ اور بلندی حاصل کرنے کے لئے صرف ایک ہی چیز اصل ہے یعنی ایمان اور اس
کے تقاضے پورے کرنا۔ ایمان کے تقاضہ میں وہ تیاریاں بھی داخل ہیں جو جنگ
کےسلسلے میں کی جاتی ہیں۔ یعنی اپنی فوجی قوت کا استحکام، سامانِ جنگ کی
بہم رسانی اور ظاہری اسباب سے بقدر وسعت آراستہ و مسلح ہونا غزوہ احد کے
واقعات اوّل سے آخر تک ان تمام امور کے شاھد ہیں۔(معارف القرآن ص194ج 2)
قرآن پاک میں ارشاد ہے:۔
''وَ اَعۡدُوۡ الَھُمۡ مَّااسۡتَطَعۡتُمۡ مّنۡ قُوَّۃِ۔۔۔۔۔'' الیٰ
آخر(60:8)
یعنی سامان جنگ کی تیاری کرو کفار کے لیے جس قدر تم سے ہو سکے اس میں سامان
جنگ کی تیاری کے ساتھ ( ما استطعتم ) کی قید لگا کر یہ اشارہ فرمایا دیا کہ
تمہاری کامیابی کے لیے یہ ضروری نہیں کہ تمہارے مقابل کے پاس جیسا اور جتنا
اور بھی سامان ہے تم بھی اتنا ہی حاصل کرلو بلکہ اتنا کافی ہے کہ اپنی
مقدور بھر جو سامان ہو سکے وہ جمع کرلو تو اللہ تعالٰی کی نصرت و امداد
تمہارے ساتھ ہو گی ۔
صحیح احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سامان جنگ فراہم کرنے اور
اس کے استعمال کی مشق کو بڑی عبادات اور مؤجب ثواب قرار دیا ہے ۔
''من قوۃٍ'' عام لفظ اختیار فرما کر اس طرف سے بھی اشارہ کردیا کہ یہ قوت
ہر زمانہ اور ملک و قوم کے اعتبار سے مختلف ہو سکتی ہے۔ اس لیے آج کے
مسلمانوں کو بقدر استطاعت ایٹمی قوت، ٹینک، لڑاکا، طیارے، آبدوز اور کشتیاں
جمع کرنا چاہئے کیونکہ یہ سب اسی قوت کے مفہوم میں داخل ہیں اور اس کے لیے
جس علم وفن کے سیکھنے کی ضرورت پڑے وہ سب اگر اس نیت سے ہو کہ اس کے ذریعے
اسلام اور مسلمانوں سے دفاع کا اور کفار کے مقابلہ کا کام لیا جائے گا تو
بھی جہاد کے حکم میں ہے ۔ ( معارف القرآن ص 672 ج 4 ) |